گڈ گورننس کا فقدان یا کچھ اور

سندھ حکومت کو شدید گرمی کے موسم اور لوڈشیڈنگ کے باعث دوطرفہ آفت کا پیشگی ادراک کرنا چاہیے تھا


Editorial June 30, 2015
نیپرا نے کراچی میں بجلی بحران کا ذمے دار ’’کے الیکٹرک‘‘ کو قرار دیا تھا- فوٹو: فائل

KARACHI: کراچی میں قیامت خیز گرمی اور لوڈ شیڈنگ کے باعث ڈیڑھ ہزار سے زائد ہلاکتیں اگرچہ درد انگیز ہیں اور اس درجہ الم ناک طریقے سے قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع کسی آفت ، زلزلہ، آتشزدگی یا سیلاب کی تباہ کاری سے کم نہیں جب کہ بنیادی بات ایک ہمہ گیر تحقیقات کا تقاضہ کرتی ہے کہ بجلی کی عدم فراہمی اور شدید گرمی ہی المیہ کا سبب بنی یا اس میں مضمر صوبائی حکومت کی کوتاہی ، متعلقہ صحت محکموں اور ریسکیو شعبے کا قصور بھی تھا تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ گڈ گورننس کے فقدان کا شاخسانہ ہے ، اور بیڈ گوررننس کرپشن کی کوکھ سے جنم لیتی ہے، جس سے پورا سیاسی، سماجی و معاشی ڈھانچہ متاثر ہے، سندھ میں اربوں کی خورد برد کے مقدمات نیب کو بجھوانے کا فیصلہ ہوا ہے۔

ارباب اختیار اس المیے سے نمٹنے ہوئے کرپشن کا ملک گیر سطح پر قلع قمع کریں، سندھ حکومت کو شدید گرمی کے موسم اور لوڈشیڈنگ کے باعث دوطرفہ آفت کا پیشگی ادراک کرنا چاہیے تھا مگر المیہ یہ ہے کہ ایمرجنسی اور بحران کی صورتحال پیدا ہوجائے تو ہماری صوبائی حکومتوں کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں، بدانتظامی، اداروں کے مابین رابطے کے فقدان کی وجہ سے معاملات مزید بگڑ جاتے ہیں، چنانچہ ہلاکتیں شروع ہوتے ہی سندھ انتظامیہ کو فوری ایکشن لینے کے لیے جس قوت فیصلہ سے کام لے کر اسپتالوں میں ایمرجنسی اقدامات اور متاثرین کی امداد اور مختلف اداروں سے رابطہ کرنا چاہیے تھا وہ اس ٹاسک میں ناکام ہوئی۔

حالانکہ تساہل اور افراتفری کے منظر نامہ میں پنجاب ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ حکومتوں کی نااہلی ، بے حسی اور بدانتظامی کی کوئی تخصیص نہیں ، نااہلی ایک مشترکہ طوق ہے جو گلے سے نہیں اتارا جاسکا۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ حکومت ، وفاق ، نیپرا اور کراچی الیکٹرک کے مابین تکنیکی معاملات اور سانحہ کے مضمرات و اثرات کا ازالہ کیا جائے ۔ مسئلہ ادارہ جاتی نوک جھونک اور بیانات سے نہیں حقائق کی تہہ تک پہنچنے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے ذریعے حل ہونا چاہیے، اس ضمن میں نیپرا کی چار رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے کراچی میں بجلی بحران پر جو ابتدائی رپورٹ جاری کی ہے وہ قابل غور ہے جس میں بجلی بحران کا ذمے دار ''کے الیکٹرک'' کو قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق کراچی میں بجلی کا بحران ہلاکتوں میں اضافے کی بڑی وجہ ہے، کے الیکٹرک نے ٹرانسمیشن سسٹم میں بہتری کے لیے پیسہ نہیں لگایا، تقسیمی و ترسیلی نظام کی بہتری کے لیے مناسب سرمایہ کاری نہیں کی اور سرمایہ کاری نہ کرنے کے باعث کے الیکٹرک کی سروسز کا معیار متاثر ہوا۔ رپورٹ کے مطابق کے الیکٹرک نے پیداواری وسائل استعمال کرتے ہوئے سسٹم میں بجلی شامل کی، پیداوار 2500 سے 2700 میگاواٹ کرنے سے ٹرپنگ اور بریک ڈاؤن ہوئے جس کے باعث نظام بیٹھ گیا، فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ وزیراعظم نواز شریف اور چیئرمین نیپرا کو پیش کی جائے گی، اس کے بعد کیا ہوتا ہے اس کا انتظار کیا جائے۔

ادھر وفاقی حکومت نے کے الیکٹرک کے بقایا جات کے متعلق مقدمے میں اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا، وفاقی حکومت نے کمپنی کی طرف سے لگائے گئے الزامات مسترد کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ وفاقی حکومت کو نجکاری کے اس معاہدے کی وجہ سے 269ارب کا نقصان ہوا ۔ کے الیکٹرک نے وفاق پی ایس او، پی ٹی وی، ایس ایس سی جی سمیت مختلف اداروں کے 130 ارب روپے دینا ہیں، کے الیکٹرک کی پیداواری صلاحیت 2710 میگاواٹ جب کہ ڈیمانڈ 2500 میگاواٹ ہے مگر وہ صلاحیت کے مطابق بجلی پیدا نہیں کرتی ۔ یہ خالص تکنیکی اور بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے فنی وانتظامی امور ہیں جن پر صاحبان اختیار اپنا موقف دے رہے ہیں جب کہ وزیراعلیٰٰ سید قائم علی شاہ کو بھی ٹھوس حقائق عوام کے سامنے لانے چاہییں، وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ بجلی وفاقی معاملہ ہے اس لیے وفاق ہی لوگوں کو جوابدہ ہے۔

استدلال سر آنکھوں پر مگر سندھ حکومت کے محکمہ صحت اور خود شاہ صاحب کی صحت اور ضعیفی پر ضرور بحث ہونی چاہیے تاکہ کوئی الزام نہ دے کہ سندھ کو جرم ضعیفی کی سزا ملی کیونکہ صحت کی وزارتوں کا امیج کراچی سمیت پورے اندرون سندھ اور دیگر صوبوں میں عوامی حلقوں کی شدید تنقید کی زد میں ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق کراچی میں ہلاکتوں کا سلسلہ جاری تھا مگر صحت کے صوبائی وزیر، سیکریٹری اور ڈی جی غائب تھے، صوبہ کے اسپتالوں میں دوائوں کی قلت تھی ، ایمبولینسز کا نیٹ ورک نظروں سے غائب تھا، وزرا افطار ڈنر کرتے رہے، اور بدترین لوڈ شیڈنگ آج بھی جاری ہے ۔ ایک اطلاع کے مطابق 2 کروڑسے زائد آبادی والے شہر کے لیے ریسکیو 1122 متحرک نہیں ہوئی۔

کراچی کے لیے خریدی گئی 24 ایمبولینسیں کھڑے کھڑے گل گئیں، مراعات اور پٹرول کے نام پر حکام ہر ماہ لاکھوں روپے ہڑپ گئے۔ عوام اپنے پیاروں کو طبی امداد دلانے کے لیے فلاحی اداروں کی ایمبولینسوں کے پیچھے دوڑتے رہے تو کبھی ان کی میتوں اٹھائے دردرکی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ کراچی میں گرمی کے باعث پیر کو مزید 17 افراد دم توڑ گئے۔ مجموعی ہلاکتیں 1450 سے تجاوز کرگئیں۔ اب یہی کہا جاسکتا ہے کہ enough is enough !

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں