فریبِ زندگی

’میں صبح کی فلائٹ سے ملک سے باہر جارہا ہوں اپنی پاک باز بیوی کے ساتھ ایک نئی زندگی بسر کرنے۔‘


زید عفان July 02, 2015
میں سوچ رہا تھا یہ کہانی اس نے مجھے نہیں بلکہ اپنے سات سال پہلے کے دوست کو سنائی تھی لیکن اس کے لیے کہ میرے دل میں شاید اب وہ جزبات موجود نہیں تھے۔

'میں نے کئی بار موت مانگی'۔ میں نے اسے نظر اٹھا کر دیکھا، 'مگر اب میں جینا چاہتا ہوں۔!' زندگی بہت آگے بڑھ چکی تھی، یہ وہ علی نہیں تھا جس کے ساتھ میرے کچے پکے ذہنی دور میں جگری یاری تھی۔ ہم ہمیشہ اسکول میں ساتھ بیٹھا کرتے تھے، ساتھ کھیلا کرتے تھے، ایک دوسرے کے بغیر لنچ تک نہیں کرتے تھے، اسکول میں اکثر لڑکے ہم پر آوازیں کستے تھے، 'ہیکل جیکل'، 'یاجوج ماجوج'، اور کبھی کوئی ایک چھٹی کرلیتا تو ٹیچر ہی پوچھ بیٹھتے، 'کدھر ہے تمہارا جوڑی دار'؟

آج سرِ راہ وہ مجھے نظر آیا تو اسے قریبی ہوٹل پر بٹھالیا ۔۔۔ زندگی اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ رواں دواں تھی۔ رات کے آٹھ بجے تھے اور اس وقت ہوٹل پر بہت رش ہوتا تھا۔ ہوٹل والے لڑکے نے آکر ہماری میز پر پڑا ایش ٹرے اٹھایا اور ساتھ گری راکھ صاف کی جو یقیناً ہم سے پہلے بیٹھنے والوں نے گرائی ہوگی۔ میں اس دوران بار بار علی کے چہرے اور اس کے حلیے کو دیکھتا تو دل کی پکار پھر کانوں میں سنائی دیتی کہ یہ وہ علی نہیں ہے جس کے ساتھ میرے ماضی کے اتنے سال جڑے ہیں۔ میں جس علی کو جانتا تھا وہ زندہ دل تھا، گھلنے ملنے والا، خوش رہنے اور رکھنے والا. میری والدہ جب اس سے ملتیں تو مجھے کہتیں، 'علی جتنے اچھے بنو!'، اور میں دوست کی تعریف کو اپنی تعریف سمجھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتا تھا۔

اچانک علی کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی، 'کہاں سوگیا بھائی اور تو کہاں تھا اتنا عرصہ'؟ میں نے اسے پچھلے سات سال کے موٹے موٹے واقعات اور ملنے والے تمغوں کے بارے میں بتایا۔ وہ میری باتیں سنتے ہوئے دھیرے لب مسکراتا رہا جیسے اس کو پہلے ہی میرے بارے میں اندازہ ہو اور کیوں نہ ہو ہم نے بچپن میں جو خواب دیکھے تھے وہ ایک ساتھ دیکھے تھے۔ مگر اس کی مسکراہٹ میں عجیب بے چینی تھی۔ میں اس کی آنکھوں میں دیکھنے سے قاصر تھا۔ بلکہ میں اس سے پوچھنے سے بھی قاصر تھا کہ تم نے پچھلے سات سال کیا کیا؟ ماحول میں پلیٹیں، چمچوں اور چائے کی پیالیوں کے بجنے کی آوازیں تھی اور ہر کچھ دیر میں مختلف آوازیں آتیں، 'چھوٹے دو دودھ پتی کڑک!'، 'تازہ نان دینا خان صاحب!' ۔۔۔ کاؤنٹر پر ایک شخص اپنے پیسوں کے لیے الجھا ہوا تھا، لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ میرا اس جگہ کئی دفعہ بیٹھنا ہوا مگر آج کچھ طبعیت بوجھل محسوس ہوئی۔ علی نے بھی شاید بھانپ لیا تھا کہ میں اس کی طرف متوجہ یا تو ہوں نہیں یا پھر جھجک رہاہوں۔

'تو پوچھے گا نہیں تیرا بھائی کہاں تھا اتنے سال'؟ وہ شاید مجھے بتانا چاہتا ہو۔ میں نے ایک لمحے اسکی آنکھوں میں جھانکا اور مجھے خاموش دیکھ کر وہ پھر گویا ہوا۔ 'اچھا ہمت ہے تو سن'! میں نے اشارے سے چھوٹے کو بلا کر دھیمے سے کہا دو چائے لے آؤ اور پھر اسے دیکھنے لگا۔ 'یار میٹرک کے بعد تجھے پتا ہے جب بندہ کالج پہچتا ہے تو خود کو بڑا سمجھنے لگتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہ ہی ہوا۔ شروع میں جب کالج گیا تو کچھ لڑکوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھےغلط راستے پر ڈال دیا۔ جوانی کے جوش میں کئی غلطیاں کر ڈالیں۔ پھر بعد میں بلیک میلنگ شروع ہوگئی'! وہ سانس لینے کے لیے رکا اور میں بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھنے لگا۔ مجھے لگا اسکی آنکھیں نم ہیں۔ 'پہلے بات صرف پڑھائی اور چھوٹے معاملات کی حد تک تھی۔ کسی کے نوٹس چھینے، کسی لڑکی کو چھیڑ دیا، کبھی کسی دوسری پارٹی کے بندے کی 'کُٹ' لگادی۔ پھر میری صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ایک دن مجھے دوسرے شہر میں نامعلوم جگہ پہچادیا گیا۔ وہاں مجھے گن چلانے کی ٹریننگ دی گئی۔ چوزوں کو بھگا کر مجھے کہا جاتا کہ ان کو پیروں تلے کچل دو۔ پھر بات انھیں گولیوں سے بھوننے تک پہنچ گئی، بس یوں سمجھ لے کہ مجھ میں سے انسانیت کو کھینچ کر نکال دیا گیا'۔

چھوٹے نے چائے لاکر رکھی تو وہ بولتے بولتے رک گیا۔ مجھے اس سے گھن محسوس ہوئی ۔۔۔ میں نے چور نظروں سے اس کے چہرے پر دیکھا، لال بلب کی ہلکی روشنی میں اس کا آنسوں سے تر چہرہ عجیب رنگ بکھیر رہا تھا۔ میں نے چائے کی پیالی اس کے قریب کھسکا دی اور خود بے دلی سے چائے کی چسکیاں لینے لگا۔ 'ایک دفعہ برائی پر ہاتھ کھل جائے تو چسکا پڑجاتا ہے'۔ اس نے چائے کی چسکی لی۔ 'ایک کے بعد ایک کئی معصوم لوگ میری نادانی اور بڑوں کے برے عزائم کے آگے خون ہوتے رہے اور پھر کام مکمل ہونے پر معصوم لڑکیاں میری ہوس کی بھینٹ تحفتاً چڑھادی جاتیں۔' مجھے اس سے خوف محسوس ہونے لگا مگر اس کی سرخ آنکھیں اس کی شرمندگی کی گواہی دے رہی تھیں۔ پھر بھی میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اُٹھ کر چلا جاؤں مگر اس کے لہجے اور انداز میں عجیب سا اتار چڑھاؤ تھا۔

میں نے اسے اس کے کہے گئے پہلے دو جملوں کے درمیا ن ہی پایا۔ یعنی 'زندگی اور موت' کے بالکل درمیان! 'ایک دفعہ میرے سامنے ایک ایسی لڑکی کو پہنچادیا گیا جس نے میری زندگی بدل کر رکھ دی۔' اس نے پھر اپنی کہانی شروع کردی یہ جانے بغیر کے میں اسے سن بھی رہا ہوں یا نہیں۔ 'میں اسے وہاں سے لیکر بھاگا۔ دنیا نے اُسے ویسے بھی قبول نہیں کرنا تھا۔ مسجد میں جاکر اس سے نکاح کیا اور چھپتا چھپاتا واپس اپنے شہر آگیا۔' اس نے اپنا گیلا چہرہ صاف کیا۔ مجھے اپنی اور اس لڑکی کے بابت بتانے لگا۔ میں نے دیکھا کبھی اس کے چہرے پر بچوں کی طرح خوشی اور چمک ہوتی اور کبھی اپنی غلطیوں پر گہرا دکھ۔ ہم دونوں کی پیالیاں خالی ہوچکی تھیں اور شاید اس کا غبار بھی نکل چکا تھا۔ اب وہ کچھ مطمئن تھا۔

'میں صبح کی فلائٹ سے ملک سے باہر جارہا ہوں اپنی پاک باز بیوی کے ساتھ ایک نئی زندگی بسر کرنے۔' اس آدھے گھنٹے میں پہلی دفعہ میں نے اس کے چہرے کو خوشی سے تمتماتا ہوا دیکھا۔ وہ شاید بہت مطمئن تھا، جانے کی تیاری پوری تھی اور جانے سے پہلے اپنے دل کا مکمل بوجھ اتارنا چاہتا تھا۔ میں سوچ رہا تھا یہ کہانی اس نے مجھے نہیں بلکہ اپنے سات سال پہلے کے دوست کو سنائی تھی لیکن اس کے لیے کہ میرے دل میں شاید اب وہ جذبات موجود نہیں تھے۔ بہرحال اس کے دل کا بوجھ اترچکا تھا۔ پھر وہ میری کسی بات کا انتظار کیے بغیر اُٹھا اور آہستہ سے ہوٹل سے باہر نکل نکلنے لگا۔ میں بھی بوجھل قدموں کے ساتھ اٹھا اور کاؤنٹر پر جا کر چائے کے پیسے دیے۔ اچانک فضا میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ گونجنے لگی۔ میں نے وہیں کھڑے ہوئے پلٹ کر علی کو اب کی بار موت سے 'زیادہ' قریب دیکھا۔!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں