ایک ایٹم کے مساوی دنیا کا سب سے چھوٹا بلب
پروفیسر کا کہنا ہے کہ ایڈیسن نے بھی اپنے بلب میں کاربن کو فلامنٹ کے طور پر استعمال کیا تھا
یہ برق رفتار اور انتہائی کم جسامت والے آلات اور اشیا کی تیاری کا دور ہے۔
زیادہ وزنی اورجگہ گھیرنے والے مختلف آلات اورمشینوں کے مقابلے میں چند برسوں کے دوران اسمارٹ ڈیوائسز متعارف کروائی گئی ہیں، جو صارفین میں مقبول ہورہی ہیں۔ اسی مقبولیت اور صارف کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے گذشتہ عشرے کے دوران سائنس دانوں نے نینوٹیکنالوجی پر خوب کام کیا ہے اور یہ ٹیکنالوجی مختلف شعبوں میں انقلاب کا سبب بنی ہے۔
اب اسی کی بدولت مضبوط ترین میٹیریل، گرافین پر کام کیا جارہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس حیرت انگیز عنصر کی نت نئی خصوصیات سامنے آرہی ہیں۔ حال ہی میں سائنس دانوں نے نینوٹیکنالوجی سے مدد لیتے ہوئے دنیا کا سب سے چھوٹا ' بلب' تیار کرلیا ہے جس کی موٹائی محض ایک ایٹم کے مساوی ہے۔ یہ بلب گرافین کے ایٹم سے بنایا گیا ہے۔ کولمبین یونیورسٹی کے محققین کے مطابق انھوں نے کاربن کی خالص ترین شکل (گرافین) میں روشنی کا لچک دار اور شفاف ماخذ دریافت کرلیا ہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ان کی یہ دریافت کمپیوٹر انڈسٹری میں انقلاب برپا کرسکتی ہے۔ کیوں کہ مستقبل میں ایسے کمپیوٹر بنائے جاسکیں گے جن کے چپ بورڈ میں الیکٹرونک سرکٹ کا کام یہ روشنی انجام دے گی۔
تھامس ایڈیسن کی ایجاد، بلب کی شکل حالیہ برسوں کے دوران بالکل بدل چکی ہے اور ایڈیسن کا ایجاد کردہ بلب قریب قریب ماضی بن چکا ہے۔ روایتی بلب کی جگہ اب کومپیکٹ فلوریسنٹ لیمپس ( CFLs ) یا انرجی سیور، لائٹ امیٹنگ ڈائی اوڈز ( LEDs) نے لے لی ہے۔ ان کے علاوہ نامیاتی ایل ای ڈیز بھی مارکیٹ میں دست یاب ہیں۔
تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر ینگ کم کے مطابق بلب بنانے والی کمپنیاں گرافین کو اپنی مصنوعات میں حرارت بڑھانے کے لیے استعمال کرتی ہیں تاہم ان کی ریسرچ گرافین میں سے روشنی کے اخراج سے متعلق ہے۔
پروفیسر ینگ اور ان کی ٹیم نے گرافین میں سے روشنی کے اخراج پر تحقیق کا آغاز چار برس قبل کیا تھا۔ اس وقت انھیں اس کا سبب معلوم نہیں تھا کہ گرافین میں سے اخراج نور کیوں ہوتا ہے۔ تحقیق کے دوران ان پر واضح ہوا کہ گرافین کے باریک باریک ٹکڑوں سے بنے ہوئے فلامنٹ میں سے اگر کرنٹ گزارا جائے تو اس کا درجۂ حرارت 2500 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔ اس درجۂ حرارت پر روشنی پیدا ہوتی ہے جسے انسانی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ گرم ہونے پر گرافین حرارت کا خراب موصل بن جاتا ہے، یعنی اس میں سے ایصال حرارت نہیں ہو پاتا۔ چناں چہ حرارت اس کے مرکز میں جمع ہوجاتی ہے، جو روشنی کی صورت میں خارج ہوتی ہے۔
پروفیسر کا کہنا ہے کہ ایڈیسن نے بھی اپنے بلب میں کاربن کو فلامنٹ کے طور پر استعمال کیا تھا۔ ہم نے بھی کاربن کا استعمال کیا ہے، مگر اس کی خالص ترین شکل یعنی گرافین کو یک ایٹمی پرت کی صورت میں۔ سائنس داں اگلے مرحلے میں اس ٹیکنالوجی کو وسیع پیمانے پر قابل استعمال بنانے پر کام کریں گے، جس میں پانچ برس کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اس مرحلے میں کام یابی کے بعد یک ایٹمی بلب کو شفاف اور لچک دار لائٹ ڈسپلے کی تیاری میں استعمال کیا جاسکے گا۔
زیادہ وزنی اورجگہ گھیرنے والے مختلف آلات اورمشینوں کے مقابلے میں چند برسوں کے دوران اسمارٹ ڈیوائسز متعارف کروائی گئی ہیں، جو صارفین میں مقبول ہورہی ہیں۔ اسی مقبولیت اور صارف کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے گذشتہ عشرے کے دوران سائنس دانوں نے نینوٹیکنالوجی پر خوب کام کیا ہے اور یہ ٹیکنالوجی مختلف شعبوں میں انقلاب کا سبب بنی ہے۔
اب اسی کی بدولت مضبوط ترین میٹیریل، گرافین پر کام کیا جارہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس حیرت انگیز عنصر کی نت نئی خصوصیات سامنے آرہی ہیں۔ حال ہی میں سائنس دانوں نے نینوٹیکنالوجی سے مدد لیتے ہوئے دنیا کا سب سے چھوٹا ' بلب' تیار کرلیا ہے جس کی موٹائی محض ایک ایٹم کے مساوی ہے۔ یہ بلب گرافین کے ایٹم سے بنایا گیا ہے۔ کولمبین یونیورسٹی کے محققین کے مطابق انھوں نے کاربن کی خالص ترین شکل (گرافین) میں روشنی کا لچک دار اور شفاف ماخذ دریافت کرلیا ہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ان کی یہ دریافت کمپیوٹر انڈسٹری میں انقلاب برپا کرسکتی ہے۔ کیوں کہ مستقبل میں ایسے کمپیوٹر بنائے جاسکیں گے جن کے چپ بورڈ میں الیکٹرونک سرکٹ کا کام یہ روشنی انجام دے گی۔
تھامس ایڈیسن کی ایجاد، بلب کی شکل حالیہ برسوں کے دوران بالکل بدل چکی ہے اور ایڈیسن کا ایجاد کردہ بلب قریب قریب ماضی بن چکا ہے۔ روایتی بلب کی جگہ اب کومپیکٹ فلوریسنٹ لیمپس ( CFLs ) یا انرجی سیور، لائٹ امیٹنگ ڈائی اوڈز ( LEDs) نے لے لی ہے۔ ان کے علاوہ نامیاتی ایل ای ڈیز بھی مارکیٹ میں دست یاب ہیں۔
تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر ینگ کم کے مطابق بلب بنانے والی کمپنیاں گرافین کو اپنی مصنوعات میں حرارت بڑھانے کے لیے استعمال کرتی ہیں تاہم ان کی ریسرچ گرافین میں سے روشنی کے اخراج سے متعلق ہے۔
پروفیسر ینگ اور ان کی ٹیم نے گرافین میں سے روشنی کے اخراج پر تحقیق کا آغاز چار برس قبل کیا تھا۔ اس وقت انھیں اس کا سبب معلوم نہیں تھا کہ گرافین میں سے اخراج نور کیوں ہوتا ہے۔ تحقیق کے دوران ان پر واضح ہوا کہ گرافین کے باریک باریک ٹکڑوں سے بنے ہوئے فلامنٹ میں سے اگر کرنٹ گزارا جائے تو اس کا درجۂ حرارت 2500 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔ اس درجۂ حرارت پر روشنی پیدا ہوتی ہے جسے انسانی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ گرم ہونے پر گرافین حرارت کا خراب موصل بن جاتا ہے، یعنی اس میں سے ایصال حرارت نہیں ہو پاتا۔ چناں چہ حرارت اس کے مرکز میں جمع ہوجاتی ہے، جو روشنی کی صورت میں خارج ہوتی ہے۔
پروفیسر کا کہنا ہے کہ ایڈیسن نے بھی اپنے بلب میں کاربن کو فلامنٹ کے طور پر استعمال کیا تھا۔ ہم نے بھی کاربن کا استعمال کیا ہے، مگر اس کی خالص ترین شکل یعنی گرافین کو یک ایٹمی پرت کی صورت میں۔ سائنس داں اگلے مرحلے میں اس ٹیکنالوجی کو وسیع پیمانے پر قابل استعمال بنانے پر کام کریں گے، جس میں پانچ برس کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اس مرحلے میں کام یابی کے بعد یک ایٹمی بلب کو شفاف اور لچک دار لائٹ ڈسپلے کی تیاری میں استعمال کیا جاسکے گا۔