بیروزگاری کا عفریت
آج کا تعلیم یافتہ طبقہ کام کرنے کیلئے تیار ہے مگر ہمارا نظام اس طبقے کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے قابل نہیں ہے۔
آج کا دور بقول ورلڈ بینک ایسے نوجوانوں کا دور ہے جن کی لیبر مارکیٹ میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تقریباََ پوری دنیا کی کل نوجوان آبادی کے ایک چوتھائی حصے کو جو کہ امریکہ کی کل آبادی کے حجم کے برابر ہے کے لئے اس نظام کے پاس دینے کے لئے کوئی کام موجود نہیں ہے۔ اس وقت یہ اتنی بڑی تعداد ہے جس کی مثال انسانی تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ انسانی تاریخ کی اس سے بڑی بدقسمتی کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی کہ آج کا تعلیم یافتہ طبقہ کام کرنے کے لئے تیار ہے لیکن ہمارا نظام اس نوجوان طبقے کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے قابل نہیں ہے۔
تیسری دنیا کے ممالک میں 15 سے 24 سال کی عمر کے 29 کروڑ نوجوان ایسے ہیں جن کی لیبر مارکیٹ میں کوئی شرکت نہیں ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک میں ورلڈ بینک کے سروے کے مطابق 26 کروڑ سے زائد ایسے نوجوان ہیں جو کسی بھی طرح کی تعلیم، روزگار یا تکنیک سے یکسر محروم ہیں۔ جبکہ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ تر قی یافتہ اقوام (OECD) کے ممبر ممالک میں ایک اندازے کے مطابق 2 کروڑ 60 لاکھ نوجوان تعلیم اور کسی تکنیکی ہنر کو نا جاننے کی بنا پر بے روزگاری کا شکار ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں 15 سے 24 سال کی عمر کے ساڑھے سات کروڑ نوجوان روزگار کی تلاش میں ہیں۔ یہ تعداد ورلڈ بینک کی رپورٹ میں بیان کردہ تعداد کے علاوہ ہے۔ اس عالمی بیروزگاری کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر پاکستان میں اس کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان اکنامک واچ کے مطابق پاکستان کی کل لیبر فورس یعنی 6 کروڑ 36 لاکھ میں سے آدھے سے زیادہ بیروزگار ہیں جو تقریباََ 3 کروڑ 18 لاکھ بنتے ہیں۔ ہر 10 میں سے 6 افراد اپنی صلاحیت سے کمتر کام کر رہے ہیں (61.6فیصد) جبکہ خواتین میں یہ تعداد (78.3فیصد) ہے۔
پاکستان غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے اعداد و شمار شائع نہیں کرتا لیکن سماج کے اندر بڑھتے ہوئے جرائم، خودکشیاں، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، جسم فروشی، منشیات کا استعمال اور دیگر سماجی مسائل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سماج کی صورتحال کیا ہے۔ بے روز گاری کی سطح کیا ہے اور مہنگائی کس رفتار سے بڑھ رہی ہے، گزشتہ دنوں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ذہنی امراض میں اس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ پاکستان میں ہر 10 میں سے 1 فرد ذہنی امراض میں مبتلا ہے۔ سکون آور ادویات اور منشیات کے استعمال میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں لاکھوں روپے خرچ کرکے تعلیم حاصل کرنے والا نوجوان طبقہ مایوسی کے عالم میں جرائم کی جانب راغب ہو رہا ہے۔
لینن نے کہا تھا کہ غربت جب انقلاب پیدا نہیں کرسکتی تو یہ جرائم پیدا کرتی ہے۔ دہشت گردی، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان کی منفعت بخش صنعتوں میں بے روزگار نوجوانوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ جو ملک میں خودکش حملے زور پکڑچکے ہیں ان میں بھی اسی بیروزگاری کا ہاتھ ہے۔ کراچی میں جو اسٹریٹ کرائم اور دہشت گردی بڑھی ہے، کسی نے اسکی بنیاد تلاش کرنے کی بات نہیں کی۔ کیا کسی سطح کے تھنک ٹینک نے یہ سوچنے کی زحمت کی کہ اس کے پیچھے کیا عوامل کار فرما ہیں۔ جی حضور اس ساری لاقانونیت کے پیچھے جہاں بیرونی ہاتھ ہے وہیں آپ کا یہ کوٹہ سسٹم بھی ہے جو 1973کے آئین میں دس سال کے لئے نافذ کیا گیا اور آج تک جاری ہے اور جو کراچی میں پیدا ہونے والے جینئیس کو پیٹ بھرنے کے لئے روٹی کمانے کے مواقع مہیا نہیں کرتا۔ کراچی کا ہر جینئیس بچہ اس لئے مار کھا جاتا ہے کہ جتنا شہری علاقے کا کوٹہ ہے اس میں اس کا نمبر نہیں آتا باقی صوبائی کوٹے میں دیہی سندھ لے جاتا ہے۔
سندھ میں ملازمتوں کے اشتہار کچھ یوں چھپتے ہیں کہ یہ ملازمت دیہی علاقے کے رہائیشیوں کے لئے ہے۔ کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے رہائشی درخواست گذار نہ ہوں۔ اب اتنی بڑی آبادی کا شہر اور اس کے ساتھ حیدرآباد اور سکھر کی آبادی کو بھی شامل کرلیں تو اس آبادی کے رہائیشیوں کو کوٹہ سسٹم کے تحت آپ ملازمتوں سے محروم رکھو گے تو ایسا فرسٹیٹڈ نوجوان کیا کرے گا؟ تخریب کاری پر مائل ہوگا، چوری کرے گا، ڈاکہ ڈالے گا، اسٹریٹ کرائم میں ملوث ہوگا یا امن کے گیت گائے گا؟
کراچی میں امن قائم کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے لیکن سندھ کے آئینی مشتہر شہری علاقے کے مکینوں کو روزگار، ان کی صلاحیتوں کے مطابق فراہم کرنا قومی حکومت کا کام ہے۔ خدارا بس کیجئے، 40 سال میں ایک بہت بڑا محروم طبقہ آپ نے کوٹہ سسٹم کے ذریعے پیدا کرلیا، اب کوٹہ سسٹم ختم کیجئے اور محروم طبقے کو اس کا حق دیجئے۔ کوٹہ سسٹم کو مزید 20 سال تک بڑہا دیا گیا ہے یعنی بیروزگاری اور کرائم ریٹ بڑھانے کی بات ہو رہی ہے، تعلیم یافتہ جرائم پیشہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ خدارا تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بات سنو جو تبدیلی کے لئے تھوڑی دور ہر راہرو کے ساتھ چلتا ہے۔ کبھی عمران خان کی طرف دیکھتا ہے، کبھی میاں برادران کو ووٹ دیتا ہے پھر مایوس ہوکر کرائم کی دنیا کی جانب نکل جاتا ہے۔ کسی نشے میں مبتلا فرد کو حقیقت کی دنیا میں لانا تو ممکن ہے جرائم کی دنیا کی دلدل میں جانے والے کو واپس لانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس سے پہلے کے بیروزگاری کا عفریت تعلیم یافتہ بیروزگاروں کو جرائم کی دلدل میں دھکیل دے اور ریاست کے اپنی رٹ قائم کرنا مشکل ہوجائے بیروزگاری کا کچھ کیجئے۔ میرے ملک کے روشن روشن شہروں کو بیروت بننے سے بچا لیجئے۔ عرب انقلاب کو دیکھئیے جہاں دیگر عوامل تھے وہاں ایک وجہ بیروزگاری بھی تھی۔ مصر میں بیروزگاری نے بغاوت کو عروج پر پہنچا دیا۔ برطانیہ، اسپین، یونان، امریکہ، چلی، برازیل اور ترکی میں مظاہرے بتا رہے ہیں کہ عوام تبدیلی کا بگل بجا چکے ہے، اس سے پہلے کہ بیروزگاری کا عفریت آپ کو کھا جائے اس کا کوئی چارہ کیجئے اے میرے چارہ گرو۔
[poll id="524"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تیسری دنیا کے ممالک میں 15 سے 24 سال کی عمر کے 29 کروڑ نوجوان ایسے ہیں جن کی لیبر مارکیٹ میں کوئی شرکت نہیں ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک میں ورلڈ بینک کے سروے کے مطابق 26 کروڑ سے زائد ایسے نوجوان ہیں جو کسی بھی طرح کی تعلیم، روزگار یا تکنیک سے یکسر محروم ہیں۔ جبکہ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ تر قی یافتہ اقوام (OECD) کے ممبر ممالک میں ایک اندازے کے مطابق 2 کروڑ 60 لاکھ نوجوان تعلیم اور کسی تکنیکی ہنر کو نا جاننے کی بنا پر بے روزگاری کا شکار ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں 15 سے 24 سال کی عمر کے ساڑھے سات کروڑ نوجوان روزگار کی تلاش میں ہیں۔ یہ تعداد ورلڈ بینک کی رپورٹ میں بیان کردہ تعداد کے علاوہ ہے۔ اس عالمی بیروزگاری کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر پاکستان میں اس کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان اکنامک واچ کے مطابق پاکستان کی کل لیبر فورس یعنی 6 کروڑ 36 لاکھ میں سے آدھے سے زیادہ بیروزگار ہیں جو تقریباََ 3 کروڑ 18 لاکھ بنتے ہیں۔ ہر 10 میں سے 6 افراد اپنی صلاحیت سے کمتر کام کر رہے ہیں (61.6فیصد) جبکہ خواتین میں یہ تعداد (78.3فیصد) ہے۔
پاکستان غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے اعداد و شمار شائع نہیں کرتا لیکن سماج کے اندر بڑھتے ہوئے جرائم، خودکشیاں، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، جسم فروشی، منشیات کا استعمال اور دیگر سماجی مسائل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سماج کی صورتحال کیا ہے۔ بے روز گاری کی سطح کیا ہے اور مہنگائی کس رفتار سے بڑھ رہی ہے، گزشتہ دنوں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ذہنی امراض میں اس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ پاکستان میں ہر 10 میں سے 1 فرد ذہنی امراض میں مبتلا ہے۔ سکون آور ادویات اور منشیات کے استعمال میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں لاکھوں روپے خرچ کرکے تعلیم حاصل کرنے والا نوجوان طبقہ مایوسی کے عالم میں جرائم کی جانب راغب ہو رہا ہے۔
لینن نے کہا تھا کہ غربت جب انقلاب پیدا نہیں کرسکتی تو یہ جرائم پیدا کرتی ہے۔ دہشت گردی، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان کی منفعت بخش صنعتوں میں بے روزگار نوجوانوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ جو ملک میں خودکش حملے زور پکڑچکے ہیں ان میں بھی اسی بیروزگاری کا ہاتھ ہے۔ کراچی میں جو اسٹریٹ کرائم اور دہشت گردی بڑھی ہے، کسی نے اسکی بنیاد تلاش کرنے کی بات نہیں کی۔ کیا کسی سطح کے تھنک ٹینک نے یہ سوچنے کی زحمت کی کہ اس کے پیچھے کیا عوامل کار فرما ہیں۔ جی حضور اس ساری لاقانونیت کے پیچھے جہاں بیرونی ہاتھ ہے وہیں آپ کا یہ کوٹہ سسٹم بھی ہے جو 1973کے آئین میں دس سال کے لئے نافذ کیا گیا اور آج تک جاری ہے اور جو کراچی میں پیدا ہونے والے جینئیس کو پیٹ بھرنے کے لئے روٹی کمانے کے مواقع مہیا نہیں کرتا۔ کراچی کا ہر جینئیس بچہ اس لئے مار کھا جاتا ہے کہ جتنا شہری علاقے کا کوٹہ ہے اس میں اس کا نمبر نہیں آتا باقی صوبائی کوٹے میں دیہی سندھ لے جاتا ہے۔
سندھ میں ملازمتوں کے اشتہار کچھ یوں چھپتے ہیں کہ یہ ملازمت دیہی علاقے کے رہائیشیوں کے لئے ہے۔ کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے رہائشی درخواست گذار نہ ہوں۔ اب اتنی بڑی آبادی کا شہر اور اس کے ساتھ حیدرآباد اور سکھر کی آبادی کو بھی شامل کرلیں تو اس آبادی کے رہائیشیوں کو کوٹہ سسٹم کے تحت آپ ملازمتوں سے محروم رکھو گے تو ایسا فرسٹیٹڈ نوجوان کیا کرے گا؟ تخریب کاری پر مائل ہوگا، چوری کرے گا، ڈاکہ ڈالے گا، اسٹریٹ کرائم میں ملوث ہوگا یا امن کے گیت گائے گا؟
کراچی میں امن قائم کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے لیکن سندھ کے آئینی مشتہر شہری علاقے کے مکینوں کو روزگار، ان کی صلاحیتوں کے مطابق فراہم کرنا قومی حکومت کا کام ہے۔ خدارا بس کیجئے، 40 سال میں ایک بہت بڑا محروم طبقہ آپ نے کوٹہ سسٹم کے ذریعے پیدا کرلیا، اب کوٹہ سسٹم ختم کیجئے اور محروم طبقے کو اس کا حق دیجئے۔ کوٹہ سسٹم کو مزید 20 سال تک بڑہا دیا گیا ہے یعنی بیروزگاری اور کرائم ریٹ بڑھانے کی بات ہو رہی ہے، تعلیم یافتہ جرائم پیشہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ خدارا تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بات سنو جو تبدیلی کے لئے تھوڑی دور ہر راہرو کے ساتھ چلتا ہے۔ کبھی عمران خان کی طرف دیکھتا ہے، کبھی میاں برادران کو ووٹ دیتا ہے پھر مایوس ہوکر کرائم کی دنیا کی جانب نکل جاتا ہے۔ کسی نشے میں مبتلا فرد کو حقیقت کی دنیا میں لانا تو ممکن ہے جرائم کی دنیا کی دلدل میں جانے والے کو واپس لانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس سے پہلے کے بیروزگاری کا عفریت تعلیم یافتہ بیروزگاروں کو جرائم کی دلدل میں دھکیل دے اور ریاست کے اپنی رٹ قائم کرنا مشکل ہوجائے بیروزگاری کا کچھ کیجئے۔ میرے ملک کے روشن روشن شہروں کو بیروت بننے سے بچا لیجئے۔ عرب انقلاب کو دیکھئیے جہاں دیگر عوامل تھے وہاں ایک وجہ بیروزگاری بھی تھی۔ مصر میں بیروزگاری نے بغاوت کو عروج پر پہنچا دیا۔ برطانیہ، اسپین، یونان، امریکہ، چلی، برازیل اور ترکی میں مظاہرے بتا رہے ہیں کہ عوام تبدیلی کا بگل بجا چکے ہے، اس سے پہلے کہ بیروزگاری کا عفریت آپ کو کھا جائے اس کا کوئی چارہ کیجئے اے میرے چارہ گرو۔
[poll id="524"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس