وٹامن ’’ص’’
اب بھی تمھارے پاس موقع ہے کہ تم اس ماہِ صیام سے فائدہ اٹھاؤ اور وٹامن ’’ص‘‘ کی کمی کو دور کرو۔
اگرچہ وہ شخص ڈاکٹر نہیں تھا مگر طبیب ضرور تھا۔ عجب المیہ ہے کہ ہمیں ڈاکٹر اور طبیب کا فرق بھی سمجھ نہیں آتا۔ طبی اصطلاح میں ڈاکٹر ہر وہ شخص کہلا سکتا ہے جس کے پاس ایم بی بی ایس کی ڈگری ہو مگر طبیب تو وہی ہے جو علاج کرنے کا ہنر جانتا ہو اور یہ بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں کہ بہت کم ڈاکٹر ہی طبیب کے مقام پر فائز ہوتے ہیں وگرنہ تو اکثریت محض ''پریکٹس'' ہی کر رہی ہے۔خیر اُس نے مجھے دیکھا اور کافی دیر دیکھتا رہا اور پھر خاموش ہوگیا۔ مجھےحیرانی ہوئی، کیا ہوا؟ میں نے سبب دریافت کیا تو بولا کہ تم میں ''وٹامن ص'' کی کمی ہے۔
اس کے بولنے کا انداز ہی کچھ ایسا تھا کہ میں بے ساختہ پوچھ پڑا کہ ''سعد، ہائیں یہ کونسا وٹامن ہوتا ہے، اب وٹامن بھی نیک بخت ہونے لگے ہیں؟'' سعد نہیں ص! ص، ض، ط، ظ والا ص ۔۔۔۔ اس نےمیری تصحیح کی۔
خالی ''ص''
ہاں خالی ص
وہ کیا ہوتا ہے، میں نے تجسس سے پوچھا۔
یہ بھی ایک وٹامن ہوتا ہے جس کی کمی روحانی بیماریوں کوجنم دیتی ہے۔
خد اکا شکر ہے کہ مجھے کوئی روحانی بیماری نہیں ہے۔
یہ تو تمھارا خیال ہے، تمھاری بیماری تو چہرے سےعیاں ہے۔ تمھارا ہر ہر فعل اس کا غماز ہے۔
آخر یہ ص کیا ہے پہلے یہ تو بتاؤ؟ میں نےغصے سے پوچھا تو وہ بولا کہ تعجب ہے کہ تم اس خاکی، فانی جسم کیلئے تو وٹامن استعمال کرنا شروع کر دیتے ہو مگر روح کے وٹامن کو فراموش کر دیتے ہو۔ اگر جسم کو وٹامن کی ضرورت ہوسکتی ہے تو کیا روح کو وٹامن کی ضرورت نہیں ہوسکتی؟
نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ جسم مادی شے ہے جبکہ روح اس سے مبرا ہے۔
ہوتی ہے، بالکل ہوتی ہے اور روح کو سب سے زیادہ ضرورت اسی ''وٹامن ص'' کی ہوتی ہے۔ اس ایک وٹامن میں ہی روح کو درکار تمام اشیاء پوشیدہ ہیں۔
کیا اب مجھے بتاؤگے کہ یہ وٹامن ص ہوتا کیا ہے؟
چلو سنو ''ص'' سے مراد ہے۔
یہ ایک وٹامن جہاں روحِ انسانی کو روحانی خزانوں سے مالا مال کرتا ہے وہیں 6 ایسی تعلیمات دیتا ہے کہ جن پر اگر حقیقی معنوں میں عمل کیا جائے تو یہ دنیا بھی جنت کا نمونہ پیش کرنے لگے اور مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تم میں ان تمام اجزاء کی بہت کمی ہے۔
میں نے سر جھکا لیا کہ اس کی بات بالکل ٹھیک تھی۔ مجھ میں وٹامن ص کی واقعی بہت کمی ہے۔
اب بھی تمھارے پاس موقع ہے کہ تم اس ماہِ صیام سے فائدہ اٹھاؤ اور اس وٹامن کی کمی کو دور کرو مگر خیال رہے کہ ''صلاۃ'' کے فریضہ کی ادائیگی اگر رسم کی بجائےعبودیت کے اظہار کے طور پر کرو گے تو ہی یہ روح کو بالیدگی عطا کرے گی۔ اگر ''صوم'' محض فاقے کا نام نہیں ہوگا، آنکھ، ناک، کان، زبان، ہاتھ، پاؤں سمیت جسم کے ہر ہرعضو کا روزہ ہوگا تو ہی صوم وٹامن ص کا جز بن سکے گا۔نجانے کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ تم اس ایک مہینے کو ''کڑوا گھونٹ'' سمجھ کر گزار رہے ہو اور اپنی اصلاح کرنے کی بجائے بداعمالیوں کو وقتی طور پر پسِ پشت ڈالے ہوئے ہو کہ جونہی یہ مہینہ ختم ہو تم دوبارہ اُسی روش پرآسکو۔ یہ مہینہ تمھیں اپنی رحمتوں سے دامن بھرنے کی ترغیب دے رہا ہے مگر تم گن گن کر دن گزار رہے ہو کہ کب تم اپنی ''اصل روٹین'' پر واپس آسکو۔ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟
میں اب خاموشی سے اس کی باتیں سن رہا تھا کیونکہ میرے پاس اپنے دفاع میں کہنے کو کچھ بھی باقی نہیں تھا۔
''صبر'' کا تو خیر ذکر ہی کیا وہ تم میں کس قدر پایا جاتا ہے وہ ایک ٹریفک سگنل پر ہی ظاہر ہوجاتا ہے یا بینک کی لائن میں یا بازار کی بھیڑ میں۔ یہاں پر مجھے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔
جہاں تک وٹامن ص کے ''صدقہ'' کی بات ہے تو قرآن کی یہ بات ذہن نشین کرلو کہ ''شیطان تمھیں عسرت وتنگی سے ڈراتا ہے'' حالانکہ ''صدقہ مال کو کم نہیں کرتا''۔ تم جو مال کو گن گن کر رکھتے ہو بھول گئے ہو کہ اس حوالے سے کتنی سخت وعید آئی ہے۔
''صلح'' کا میں کیا ذکر کروں، تم جانتے ہوکہ ''کسی بھی مومن کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے (مسلمان) بھائی سے قطع تعلق کرے'' لیکن اس کے باوجود بھی کتنے لوگوں کا تم نام بھی سننا گوارا نہیں کرتے۔ خود ہی اپنے گریبان میں جھانک لو میں اب کیا کیا تمھیں بتاؤں؟
''صلہ رحمی'' کے احکام تو اس قدر واضح ہیں کہ پڑوسی سے لیکر قریبی رشتہ داروں تک سبھی کے حقوق بیان کردئیے گئے مگر تم خود اپنا حال دیکھ لو۔ کیا تم نے کبھی اس سے جڑنے کی کوشش کی جو تم سے کٹتا ہے؟
تم میں وٹامن ص کی شدید کمی ہے اور میری تمہیں نصیحت ہے کہ فوری طور پر اس طرف توجہ دو وگرنہ معاملات ہاتھ سے نکل گئے تو شدید قسم کی روحانی بیماریوں میں مبتلا ہوجاؤ گے۔
یہ کہہ کر''ضمیر''چپ ہوگیا۔ انسان کی روح کا سب سے بڑا طبیب اس کا ضمیر ہی تو ہوتا ہے، وہ جانتا ہےکہ روح میں کہاں پر خرابی ہے، کہاں پر کیا رکاوٹ ہے، کس چیز کی کمی ہے۔ میں جو جسم نکھارنے کو آئینے کے آگے کھڑا ہوا تھا، ضمیر نے مجھے دیکھ کر میرے سارے روحانی امراض بیان کردئیے۔ میں نے خود سےعہد تو کیا ہے کہ اس ماہِ مبارک میں وٹامن ص کی کمی پورا کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا مگر بندہِ بشر ہوں، خطا کا پتلا ہوں، نسیان کا مریض ہوں۔ آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ دعا کیجئے گا کہ خدا مجھے صبر و استقامت دے اور اس وٹامن ص کی کمی سے نجات عطا فرمائے۔آمین!
[poll id="512"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اس کے بولنے کا انداز ہی کچھ ایسا تھا کہ میں بے ساختہ پوچھ پڑا کہ ''سعد، ہائیں یہ کونسا وٹامن ہوتا ہے، اب وٹامن بھی نیک بخت ہونے لگے ہیں؟'' سعد نہیں ص! ص، ض، ط، ظ والا ص ۔۔۔۔ اس نےمیری تصحیح کی۔
خالی ''ص''
ہاں خالی ص
وہ کیا ہوتا ہے، میں نے تجسس سے پوچھا۔
یہ بھی ایک وٹامن ہوتا ہے جس کی کمی روحانی بیماریوں کوجنم دیتی ہے۔
خد اکا شکر ہے کہ مجھے کوئی روحانی بیماری نہیں ہے۔
یہ تو تمھارا خیال ہے، تمھاری بیماری تو چہرے سےعیاں ہے۔ تمھارا ہر ہر فعل اس کا غماز ہے۔
آخر یہ ص کیا ہے پہلے یہ تو بتاؤ؟ میں نےغصے سے پوچھا تو وہ بولا کہ تعجب ہے کہ تم اس خاکی، فانی جسم کیلئے تو وٹامن استعمال کرنا شروع کر دیتے ہو مگر روح کے وٹامن کو فراموش کر دیتے ہو۔ اگر جسم کو وٹامن کی ضرورت ہوسکتی ہے تو کیا روح کو وٹامن کی ضرورت نہیں ہوسکتی؟
نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ جسم مادی شے ہے جبکہ روح اس سے مبرا ہے۔
ہوتی ہے، بالکل ہوتی ہے اور روح کو سب سے زیادہ ضرورت اسی ''وٹامن ص'' کی ہوتی ہے۔ اس ایک وٹامن میں ہی روح کو درکار تمام اشیاء پوشیدہ ہیں۔
کیا اب مجھے بتاؤگے کہ یہ وٹامن ص ہوتا کیا ہے؟
چلو سنو ''ص'' سے مراد ہے۔
صلاۃ (نماز)
صوم (روزہ)
صبر
صدقہ
صلح
صلہ رحمی
یہ ایک وٹامن جہاں روحِ انسانی کو روحانی خزانوں سے مالا مال کرتا ہے وہیں 6 ایسی تعلیمات دیتا ہے کہ جن پر اگر حقیقی معنوں میں عمل کیا جائے تو یہ دنیا بھی جنت کا نمونہ پیش کرنے لگے اور مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تم میں ان تمام اجزاء کی بہت کمی ہے۔
میں نے سر جھکا لیا کہ اس کی بات بالکل ٹھیک تھی۔ مجھ میں وٹامن ص کی واقعی بہت کمی ہے۔
اب بھی تمھارے پاس موقع ہے کہ تم اس ماہِ صیام سے فائدہ اٹھاؤ اور اس وٹامن کی کمی کو دور کرو مگر خیال رہے کہ ''صلاۃ'' کے فریضہ کی ادائیگی اگر رسم کی بجائےعبودیت کے اظہار کے طور پر کرو گے تو ہی یہ روح کو بالیدگی عطا کرے گی۔ اگر ''صوم'' محض فاقے کا نام نہیں ہوگا، آنکھ، ناک، کان، زبان، ہاتھ، پاؤں سمیت جسم کے ہر ہرعضو کا روزہ ہوگا تو ہی صوم وٹامن ص کا جز بن سکے گا۔نجانے کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ تم اس ایک مہینے کو ''کڑوا گھونٹ'' سمجھ کر گزار رہے ہو اور اپنی اصلاح کرنے کی بجائے بداعمالیوں کو وقتی طور پر پسِ پشت ڈالے ہوئے ہو کہ جونہی یہ مہینہ ختم ہو تم دوبارہ اُسی روش پرآسکو۔ یہ مہینہ تمھیں اپنی رحمتوں سے دامن بھرنے کی ترغیب دے رہا ہے مگر تم گن گن کر دن گزار رہے ہو کہ کب تم اپنی ''اصل روٹین'' پر واپس آسکو۔ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟
میں اب خاموشی سے اس کی باتیں سن رہا تھا کیونکہ میرے پاس اپنے دفاع میں کہنے کو کچھ بھی باقی نہیں تھا۔
''صبر'' کا تو خیر ذکر ہی کیا وہ تم میں کس قدر پایا جاتا ہے وہ ایک ٹریفک سگنل پر ہی ظاہر ہوجاتا ہے یا بینک کی لائن میں یا بازار کی بھیڑ میں۔ یہاں پر مجھے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔
جہاں تک وٹامن ص کے ''صدقہ'' کی بات ہے تو قرآن کی یہ بات ذہن نشین کرلو کہ ''شیطان تمھیں عسرت وتنگی سے ڈراتا ہے'' حالانکہ ''صدقہ مال کو کم نہیں کرتا''۔ تم جو مال کو گن گن کر رکھتے ہو بھول گئے ہو کہ اس حوالے سے کتنی سخت وعید آئی ہے۔
''صلح'' کا میں کیا ذکر کروں، تم جانتے ہوکہ ''کسی بھی مومن کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے (مسلمان) بھائی سے قطع تعلق کرے'' لیکن اس کے باوجود بھی کتنے لوگوں کا تم نام بھی سننا گوارا نہیں کرتے۔ خود ہی اپنے گریبان میں جھانک لو میں اب کیا کیا تمھیں بتاؤں؟
''صلہ رحمی'' کے احکام تو اس قدر واضح ہیں کہ پڑوسی سے لیکر قریبی رشتہ داروں تک سبھی کے حقوق بیان کردئیے گئے مگر تم خود اپنا حال دیکھ لو۔ کیا تم نے کبھی اس سے جڑنے کی کوشش کی جو تم سے کٹتا ہے؟
تم میں وٹامن ص کی شدید کمی ہے اور میری تمہیں نصیحت ہے کہ فوری طور پر اس طرف توجہ دو وگرنہ معاملات ہاتھ سے نکل گئے تو شدید قسم کی روحانی بیماریوں میں مبتلا ہوجاؤ گے۔
یہ کہہ کر''ضمیر''چپ ہوگیا۔ انسان کی روح کا سب سے بڑا طبیب اس کا ضمیر ہی تو ہوتا ہے، وہ جانتا ہےکہ روح میں کہاں پر خرابی ہے، کہاں پر کیا رکاوٹ ہے، کس چیز کی کمی ہے۔ میں جو جسم نکھارنے کو آئینے کے آگے کھڑا ہوا تھا، ضمیر نے مجھے دیکھ کر میرے سارے روحانی امراض بیان کردئیے۔ میں نے خود سےعہد تو کیا ہے کہ اس ماہِ مبارک میں وٹامن ص کی کمی پورا کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا مگر بندہِ بشر ہوں، خطا کا پتلا ہوں، نسیان کا مریض ہوں۔ آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ دعا کیجئے گا کہ خدا مجھے صبر و استقامت دے اور اس وٹامن ص کی کمی سے نجات عطا فرمائے۔آمین!
[poll id="512"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس