معرکہ بدر اور عصر حاضر
انبیائے کرامؑ کی آمد کا یہ سلسلہ مختلف علاقوں، مختلف ادوار و حالات میں جاری رہا۔
ہم انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ جب ہمارے معاشرے پستی کی گہرائیوں میں گر گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح اور راہ نمائی کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔
انبیائے کرامؑ کی آمد کا یہ سلسلہ مختلف علاقوں، مختلف ادوار و حالات میں جاری رہا۔ یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ اس دنیا میں بسنے والے انسانوں اور بگڑے ہوئے معاشروں کو سیدھا راستہ دکھانے کے لیے رونق افروز ہوئے۔ اور انبیاء ومرسلین کی آمد کا سلسلہ اختتام پذیر ہوگیا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے معاشروں کی رہنمائی اورکامیابی کے لیے ایسے اصول اور قوانین مقرر فرمائے جو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔
جو فرد یا معاشرہ کامیاب زندگی گزارنا چاہے اس کے لیے آپ ﷺ کے بتائے ہوئے اصول وقوانین پر عمل کرنا از بس ضروری ہے لیکن یہ بھی ایک فطری حقیقت ہے کہ حق وباطل کی آویزش زندگی کے ابتدائی ایام سے ہی جاری ہے، جہاں حق نے انسانیت کی فلاح و بہبود اور رہنمائی کا مشن شروع کیا وہیں باطل بھی سرپٹ دوڑا چلایا اور حق کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کر دیے۔ آپ ﷺ نے جیسے ہی اپنی ذمے داریاں ادا کرنی شروع کیں تو باطل نے آپ ﷺ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنی شروع کی اور جہاں موقع ملا، زبانی ہی نہیں عملی، ایذا رسانی سے بھی پیچھے نہیں رہا۔
مکی دور اپٓ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے سخت ترین دور تھا۔ ہر گھڑی ابتلا و آزمائش سے بھرپور اور ہر لمحہ صبر آزما حادثات سے معمور تھا۔ آخرکار ہجرت کا حکم نازل ہوا اور رفتہ رفتہ صحابہ کرام اور آخر میں آپ ﷺ بھی مکہ مکرمہ سے ہجرت فرماگئے۔ ہجرت کے بعد مسلمانوں کا ٹھکانہ مدینہ منورہ بنا۔ مکہ مکرمہ سے مسلمانوں کی ہجرت کے بعد مشرکین مکہ چین سے نہیں بیٹھے تھے بلکہ انھوں نے مسلسل اپنی کارروائیاں جاری رکھی تھیں اور پھر 2ہجری 17رمضان المبارک کو معرکہ حق و باطل پیش آیا۔ 2ھ رمضان المبارک میں جب کہ بھوک وپیاس کی شدت کے ذریعے اہل ایمان کو تقویٰ سے نوازا جارہا تھا کہ مشیت ایزدی نے اپنے پیارے رسول ﷺ اور بے سروسامان قافلہ حق کے شہسواروں کو ایک اور آزمائش میں ڈال کر سرخ رو ہونے کا سامان پیدا فرمادیا۔
غزوہ بدرکے موقعے پر اہل ایمان جو اس قافلے یا لشکر میں شامل تھے، ان کی کل تعداد 313 تھی اور کسی قسم کی جنگی تیاری بھی نہ تھی۔ کسی کے پاس تلوار تھی تو زرہ نہیں تھی، اور کسی کے پاس تیر تھا تو کمان نہیں تھی۔ اور جاں نثار بھی ایسے تھے کہ جن کی اکثریت یعنی انصار مدینہ کو جنگ و جدال سے کوئی واسطہ بھی نہ پڑا تھا اور مجاہدین میں نوجوانوں کے علاوہ بوڑھے اور نو عمر بچے بھی شامل تھے۔
اس موقعے پر نبی رحمت ﷺ نے عاجزی و انکساری سے رب کے حضور یوں دعا فرمائی '' اے اللہ! اگر آج یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو آیندہ تیری عبادت نہ کی جائے گی، آپ ﷺ کی دعاؤں کا اثر یہ ہوا کہ رب کائنات نے تسلی دیتے ہوئے وحی نازل فرمائی کہ : میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہل ایمان کے قدم جماؤ، میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا۔ (الانفال آیت نمبر 12) اسی طرح مزید فرمایا: میرے حبیب ﷺ پریشان نہ ہوں، بلکہ میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا جو آگے پیچھے آئیں گے۔ (سورۃ الانفال)
یہ معرکہ مشرکین مکہ کی عبرتناک شکست اور اہل ایمان کی فتح مبین پر ختم ہوا۔ مسلمانوں کو تعداد میں کم ہونے کے باوجود فتح نصیب ہوئی۔ کفار کا تکبر خاک میں مل گیا۔ حق چھاگیا، باطل ہارگیا، ایمان اورکفر نے مشاہداتی نتائج کے اعتبار سے مقام پایا۔ مسلمانوں نے ایمانی طاقت اور اللہ تعالیٰ کی اعانت سے کامیابی حاصل کی۔ کفر اپنے تکبر کے ہاتھوں تا قیامت باعث عبرت ٹھہرا۔
غزوہ بدر میں آج کے ماحول کے مطابق کئی اسباق موجود ہیں۔ آج کشمیر سے چیچنیا تک اور افغانستان سے فلسطین تک مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور پھر بھی دہشتگردی کا لیبل مسلمانوں ہی پر چسپاں ہے۔ اقوام عالم کی دو رنگی اور منافقت تو ایک طرف خود مسلم حکمرانوں کی بے حسی بھی عروج پر ہے۔ ایک وقت تھا کہ تعداد میں قلیل ہونے کے باوجود مسلمانوں نے اس دورکی دو سپر پاورز، روم اور فارس کو ریت کے گھروندوں کی مانند روند کر ان ملکوں میں اللہ کی حکومت قائم کردی تھی اور ایک وقت آج ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اپنی اپنی جگہ مشکلات، بحران اور مصائب میں مبتلا ہیں۔
برما اور فلسطین کے مظلوم مسلمان بچے، عورتیں، بوڑھے چیخ چیخ کر دنیا بھر میں پھیلے ڈیڑھ ارب مسلمانوں اور پچاس سے زائد اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو اپنی مدد کے لیے پکار رہے ہیں مگر افسوس۔ ان کی مدد کے لیے رمضان المبارک کی ان ساعتوں کو قیمتی بنانا ہو گا۔ یہ دوسرا عشرہ ہے جو عشرہ مغفرت کہلاتا ہے اسی عشرے میں مغفرت سمیٹنی ہوگی۔