پاکستان میں جرائم کا خاتمہ کیسے ممکن ہو
سعودی عرب میں موت کی سزا پانے والے مجرموں میں ہر دوسرا شخص پاکستانی ہوتا ہے۔
سعودی عرب میں بسنے والے پاکستانیوں کے لیے وہ لمحہ انتہائی دکھ، کرب اور الم کا باعث ہوتا ہے جب یہاں موت کی سزا پانے والے مجرموں میں ہر دوسرا شخص پاکستانی ہوتا ہے۔ سعودی قوانین کے مطابق منشیات کے کاروبار میں ملوث ہر شخص سزائے موت کا حق دار قرار دیا جاتا ہے اور بد قسمتی سے یہاں اِس کاروبار یا اِس کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کا تعلق زیادہ تر پاکستان سے ہی نکلتا ہے۔
یہ بات ہمارے لیے بڑے تکلیف دہ اور باعثِ شرم و ندامت ہوتی ہے کہ ہر ماہ کھلے عام سر قلم کیے جانے والوں میں اکثریت پاکستانیوں کی ہوتی ہے۔ سر قلم کیے جانے کا منظر گرچہ صرف چند سیکنڈوں کا ہوتا ہے لیکن وہ منظر انتہائی ذلت آمیز اور عبرت ناک ہوتا ہے۔ اِس منظر دیکھنے والوں کو جب یہ پتہ چلتا ہے کہ سزا پانے والا شخص ایک پاکستانی تھا تو یہ سنکر یہاں رہنے والے پاکستانیوں کے سر شرم اور ندامت سے جھک جاتے ہیں۔ سعودی قوانین کی سوجھ بوجھ رکھنے کے باوجود ہمارے لوگ یہ گھناؤنا جرم کرتے رہتے ہیں اور پھر اپنے خاندان اور اپنے وطن کے لیے ذلت و رسوائی کا باعث بنتے ہیں۔
سعودی عرب میں کام کی غرض سے آنے والے غیر ملکیوں میں پاکستان کے علاوہ ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، مصر، شام، انڈونیشیا اور فلپائن سمیت دیگر ممالک کے لوگ شامل ہیں لیکن کسی اور ملک کے لو گ یہ گھناؤنا کام کرتے ہوئے شاید کئی بار سوچتے ہونگے مگر ہم پاکستانی تما م عقل شعور رکھنے کے باوجود یہ کام صرف چند لاکھ روپے کی لالچ میں کر گزر تے ہیں اور پھر ذلت آمیز موت سے ہمکنار بھی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے لیے تو بے عزتی اور رسوائی سمیٹے ہی ہیں لیکن اپنے وطن اور اپنی قوم کا نام بھی بدنام کر جاتے ہیں۔
تمام قسم کے فراڈ اور چور بازاری میں ہمارا نام دنیا میں پہلے ہی بہت مشہور ہے مگر اب منشیات کی اسمگلنگ میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ سعودی عرب میں ہر ماہ سر قلم کیے جانے والے 10 سے12 افراد میں سے 6 سے8 کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے۔ آپ تصور نہیں کر سکتے اِس خبر کے آنے کے بعد یہاں پر رہنے والے اُن پاکستانیوں کے احساسات کا کیا حال ہوتا ہو گا جب وہ ہندوستان کے لوگوں کے سامنے خود کو بہتر اور افضل کہا کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کی انتہائی سخت قوانیں کا علم رکھنے کے باوجود ہمارے لوگ یہ کام کیوں کرتے ہیں۔
کون اِنہیں اِس ذلت آمیز موت کے منہ میں دھکیلتا ہے۔ کون اِنہیں لالچ دیکر سعودی عرب بھیجتا ہے۔ ہماری حکومت اور ہماری لاء انفورسمنٹ ایجنسیاں کیا کر رہی ہے۔ وہ کیوں کوئی سخت سے سخت سزا اپنے یہاں لاگو نہیں کرتیں کہ کوئی یہ فعل ِ قبیح کرنے کی جسارت ہی نہ کرے۔ اگر یہ جرائم پیشہ افراد پاکستانی نہیں ہیں تو کون اُنہیں پاکستانی پاسپورٹ بنا کر دیتا ہے۔ وہ خواہ کوئی بھی ہوں لیکن رسوا تو ہمارا گرین پاسپورٹ ہی ہو رہا ہے۔ ہماری شناخت مجروح ہو رہی ہے۔ دنیا ہمیں جرائم پیشہ، چور اور ڈکیت سمجھنے لگی ہے۔ ایگزٹ اسکینڈل کے انکشاف کے بعد تو اِس شعبے میں ہم مزید بدنام ہو چکے ہیں۔
ہماری پارلیمنٹ اور ادارے قوانین تو بہت بنا لیتے ہیں لیکن اُن پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو پاتا۔ اُن قوانین پر عملدرآمد کے لیے ہمیں جس محکمے کا سہارا لینا پڑتا ہے وہی جب جرائم میں ملوث ہو تو پھر قانون پر عمل داری کیسے ممکن ہو۔ ہماری پولیس ہی جب اِن جرائم کی افزائش اور مجرموں کی سرپرستی کر رہی ہو تو پھر معاشرے سے جرائم کا خاتمہ کیوں کر ممکن ہو۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے تمام جرائم کے اصل آماجگاہ اور مجرموں کو اصل پناہ گاہ پولیس کا محکمہ ہی ہے۔
پولیس کی مدد اور تعاون کے بغیر کوئی جرم پھل پھول نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہماری شہری کسی چور یا ڈاکو کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیتے ہیں تو وہ اُسے پولیس کے حوالے کرنے کی بجائے خود ہی سزا دینے پر مصر ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تھانے پہنچ کر یہ مجرم چند روز بعد ہی رہا ہو کر دندنا تا پھر رہا ہو گا۔ بلکہ اب وہ پہلے سے زیادہ باہمت اور طاقتور ہو کر مزید وارداتیں کر رہا ہو گا۔ اُسے اتنا توانا اور نڈر بنانے میں کس کا ہاتھ ہے۔ حکومت کو اِس نقطے پر غور کرنا چاہیے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ اگر جیلوں سے تما م قیدی رہا کر کے اِن جیلوں میں پولیس کے لوگوں کو ہی ڈال دیا جائے تو ہمارے معاشرے سے 80 فیصد جرائم ختم ہو سکتے ہیں۔
یہ بات کوئی از راہِ مذاق نہیں کہی گئی ہے بلکہ زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر کہی گئی ہے۔ ہماری یہاں جرائم کی پرورش اِن ہی تھانوں میں ہوا کرتی ہے۔ جس معاشرے میں تھانوں کا نیلام ہوا کرتا ہو وہاں قانون اور انصاف کا بول بالا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ منشیات کا کاروبار پولیس کی آشیر باد کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ سڑکوں اور شاہراہوں کے کنارے بیٹھے نشے میں دھت افراد کو چرس اور ہیروئن کون سپلائی کرتا ہے۔ کیا ہماری پولیس اِس حقیقت سے ناآشنا ہے۔ پھر وہ اگر اُن سے آنکھیں چرا رہی ہے تو کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی۔ مشاہدہ میں آیا ہے کہ ہر ماہ ایک کثیر رقم منشیات فروشوں اور اُس کے اسمگلروں کے جانب سے پولیس کو پہنچتی رہتی ہے۔ اِسی رقم نے اُن کی آنکھوں پر اندھے پن کی پٹی باندھی ہوئی ہے۔
حکومت اگر جرائم کے خاتمے میں سنجیدہ اور فکرمند ہے تو اُسے سب سے پہلے پولیس کے محکمے کو سدھارنا ہو گا۔ اِس کے بغیر کوئی قانون اور کوئی دستور اِس معاشرے کو جرائم سے پاک نہیں کر سکتا۔ پولیس کے محکمے کی مکمل تطہیر اب نہایت ضروری ہو چکی ہے۔ یہ چوری، ڈکیتی، رہزنی اور بھتہ خوری کی وارداتوں کے پیچھے بھی ہمیں پولیس کی مدد اور تعاون ہی دکھائی دیتا ہے۔
پولیس اگر ایماندار اور نیک فعال ہو جائے تو پھر کوئی جر م یہاں پروان نہیں چڑھ پائے گا اور کوئی مجرم طاقتور اور توانا ہو کر عوام کے سروں پر دندناتا نہیں پھرے گا۔ ہمیںجرائم پیشہ افراد کو سخت سے سخت سزا دینی ہو گی۔ جب ہم دہشت گردی کا اِس ملک سے خاتمہ کر سکتے ہیں تو پھر اِن چوروں اور ڈکیتوں کا خاتمہ کیوں نہیں۔ اِس کے لیے غیر متزلزل فولادی عزم، ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہے۔
کوئی کام ناممکن نہیں ہوتا۔ جب ہم یورپی یونین کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پھانسیوں کی سزا پر عملدرآمد جاری رکھ سکتے ہیں تو پھر منشیات کے کاروبار کرنے والوں کا سر بھی قلم کر سکتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں سعودی عرب کو مجرموں کے سرقلم کرنے سے نہیں روک سکتیں۔ ہمیں بھی خود کو اتنا آزاد اور خود مختار بنانا ہو گا۔ ہمیں اب تہیہ کرنا ہو گا کہ اِس مملکت اسلامی میں جرائم کا خاتمہ کر کے ہی دم لیں گے۔ ا س کے لیے اگر ہم اسلامی قوانین نہیں بنا سکتے تو کم از کم اپنے موجودہ تعزیری قوانین پر ہی عملدرامد کو یقینی بنا کر اپنے عوام کو سکھ اور چین فراہم کر سکتے ہیں۔ ہماری قوم اُس وقت تک تہذیب یافتہ قوموں کی برادری میں سر اُٹھا کے نہیں چل سکتی جب تک وہ جرائم پیشہ افراد سے مکمل چھٹکارا حاصل نہیں کر لیتی۔ آج اگر دنیا میں سب سے کم جرائم سعودی عرب میں ہوتے ہیں تو اُس کی کوئی وجہ تو ہو گی۔
وہاں کا قانون اور اُس قانون میں عملداری ہی اِس کی اصل وجہ ہے۔ ہمیں بھی ایسے ہی طریقوں پر غور کرنا ہو گا۔ جب تک ہم منشیات فروشوں او ر ڈکیتی کی وارداتیں کرنے والوں کو سرِ عام نہیں لٹکائیں گے وہ یہ کام بے خوف و خطر کرتے رہیں گے۔ اِس کے علاوہ ہمارے پا س کوئی آپشن نہیں ہے۔ اگر ہم یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے خوفزدہ ہو کر جرائم کی بیخ کنی میں ہچکچاہٹ اور تذبذب سے کا م لیتے رہے تو پھر یونہی تاریکی اور اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے اور فلاح اور اصلاح کا راستہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔
یہ بات ہمارے لیے بڑے تکلیف دہ اور باعثِ شرم و ندامت ہوتی ہے کہ ہر ماہ کھلے عام سر قلم کیے جانے والوں میں اکثریت پاکستانیوں کی ہوتی ہے۔ سر قلم کیے جانے کا منظر گرچہ صرف چند سیکنڈوں کا ہوتا ہے لیکن وہ منظر انتہائی ذلت آمیز اور عبرت ناک ہوتا ہے۔ اِس منظر دیکھنے والوں کو جب یہ پتہ چلتا ہے کہ سزا پانے والا شخص ایک پاکستانی تھا تو یہ سنکر یہاں رہنے والے پاکستانیوں کے سر شرم اور ندامت سے جھک جاتے ہیں۔ سعودی قوانین کی سوجھ بوجھ رکھنے کے باوجود ہمارے لوگ یہ گھناؤنا جرم کرتے رہتے ہیں اور پھر اپنے خاندان اور اپنے وطن کے لیے ذلت و رسوائی کا باعث بنتے ہیں۔
سعودی عرب میں کام کی غرض سے آنے والے غیر ملکیوں میں پاکستان کے علاوہ ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، مصر، شام، انڈونیشیا اور فلپائن سمیت دیگر ممالک کے لوگ شامل ہیں لیکن کسی اور ملک کے لو گ یہ گھناؤنا کام کرتے ہوئے شاید کئی بار سوچتے ہونگے مگر ہم پاکستانی تما م عقل شعور رکھنے کے باوجود یہ کام صرف چند لاکھ روپے کی لالچ میں کر گزر تے ہیں اور پھر ذلت آمیز موت سے ہمکنار بھی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے لیے تو بے عزتی اور رسوائی سمیٹے ہی ہیں لیکن اپنے وطن اور اپنی قوم کا نام بھی بدنام کر جاتے ہیں۔
تمام قسم کے فراڈ اور چور بازاری میں ہمارا نام دنیا میں پہلے ہی بہت مشہور ہے مگر اب منشیات کی اسمگلنگ میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ سعودی عرب میں ہر ماہ سر قلم کیے جانے والے 10 سے12 افراد میں سے 6 سے8 کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے۔ آپ تصور نہیں کر سکتے اِس خبر کے آنے کے بعد یہاں پر رہنے والے اُن پاکستانیوں کے احساسات کا کیا حال ہوتا ہو گا جب وہ ہندوستان کے لوگوں کے سامنے خود کو بہتر اور افضل کہا کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کی انتہائی سخت قوانیں کا علم رکھنے کے باوجود ہمارے لوگ یہ کام کیوں کرتے ہیں۔
کون اِنہیں اِس ذلت آمیز موت کے منہ میں دھکیلتا ہے۔ کون اِنہیں لالچ دیکر سعودی عرب بھیجتا ہے۔ ہماری حکومت اور ہماری لاء انفورسمنٹ ایجنسیاں کیا کر رہی ہے۔ وہ کیوں کوئی سخت سے سخت سزا اپنے یہاں لاگو نہیں کرتیں کہ کوئی یہ فعل ِ قبیح کرنے کی جسارت ہی نہ کرے۔ اگر یہ جرائم پیشہ افراد پاکستانی نہیں ہیں تو کون اُنہیں پاکستانی پاسپورٹ بنا کر دیتا ہے۔ وہ خواہ کوئی بھی ہوں لیکن رسوا تو ہمارا گرین پاسپورٹ ہی ہو رہا ہے۔ ہماری شناخت مجروح ہو رہی ہے۔ دنیا ہمیں جرائم پیشہ، چور اور ڈکیت سمجھنے لگی ہے۔ ایگزٹ اسکینڈل کے انکشاف کے بعد تو اِس شعبے میں ہم مزید بدنام ہو چکے ہیں۔
ہماری پارلیمنٹ اور ادارے قوانین تو بہت بنا لیتے ہیں لیکن اُن پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو پاتا۔ اُن قوانین پر عملدرآمد کے لیے ہمیں جس محکمے کا سہارا لینا پڑتا ہے وہی جب جرائم میں ملوث ہو تو پھر قانون پر عمل داری کیسے ممکن ہو۔ ہماری پولیس ہی جب اِن جرائم کی افزائش اور مجرموں کی سرپرستی کر رہی ہو تو پھر معاشرے سے جرائم کا خاتمہ کیوں کر ممکن ہو۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے تمام جرائم کے اصل آماجگاہ اور مجرموں کو اصل پناہ گاہ پولیس کا محکمہ ہی ہے۔
پولیس کی مدد اور تعاون کے بغیر کوئی جرم پھل پھول نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہماری شہری کسی چور یا ڈاکو کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیتے ہیں تو وہ اُسے پولیس کے حوالے کرنے کی بجائے خود ہی سزا دینے پر مصر ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تھانے پہنچ کر یہ مجرم چند روز بعد ہی رہا ہو کر دندنا تا پھر رہا ہو گا۔ بلکہ اب وہ پہلے سے زیادہ باہمت اور طاقتور ہو کر مزید وارداتیں کر رہا ہو گا۔ اُسے اتنا توانا اور نڈر بنانے میں کس کا ہاتھ ہے۔ حکومت کو اِس نقطے پر غور کرنا چاہیے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ اگر جیلوں سے تما م قیدی رہا کر کے اِن جیلوں میں پولیس کے لوگوں کو ہی ڈال دیا جائے تو ہمارے معاشرے سے 80 فیصد جرائم ختم ہو سکتے ہیں۔
یہ بات کوئی از راہِ مذاق نہیں کہی گئی ہے بلکہ زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر کہی گئی ہے۔ ہماری یہاں جرائم کی پرورش اِن ہی تھانوں میں ہوا کرتی ہے۔ جس معاشرے میں تھانوں کا نیلام ہوا کرتا ہو وہاں قانون اور انصاف کا بول بالا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ منشیات کا کاروبار پولیس کی آشیر باد کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ سڑکوں اور شاہراہوں کے کنارے بیٹھے نشے میں دھت افراد کو چرس اور ہیروئن کون سپلائی کرتا ہے۔ کیا ہماری پولیس اِس حقیقت سے ناآشنا ہے۔ پھر وہ اگر اُن سے آنکھیں چرا رہی ہے تو کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی۔ مشاہدہ میں آیا ہے کہ ہر ماہ ایک کثیر رقم منشیات فروشوں اور اُس کے اسمگلروں کے جانب سے پولیس کو پہنچتی رہتی ہے۔ اِسی رقم نے اُن کی آنکھوں پر اندھے پن کی پٹی باندھی ہوئی ہے۔
حکومت اگر جرائم کے خاتمے میں سنجیدہ اور فکرمند ہے تو اُسے سب سے پہلے پولیس کے محکمے کو سدھارنا ہو گا۔ اِس کے بغیر کوئی قانون اور کوئی دستور اِس معاشرے کو جرائم سے پاک نہیں کر سکتا۔ پولیس کے محکمے کی مکمل تطہیر اب نہایت ضروری ہو چکی ہے۔ یہ چوری، ڈکیتی، رہزنی اور بھتہ خوری کی وارداتوں کے پیچھے بھی ہمیں پولیس کی مدد اور تعاون ہی دکھائی دیتا ہے۔
پولیس اگر ایماندار اور نیک فعال ہو جائے تو پھر کوئی جر م یہاں پروان نہیں چڑھ پائے گا اور کوئی مجرم طاقتور اور توانا ہو کر عوام کے سروں پر دندناتا نہیں پھرے گا۔ ہمیںجرائم پیشہ افراد کو سخت سے سخت سزا دینی ہو گی۔ جب ہم دہشت گردی کا اِس ملک سے خاتمہ کر سکتے ہیں تو پھر اِن چوروں اور ڈکیتوں کا خاتمہ کیوں نہیں۔ اِس کے لیے غیر متزلزل فولادی عزم، ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہے۔
کوئی کام ناممکن نہیں ہوتا۔ جب ہم یورپی یونین کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پھانسیوں کی سزا پر عملدرآمد جاری رکھ سکتے ہیں تو پھر منشیات کے کاروبار کرنے والوں کا سر بھی قلم کر سکتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں سعودی عرب کو مجرموں کے سرقلم کرنے سے نہیں روک سکتیں۔ ہمیں بھی خود کو اتنا آزاد اور خود مختار بنانا ہو گا۔ ہمیں اب تہیہ کرنا ہو گا کہ اِس مملکت اسلامی میں جرائم کا خاتمہ کر کے ہی دم لیں گے۔ ا س کے لیے اگر ہم اسلامی قوانین نہیں بنا سکتے تو کم از کم اپنے موجودہ تعزیری قوانین پر ہی عملدرامد کو یقینی بنا کر اپنے عوام کو سکھ اور چین فراہم کر سکتے ہیں۔ ہماری قوم اُس وقت تک تہذیب یافتہ قوموں کی برادری میں سر اُٹھا کے نہیں چل سکتی جب تک وہ جرائم پیشہ افراد سے مکمل چھٹکارا حاصل نہیں کر لیتی۔ آج اگر دنیا میں سب سے کم جرائم سعودی عرب میں ہوتے ہیں تو اُس کی کوئی وجہ تو ہو گی۔
وہاں کا قانون اور اُس قانون میں عملداری ہی اِس کی اصل وجہ ہے۔ ہمیں بھی ایسے ہی طریقوں پر غور کرنا ہو گا۔ جب تک ہم منشیات فروشوں او ر ڈکیتی کی وارداتیں کرنے والوں کو سرِ عام نہیں لٹکائیں گے وہ یہ کام بے خوف و خطر کرتے رہیں گے۔ اِس کے علاوہ ہمارے پا س کوئی آپشن نہیں ہے۔ اگر ہم یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے خوفزدہ ہو کر جرائم کی بیخ کنی میں ہچکچاہٹ اور تذبذب سے کا م لیتے رہے تو پھر یونہی تاریکی اور اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے اور فلاح اور اصلاح کا راستہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔