میڈیا پر نئی کتاب
الفاظ کا استحصال، ہمارے عہد کے نمایاں المیوں میں سے ایک ہے۔
الفاظ کا استحصال، ہمارے عہد کے نمایاں المیوں میں سے ایک ہے۔ جب اہلِ ہوس، محبت کے داعی اور بورژوازی حکمران، انقلابی شاعری کے شائق ہوں، تو سماج سے محبت اور انقلاب کا خدا حافظ ہی جانیے۔ وہیں معروض نے بعض الفاظ واصطلاحات کے معنی ہی بدل دیے، اب دیکھیے منڈی سے مراد مارکیٹ ہونا چاہیے، لیکن 'ہیرا منڈی' کی اصطلاح نے اردو میں اس لفظ کی لٹیا ہی ڈبو دی ہے۔ شاید اسی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اکمل شہزاد گھمن نے، دوستوں کی جانب سے ملنے والے درجن بھرمشوروں میں سے اپنی کتاب کے لیے 'میڈیا منڈی' کا عنوان یوں بھی منتخب کیا کہ اس سے جو ذومعنویت کا تاثر ابھرتا ہے، وہ مزے دار ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقی بھی ہے۔
لاہورسے تعلق رکھنے والے اکمل شہزاد گھمن بنیادی طور پر ریڈیو سے منسلک ہیں۔ یوں میڈیا ان کا پیشہ بھی ہے، شوق بھی، جنون بھی۔ وہ پنجابیوں کی اس قلیل اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں جو پاکستان میں قومی سوال پہ واضح نقطہ نظر رکھتی ہے۔ وہ حبیب جالب کی روایت کی امین نسل کے نمایندہ ہیں، ان کی گواہی کے معتبر ہونے کو، ان کے تعارف کا یہی ایک حوالہ کافی ہونا چاہیے۔
'میڈیا منڈی' ان کے بقول ان کی اس سیریز کا اولین حصہ ہے، جو وہ پاکستان میں ذرائع ابلاغ سے متعلق ترتیب دے رہے ہیں، موجودہ حصہ صرف پرنٹ میڈیا پہ بحث کرتا ہے، آنے والے حصوں میں الیکٹرانک نیز سوشل میڈیا پہ بھی بحث ہو گی۔
پاکستان میں میڈیا کی تاریخ کا جب بھی تذکرہ آئے گا، ہم سب کی زباں پہ ایک نام نہایت احترام، عزت اور رشک کے ساتھ آئے گا، ضمیر نیازی مرحوم۔ جنھوں نے پاکستان میں صحافت کی تاریخ کو اپنی دو مختصر مگر شہرہ آفاق کتابوں میں سمودیا۔Press in Chain اور The Web of Censorshipپاکستان میں ذرائع ابلاغ سے منسلک جن احباب نے نہیں پڑھیں، ان کی مثال اس طالب علم کی سی ہے، جو بنا کسی تیاری کے امتحان ہال میں آ بیٹھے۔
ضمیر نیازی مرحوم کے استثنیٰ کے ساتھ پاکستان میں صحافت کی تاریخ حقیقی معنوں میں،منظم صورت میں اب تک مرتب نہیں ہوپائی۔ بعض احباب نے اپنی یادداشتوں میں اس کا کچھ حصہ ضرور سمویا ہے۔ ان میں اپنے رضا علی عابدی کی دو اہم کتابیں 'ریڈیو کے دن' اور 'اخبار کی راتیں' سب سے نمایاں اور سر فہرست ہیں۔ حسن عابدی کی خود نوشت 'جنوں میں جتنی بھی گزری' بھی اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ علاوہ ازیں ضمیر نیازی کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب 'باغبانی صحرا' بھی پاکستان میں صحافت کے ابتدائی عہد کا نمایاں عکس دکھاتی ہے۔ اڑچن مگر یہ ہے کہ یہ مذکورہ تمام و اسی سلسلے کی دیگر کتب پاکستان میں صحافت کی ابتدائی تاریخ تک ہی محدود ہیں، جدید صحافت کا تذکرہ ان میں مفقود ہے۔
گھمن کی تصنیف تاریخی جھروکوں کے ساتھ ساتھ بالخصوص صحافت کے جدید رحجانات سے بحث کرتی ہے۔ نیز پاکستانی صحافت کے اہم ترین کرداروں سے براہِ راست مکالمے اس کی اہمیت کو مزید دوچند کرتے ہیں۔ جن میں عباس اطہر، مجید نظامی، نذیر ناجی، مجیب الرحمان شامی ، ضیا شاہد، عارف نظامی، حسن نثار جیسے نام شامل ہیں۔پھر یہ محض مکالمہ برائے مکالمہ نہیں، بلکہ اس میں ایسے سخت ترین سوالات پوچھے گئے ہیں، جو اچھے خاصے معتدل مزاج آدمی کے منہ کا ذائقہ بھی ترش بنا سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ کہیں کہیں فاضل مصنف کا لہجہ (روایتی معنوں میں)بدتمیزی کی لکیر کے قریب پہنچ جاتا ہے ۔لیکن ان کا روشن فکر پس منظر انھیں تہذیب اور اخلاق کے دائرے سے باہر جانے نہیں دیتا۔
شدید 'شاک' کے باوجود وہ تب بھی اپنے حواس میں رہتے ہوئے نہایت مطمئن کردہ جواب دیتے ہیں،جب ایک معروف سینئر مدیر الٹا ان سے پوچھ لیتے ہیں''آپ محب وطن پاکستانی ہیں یا لبرل سیکولر؟'' میرا خیال ہے کہ پاکستان کے صحافتی رویوں اور رحجانات سے واقف معمولی سا طالب علم بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ایسا سوال، کس صحافتی 'گروہ' کے ذہنِ رسا کی پیداوار ہو سکتا ہے۔
یہ انٹرویوز جہاں ایک طرف پاکستان میں صحافت کی تاریخ کے کئی نئے گوشوں سے متعارف کرواتے ہیں، وہیں پاکستانی صحافت میں عامل صحافیوں اور کارکنوں کے مسائل اور ذہنی رحجانات و رویوں کا وہ عکس بھی دکھاتے ہیں، جو ہم ایسے پسماندہ لوگوں سے اب تک اوجھل تھا۔ عامل صحافیوں اور نامور اداروں کے باہمی مسائل اور اندرونی چپقلش، اقتدار کی غلام گردشوں کی مانند ایک ایسا منظر نامہ پیش کرتی ہے، جہاں اخلاقیات غیر متعلق چیز بن کر رہ جاتی ہے۔ تبھی تو ملک کے ایک نامور ومعروف صحافی نہایت اطمینان اور دھڑلے سے فرماتے ہیں''ضمیر کیا ہوتا ہے؟ یہ ایک Relativeٹرم ہے۔ایسی بات کنفیوز لوگ کرتے ہیں۔''
سات ابواب میں تقسیم کتاب میں، میرے لیے سب سے اہم اور دلچسپ باب 'کالم اور کالم نگاری' تھا۔ اس کا ایک سبب تو یقینً خود میری اس صنف سے وابستگی ہے، لیکن اصل سبب اس باب کا ڈھانچہ ہے۔ یہی ایک باب ہے جہاں مصنف کے اپنا نکتہ نظر، اس کی تنقیدی بصیرت ،ذرائع ابلاغ سے وابستگی اور گہری نظر کا سراغ ملتا ہے۔ باقی ابواب یا تو بالواسطہ و بلاواسطہ مکالموں، یا اکثر حوالوں پر مشتمل ہیں، مگر مذکورہ باب میں مصنف کا قلم اپنی جولانیوں دکھاتا نظر آتا ہے۔ یہاں انھوں نے ملک کے نامور اور منتخب کالم نویسوں کی کالم نگاری پہ مفصل تبصرہ و تجزیہ پیش کیا ہے۔ 'بدقلمی' جیسی بامعنی اصطلاح کی دریافت ہی مصنف کی ذہنی استعداد کا پتہ دینے کو کافی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے سب سے زیادہ توجہ ان کالم نگاروں پر دی ہے، جنھیں وہ اچھا یا مثبت کالم نگار نہیں سمجھتے، ان کی بری کالم نگاری پہ انھوں نے کئی کئی صفحے سیاہ کیے ہیں، جب کہ جنھیں وہ اچھا اور مثبت کالم نگار سمجھتے ہیں، انھیں چند سطروں میں نمٹایا ہے۔
علاوہ ازیں غیر روایتی ساخت اور غیر روایتی مؤقف پر مشتمل کتاب کا آغاز نہایت روایتی انداز میں نام ور مصنفین اور صحافیوں کی روایتی آرا سے ہوتا ہے۔ مجھے اندازہ نہیں ہوپایا کہ اپنے متن میں نہایت مستحکم کتاب کو نامور اصحاب کے 'تصدیق ناموں' کی ضرورت، یا محض اس روایت کی پاس داری کیوں کر لازم محسوس ہوئی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ مصنف اور قاری کے بیچ کسی جج، کسی ریفری کا آنا غیر ضروری ہے۔ یہ بدعت ،ادب بالخصوص اردو ادب میں تو بدرجہ اتم پائی جاتی ہے، صحافت میں اس کی درآمد کچھ اچھی روایت نہ ہوگی۔
المختصر، ہم ایسے نیم قبائلی سماج میں سیاست، معاشرت اور صحافت 'بھگتنے' والے ، اس احوال نامہ کو حیرت، تجسس، تحیر اور رشک کے ساتھ دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ یہ کتاب جہاں ہمیں پاکستان کے صحافتی رویوں سے آگاہی دے کر 'باعلم' بناتی ہے، وہیں اس احساسِ کمتری میں بھی مبتلا کرتی ہے کہ بلوچستانی صحافت، بیشتر معاملات میں پاکستان کی 'مرکزی صحافت' سے ابھی کئی دہائیاں پیچھے ہے۔
بلوچی میں 'حال' کی اصطلاح محض روایتی حال احوال تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک ثقافتی مظہر کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ اس حال میں نجی معاملات سے لے کر اردگرد ، اڑوس پڑوس سمیت دیگر سماجی و معروضی حالات کا احوال بھی شامل ہوتا ہے۔ سو، یہ کتاب پاکستان میں ذرائع ابلاغ کا 'حال' کچھ یوں بیان کرتی ہے کہ اپنی ساخت اور اسلوب میں یہ 'بلوچ حال' کا عکس معلوم ہوتی ہے۔روایت میں گندھا، قدیم و جدید کا مکمل حال...سو فیصد سچا اور سُچا۔
لاہورسے تعلق رکھنے والے اکمل شہزاد گھمن بنیادی طور پر ریڈیو سے منسلک ہیں۔ یوں میڈیا ان کا پیشہ بھی ہے، شوق بھی، جنون بھی۔ وہ پنجابیوں کی اس قلیل اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں جو پاکستان میں قومی سوال پہ واضح نقطہ نظر رکھتی ہے۔ وہ حبیب جالب کی روایت کی امین نسل کے نمایندہ ہیں، ان کی گواہی کے معتبر ہونے کو، ان کے تعارف کا یہی ایک حوالہ کافی ہونا چاہیے۔
'میڈیا منڈی' ان کے بقول ان کی اس سیریز کا اولین حصہ ہے، جو وہ پاکستان میں ذرائع ابلاغ سے متعلق ترتیب دے رہے ہیں، موجودہ حصہ صرف پرنٹ میڈیا پہ بحث کرتا ہے، آنے والے حصوں میں الیکٹرانک نیز سوشل میڈیا پہ بھی بحث ہو گی۔
پاکستان میں میڈیا کی تاریخ کا جب بھی تذکرہ آئے گا، ہم سب کی زباں پہ ایک نام نہایت احترام، عزت اور رشک کے ساتھ آئے گا، ضمیر نیازی مرحوم۔ جنھوں نے پاکستان میں صحافت کی تاریخ کو اپنی دو مختصر مگر شہرہ آفاق کتابوں میں سمودیا۔Press in Chain اور The Web of Censorshipپاکستان میں ذرائع ابلاغ سے منسلک جن احباب نے نہیں پڑھیں، ان کی مثال اس طالب علم کی سی ہے، جو بنا کسی تیاری کے امتحان ہال میں آ بیٹھے۔
ضمیر نیازی مرحوم کے استثنیٰ کے ساتھ پاکستان میں صحافت کی تاریخ حقیقی معنوں میں،منظم صورت میں اب تک مرتب نہیں ہوپائی۔ بعض احباب نے اپنی یادداشتوں میں اس کا کچھ حصہ ضرور سمویا ہے۔ ان میں اپنے رضا علی عابدی کی دو اہم کتابیں 'ریڈیو کے دن' اور 'اخبار کی راتیں' سب سے نمایاں اور سر فہرست ہیں۔ حسن عابدی کی خود نوشت 'جنوں میں جتنی بھی گزری' بھی اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ علاوہ ازیں ضمیر نیازی کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب 'باغبانی صحرا' بھی پاکستان میں صحافت کے ابتدائی عہد کا نمایاں عکس دکھاتی ہے۔ اڑچن مگر یہ ہے کہ یہ مذکورہ تمام و اسی سلسلے کی دیگر کتب پاکستان میں صحافت کی ابتدائی تاریخ تک ہی محدود ہیں، جدید صحافت کا تذکرہ ان میں مفقود ہے۔
گھمن کی تصنیف تاریخی جھروکوں کے ساتھ ساتھ بالخصوص صحافت کے جدید رحجانات سے بحث کرتی ہے۔ نیز پاکستانی صحافت کے اہم ترین کرداروں سے براہِ راست مکالمے اس کی اہمیت کو مزید دوچند کرتے ہیں۔ جن میں عباس اطہر، مجید نظامی، نذیر ناجی، مجیب الرحمان شامی ، ضیا شاہد، عارف نظامی، حسن نثار جیسے نام شامل ہیں۔پھر یہ محض مکالمہ برائے مکالمہ نہیں، بلکہ اس میں ایسے سخت ترین سوالات پوچھے گئے ہیں، جو اچھے خاصے معتدل مزاج آدمی کے منہ کا ذائقہ بھی ترش بنا سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ کہیں کہیں فاضل مصنف کا لہجہ (روایتی معنوں میں)بدتمیزی کی لکیر کے قریب پہنچ جاتا ہے ۔لیکن ان کا روشن فکر پس منظر انھیں تہذیب اور اخلاق کے دائرے سے باہر جانے نہیں دیتا۔
شدید 'شاک' کے باوجود وہ تب بھی اپنے حواس میں رہتے ہوئے نہایت مطمئن کردہ جواب دیتے ہیں،جب ایک معروف سینئر مدیر الٹا ان سے پوچھ لیتے ہیں''آپ محب وطن پاکستانی ہیں یا لبرل سیکولر؟'' میرا خیال ہے کہ پاکستان کے صحافتی رویوں اور رحجانات سے واقف معمولی سا طالب علم بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ایسا سوال، کس صحافتی 'گروہ' کے ذہنِ رسا کی پیداوار ہو سکتا ہے۔
یہ انٹرویوز جہاں ایک طرف پاکستان میں صحافت کی تاریخ کے کئی نئے گوشوں سے متعارف کرواتے ہیں، وہیں پاکستانی صحافت میں عامل صحافیوں اور کارکنوں کے مسائل اور ذہنی رحجانات و رویوں کا وہ عکس بھی دکھاتے ہیں، جو ہم ایسے پسماندہ لوگوں سے اب تک اوجھل تھا۔ عامل صحافیوں اور نامور اداروں کے باہمی مسائل اور اندرونی چپقلش، اقتدار کی غلام گردشوں کی مانند ایک ایسا منظر نامہ پیش کرتی ہے، جہاں اخلاقیات غیر متعلق چیز بن کر رہ جاتی ہے۔ تبھی تو ملک کے ایک نامور ومعروف صحافی نہایت اطمینان اور دھڑلے سے فرماتے ہیں''ضمیر کیا ہوتا ہے؟ یہ ایک Relativeٹرم ہے۔ایسی بات کنفیوز لوگ کرتے ہیں۔''
سات ابواب میں تقسیم کتاب میں، میرے لیے سب سے اہم اور دلچسپ باب 'کالم اور کالم نگاری' تھا۔ اس کا ایک سبب تو یقینً خود میری اس صنف سے وابستگی ہے، لیکن اصل سبب اس باب کا ڈھانچہ ہے۔ یہی ایک باب ہے جہاں مصنف کے اپنا نکتہ نظر، اس کی تنقیدی بصیرت ،ذرائع ابلاغ سے وابستگی اور گہری نظر کا سراغ ملتا ہے۔ باقی ابواب یا تو بالواسطہ و بلاواسطہ مکالموں، یا اکثر حوالوں پر مشتمل ہیں، مگر مذکورہ باب میں مصنف کا قلم اپنی جولانیوں دکھاتا نظر آتا ہے۔ یہاں انھوں نے ملک کے نامور اور منتخب کالم نویسوں کی کالم نگاری پہ مفصل تبصرہ و تجزیہ پیش کیا ہے۔ 'بدقلمی' جیسی بامعنی اصطلاح کی دریافت ہی مصنف کی ذہنی استعداد کا پتہ دینے کو کافی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے سب سے زیادہ توجہ ان کالم نگاروں پر دی ہے، جنھیں وہ اچھا یا مثبت کالم نگار نہیں سمجھتے، ان کی بری کالم نگاری پہ انھوں نے کئی کئی صفحے سیاہ کیے ہیں، جب کہ جنھیں وہ اچھا اور مثبت کالم نگار سمجھتے ہیں، انھیں چند سطروں میں نمٹایا ہے۔
علاوہ ازیں غیر روایتی ساخت اور غیر روایتی مؤقف پر مشتمل کتاب کا آغاز نہایت روایتی انداز میں نام ور مصنفین اور صحافیوں کی روایتی آرا سے ہوتا ہے۔ مجھے اندازہ نہیں ہوپایا کہ اپنے متن میں نہایت مستحکم کتاب کو نامور اصحاب کے 'تصدیق ناموں' کی ضرورت، یا محض اس روایت کی پاس داری کیوں کر لازم محسوس ہوئی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ مصنف اور قاری کے بیچ کسی جج، کسی ریفری کا آنا غیر ضروری ہے۔ یہ بدعت ،ادب بالخصوص اردو ادب میں تو بدرجہ اتم پائی جاتی ہے، صحافت میں اس کی درآمد کچھ اچھی روایت نہ ہوگی۔
المختصر، ہم ایسے نیم قبائلی سماج میں سیاست، معاشرت اور صحافت 'بھگتنے' والے ، اس احوال نامہ کو حیرت، تجسس، تحیر اور رشک کے ساتھ دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ یہ کتاب جہاں ہمیں پاکستان کے صحافتی رویوں سے آگاہی دے کر 'باعلم' بناتی ہے، وہیں اس احساسِ کمتری میں بھی مبتلا کرتی ہے کہ بلوچستانی صحافت، بیشتر معاملات میں پاکستان کی 'مرکزی صحافت' سے ابھی کئی دہائیاں پیچھے ہے۔
بلوچی میں 'حال' کی اصطلاح محض روایتی حال احوال تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک ثقافتی مظہر کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ اس حال میں نجی معاملات سے لے کر اردگرد ، اڑوس پڑوس سمیت دیگر سماجی و معروضی حالات کا احوال بھی شامل ہوتا ہے۔ سو، یہ کتاب پاکستان میں ذرائع ابلاغ کا 'حال' کچھ یوں بیان کرتی ہے کہ اپنی ساخت اور اسلوب میں یہ 'بلوچ حال' کا عکس معلوم ہوتی ہے۔روایت میں گندھا، قدیم و جدید کا مکمل حال...سو فیصد سچا اور سُچا۔