مصنوعی سیاروں کی حفاظت کا امریکی منصوبہ

خلائی جنگی مرکز کا قیام اسپیس سیکیورٹی سے متعلق منصوبے کا حصہ ہے


غ۔ع July 02, 2015
خلائی ٹیکنالوجی کے حامل ممالک کو ’اسپیس وار‘ کی طرف دھکیل سکتا ہے  ۔ فوٹو : فائل

امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے ارضی مدار میں 'اسپیس وار سینٹر' تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ گذشتہ دنوں واشنگٹن میں ہونے والی مجلس مذاکرہ میں یہ اعلان ڈپٹی ڈیفنس سیکریٹری رابرٹ ورک نے کیا۔

اپنے بیان میں رابرٹ نے کہا،''اگر کوئی دشمن ہم سے خلا چھیننے میں کام یاب ہوجاتا ہے تو اس خطے ( خلا) کے حوالے سے کی جانے والی مصالحتی کوششوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔'' اس بیان سے بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ خلائی جنگی مرکز کے قیام کا مقصد چین اورروس کے اینٹی سیٹیلائٹ حملوں سے امریکی مصنوعی سیاروں کو تحفظ دینا ہے۔ خلا میں مجوزہ جنگی مرکزسے امریکا کے تمام مصنوعی سیاروں پرنگاہ رکھی جائے گی۔ یہ پہلا موقع ہوگا جب ارضی مدار میں محوگردش، سپر پاور کے ہر مصنوعی سیارے کو ایک ہی مقام سے مانیٹر کیا جائے گا۔

امریکا کی جانب سے یہ اعلان چین اور روس کی طرف سے، زمین سے خلا میں مصنوعی سیاروں کو تباہ کیے جانے کے کام یاب تجربات کے بعد سامنے آیا ہے۔ برسوں سے طاقت ور اور جدید ٹیکنالوجی کے حامل ممالک ارضی مدار پر اپنی حاکمیت کی خواہش میں تجربات کررہے ہیں۔

چاند اور دیگر سیاروں پر زندگی کے آثار تلاش کرنے کے ساتھ ان کی کوشش ہے کہ وہاں قبضہ کرکے دنیا پر اپنی برتری ثابت کی جائے۔ اگرچہ ابھی یہ بہت دور کی بات لگتی ہے، لیکن خلا اور مریخ پر تحقیق اور تجربات کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے اور مختلف ملکوں کے خلائی مشن اس طرف بھیجے جاچکے ہیں۔ آنے والے دنوں میں کئی اور ممالک بھی خلائی ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے کے بعد مشن روانہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ اس سلسلے میں پچھلے دنوں یو اے ای کا نام بھی سامنے آیا تھا، جو مریخ کی طرف رواں سال ایک مشن بھیجنے کی تیاری کررہا ہے۔

چین نے 2007 میں زمین کے زیریں مدار میں ایک مصنوعی سیارے کو تباہ کرنے کا تجربہ کیا تھا۔ مصنوعی سیارے کو ایک میزائل کے ذریعے تباہ کیا گیا تھا۔ اس تجربے پر کڑی تنقید کی گئی تھی، کیوں کہ اس کے نتیجے میں خلا میں بڑی مقدار میں ملبا بکھر گیا تھا۔ واضح رہے کہ خلا میں گردش کرتے ہوئے چھوٹے بڑے ٹکڑے، مصنوعی سیاروں کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔

اسے ماہرین خلائی آلودگی کا نام دے رہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ موجودہ عہد میں طاقت ور ملکوں کی خلا سے متعلق غلط پالیسیاں اور بعض اقدامات کئی برسوں بعد انسانوں کے لیے مشکلات کا باعث بنیں گے۔ اس نوع کا دوسرا تجربہ 2010 میں کیا گیا۔ اس تجربے کے دوران زیادہ بلندی پر موجود مصنوعی سیارے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ سیٹیلائٹ جیو اسٹیشنری آربٹ میں تھا۔ بیش تر مواصلاتی سیارے اسی مدار میں موجود ہوتے ہیں۔ روس بھی مصنوعی سیاروں کو تباہ کرنے کی صلاحیت کا اظہار کرچکا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ امریکا نے چین اور روس کے ڈر سے خلائی جنگی مرکز کے قیام کا ارادہ کیا ہے اور وہ انہیں اپنے خلائی مشنز کا دشمن بتاتا ہے، مگر خود امریکا بھی خلا میں مصنوعی سیارے تباہ کرنے کے تجربات کرچکا ہے۔ تیرہ ستمبر 1985 کو امریکا نے پہلا اینٹی سیٹیلائٹ ٹیسٹ کیا تھا۔ تین سال کے بعد، 1988 میں زمین سے مصنوعی سیاروں کو نشانہ بنانے کا پروگرام ختم کردیا گیا تھا۔

بعدازاں چینی تجربے کے جواب میں 21 فروری 2008 کو جنگی بحری جہاز یو ایس ایس لیک ایری سے میزائل داغا گیا جس نے خلا میں گردش کرتے ایک ناکارہ مصنوعی سیارے کے پرخچے اڑا دیے۔ یہ تجربہ اس بات کی علامت تھا کہ امریکا، چین اور روس کے درمیان خلا پر حکم رانی کے حوالے سے تناؤ بڑھ رہا ہے اور مستقبل میں ان ممالک کے درمیان خلائی برتری حاصل کرنے کے لیے زبردست جنگ ہو سکتی ہے۔

خلائی جنگی مرکز کا قیام اسپیس سیکیورٹی سے متعلق منصوبے کا حصہ ہے، جس کے لیے محکمۂ دفاع کو پانچ ارب ڈالر فراہم کیے گئے ہیں۔ مصنوعی سیاروں کی حفاظت کے علاوہ خلائی جنگی مرکز کا ایک اور مقصد مصنوعی سیاروں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو ایک ہی جگہ مربوط کرنا بھی ہے۔

رابرٹ ورک نے اسپیس وار سینٹر قائم کرنے کا اعلان تو کردیا، مگر یہ نہیں بتایا کہ مصنوعی سیاروں کو وہ اپنے دشمن کے حملوں سے کس طرح بچائیں گے۔ خیال ہے کہ حملے کا خطرہ محسوس ہوتے ہی اس بارے میں معلومات اور تصاویر فوری طور پر فوج کے کیلیفورنیا میں قائم جوائنٹ اسپیس آپریشنز سینٹر کو بھیجی جائیں گی۔ یہ سینٹر متوقع حملے کا تدارک کرنے کے لیے اقدامات کرے گا۔ زمین سے مصنوعی سیاروں کی تباہی کے تجربات اور حالیہ امریکی اعلان اس بات کا اشارہ ہے کہ زمین کے بعد اب خلا بھی میدانِ جنگ بننے جارہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔