تعلیم طلبہ کا حق ہے
تعلیم کی شرح نمو، تعلیمی ادارے اور تعلیم کے بجٹ میں صرف چار ممالک پاکستان سے پیچھے ہیں
تعلیم کی شرح نمو، تعلیمی ادارے اور تعلیم کے بجٹ میں صرف چار ممالک پاکستان سے پیچھے ہیں اور وہ ہیں ایتھوپیا، روانڈا، صومالیہ اور افغانستان۔ جب کہ وسطی ایشیا، بلقان ریاستیں،کوہ قاف،ایشیا کوچک، بالٹک ریاستوں، اسکینڈے نیوین ممالک اور رشین فیڈریشن میں تقریباً سو فیصد شرح تعلیم ہے۔ شمالی کوریا،کیوبا، ہندوستان کا صوبہ کیرالا اور زمبابوے میں بھی تقریباً 100 فیصد لکھے پڑھے لوگ ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق کیوبا میں سب سے زیادہ تعلیم کا بجٹ ہے یعنی 11 فیصد، فن لینڈ دوسرے اورکینیڈا تیسرے نمبر پر ہے۔کیوبا کی تقریباً ایک کروڑکی آبادی میں 43 یونیورسٹیاں ہیں۔ وینزویلا سے تیل لے کر تعلیم برآمدکرتا ہے۔ جب کہ وینزویلا میں بھی 95 فیصد شرح تعلیم ہے اورکیوبا میں 99.99 فیصد ہے۔ حالیہ ٹائمز ہائر ایجوکیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ایشیا کی 100بہترین یونیورسٹیوں میں پاکستان شامل نہیں ہے جب کہ ایٹم بم بنانے میں چوتھا اوراسلحے کی پیداوار اور تجارت میں 11 واں نمبر ہے۔ ایشیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں جاپان نمبر ایک، سنگاپور دو اور ہانگ کانگ نمبر 3 پر ہے۔ چین کی 21، جاپان کی 19، بھارت کی 9، اسرائیل کی 4، ایران کی 3، سعودی عرب کی 2 یونیورسٹیاں ہیں۔
اسرائیل کی 77 لاکھ کی آبادی میں 4 یونیورسٹیوں کا ہونا باعث افتخار ہے۔ پاکستان میں 170 یونیورسٹیاں ہیں جن میں97 سرکاری اور 73 نجی ہیں جن میں سے ایک بھی 100 میں نہیں ہے۔ دوسری جانب ایف پی نیٹ نیوز کے مطابق اس وقت دنیا میں 15850 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ ان ہتھیاروں میں 90 فیصد امریکا اور روس کے ہیں اس کے باوجود کہ ان دونوں نے دو ہزار ایٹم بموں کو تلف کیا ہے۔
انھوں نے ایٹمی ہتھیاروں میں کمی تو کی ہے لیکن ختم نہیں کیا بلکہ انھیں جدید بنانے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ اس وقت فرانس کے پاس 300 ، چین کے پاس 260، برطانیہ کے پاس 215، پاکستان کے پاس 100 سے 120، بھارت کے پاس 90سے 100، اسرائیل کے پاس 80 اور شمالی کوریا کے پاس 6 سے 8 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ حال ہی میں پیرس ایئرشو میں شرکت کرنے والے پاکستانی طیارے جے ایف تھنڈر نے اپنے کمالات دکھا کر دنیا کے 11 ممالک کو پاکستان لڑاکا طیارے حاصل کرنے کی جانب متوجہ کیا جن میں سعودی عرب اور قطر پیش پیش ہیں۔
اب آئیے ذرا اس بات پر غور کرتے ہیں کہ تعلیم کی ضرورت ہے یا بموں کی۔ علم کے حصول کے ذریعے ہی سماج ترقی کرتا ہے، نئی اور جدید ایجادات کرتا ہے اور پورے سماج کے ڈھانچے اور طرز زندگی کو بدل دیتا ہے۔ اسی لیے دنیا بھرکے طالب علم اور علم دوست یہ نعرے لگاتے ہیں کہ ''ہمیں بم نہیں قلم چاہیے۔'' ہل کے دریافت نے غلامانہ، پہیہ کی دریافت نے جاگیردارانہ، صنعت کی دریافت نے سرمایہ دارانہ اور اب ان آلات پیداوار اور ذرائع پیداوار کو سماجی ملکیت بنانے کی صورت میں ایک غیر طبقاتی اور بے ریاستی برابری کا سماج قائم ہوگا۔
بموں اور اسلحوں کی دریافت نے انسان کو خونخوار اور نجی ملکیت پر قبضے کا ایک لالچی اور خودغرض انسان اور سماج میں بدل دیا ہے۔ جب اسلحہ نہیں تھا تو ریاست بھی نہیں تھی، طبقات بھی نہیں تھے اور ملکیت کا تصور بھی نہیں تھا۔ پاکستان جب تشکیل پایا تھا تو تعلیم کا بجٹ زیادہ اور دفاع کا کم تھا۔ زیادہ نہیں آج سے 5/6ہزار سال قبل نال، موئنجو دڑو، ہڑپہ اور ٹیکسیلا میں کمیون نظام یعنی امداد باہمی کا آزاد معاشرہ قائم تھا۔ کوئی اسلحہ تھا، ریاست تھی اور نہ طبقات۔ جب ابراہم لنکن امریکا کے صدر تھے تو کتنے ایٹم بنے تھے؟ جب ماؤزے تنگ چین کے صدر تھے تو چین کے پاس کوئی ایٹم بم نہیں تھا۔ ماؤزے تنگ کے دور میں چین میں 27 کروڑ بے روزگار تھے اور نہ کمیونسٹ پارٹی کی پیپلز کانگریس میں 83 ارب پتی تھے۔
کاریں نہیں تھیں ہاں مگر ہر شخص بسوں میں سفر کرتا تھا یا پھر سائیکلوں پر۔ ماؤ اور ان کی بیوی پانی بھرے کھیت میں دھان بویا کرتی تھیں۔ ابراہم لنکن ایک لکڑہارے کے بیٹے تھے اور خود بھی والد کے ساتھ لکڑی کاٹتے تھے، اس وقت امریکا میں بے روزگاری نہیں تھی۔ آج امریکا کے پاس ہزاروں جوہری ہتھیار تو ہیں لیکن 10 فیصد یعنی 3 کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔ سائنسی اور عملی تعلیم کا جہاں جہاں فقدان ہے وہاں زیادہ مذہبی، لسانی اور تنگ نظر قوم پرستی حاوی ہے آج ہم ذرا غور کریں تو ان ملکوں میں زیادہ عالمی سامراج فرقہ واریت اور قوم پرستی کو نہ صرف عروج دے پا رہا ہے بلکہ اپنا اسلحہ بیچنے کے لیے جنگی میدان حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب نظر آرہا ہے۔
جنگ مسئلے کا کوئی حل پیش نہیں کرتا بلکہ خونریزی، تضادات اور قتل وغارت گری کو ہی پروان چڑھاتا ہے۔ ان جنگوں کے خلاف انقلابی رہنما کامریڈ واحد بشیر ساری زندگی جدوجہد کرتے رہے مگر افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ دنوں وہ ہم سے بچھڑ گئے۔ ان کے جنازے میں مزدور، طلبہ، صحافی، دانشور، مصنف اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ واحد بشیر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سرگرم رہنما رہ چکے ہیں۔ وہ ٹریڈ یونین کے بھی معروف رہنما رہے۔ ارتقا، الفتح اور بزنس ریکارڈ جیسے معروف زمانہ رسالوں اور اخبارات کے صحافی بھی تھے۔
ان کا بنیادی طور پر نظریہ کمیونسٹ سماج کی تشکیل کا تھا جہاں کوئی طبقہ ہو نہ کوئی ریاست۔کامریڈ واحد بشیر میرے (راقم) کے ساتھ کراچی سینٹرل جیل میں کئی ماہ مقید تھے۔ ہم نے جیل میں بھی ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ان کی اہلیہ (مرحومہ) پروفیسر حمزہ فزکس کی استاد تھیں اور انجمن مفاد نسواں اور انجمن ترقی نسواں کی رہنما بھی تھیں۔ وہ اپنی روح کی گہرائیوں سے سچی کمیونسٹ تھیں۔ کامریڈ واحد بشیر نے ملک کے معروف کمیونسٹ رہنماؤں زین الدین خان لودھی، عزیز سلام، منہاج برنا، دادا امیر حیدر، سائیں عزیزاللہ، کامریڈ شرف علی (جو ان کے برادر نسبتی بھی تھے) اور مزدور رہنما چاچا علی جان اور عثمان بلوچ وغیرہ کے ساتھ کام کیا۔ پاکستان کا مزدور طبقہ، کمیونسٹ، سوشلسٹ، انارکسٹ، انقلابی اور پیداواری قوتیں کبھی بھی ان کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرسکتے۔ان کا نظریہ مزدور طبقے کے لیے مشعل راہ ہے۔
ہمارے ملک کے دفاع پر کھربوں ڈالر خرچ ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں۔ جب کہ تعلیم کا بجٹ کم ہونے کی وجہ سے دنیا کے اربوں عوام ناخواندہ ہیں۔ ان بے چاروں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ تعلیم کا بجٹ کیوں کم رکھا جاتا ہے اور اسلحے کی پیداوار کیوں کی جاتی ہے اس لیے کہ دنیا کے وسائل پر قابض رہ کر دولت مندوں کو تحفظ دیا جاسکے خواہ ہر سال 18 لاکھ انسان اس کرہ ارض میں بھوک سے مرتے ہی کیوں نہ رہیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کے بجٹ میں اضافہ کرنے اور اسلحے کی پیداوار کو نیست و نابود کرنے کے لیے اس دنیا میں لاکھوں کروڑوں انسان جدوجہد میں برسر پیکار ہیں۔ انھی میں سے ایک پاکستان میں کامریڈ فانوس گوجر ہیں جو پیدا تو بونیر میں ہوئے لیکن نہ صرف پاکستان بلکہ برصغیر میں انسانیت کی فلاح کے لیے کام کرتے آرہے ہیں۔
اس سلسلے میں انھوں نے بنگلہ دیش اور ہندوستان کا دورہ بھی کیا۔ خاص کر ڈھاکہ اور کولکتہ کا۔ انھوں نے اس دوران میں ڈی ایس ایف میں شمولیت اختیار کی اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے بھی منسلک رہے۔ بعدازاں پاکستان عوامی پارٹی کے سربراہ رہے، کچھ عرصے میں (راقم) بھی اس جماعت کا جنرل سیکریٹری رہا۔
ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ بائیں بازو کی جماعتوں کو متحد کیا جائے اور اس سلسلے میں خاصی حد تک کامیاب بھی رہے۔ انھوں نے لیبر پارٹی، عوامی پارٹی اور ورکرز پارٹی کو متحد کرکے عوامی ورکرز پارٹی تشکیل دی جس کے وہ خود چیئرمین ہیں۔ فوجی آمر جنرل ضیا الحق کی بدترین مارشل لا کے دور میں وہ متعدد جیلوں میں مقید رہے جن میں کراچی، حیدرآباد، سکھر، پشاور، سوات اور لاہور شاہی قلعہ میں ان پر شدید جسمانی تشدد کیا گیا جس کے نتیجے میں ان کا ایک گردہ ضایع ہوگیا اور دوسرا بھی متاثر ہوا اور اب ناکارہ ہوگیا ہے۔
کامریڈ فانوس گوجر 12 مئی سے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سینٹر اسلام آباد میں انتہائی نگہداشت کے شعبے میں داخل ہیں اور ان کا ہفتے میں دو بار ڈائیلائسس ہو رہا ہے۔ اب ڈاکٹروں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کے گردے کا ٹرانس پلانٹ ہوگا مگر کوئی تاریخ مقرر نہیں کی ہے۔ فانوس گوجر ساری زندگی سامراجی استحصال، فوجی اور سول نوکر شاہی اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد کرتے آرہے ہیں۔ اگر انھیں ضرورت پڑی تو میں (راقم) اپنا ایک گردہ عطیہ کے طور پر انھیں دینے کے پیش کش کرتا ہوں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق کیوبا میں سب سے زیادہ تعلیم کا بجٹ ہے یعنی 11 فیصد، فن لینڈ دوسرے اورکینیڈا تیسرے نمبر پر ہے۔کیوبا کی تقریباً ایک کروڑکی آبادی میں 43 یونیورسٹیاں ہیں۔ وینزویلا سے تیل لے کر تعلیم برآمدکرتا ہے۔ جب کہ وینزویلا میں بھی 95 فیصد شرح تعلیم ہے اورکیوبا میں 99.99 فیصد ہے۔ حالیہ ٹائمز ہائر ایجوکیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ایشیا کی 100بہترین یونیورسٹیوں میں پاکستان شامل نہیں ہے جب کہ ایٹم بم بنانے میں چوتھا اوراسلحے کی پیداوار اور تجارت میں 11 واں نمبر ہے۔ ایشیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں جاپان نمبر ایک، سنگاپور دو اور ہانگ کانگ نمبر 3 پر ہے۔ چین کی 21، جاپان کی 19، بھارت کی 9، اسرائیل کی 4، ایران کی 3، سعودی عرب کی 2 یونیورسٹیاں ہیں۔
اسرائیل کی 77 لاکھ کی آبادی میں 4 یونیورسٹیوں کا ہونا باعث افتخار ہے۔ پاکستان میں 170 یونیورسٹیاں ہیں جن میں97 سرکاری اور 73 نجی ہیں جن میں سے ایک بھی 100 میں نہیں ہے۔ دوسری جانب ایف پی نیٹ نیوز کے مطابق اس وقت دنیا میں 15850 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ ان ہتھیاروں میں 90 فیصد امریکا اور روس کے ہیں اس کے باوجود کہ ان دونوں نے دو ہزار ایٹم بموں کو تلف کیا ہے۔
انھوں نے ایٹمی ہتھیاروں میں کمی تو کی ہے لیکن ختم نہیں کیا بلکہ انھیں جدید بنانے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ اس وقت فرانس کے پاس 300 ، چین کے پاس 260، برطانیہ کے پاس 215، پاکستان کے پاس 100 سے 120، بھارت کے پاس 90سے 100، اسرائیل کے پاس 80 اور شمالی کوریا کے پاس 6 سے 8 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ حال ہی میں پیرس ایئرشو میں شرکت کرنے والے پاکستانی طیارے جے ایف تھنڈر نے اپنے کمالات دکھا کر دنیا کے 11 ممالک کو پاکستان لڑاکا طیارے حاصل کرنے کی جانب متوجہ کیا جن میں سعودی عرب اور قطر پیش پیش ہیں۔
اب آئیے ذرا اس بات پر غور کرتے ہیں کہ تعلیم کی ضرورت ہے یا بموں کی۔ علم کے حصول کے ذریعے ہی سماج ترقی کرتا ہے، نئی اور جدید ایجادات کرتا ہے اور پورے سماج کے ڈھانچے اور طرز زندگی کو بدل دیتا ہے۔ اسی لیے دنیا بھرکے طالب علم اور علم دوست یہ نعرے لگاتے ہیں کہ ''ہمیں بم نہیں قلم چاہیے۔'' ہل کے دریافت نے غلامانہ، پہیہ کی دریافت نے جاگیردارانہ، صنعت کی دریافت نے سرمایہ دارانہ اور اب ان آلات پیداوار اور ذرائع پیداوار کو سماجی ملکیت بنانے کی صورت میں ایک غیر طبقاتی اور بے ریاستی برابری کا سماج قائم ہوگا۔
بموں اور اسلحوں کی دریافت نے انسان کو خونخوار اور نجی ملکیت پر قبضے کا ایک لالچی اور خودغرض انسان اور سماج میں بدل دیا ہے۔ جب اسلحہ نہیں تھا تو ریاست بھی نہیں تھی، طبقات بھی نہیں تھے اور ملکیت کا تصور بھی نہیں تھا۔ پاکستان جب تشکیل پایا تھا تو تعلیم کا بجٹ زیادہ اور دفاع کا کم تھا۔ زیادہ نہیں آج سے 5/6ہزار سال قبل نال، موئنجو دڑو، ہڑپہ اور ٹیکسیلا میں کمیون نظام یعنی امداد باہمی کا آزاد معاشرہ قائم تھا۔ کوئی اسلحہ تھا، ریاست تھی اور نہ طبقات۔ جب ابراہم لنکن امریکا کے صدر تھے تو کتنے ایٹم بنے تھے؟ جب ماؤزے تنگ چین کے صدر تھے تو چین کے پاس کوئی ایٹم بم نہیں تھا۔ ماؤزے تنگ کے دور میں چین میں 27 کروڑ بے روزگار تھے اور نہ کمیونسٹ پارٹی کی پیپلز کانگریس میں 83 ارب پتی تھے۔
کاریں نہیں تھیں ہاں مگر ہر شخص بسوں میں سفر کرتا تھا یا پھر سائیکلوں پر۔ ماؤ اور ان کی بیوی پانی بھرے کھیت میں دھان بویا کرتی تھیں۔ ابراہم لنکن ایک لکڑہارے کے بیٹے تھے اور خود بھی والد کے ساتھ لکڑی کاٹتے تھے، اس وقت امریکا میں بے روزگاری نہیں تھی۔ آج امریکا کے پاس ہزاروں جوہری ہتھیار تو ہیں لیکن 10 فیصد یعنی 3 کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔ سائنسی اور عملی تعلیم کا جہاں جہاں فقدان ہے وہاں زیادہ مذہبی، لسانی اور تنگ نظر قوم پرستی حاوی ہے آج ہم ذرا غور کریں تو ان ملکوں میں زیادہ عالمی سامراج فرقہ واریت اور قوم پرستی کو نہ صرف عروج دے پا رہا ہے بلکہ اپنا اسلحہ بیچنے کے لیے جنگی میدان حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب نظر آرہا ہے۔
جنگ مسئلے کا کوئی حل پیش نہیں کرتا بلکہ خونریزی، تضادات اور قتل وغارت گری کو ہی پروان چڑھاتا ہے۔ ان جنگوں کے خلاف انقلابی رہنما کامریڈ واحد بشیر ساری زندگی جدوجہد کرتے رہے مگر افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ دنوں وہ ہم سے بچھڑ گئے۔ ان کے جنازے میں مزدور، طلبہ، صحافی، دانشور، مصنف اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ واحد بشیر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سرگرم رہنما رہ چکے ہیں۔ وہ ٹریڈ یونین کے بھی معروف رہنما رہے۔ ارتقا، الفتح اور بزنس ریکارڈ جیسے معروف زمانہ رسالوں اور اخبارات کے صحافی بھی تھے۔
ان کا بنیادی طور پر نظریہ کمیونسٹ سماج کی تشکیل کا تھا جہاں کوئی طبقہ ہو نہ کوئی ریاست۔کامریڈ واحد بشیر میرے (راقم) کے ساتھ کراچی سینٹرل جیل میں کئی ماہ مقید تھے۔ ہم نے جیل میں بھی ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ان کی اہلیہ (مرحومہ) پروفیسر حمزہ فزکس کی استاد تھیں اور انجمن مفاد نسواں اور انجمن ترقی نسواں کی رہنما بھی تھیں۔ وہ اپنی روح کی گہرائیوں سے سچی کمیونسٹ تھیں۔ کامریڈ واحد بشیر نے ملک کے معروف کمیونسٹ رہنماؤں زین الدین خان لودھی، عزیز سلام، منہاج برنا، دادا امیر حیدر، سائیں عزیزاللہ، کامریڈ شرف علی (جو ان کے برادر نسبتی بھی تھے) اور مزدور رہنما چاچا علی جان اور عثمان بلوچ وغیرہ کے ساتھ کام کیا۔ پاکستان کا مزدور طبقہ، کمیونسٹ، سوشلسٹ، انارکسٹ، انقلابی اور پیداواری قوتیں کبھی بھی ان کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرسکتے۔ان کا نظریہ مزدور طبقے کے لیے مشعل راہ ہے۔
ہمارے ملک کے دفاع پر کھربوں ڈالر خرچ ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں۔ جب کہ تعلیم کا بجٹ کم ہونے کی وجہ سے دنیا کے اربوں عوام ناخواندہ ہیں۔ ان بے چاروں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ تعلیم کا بجٹ کیوں کم رکھا جاتا ہے اور اسلحے کی پیداوار کیوں کی جاتی ہے اس لیے کہ دنیا کے وسائل پر قابض رہ کر دولت مندوں کو تحفظ دیا جاسکے خواہ ہر سال 18 لاکھ انسان اس کرہ ارض میں بھوک سے مرتے ہی کیوں نہ رہیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کے بجٹ میں اضافہ کرنے اور اسلحے کی پیداوار کو نیست و نابود کرنے کے لیے اس دنیا میں لاکھوں کروڑوں انسان جدوجہد میں برسر پیکار ہیں۔ انھی میں سے ایک پاکستان میں کامریڈ فانوس گوجر ہیں جو پیدا تو بونیر میں ہوئے لیکن نہ صرف پاکستان بلکہ برصغیر میں انسانیت کی فلاح کے لیے کام کرتے آرہے ہیں۔
اس سلسلے میں انھوں نے بنگلہ دیش اور ہندوستان کا دورہ بھی کیا۔ خاص کر ڈھاکہ اور کولکتہ کا۔ انھوں نے اس دوران میں ڈی ایس ایف میں شمولیت اختیار کی اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے بھی منسلک رہے۔ بعدازاں پاکستان عوامی پارٹی کے سربراہ رہے، کچھ عرصے میں (راقم) بھی اس جماعت کا جنرل سیکریٹری رہا۔
ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ بائیں بازو کی جماعتوں کو متحد کیا جائے اور اس سلسلے میں خاصی حد تک کامیاب بھی رہے۔ انھوں نے لیبر پارٹی، عوامی پارٹی اور ورکرز پارٹی کو متحد کرکے عوامی ورکرز پارٹی تشکیل دی جس کے وہ خود چیئرمین ہیں۔ فوجی آمر جنرل ضیا الحق کی بدترین مارشل لا کے دور میں وہ متعدد جیلوں میں مقید رہے جن میں کراچی، حیدرآباد، سکھر، پشاور، سوات اور لاہور شاہی قلعہ میں ان پر شدید جسمانی تشدد کیا گیا جس کے نتیجے میں ان کا ایک گردہ ضایع ہوگیا اور دوسرا بھی متاثر ہوا اور اب ناکارہ ہوگیا ہے۔
کامریڈ فانوس گوجر 12 مئی سے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سینٹر اسلام آباد میں انتہائی نگہداشت کے شعبے میں داخل ہیں اور ان کا ہفتے میں دو بار ڈائیلائسس ہو رہا ہے۔ اب ڈاکٹروں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کے گردے کا ٹرانس پلانٹ ہوگا مگر کوئی تاریخ مقرر نہیں کی ہے۔ فانوس گوجر ساری زندگی سامراجی استحصال، فوجی اور سول نوکر شاہی اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد کرتے آرہے ہیں۔ اگر انھیں ضرورت پڑی تو میں (راقم) اپنا ایک گردہ عطیہ کے طور پر انھیں دینے کے پیش کش کرتا ہوں۔