قادری کی آمد کے بعد
2014ء میں علامہ کی کینیڈا سے آمد اور اسلام آباد کی دھرنا تحریک کے حوالے سے سیاسی حلقوں میں یہ شبہات پائے جاتے رہے
2014ء کی ناکام تحریک کے بعد پاکستانی عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری 29 جون 2015ء کی صبح لاہور تشریف لائے جہاں ان کا پرجوش استقبال کیا گیا۔ پاکستان روانگی سے قبل لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر میڈیا سے خطاب میں انھوں نے فرمایا کہ ''رینجرز پنجاب کے ٹارگٹ کلرز کے خلاف کب آپریشن کرے گی؟'' ساتھ ہی ساتھ انھوں نے کراچی میں رینجرز کی کارکردگی کی تعریف بھی کی ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ حکومت دہشت گردی کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے۔ حکمرانوں کا مجرمانہ عمل اسی طرح جاری رہا تو اس کی سزا ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گی۔ انھوں نے گرمی کی شدت سے کراچی میں ہونے والی اموات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ان اموات کے ذمے دار وہ لوگ ہیں جنھوں نے 6 ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کیا تھا چونکہ حکمرانوں کی ترجیح عوامی مسائل نہیں بلکہ لوٹ مار ہے۔ لہٰذا بدعنوانیوں اور بدنظمیوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کا تعلق تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں سے ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری تحریک کے رہنما ہیں اس حوالے سے پنجاب حکومت پر ان کی تنقید بجا بھی ہے لیکن اس قسم کے سانحات کوئی الگ تھلگ سانحات نہیں ہیں بلکہ اس قسم کے سانحات کا تعلق ہمارے اس نظم حکمرانی سے ہے۔ جس کا مشاہدہ ہم سانحہ بلدیہ کی شکل میں بھی کر سکتے ہیں اور کراچی میں گرمی کی شدت سے ہلاک ہونے والے لگ بھگ پندرہ سو افراد کی شکل میں بھی اس قسم کے سانحات کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہمارا یہ نظام اس ملک کے عوام پر مسلط رہے گا۔ اس حقیقت کا ادراک علامہ طاہر القادری کو بھی ہے اسی لیے مولانا نے 14 اگست 2014ء کو انقلاب کا نعرہ لگایا تھا لیکن یہ انقلاب تشنۂ تکمیل رہا۔
2014ء میں علامہ کی کینیڈا سے آمد اور اسلام آباد کی دھرنا تحریک کے حوالے سے سیاسی حلقوں میں یہ شبہات پائے جاتے رہے کہ مولانا اس حوالے سے بعض نادیدہ قوتوں کے آلہ کار بنے رہے۔ اس قسم کے الزامات سے ہمارا کوئی سیاستدان محفوظ نہیں بلکہ یہ الزامات اس دھڑلے سے لگائے جاتے رہے ہیں کہ نہ اب ان کی کوئی اہمیت رہی نہ عوام ان پر کان دھرنے کے لیے تیار ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کے 68 سالہ استحصالی سیٹ اپ کو بدلنے میں کوئی سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما مخلص سنجیدہ اور باعمل بھی ہے؟ عمران خان اور طاہر القادری مختلف عنوانوں سے اس نظام کو بدلنے کے نعروں کے ساتھ عوام میں بھی آئے اور عوام نے لاکھوں کی تعداد میں ان کا ساتھ بھی دیا لیکن ان حضرات کو ناکامی کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟ کیا عمران خان اور طاہر القادری نے ان ناکامیوں کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کی؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے اس بات کی نشان دہی ضروری ہے کہ اگر کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاسی رہنما کا پہلا اور آخری مقصد صرف حصول اقتدار ہوتا ہے تو ایسی جماعتیں اور رہنما کتنی ہی شان بان کتنے ہی خوبصورت نعروں کے ساتھ عوام میں آئیں وہ اپنے مقصد میں اس لیے کامیاب نہیں ہو سکتے کہ عوام کسی رہنما کا ساتھ اقتدار تک رسائی کے لیے نہیں دیتے بلکہ پورے کرپٹ سسٹم کے خاتمے کے لیے دیتے ہیں۔ اگر کسی تحریک کا مقصد صرف حصول اقتدار ہو تو وہ لاکھ کوشش کرے عوام کو متاثر نہیں کر سکتی۔
البتہ حسین نعروں اور ذاتی وابستگی رکھنے والوں کے ہجوم ان کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ تک جلد سے جلد پہنچنے کی اپنی خواہش کو چھپا نہیں سکے بلکہ انھوں نے اس مقصد کی خاطر وہ ساری سیاسی اخلاقیات کی حدیں بھی پار کر لیں۔ یہ کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ جمہوریت کا ایک علمبردار حصول اقتدار کے لیے غیر جمہوری غیر سیاسی عناصر کی انگلیوں کا منتظر رہا اور اہل سیاست حیران رہ گئے کہ یہ کیسا انقلابی ہے جو انقلاب برپا کرنے کے لیے عوام کی حمایت کے بجائے امپائر کی انگلیوں کی طرف دیکھتا رہا۔
ان ساری شکایات کمزوریوں کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ عوام آج بھی کسی ایسے مسیحا کے منتظر ہیں، جو انھیں اس بددیانتانہ ظالمانہ استحصالی نظام سے چھٹکارا دلا کر ان کی مجبوریوں، بے بسیوں سے بھری 68 سالہ زندگی سے نجات دلائے۔ مشکل یہ ہے کہ 2014ء کی دھرنا تحریکوں کی ناکامی نے اس 68 سالہ استحصالی نظام کے سرپرستوں کو ایک بار پھر یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ جھوٹے وعدوں ناقابل عمل لیکن خوبصورت پروگراموں سے عوام کو گمراہ کر سکیں ذرا ملک کے معاشی منظر نامے پر نظر ڈالیں۔
لمبے لمبے موٹر وے نئے نئے بسوں کے منصوبے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی نوید خوشامدی معاشی ماہرین کے ترقی کے انڈیکیٹر مختلف ملکوں سے کیے جانے والے اربوں کے معاہدے اور ان سب پر بھاری اقتصادی راہداری کے لامحدود فوائد کا بے تحاشا پروپیگنڈہ۔ کیا عوام اس پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوں گے؟ کیا اس صورتحال میں پرانے اور ناکام سیاستدان ایک بار پھر عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟ یہی وہ صورتحال ہے جس کا تعلق علامہ طاہر القادری کی دوبارہ پاکستان آمد سے ہے۔
پہلی بات یہ کہ اگر اقتدار کی خواہش کے ساتھ کوئی تحریک چلائی جاتی ہے تو عوام وقتی طور پر تو اس سے متاثر ہوتے ہیں لیکن حقائق کے سامنے آنے پر دور ہو جاتے ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ عوام کو چہرے بدلنے کی سیاست سے نظام کی تبدیلی کا دھوکا نہ دیا جائے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما خلوص نیت اور سنجیدگی کے ساتھ ایک جامع منصوبہ بندی کے ساتھ نظام کی تبدیلی کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اسے اقتدار کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اقتدار اس کے پیچھے بھاگتا آتا ہے۔
اس بات کو بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ انقلاب یا نظام کی تبدیلی کسی ایک یا دو جماعتوں کا کام نہیں بلکہ ہم خیال جماعتوں کے ایک بڑے اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے جو واضح اہداف کے ساتھ قدم آگے بڑھائے محض وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ انقلاب نہیں بلکہ رد انقلاب ہے اگر کوئی جماعت تبدیلیوں سے مخلص ہے تو وہ ''اسٹیٹس کو'' کو توڑنے، زرعی اصلاحات اور بلاتخصیص احتساب کے مطالبوں سے آگے بڑھے۔
انھوں نے کہا ہے کہ حکومت دہشت گردی کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے۔ حکمرانوں کا مجرمانہ عمل اسی طرح جاری رہا تو اس کی سزا ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گی۔ انھوں نے گرمی کی شدت سے کراچی میں ہونے والی اموات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ان اموات کے ذمے دار وہ لوگ ہیں جنھوں نے 6 ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کیا تھا چونکہ حکمرانوں کی ترجیح عوامی مسائل نہیں بلکہ لوٹ مار ہے۔ لہٰذا بدعنوانیوں اور بدنظمیوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کا تعلق تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں سے ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری تحریک کے رہنما ہیں اس حوالے سے پنجاب حکومت پر ان کی تنقید بجا بھی ہے لیکن اس قسم کے سانحات کوئی الگ تھلگ سانحات نہیں ہیں بلکہ اس قسم کے سانحات کا تعلق ہمارے اس نظم حکمرانی سے ہے۔ جس کا مشاہدہ ہم سانحہ بلدیہ کی شکل میں بھی کر سکتے ہیں اور کراچی میں گرمی کی شدت سے ہلاک ہونے والے لگ بھگ پندرہ سو افراد کی شکل میں بھی اس قسم کے سانحات کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہمارا یہ نظام اس ملک کے عوام پر مسلط رہے گا۔ اس حقیقت کا ادراک علامہ طاہر القادری کو بھی ہے اسی لیے مولانا نے 14 اگست 2014ء کو انقلاب کا نعرہ لگایا تھا لیکن یہ انقلاب تشنۂ تکمیل رہا۔
2014ء میں علامہ کی کینیڈا سے آمد اور اسلام آباد کی دھرنا تحریک کے حوالے سے سیاسی حلقوں میں یہ شبہات پائے جاتے رہے کہ مولانا اس حوالے سے بعض نادیدہ قوتوں کے آلہ کار بنے رہے۔ اس قسم کے الزامات سے ہمارا کوئی سیاستدان محفوظ نہیں بلکہ یہ الزامات اس دھڑلے سے لگائے جاتے رہے ہیں کہ نہ اب ان کی کوئی اہمیت رہی نہ عوام ان پر کان دھرنے کے لیے تیار ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کے 68 سالہ استحصالی سیٹ اپ کو بدلنے میں کوئی سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما مخلص سنجیدہ اور باعمل بھی ہے؟ عمران خان اور طاہر القادری مختلف عنوانوں سے اس نظام کو بدلنے کے نعروں کے ساتھ عوام میں بھی آئے اور عوام نے لاکھوں کی تعداد میں ان کا ساتھ بھی دیا لیکن ان حضرات کو ناکامی کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟ کیا عمران خان اور طاہر القادری نے ان ناکامیوں کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کی؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے اس بات کی نشان دہی ضروری ہے کہ اگر کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاسی رہنما کا پہلا اور آخری مقصد صرف حصول اقتدار ہوتا ہے تو ایسی جماعتیں اور رہنما کتنی ہی شان بان کتنے ہی خوبصورت نعروں کے ساتھ عوام میں آئیں وہ اپنے مقصد میں اس لیے کامیاب نہیں ہو سکتے کہ عوام کسی رہنما کا ساتھ اقتدار تک رسائی کے لیے نہیں دیتے بلکہ پورے کرپٹ سسٹم کے خاتمے کے لیے دیتے ہیں۔ اگر کسی تحریک کا مقصد صرف حصول اقتدار ہو تو وہ لاکھ کوشش کرے عوام کو متاثر نہیں کر سکتی۔
البتہ حسین نعروں اور ذاتی وابستگی رکھنے والوں کے ہجوم ان کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ تک جلد سے جلد پہنچنے کی اپنی خواہش کو چھپا نہیں سکے بلکہ انھوں نے اس مقصد کی خاطر وہ ساری سیاسی اخلاقیات کی حدیں بھی پار کر لیں۔ یہ کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ جمہوریت کا ایک علمبردار حصول اقتدار کے لیے غیر جمہوری غیر سیاسی عناصر کی انگلیوں کا منتظر رہا اور اہل سیاست حیران رہ گئے کہ یہ کیسا انقلابی ہے جو انقلاب برپا کرنے کے لیے عوام کی حمایت کے بجائے امپائر کی انگلیوں کی طرف دیکھتا رہا۔
ان ساری شکایات کمزوریوں کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ عوام آج بھی کسی ایسے مسیحا کے منتظر ہیں، جو انھیں اس بددیانتانہ ظالمانہ استحصالی نظام سے چھٹکارا دلا کر ان کی مجبوریوں، بے بسیوں سے بھری 68 سالہ زندگی سے نجات دلائے۔ مشکل یہ ہے کہ 2014ء کی دھرنا تحریکوں کی ناکامی نے اس 68 سالہ استحصالی نظام کے سرپرستوں کو ایک بار پھر یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ جھوٹے وعدوں ناقابل عمل لیکن خوبصورت پروگراموں سے عوام کو گمراہ کر سکیں ذرا ملک کے معاشی منظر نامے پر نظر ڈالیں۔
لمبے لمبے موٹر وے نئے نئے بسوں کے منصوبے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی نوید خوشامدی معاشی ماہرین کے ترقی کے انڈیکیٹر مختلف ملکوں سے کیے جانے والے اربوں کے معاہدے اور ان سب پر بھاری اقتصادی راہداری کے لامحدود فوائد کا بے تحاشا پروپیگنڈہ۔ کیا عوام اس پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوں گے؟ کیا اس صورتحال میں پرانے اور ناکام سیاستدان ایک بار پھر عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟ یہی وہ صورتحال ہے جس کا تعلق علامہ طاہر القادری کی دوبارہ پاکستان آمد سے ہے۔
پہلی بات یہ کہ اگر اقتدار کی خواہش کے ساتھ کوئی تحریک چلائی جاتی ہے تو عوام وقتی طور پر تو اس سے متاثر ہوتے ہیں لیکن حقائق کے سامنے آنے پر دور ہو جاتے ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ عوام کو چہرے بدلنے کی سیاست سے نظام کی تبدیلی کا دھوکا نہ دیا جائے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما خلوص نیت اور سنجیدگی کے ساتھ ایک جامع منصوبہ بندی کے ساتھ نظام کی تبدیلی کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اسے اقتدار کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اقتدار اس کے پیچھے بھاگتا آتا ہے۔
اس بات کو بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ انقلاب یا نظام کی تبدیلی کسی ایک یا دو جماعتوں کا کام نہیں بلکہ ہم خیال جماعتوں کے ایک بڑے اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے جو واضح اہداف کے ساتھ قدم آگے بڑھائے محض وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ انقلاب نہیں بلکہ رد انقلاب ہے اگر کوئی جماعت تبدیلیوں سے مخلص ہے تو وہ ''اسٹیٹس کو'' کو توڑنے، زرعی اصلاحات اور بلاتخصیص احتساب کے مطالبوں سے آگے بڑھے۔