4000 ہلاکتیں انجام کا آغاز

جب خبر پر نظر پڑی تھی اور کالم لکھنے کا ارادہ باندھا تھا تو ہلاکتوں کی تعداد 200تھی۔


Shaikh Jabir June 30, 2015
[email protected]

جب خبر پر نظر پڑی تھی اور کالم لکھنے کا ارادہ باندھا تھا تو ہلاکتوں کی تعداد 200تھی۔اوراب جب کہ غم روزگار سے کچھ مہلت پا کے لکھنے بیٹھا ہوں تو صرف بھارت میں گرم موسم کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 2500سے بھی متجاوز بتائی جا رہی ہے۔ شہر ناپُرساں کراچی اور نواح میں یہ تعداد 1350کے قریب ہے ۔ اِس موسمِ گرما میں بھارت اور پاکستان میں گرمی کی شدت سے ہلاک ہونے والے کُل افراد کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 4000 سے زائد ہے۔ہلاکتوں کی یہ وہ تعداد ہے جو رپورٹ ہوسکی۔کتنے ہی مرنے والے ایسے بھی ہوں گے جوکسی شمار میں ہی نہیں۔ بڑوں سے سنتے آئے ہیں کہ وہ آگ سے موت اور جُھلس کر مرنے سے پناہ مانگتے تھے۔یہاں سورج آسمان سے آگ بر ساتا رہا اور لوگ جُھلس کر مرتے رہے۔یوں لگتا تھا کہ سورج سوا نیزے پر آ گیا ہے۔اِک قیامت تھی جو چہار جانب بپا تھی۔ جو مرگئے وہ تو قیامت سے جا ملے اور جو پیچھے رہ گئے وہ زمینی قیامتیں بھوگنے کے لیے نہ جانے کب تک مرتے رہیں گے۔

روہت اِنانی نے،ٹائم کے لیے رتنا دیوی کی بپتا لکھی ہے۔رتنا دیوی بھارت کے ہزاروں مزدوروں میں سے ایک ہے۔وہ تعمیراتی عمارتوں میں مزدوری کرکے اپنا اور اپنی سات سالہ بچی کا پیٹ پالنے کی کوشش کرتی ہے۔وہ یقیناً اُن مزدوروں میں سے ہے جِن کے بارے میں شاعرِ مشرق کہہ گئے ہیں کہ ہیں تلخ بہت بندہئِ مزدور کے اوقات۔ بھارتی راج دہانی دہلی میں رتنا کا کام کنکریٹ کا مسالہ بنانے والوں کی مدد کرنا ہے۔ سارا دن کی مشقت کے بعد اُسے 250 روُپے ملتے ہیں۔یہ رقم 4ڈالر سے بھی کم ہے۔گزشتہ بدھ کو جب وہ کام پہ تھی تو اُس کی 7برس کی بچی کھیلتے کھیلتے گرمی کی شدت سے نڈھال ہوکر بے ہوش ہوگئی۔تحریکِ نسواں نے عورتوں کو کمانے کے لیے گھر سے تو نکال دیا ہے لیکن مزدوری کرنے والی عورتوں کی اولاد کی دیکھ بھال کون کرے؟اوپر کھلا آسمان، چلچلاتی دھوپ،حبس،گرمی اور نیچے بے رحم سماج۔رتنا کی بچی بے چاری شدید گرمی میں کھیلتی رہی اور پانی کی کمی کا شکارہوکر بے ہوش ہو گئی۔ازاں بعد کیا ہوا بچی بچی یا... کسے پروا ہے۔

یہ ایک حادثہ ہے۔گزشتہ دنوں بھارت میں ایسے ایک دو نہیں، سیکڑوں نہیں ہزاروں حادثات دیکھنے میںآئے ۔ذرائع کے مطابق بھارت کی حالیہ گرمی کی لہر 21مئی سے شروع ہوئی۔دیکھتے ہی دیکھتے اِس نے ایک بڑے رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔اِس دوران درجہ حرارت انتہائی حدوں کو چھوتا رہا۔ماہرین کے مطابق کم ازکم گزشتہ دو دہائیوں کا شدید ترین موسم تھا۔ تاریخی گرمی نے انسانوںگویا بھون کر رکھ دیا۔2500سے زیادہ اموات واقع ہوئیں اور اِس سے کہیں زیادہ افراد بیمار ہوئے۔ بھارتی محکمہِ موسمیات کے مطابق میدانی علاقوں میں جب بھی درجہِ حرارت 40ڈگری سینٹی گریڈ سے متجاوز ہوگا تواُسے گرم یا گرمی کی لہر قرار دیا جائے گا۔پہاڑی علاقوں میں درجہِ حرارت 30سیٹی گریڈ سے متجاوز ہونے پر گرم قرار دیا جاتا ہے۔46سینٹی گریڈ سے متجاوز درجہ ئِ حرارت شدید قرار دیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ دہلی میں درجہ ِ حرارت 45.5سے بھی زائد رہا ہے ۔اِس برس مئی کے مہینے میں بھارت کا اوسط درجہ حرارت کم ازکم 5درجے زیادہ رہا۔نمی کا اضافی تناسب اِس پر متضاد تھا۔ جسِ کی بدولت انسانوں کو درجہ حرارت اصل سے زیادہ محسوس ہوتا ہے۔بھارت کے بیش تر مشرقی علاقوں میں درجہ حرارت 38سینٹی گریڈ سے محض رات کے چار گھنٹوں کے لیے کم ہوتا تھا۔یعنی دن رات یک ساں گرمی ۔مثلاً چِنائے (مدراس) میں درجہ ئِ حرارت24مئی کو 42.22 سینٹی گریڈ سے زیادہ رہا۔یہاں تک کہ 50.55تک گیا۔یہ گرم ترین دن تھا جب درجہ حرارت 36.11سے کسی طرح کم نہیں ہوا۔جب دن پر دن اِسی طرح گزرتے جائیںاور گرمی کم ہونے میں نہ آئے تو شرحِ اموات کا بڑھ جانا سمجھ میں آتا ہے۔جب کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ باہر کُھلی دھوپ میں کام پر مجبور ہو۔بھارت اور پاکستان میں گرمی سے ہلاک ہونے والوں کے درست اعدادو شمار تک رسائی ممکن نہیں۔

پریس میں جوکچھ رپورٹ ہوتا ہے وہ صرف ایک حصہ ہے۔اِسے ہم ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔2003میںمشرقی یورپ میں جب گرمی کی لہر آئی توفرانس میں 7دن تک درجہ حرارت40 سے نیچے نہیں آیا۔کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ شدید موسم کے باعث کتنی اموات ہوئی ہوں گی؟اعداد و شمار بتاتے ہیں 70000 ۔ بھارت اور پاکستان کی شرح آبادی یورپ سے کم از کم 4گُنا زیادہ تو ہے ہی نیز یہاں درجہِ حرارت 40سے کافی اوپر رہا اور زیادہ دیر تک رہا۔بس اِسی پر قیاس کرلیجیے کہ کیا قیامت گزرگئی ہے۔وہ تو گوروں کے مقابلے میں ہم رنگ داروں اور کالوں کی قوتِ برداشت کو داد دیجیے کہ نہ جانے کیسی کیسی قیامتیں برداشت کر جاتے ہیں نیز یہ کہ یورپ بوڑھوں کی آبادی ہے اور ہماری طرف اوسطاً 26کے پیٹے کے جوان زیادہ ملیں گے۔ لیکن پھر بھی قیاس یہ ہی ہے کہ شرح ِ اموات بتائی گئی تعداد سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

اِن اموات کا نوحہ پڑھتے ہوئے سب سے پہلے ہم اخلاقی موت پر ماتم کُناں ہیں۔بے حسی کی انتہا ہے کہ لوگ پیاس سے مرتے رہے اور لاکھوں اورکروڑوں کی آبادی میں کوئی پانی پلانے والا نہ تھا۔شہر ضرور بڑے ہو گئے ہیں لیکن لوگوں کے دِل چھوٹے ہوگئے ہیں۔یہ کون سا دور ہے؟یہ کیسے لوگ ہیں؟اور یہ کیسی ترقی ہے؟چشم ِ فلک نے شاید ہی کبھی کہیں ایسے بے حس دیکھے ہوں۔کراچی میں جہاں سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں، پانی کا ایک کَین جو 40روُپے کا فروخت ہوتا تھا۔ 140 کا بِکنے لگا۔برف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی۔

علاج معالجے اور دواؤں کے ریٹ بڑھ گئے۔نام نہاد عوامی حکمران عوام سے اور عوام کی پہنچ سے میلوں دور اپنے برفاب محلات میں بیٹھے عوام کو صبرکی تلقین کرتے رہے۔ جُھلسادینے والی گرم ہوا موت بن کر لوگوں کو نِگلتی رہی، لوگ فُٹ پاتھوں پر مرتے رہے اپنے پیاروں کو روتے رہے۔لیکن نہ کوئی آنکھ نَم ہوئی نہ کسی چہرے پر ملال نظر آیا۔ٹی وی پروگرام سیلی بریٹیز کے ہمراہ اُسی جوش اور جذبے سے رمضان سیلی بریٹ کرتے رہے نہ کسی کے غازے کم ہوئے نہ غمزے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی گرمی نہ دیکھی گئی نہ سُنی گئی۔اب سے قبل اِن خطوں میں اتنے افراد گرمی کے ہاتھوں کبھی ہلاک نہ ہوئے تھے۔سائنس دان بتاتے ہیں کہ ہم معلوم تاریخ کے گرم ترین دور سے گزر رہے ہیں۔گزشتہ12ماہ انسانی تاریخ کے گرم ترین مہینے تھے اور ایسا ہی اب بھی ہے۔انسانی وجوہ سے ماحولیاتی تبدیلیاں بڑی تیزی سے رُو نما ہو رہی ہیں۔زمین کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔بڑے شہروں میں بڑی بڑی عمارتیں اور بہت ساری گاڑیاں بے پناہ حدت پیدا کرتی ہیں۔ یہاں گاؤں دیہاتوں کی طرح رات کو بھی گرمی کم نہیں ہوتی کیوں کہ حدت یہاں پھنس کے رہ جاتی ہے۔لوگ دن رات گرمی میں رہتے ہیں جو بلآخراُنھیں کم زورکر دیتا ہے۔یہ سبب ہے کہ جیکب آباد اور سبی کا رہنے والا اس سے زیادہ گرمی میں بھی صحت مند رہتا ہے اور کام کرتا نظر آتا ہے۔

نام نہاد ترقی کی دیوی نے ہمیں مسحور توکر رکھا ہے لیکن سائنس دان بتاتے ہیں کہ کوئلے اور دیگر ذرائع سے بجلی بنانے والے کارخانوں نے زمین کو جہنم بنا دیا ہے۔ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ترقی یافتہ افراد و اقوام نے 2.3 ٹریلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گزشتہ200برس میں زمینی فضا میں شامل کی ہے۔اِس کا نصف گزشتہ صرف30برس میںاُگلا گیا ہے۔ 1750 کے صنعتی انفجار کے بعد سے اب تک31فی صد کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل کر کے زمینی فضا کو زہریلا کیا گیا ہے۔یہ سب اُسی کا بھگتان ہے۔

وزیر ماحولیات سینیٹر مشاہداللہ خان کا کہنا ہے کہ کراچی میں گرمی کی حالیہ لہر راجھستان بھارت کے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ کا نتیجہ ہے۔بات درست معلوم ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ میں اور مشاہداللہ جو بجلی استعمال کر رہے ہیںاُس کی پیداوار سے جو گرمی کی لہر پیدا ہو رہی ہے اور زمینی ماحولیات برباد ہو رہی ہے اُس کا ذمے دار کون ہے؟کیا ہم اور حکومتیں بجلی اورگاڑیوں کے استعمال کے ترک پر تیار ہیں؟ایسے ہی سوالات دنیا بھر کے سائنس دان اُٹھائیںگے ایک مرتبہ پھر عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں جو سال کے اواخر میں لیما میں ہو گی۔

سائنس دانوں کے مطابق اب بھی وقت ہے۔اگر ہم نے آج اِن 4000 ہلاکتوں سے سبق حاصل نہیں کیا تو اِسے اختتام نہیں زمین کے انجام کا آغاز جانیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں