فنانس بل کی منظوری نوازشوں کی بارش
عوام کو مبارک ہو کہ ان کے ووٹوں سے منتخب کردہ نمایندوں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ قانون کا حصہ بن گیا ہے ۔
KARACHI:
عوام کو مبارک ہو کہ ان کے ووٹوں سے منتخب کردہ نمایندوں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ قانون کا حصہ بن گیا ہے ۔ مالیاتی بل کی منظوری کے بعد ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 33 فی صد اضافہ ہوگیا ہے جب کہ سیشن الاؤنس اوردیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں، صدرمملکت ممنون حسین نے مالیاتی بل 2015-16 پر دستخط کردیے ہیں۔
قومی بجٹ پیش کیا گیا، توعوام کو امید تھی کہ انھیں ریلیف ملے گا، لیکن یہ امید بر نہ آئی ، سرکاری ملازمین اور پنشنرزکو آس تھی کہ ان کی تنخواہوں اور پنشن میں مہنگائی کے تناسب سے خاطر خواہ اضافہ، جب کہ نجی شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں کی تنخواہ کم ازکم پندرہ ہزار روپے ہوجائے گی ۔
وزیرخزانہ نے اپنی حکومت کی مجبوری، بے کسی اور مالیاتی مجبوریوں کا دکھڑا سنا کر عوام اور سرکاری ملازمین کی امیدوں پر پانی پھیردیا اور صرف ساڑھے سات فیصد کا انتہائی قلیل اضافہ کر کے ٹرخا دیا گیا ،لیکن جب ارکان پارلیمنٹ کی مراعات کا بل آیا تو حکومت اور اپوزیشن کے اراکین ایک ہوگئے ،کسی میں بھی اتنی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ وہ اسمبلی کے فلور پرکھڑے ہوکرکہتا کہ پاکستانی قوم کو جن مصائب ومشکلات کا سامنا ہے ایسے میں ہمیں اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
سچ کا توگلا گھونٹ دیا گیا ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ مراعات در مراعات کا سلسلہ ہی کرپشن کی اصل جڑ ہے۔اسمبلی کا رکن عوامی خدمت کے لیے کوئی نہیں بن رہا ،بلکہ اپنا خرچہ بمع سود پورا کرنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے،عوام کے مصائب ودکھ وآلام کا ذرہ بھر احساس کسی میں بھی نہیں۔ حد ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اورالاؤنسزکے ایکٹ 1974ء کی شق 3 میں ترمیم کے تحت ارکان کی تنخواہ 27 ہزار سے بڑھا کر 36 ہزار روپے کردی گئی ہے ۔تین لاکھ کے سفری اخراجات بھی قومی خزانے سے ادا کیے جائیں گے ۔
تنخواہوں میں اضافہ کرتے وقت نہ تو حکومت کوکوئی مشکل پیش آئی اور نہ ہی افراط زرکی شرح یاد آئی ۔جب کہ سرکاری ملازمین کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح کے حساب سے ذرہ برابر ریلیف نہیں ملا ۔اخباری بیانات،پریس کانفرنس اور جلسے جلوسوں میں ہمارے لیڈر عوام سے ہمدردی جتاتے نہیں تھکتے، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جمہوریت میں عوام رل گئے ہیں،سی این جی کی بندش سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہوجاتی ہے۔
عوام پریشان ، لوڈشیڈنگ پر قابو نہیں پایا جاسکا ، کراچی میں پانی کا بحران ،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عام آدمی کو جینے کی سزا دی جارہی ہے ، عوام کے دن رات کا سکھ چین چھین لیا گیا ہے اور ارکان اسمبلی پر نوازشوں کی بارش ہو رہی ہے یہ کیسی جمہوریت ہے کہ اس میں عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ۔
عوام کو مبارک ہو کہ ان کے ووٹوں سے منتخب کردہ نمایندوں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ قانون کا حصہ بن گیا ہے ۔ مالیاتی بل کی منظوری کے بعد ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 33 فی صد اضافہ ہوگیا ہے جب کہ سیشن الاؤنس اوردیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں، صدرمملکت ممنون حسین نے مالیاتی بل 2015-16 پر دستخط کردیے ہیں۔
قومی بجٹ پیش کیا گیا، توعوام کو امید تھی کہ انھیں ریلیف ملے گا، لیکن یہ امید بر نہ آئی ، سرکاری ملازمین اور پنشنرزکو آس تھی کہ ان کی تنخواہوں اور پنشن میں مہنگائی کے تناسب سے خاطر خواہ اضافہ، جب کہ نجی شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں کی تنخواہ کم ازکم پندرہ ہزار روپے ہوجائے گی ۔
وزیرخزانہ نے اپنی حکومت کی مجبوری، بے کسی اور مالیاتی مجبوریوں کا دکھڑا سنا کر عوام اور سرکاری ملازمین کی امیدوں پر پانی پھیردیا اور صرف ساڑھے سات فیصد کا انتہائی قلیل اضافہ کر کے ٹرخا دیا گیا ،لیکن جب ارکان پارلیمنٹ کی مراعات کا بل آیا تو حکومت اور اپوزیشن کے اراکین ایک ہوگئے ،کسی میں بھی اتنی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ وہ اسمبلی کے فلور پرکھڑے ہوکرکہتا کہ پاکستانی قوم کو جن مصائب ومشکلات کا سامنا ہے ایسے میں ہمیں اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
سچ کا توگلا گھونٹ دیا گیا ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ مراعات در مراعات کا سلسلہ ہی کرپشن کی اصل جڑ ہے۔اسمبلی کا رکن عوامی خدمت کے لیے کوئی نہیں بن رہا ،بلکہ اپنا خرچہ بمع سود پورا کرنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے،عوام کے مصائب ودکھ وآلام کا ذرہ بھر احساس کسی میں بھی نہیں۔ حد ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اورالاؤنسزکے ایکٹ 1974ء کی شق 3 میں ترمیم کے تحت ارکان کی تنخواہ 27 ہزار سے بڑھا کر 36 ہزار روپے کردی گئی ہے ۔تین لاکھ کے سفری اخراجات بھی قومی خزانے سے ادا کیے جائیں گے ۔
تنخواہوں میں اضافہ کرتے وقت نہ تو حکومت کوکوئی مشکل پیش آئی اور نہ ہی افراط زرکی شرح یاد آئی ۔جب کہ سرکاری ملازمین کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح کے حساب سے ذرہ برابر ریلیف نہیں ملا ۔اخباری بیانات،پریس کانفرنس اور جلسے جلوسوں میں ہمارے لیڈر عوام سے ہمدردی جتاتے نہیں تھکتے، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جمہوریت میں عوام رل گئے ہیں،سی این جی کی بندش سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہوجاتی ہے۔
عوام پریشان ، لوڈشیڈنگ پر قابو نہیں پایا جاسکا ، کراچی میں پانی کا بحران ،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عام آدمی کو جینے کی سزا دی جارہی ہے ، عوام کے دن رات کا سکھ چین چھین لیا گیا ہے اور ارکان اسمبلی پر نوازشوں کی بارش ہو رہی ہے یہ کیسی جمہوریت ہے کہ اس میں عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ۔