واحد بشیر رول ماڈل
واحد بشیر نے طالب علم رہنما،مزدور،صحافی،شاعر،ادیب، دانشور کی حیثیت سے ملک کے پسماندہ طبقات کی جدوجہد میں کردارادا کیا
واحد بشیر بھی چلے گئے۔ ترقی پسند تحریک ایک مخلص اور ایماندار کارکن سے محروم ہوگئی۔ واحد بشیر نے طالب علم رہنما ،مزدور،کارکن، صحافی، شاعر، ادیب اور دانشور کی حیثیت سے اس ملک کے پسماندہ طبقات کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔ واحد بشیر حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ بچپن حیدرآباد میں گزرا۔ یہ وہ وقت تھا کہ تلنگانہ میں کسان تحریک مضبوط تھی۔
انقلابی شاعر مخدوم محی الدین صرف تلنگانہ کے کسانوں میں ہی نہیں بلکہ حیدرآباد کے نوجوانوں کے بھی محبوب رہنما تھے۔ یوں واحد بشیر مخدوم محی الدین کی شخصیت سے متاثر ہوگئے۔ واحد بشیر 1949 میں پاکستان آئے۔ میر پور خاص میں سنار کی دکان قائم کی۔ کچھ عرصے بعد منظم سازش کے تحت ان کی دکان میں چوری کرائی گئی، یوں قرضے کا بوجھ واحد بشیر پر پڑگیا۔ پھر وہ کراچی آگئے اور محنت مزدوری کر کے قرضہ اتارا اور پھر دوبارہ تعلیم حاصل کرنا شروع کردی اور طالب علم رہنما کی حیثیت سے اپنا تاریخی کردار ادا کیا۔
کراچی میں 50ء کی دھائی میں ترقی پسند طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن فعال تھی۔ ڈی ایس ایف کی جدوجہد کی بناء پر 8 جنوری 1953 کو کراچی میں طلبا کی تعلیم کو عام اور سستا کرنے کے مطالبے کے لیے تحریک چلائی گئی۔ اس وقت کی خواجہ ناظم الدین حکومت نے تحریک کو طاقت کے ذریعے کچلا مگر بنیادی مطالبات تسلیم کرنے پر تیار ہوگئے۔ ڈی ایس ایف پر جنرل ایوب خان حکومت نے پابندی عائد کردی۔ اس وقت کے رہنما علی مختار رضوی، معراج محمدخان اور واحد بشیر وغیرہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوگئے۔
ایوب خان نے یونیورسٹی آرڈیننس جاری کر کے علمی آزادی Academic Freedom پر پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی۔ گریجویشن کا دورانیہ3 سال کردیا گیا۔ این ایس ایف نے یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف تحریک شروع کی۔ اس تحریک میں واحد بشیر سرفہرست تھے۔ ایوب حکومت نے 12 طالب علم رہنماؤں کو شہربدرکیا اور پھر مختلف جیلوں میں نظربند کیا۔ ان میں واحد بشیر، فتحیاب علی خان، معراج محمد خان، شیر افضل ملک، عبدالودود، سید سعید حسن، جوہر حسین، آغا جعفر، اقبال میمن، نواز بٹ، حسین نقی، انور احسن صدیقی وغیرہ نمایاں تھے۔
ان رہنماؤں کو شہر سے نکالا گیا اور پھر جیلوں میں قید کیا گیا مگر ان کے عزائم متزلزل نہیں ہوئے۔ اس طرح ایوب حکومت کو طلبہ کے مطالبات ماننے پڑے۔ تین سالہ ڈگری کورس کا معاملہ ختم ہوا۔ واحد بشیر سچے کمیونسٹ تھے۔ وہ ریاست پر مزدور طبقے کی بالادستی کو ہی انسانیت کی نجات سمجھتے تھے۔ یوں نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنا کیریئر مزدور تحریک سے وابستہ رکھا اور 60ء کی دھائی میں کراچی میں مزدور تحریک کو منظم کرنے والوں میں شامل ہوئے۔
پاکستان میں مزدور تحریک فیض احمد فیض، مرزا ابراہیم، فضل الٰہی قربان جیسے لوگوں نے شروع کی۔ حیدرآباد دکن کے امراء خاندان کے حسن ناصر نے کراچی میں بیٹری بنانے والے کارخانوں کو منظم کرنا شروع کیا۔ پنجاب کے شہر اوکاڑہ کی ستلج ٹیکسٹائل ملزسے تعلق رکھنے والے ملک شاہ دین اور اس کے ساتھی متحرک تھے۔ جب کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگی تو ملک شاہ دین اور ان کے ساتھی سوویت یونین میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ واحد بشیر نے کراچی میں مزدور تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔اس وقت نبی احمد، ایس پی لودھی، نایاب نقوی وغیرہ اس تحریک کی قیادت کررہے تھے۔
ایوب حکومت نے مزدوروں کی ہڑتال کو ناکام بنانے کے لیے طاقت کا بیہمانہ استعمال کیا۔ واحد بھائی بتاتے تھے کہ پولیس کی فائرنگ سے ان کو بچاتے ہوئے مزدور شہید ہوئے اور آنسو گیس کا شیل لگنے سے بیمار ہوئے اور 3 ماہ تک اسپتال میں رہے۔ واحد بشیر نے 1971ء میں متحدہ مزدور فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے کراچی کے مزدوروں کو پھر منظم کرنا شروع کیا۔
ان کے ہمراہ عثمان بلوچ اور احسان عظیم شامل تھے۔ بعد میں یونیورسٹی کی تعلیم چھوڑ کر آنے والے کرامت علی، بصیر نوید، عابد علی سید اور مشتاق میمن فیڈریشن میں شامل ہوئے۔ اس تحریک میں شاہ نور اور یاور خان جیسے جرات مند کارکن ابھر کر سامنے آئے۔ بیوروکریسی کی کچھ سازشوں کی بناء پر اس وقت کے پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ ممتاز بھٹوکے دور حکومت میں 7 اور 8 جون 1972 کو پولیس فائرنگ میں 15 کے قریب مزدور شہید ہوئے اور مزدور رہنماؤں کو قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ بھٹو حکومت کے دور میں ٹریڈ یونین جرم بن گیا۔ ترقی پسند مزدور تحریک کمزور ہوئی اور مذہبی انتہاپسندوں کو سائٹ اور اطراف کے علاقوں میں قدم جمانے کا موقع مل گیا۔
یہی وجہ ہے کہ سائٹ، پٹھان کالونی اور فرنٹیئر کالونی کے علاقے 1977 میں پاکستان قومی اتحاد کا گڑھ بن گئے اور 90ء کی دھائی سے یہ طالبان کی آماجگاہوں میں تبدیل ہوئے۔ واحد بشیر اس صورتحال سے مایوس نہیں ہوئے۔ انھوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ اس وقت کے ترقی پسند ہفت روزہ رسالہ الفتح میں اسسٹنٹ ایڈیٹر بن گئے۔ اب واحد بشیر نے تحریروں کے ذریعے رائے عامہ کو ہموارکرنا شروع کیا مگر مزدوروں سے رابطہ برقرار رہا۔ شا م کے بعد کا حصہ مزدور تحریک کے لیے وقف رہا۔ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا تو الفتح مزاحمت کی آواز بن گیا۔
یہی وجہ تھی کہ یکم جنوری 1981 کو ہفت روزہ الفتح کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا ۔ واحد بشیر، وہاب صدیقی، ارشاد راؤ، شرف علی اور نسیم آرولی وغیرہ گرفتار ہوئے ۔ واحد بشیر کو کئی ماہ تھانوں میں نظربند کیا گیا۔ اس وقت کے گورنر کے مشیر میر رسول بخش تالپور نے ان کی اہلیہ اور ترقی پسند تحریک کی فعال کارکن حمیرا واحد بشیر کے معافی نامے کے عوض واحد بشیر کی رہائی کی پیشکش کی مگر دونوں میاں بیوی نے اس پیشکش پر غور کرنے سے انکار کردیا۔ واحدبشیر کو فوجی عدالت سے 2 سال سزا ہوئی۔ جیل میں انھیں دل کا مرض ہوا ۔
جیل سے رہا ہو کر آئے تو انگریزی صحافت شروع کی۔ بزنس ریکارڈر میں سب ایڈیٹر ہوئے، منہاج برنا اور دوستوں کی خواہش پر کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر منتخب ہوئے۔ یوں اب صحافیوں کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے کی جدوجہد کا حصہ بن گئے۔ 1988 میں جب جمہوری دور شروع ہوا تو راحت سعید، پروفیسر حسن عابد، ڈاکٹر محمد علی صدیقی وغیرہ کے ساتھ مل کر دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔ یوں ارتقاء انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس قائم ہوا۔ اس ادارے کے تحت رسالہ ارتقاء شایع ہونا شروع ہوا۔
انھوں نے ڈاکٹر محمد علی صدیقی، ڈاکٹر جعفر اور پروفیسر حسن عابدکے ساتھ مل کر ارتقاء کو ایک معیاری رسالہ بنایا۔ ارتقاء کا ادارہ مختلف موضوعات پر سیمینار، کانفرنس اور لیکچر کرانے میں شہرت رکھتا ہے۔ بہت سے نوجوان ارتقاء رسالہ پڑھ کر اس کے پروگراموں میں شرکت کر کے ترقی پسند تحریک سے واقف ہوئے۔ واحد بشیر زندگی کے آخری مرحلے تک جدوجہد میں مصروف رہے۔
وہ اپنی بیماری کے باوجود ہر پروگرام میں شرکت کر کے ارتقاء میں معیاری تحریروں کی اشاعت کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ واحد بشیر کی زندگی کو جدوجہد کے راستے پر برقرار رکھنے میں ان کی اہلیہ حمزہ واحد کا اہم کردار تھا۔ حمزہ این ایس ایف میں ان کی ساتھی تھیں۔ پھر تدریس کا شعبہ اختیار کیا۔کالجوں کو قومیانے اور اساتذہ کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔ حمزہ زندگی کے ہر مرحلے پر واحد بشیر کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔ واحد بشیر ایک خوبصورت شاعر بھی تھے۔ ان کے دو شعری مجموعے 'کیکٹس کے پھول' اور 'جو اعتبار کیا 'شایع ہوچکے ہیں مگر ہمیشہ اپنا کلا م سنانے سے گریز کرتے تھے۔