میرے شاہ صاحب
یہ لاہور شہر کی اس عجوبہ شخصیت سے میری پہلی ملاقات تھی جو میری زندگی میں اب تک حرف بہ حرف سچ ثابت ہو رہی ہے
کئی برس پہلے کی بات ہے میں لاہور میں ایک اجنبی کی حالت میں راوی کے اس پار بس سے اترا چھوٹے سے ناقابل ذکر دیہات کا ایک لڑکا پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہور میں تعلیم کے لیے آیا جہاں ہزاروں طلبہ پہلے سے موجود تھے اور وہ یوں بالکل تنہا تھا کہ اس شہر میں اس کا نہ کوئی دوست تھا نہ رشتہ دار۔ مجھے اتنا کہا گیا کہ لاہور میں داتا گنج بخش تیری حفاظت کریں گے اور اس اجنبی شہر میں یہی میری سب سے بڑی تسلی اور سہارا تھی۔
یوں تو میرے ماموں خان بہادر ملک نور محمد اسی شہر میں ایک اعزازی افسر تھے اور ان کے بیٹے میرے رشتہ دار ہی نہیں دوست بھی تھے لیکن میں نے لاہور کا سامنا تن تنہا کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر اسی شہر میں مجھے بعض ایسے دوست بھی مل گئے جنہوں نے میری تنہائی ختم کر دی اور لاہور کو میرے لیے دوسرا گھر بنا دیا۔ دوستوں اور کرمفرماؤں کا یہ سلسلہ جاری رہا اور جاری ہے۔
اس دوران ایک عجیب اتفاق یہ ہوا کہ میں جس نے لاہور میں صحافت کا پیشہ اختیار کر لیا تھا ایک دن میرا ایک دوست اور معروف صحافی احمد بشیر مرحوم مجھ سے ملنے آیا اور کہا کہ تجھ سے فلاں صاحب جو صاحب کرامت ہیں ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے ایک تو احمد بشیر کی ترقی پسندی کو دیکھا دوسرے کسی صاحب کرامت اور صوفی کے ساتھ ان کے تعلق پر غور کیا اور کہا کہ ضرور ملیں گے لیکن یہ ٹالنے والی بات تھی اس پر کئی ماہ گزر گئے تو احمد بشیر ایک دن غصے میں ملنے آیا اور کہا کہ چلو میرے ساتھ چنانچہ اس طرح سید سرفراز احمد شاہ صاحب سے میری پہلی نیاز مندانہ ملاقات کرائی گئی لیکن اس ملاقات نے مجھے حیران اور پریشان کر دیا۔ میں نے شاہ صاحب کی بات سنی اور مجھے چپ سی لگ گئی۔
میں کچھ کہہ نہ سکا شاہ صاحب نے مجھ پر میرا ایک راز افشا کر دیا کہ میں اس غیر صوفیانہ جدید شکل و صورت کے ایک بے تکلف صوفی کو حیرت زدہ ہو کر دیکھتا ہی رہ گیا۔ قبلہ شاہ صاحب نے مجھے میری حضور پاک سرور کائنات ﷺ کے دربار میں ایک حاضری یاد دلائی اور وہ دعا جو میں نے مانگی تھی۔ حضور پاک کے روضہ مبارک کے سامنے جو کھڑا ہوتا ہے وہ دنیا جہاں سے بے خبر ہو جاتا ہے اور کیا کچھ کہتا ہے اس کا علم صرف حضور پاک کو ہوتا ہے یا فریادی اور دعا کرنے والے کو۔ کوئی تیسرا نہیں بتا سکتا کہ کسی فریادی نے کیا عرض کیا۔
ہر کوئی اپنے اپنے حال میں گم ہوتا ہے۔ میں جب مواجہ شریف کے سامنے کھڑا تھا تو حکومت کے کارندے وہاں لوگوں کو جلد از جلد فارغ ہونے اور جگہ خالی کرنے کا کہہ رہے تھے لیکن میرے سامنے سے دو تین بار سعودی کارکن گزرے میری طرف دیکھا اور آگے بڑھ گئے۔ مجھے کچھ نہ کہا۔ بہر کیف میں اپنے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کچہری اور دربار سے باہر نکل آیا اور میری دعا میرے پاس ہی رہ گئی۔
ہر دعا اس کے طلب گار کا اثاثہ بن کر اس کے پاس رہ جاتی ہے۔ جناب سید سرفراز شاہ صاحب نے پہلے تو مجھے میری یہ دعا حرف بہ حرف یاد دلائی اور دہرائی۔ میں اس صفا چٹ جدید چہرے کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ ایک ناقابل بیان تعجب اور حیرت کے ساتھ جیسے میں جو عرض کر رہا تھا شاہ صاحب اسے سن رہے تھے۔ پھر انھوں نے میری حیرت میں بے پناہ اضافہ کرتے ہوئے مجھے یہ خوشخبری دی کہ میں نے جو کچھ عرض کیا ہے وہ منظور فرما لیا گیا ہے۔ میں نے کمال حیرت اور بظاہر ایک غیریقینی کیفیت میں یہ سب کچھ سنا اور مجھے نہیں یاد کہ مجھ میں پھر اتنی سکت باقی رہی یا نہ رہی کہ میں شاہ صاحب سے ہاتھ ملا کر رخصت ہوا یا اسی عالم میں اٹھ آیا۔
یہ لاہور شہر کی اس عجوبہ شخصیت سے میری پہلی ملاقات تھی جو میری زندگی میں اب تک حرف بہ حرف سچ ثابت ہو رہی ہے۔ اب میں جب بھی شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں تو وہ مسکرا کر فرماتے ہیں کہ تم چپ رہو۔ تمہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے تمہارے کام ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں اور کیا چاہتے ہو البتہ میں اپنے عزیزوں کی فرمائشوں کا ذکر کیا کرتا ہوں۔ میں اپنی بیٹی کی شادی کے بعد شاہ صاحب سے ملا تو انھوں نے بیٹے کی خوشخبری دی اور اس کا نام بھی تجویز کر دیا۔
انس۔ اس کی خوش قسمتی کے لیے دعا بھی کی۔ وہ اپنی قابلیت اور محنت کے نتیجے میں امریکا کے ایک معروف کالج سے گریجوایشن کر کے اور ایک دوسری بہت بڑی یونیورسٹی میں اپنی تعلیمی قابلیت سے داخلہ لے کر آیا ہے یہ داخلہ بہت مشکل تھا تو وہ شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے کہا شاہ صاحب یہ ہے اور انھوں نے مجھے روک کر کہا کہ 'انس'۔ میں نے کہا جی ہاں۔ میں نے شاہ صاحب کو اس کی تعلیمی کامیابی کا نہیں بلکہ اس کی اس بات کا بتایا کہ اس نے اپنے کالج میں دو چار مسلمان طلبہ تلاش کر لیے تھے اور وہ ان کو جمعہ کی نماز پڑھاتا تھا میں مزید کچھ کہنا چاہتا تھا تو شاہ صاحب نے کہا کہ یہ نوجوان ہے اور امریکا کے ایک کو ایجوکیشن والے ادارے میں پڑھتا ہے اس لیے تم اب چپ رہو۔ اسے آزاد چھوڑ دو۔
جناب شاہ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے 'کشف' کی صلاحیت سے نوازا ہے۔ جب آپ دعا کے لیے کہتے ہیں اور اپنا مقصد بیان کرتے ہیں تو وہ چند لمحوں کے لیے سر جھکا کر گویا دل ہی دل میں آپ کی بات دہراتے ہیں یا نہ جانے کیا کرتے ہیں پھر وہ جو آپ کو بتا دیں آپ کے لیے مناسب یہی ہے کہ اسے تسلیم کر لیں۔ نذر و نیاز کا کوئی سوال نہیں ہے شاہ صاحب ایک کامیاب بیورو کریٹ تھے اب بھی وہ مشاورت کرتے ہیں اور اس کا معاوضہ پاتے ہیں۔ آپ کے لیے وہ صرف رہنمائی کا ایک اعزازی ذریعہ ہیں جو مجھ سے پوچھیں تو ان سے ایک صحیح رہنمائی ملتی ہے۔ میں اب بھی کسی کام کے سلسلے میں ان سے رابطہ کرتا ہوں تو وہ اپنے 'کشف' کی مدد سے مجھے درست مشورہ عطا کرتے ہیں۔
محترم شاہ صاحب ہفتہ اتوار کو لاہور کے علامہ اقبال ٹاؤن کے جہانزیب بلاک میں بیٹھتے ہیں اگر انھیں لاہور سے باہر جانا ہو تو ظاہر ہے غیر حاضری ہوتی ہے۔ یہاں وہ لاتعداد لوگوں سے ملتے ہیں اور ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں جو علم عطا کیا ہے وہ خلق خدا کو اس سے محروم نہیں رکھتے۔ اسے عام کرتے ہیں۔ میرے لیے تو وہ لاہور کے اجنبی شہر میں ایک تعارف ہیں۔ میں پوری کوشش کرتا ہوں کہ ان کو زحمت نہ دیا کروں لیکن پھر بھی دنیا کے کام نکل آتے ہیں۔
شاہ صاحب پر لکھنا ہو تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا لیکن جس طرح ان کا فیض جاری رہتا ہے ان کا ذکر بھی جاری رہتا ہے۔ میں نے ان سے ایک سیاسی مشورہ لیا تو میرے سوال کا جواب میرا پسندیدہ نہیں تھا انھوں نے مسکرا کر میری مایوسی کو دیکھا اور کہا کہ سوال کا جواب تو یہی آیا ہے۔ میں ذاتی طور پر قبلہ شاہ صاحب کو اپنا مستقل سرپرست سمجھتا ہوں وہ ہر عقیدت مند کے سرپرست ہیں خدا انھیں لاہوریوں کے لیے سلامت رکھے اور انھیں حضرت علی ہجویریؒ سے جو ہدایات ملتی ہیں وہ انھیں پھیلاتے رہیں۔ شاہ صاحب کی صحت ہمیں مطلوب ہے خدا انھیں سلامت رکھے۔