شدید گرمی کی قاتل لہر
دوپہرکے وقت بزرگ بچوں کو گھروں میں قید کردیا کرتے تھے تاکہ گرمی کی شدت سے محفوظ رہا جاسکے۔
موسم گرما کی آمد کے حوالے سے ہمیں بچپن میں پڑھی ہوئی ایک نظم کے یہ شعر یاد آرہے ہیں:
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ
بجے بارہ تو سورج سر پہ آیا
ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایا
دوپہرکے وقت بزرگ بچوں کو گھروں میں قید کردیا کرتے تھے تاکہ گرمی کی شدت سے محفوظ رہا جاسکے۔ گھروں سے باہر گلی کوچوں اور بازاروں میں دوپہر سے سہ پہر کے درمیان ایک سناٹا سا چھایا رہتا تھا اورکرفیو کا سا سماں ہوتا تھا۔ ستو گرمی کا خاص مشروب ہوتا تھا جسے بڑے چھوٹے سب ہی بڑے شوق سے پیا کرتے تھے۔ مائیں اپنے بچوں کو لُو کی شدت سے محفوظ رکھنے کے لیے پیاز چھیل کر اس کے درمیان میں سوئی سے دھاگہ پِرو کر ہار بنا کر گلے میں ڈال دیا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں نہ تو گھروں میں فریج ہوا کرتے تھے اور نہ ہی ایئرکنڈیشنرز۔ بس لے دے کر بجلی کے پنکھے ہوا کرتے تھے جن کا استعمال بھی صرف شہروں تک ہی محدود تھا۔ کیونکہ گاؤں دیہات میں بجلی ناپید تھی۔
برف کا استعمال بھی شہروں تک ہی محدود تھا۔ کیونکہ برف خانے صرف شہروں میں ہی موجود تھے۔ پسینہ خشک کرنے کے لیے عام طور پر دستی پنکھے استعمال کیے جاتے تھے جب کہ امیر گھرانوں میں خس کی ٹٹیاں استعمال کی جاتی تھیں۔ میڈیکل سائنس نے چونکہ بہت زیادہ ترقی نہیں کی تھی اور بیشتر گاؤں دیہات ڈاکٹروں سے بھی محروم ہوا کرتے تھے۔ اس لیے گرمی کی شدت سے متاثر ہونے والوں کے علاج کے لیے یا تو حکیموں سے رجوع کیا جاتا تھا یا گھریلو ٹوٹکے آزمائے جاتے تھے۔ مثلاً اگر کسی شخص کو لُو لگ جاتی تھی تو اسے چولہے کی گرم راکھ میں دبکائے ہوئے کچے آم کو نچوڑ کر بنایا ہوا شربت شکر ملا کر وقفے وقفے سے پلایا جاتا تھا اور حکم ربی سے اسے افاقہ بھی ہوجاتا تھا۔
کراچی میں اس مرتبہ گرمی نے قیامت صغریٰ برپا کردی تو ماضی کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ سورج گویا سوا نیزے پر آگیا اور آسمان سے آگ برستی ہوئی محسوس ہوئی۔ ہزار سے متجاوز قیمتی جانیں گرمی کی شدت کی بھینٹ چڑھ گئیں جن میں سے غالب اکثریت کا تعلق عام لوگوں سے تھا۔ اس کالم کو ضبط تحریر میں لانے کے وقت تک گرمی کی شدت سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 1400 سے زیادہ ہوچکی تھی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گرمی کی شدت سے چالیس ہزار سے بھی زیادہ لوگ متاثر ہوئے تھے۔ پرائیویٹ اور سرکاری اسپتالوں میں گرمی سے متاثر ہونے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا اور ایمبولینسوں پر ایمبولنسیں مریضوں کو لے کر دھڑا دھڑ آرہی تھیں۔
گرمی کی قاتل لہر نے سرکاری اداروں کی نااہلی اور ناقص کارکردگی کی قلعی کھول کر رکھ دی جس میں کراچی الیکٹرک سر فہرست ہے۔ ایک تو قیامت خیز گرمی اوپر سے بجلی کے محکمے کی بار بار اور طویل دورانیے کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ۔ بجلی بند تو پانی بھی عدم دستیاب کیونکہ جب بجلی ہی نہیں ہوگی تو پانی کی موٹر بھی نہ چلے گی۔ لوڈ شیڈنگ کے علاوہ Voltage Fluctuation کی وجہ سے بجلی کے آلات بشمول فریج اور ایئرکنڈیشنز بھی تباہ و برباد ہوگئے جس کی تمام تر ذمے داری بجلی کے نااہل محکمے پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اس صورتحال نے ایک جانب تو بے چارے صارفین کو ناحق عذاب میں مبتلا کردیا جب کہ دوسری جانب مرمت کرنے والوں کی بیٹھے بٹھائے چاندی ہوگئی۔ اس کے علاوہ برقی آلات فروخت کرنے والے دکانداروں کے بھی وارے نیارے ہوگئے۔ لیکن اس صورتحال نے سب سے زیادہ ملازم پیشہ افراد کو متاثر کیا جو رات کی نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے، نڈھال ہونے کے باوجود اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لیے جانے پر مجبور تھے۔
سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی ادارہ اپنی ذمے داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا اور ہرکوئی دوسرے کو قصور وار ٹھہرانے کے لیے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے Blame Game کھیلنے میں مصروف تھا۔ ان حالات میں بعض مخیر حضرات اور رضاکار اداروں کی کارکردگی لائق تحسین رہی جنھوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں گرمی کے متاثرین کے لیے وقف کردیں اور اپنی دنیا و آخرت دونوں ہی کو سنوارنے کا اہتمام کیا۔
اس کے علاوہ National Disaster Management Authority کا کردار بھی اس موقعے پر لائق تحسین رہا جس کی اپیل پر کراچی میں رینجرز کے محکمے نے گرمی کی شدت سے متاثر ہونے والے افراد کی امداد اور بحالی کے لیے کراچی کے مختلف علاقوں کے علاوہ اندرون سندھ بھی ہیٹ ریلیف سینٹرز قائم کردیے۔ ان مراکز میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے علاوہ گرمی کی شدت کا شکار ہونے والوں کے بروقت علاج معالجے کے لیے تمام مطلوبہ آلات اور ادویات کا بھی معقول بندوبست کیا گیا ۔
گرمی کی شدت سے متاثر ہونے والوں کی امداد میں ایدھی فاؤنڈیشن، چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن اور ریسکیو 1122 نے بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ ان فلاحی اور رضاکار اداروں نے روز و شب اپنی بساط سے بڑھ کر دکھی انسانیت کی خدمت کا مقدس فریضہ انجام دیا ہے۔
ایک جانب گرمی کی شدت سے لوگ دم توڑ رہے تھے اور دوسری جانب ہمارے حکمراں اپنی اپنی کھال بچانے کی ناکام کوشش میں اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف تھے۔ ایک قسم کی زبانی کلامی جنگ کا سا منظر تھا جس میں ہر کوئی ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرانے اور خود کو بری الذمہ ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا۔ مگر اصلی تصویر کھل کر عوام کے سامنے آگئی اور میڈیا نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرکے رکھ دیا۔ قوم کو معلوم ہوگیا کہ ہمارے سرکاری اسپتالوں کا حال کتنا برا ہے کہ جہاں پلنگ کی چادریں، تولیے، برف کی سلیں اور پانی کی بوتلیں تک دستیاب نہ تھیں کہ بے چارے متاثرین کو فراہم کی جاسکیں۔ کوئی ان سے یہ پوچھنے والا نہیں کہ سرکاری فنڈز کہاں جاتے ہیں اور وصول کیے جانے والے عطیات کدھر خرچ کیے جاتے ہیں۔
کراچی سے کہیں زیادہ گرمی تو امریکی ریاست ایری زونا، سعودی عرب، عمان، متحدہ عرب امارات اور دبئی میں بھی پڑتی ہے جہاں کا درجہ حرارت کراچی کے درجہ حرارت سے بہت زیادہ بلند ہوتا ہے۔ مگر وہاں تو گرمی کی شدت سے ہلاکتیں نہیں ہوتیں۔ ہم نے خود مسقط میں موسم گرما کا خاصا بڑا عرصہ گزارا ہے جہاں بلا کی گرمی پڑتی ہے۔ مگر اس کے باوجود ہم نے کسی کو وہاں گرمی کی شدت سے مرتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی ایک منٹ کی بھی لوڈ شیڈنگ ہوتے ہوئے دیکھی۔ اصل فرق اچھی اور بری حکمرانی کا ہے۔ اچھی حکمرانی چاہے بادشاہت کی صورت میں ہو وہ اس بری حکمرانی سے لاکھ درجہ بہتر ہے جو جمہوریت کے نام پر کی جا رہی ہو اور جس نے عوام کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہو۔ ہماری جمہوریت کا طرہ امتیاز صرف یہ ہے کہ عوام گرمی کی شدت سے دم توڑ رہے ہیں اور ہمارے جمہوریت نواز حکمراں اپنے ایئرکنڈیشنڈ گھروں اور دفتروں میں آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اپنے حکمرانوں کی اس بے حسی پر جتنا بھی ماتم کیا جائے وہ کم ہے۔