آسٹریلیا کا منفرد قصبہ کُوبر پیڈیجہاں لوگ زیرزمین بنے ہوئے گھروں میں رہتے ہیں

زیرزمین رہائش گاہ اختیار کرنے کا انداز سب سے پہلے جنگ عظیم اول سے لوٹنے والے سپاہیوں نے متعارف کروایا تھا


ع۔ر June 30, 2015
جنوبی آسٹریلیا میں اوسط درجۂ حرارت 28 ڈگری سیلسیئس ہوتا ہے لیکن یہاں موسم گرما میں درجہ حرارت 40 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے:فوٹو: فائل

کُوبر پیڈی، جنوبی آسٹریلیا میں ایڈیلیڈ سے 850 کلومیٹر کی دوری پر واقع ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔

اسٹیوارٹ ہائی وے پر ساڑھے آٹھ سو کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد جب مسافر یہاں پہنچتے ہیں تو انھیں بے آب و گیاہ زمین پر چند مکانات، دو ریستوراں، ایک پولیس اسٹیشن، اسکول اور اسپتال کی عمارت کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ سڑک سے اتر کر شمال کی طرف چند قدم چلنے کے بعد ایک بورڈ نظر آتا ہے جس پر تحریر ہے کہ نیچے جانے کے لیے راستہ کچھ ہی دور ہے۔ جب کوئی اجنبی ڈھلوان راستہ طے کرتے ہوئے نیچے پہنچتا ہے تو اس کی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ جاتی ہیں۔ سڑک کے اطراف جتنی تعمیرات موجود ہیں اس سے زیادہ مکانات اور دوسری تعمیرات زیرزمین ہیں۔

کُوبربیڈی میں زیرزمین غاروں اور سُرنگوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ قصبے کے رہائشیوں نے غاروں اور سُرنگوں میں کشادہ مکانات بنا رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ ہوٹل، ریستوراں، شراب خانے اور گرجا گھر بھی بنے ہوئے ہیں۔ یہاں ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ زیرزمین قصبہ آباد کرنے کی وجہ یا وجوہ کیا تھیں؟ نیز یہ کہ اسی علاقے میں لوگوں کو آباد ہونے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ یکم فروری 1915ء کی بات ہے، جب اپنے والد کے ساتھ کیمپنگ کی غرض سے آئے ہوئے ایک چودہ سالہ لڑکے نے یہاں اوپل ( دودھیا رنگ کا قیمتی پتھر) دریافت کیا۔ تلاش بسیار کے بعد باپ بیٹا اپنے ہمراہ کئی اور اوپل بھی لے جانے میں کام یاب ہوئے۔ بس پھر کیا تھا، کچھ ہی عرصے میں یہ علاقہ قیمتی پتھر کے متلاشیوں کا مرکز بن گیا۔ جگہ جگہ کھدائی ہونے لگی، اور ہموار میدان میں گڑھے اورکانیں نمودار ہوتی چلی گئیں۔ لوگوں نے عارضی رہائش گاہیں بھی تعمیر کرلیں۔

https://img.express.pk/media/images/Australia/Australia.webp

یہاں رہائش پذیر ہونے والوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ شدید گرم موسم تھا۔ گرما میں یہاں درجۂ حرارت 40ڈگری سیلسیئس سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ جنوبی آسٹریلیا میں اوسط درجۂ حرارت 28 ڈگری سیلسیئس ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے کوبر پیڈی کی گرمی نسبتاً ٹھنڈے علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ انھوں نے اس کا حل زیرزمین رہائش گاہوں کی صورت میں نکالا۔ قصبے کے ابتدائی گھر اوپل کی تلاش میں کھودے گئے بڑے بڑے گڑھوں میں بنائے گئے جو متروک ہوچکے تھے۔ جدید گھر چٹانوں کو کاٹ کر بنائے گئے ہیں، اور ان میں ایک عام گھر کی تمام سہولیات مثلاً لیونگ روم، کچن، الماریاں، شراب خانہ اور تہ خانہ موجود ہیں۔ ہر کمرے میں ہوا کے گزر کا انتظام بھی رکھا گیا ہے، تاکہ درجۂ حرارت معتدل رہے۔

زیرزمین رہائش گاہ اختیار کرنے کا انداز سب سے پہلے جنگ عظیم اول سے لوٹنے والے سپاہیوں نے متعارف کروایا تھا، جو اوپل کی کان کنی کے لیے یہاں مقیم ہوگئے تھے۔ اس زمانے میں یہ قصبہ پہلے یورپی مہم جو جان مک ڈوئل اسٹیوارٹ کے نام پر '' اسٹیوارٹ رینج اوپل فیلڈ'' کہلاتا تھا۔ 1920ء میں اس کا نام بدل کر '' کُوبر پیڈی'' رکھا گیا۔ یہ قصبہ دودھیا رنگ کے قیمتی پتھر کا دنیا میں سب سے بڑا مرکز ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں