امریکا جرمنی تعلقات میں کھچاؤ
امریکا کی جانب سے یورپی ممالک کی جاسوسی کرنے کے انکشاف نے یورپی ممالک اور امریکا کے درمیان بے چینی کی لہر دوڑا دی ہے
امریکا کی جانب سے یورپی ممالک کی جاسوسی کرنے کے انکشاف نے یورپی ممالک اور امریکا کے درمیان بے چینی کی لہر دوڑا دی ہے۔ گزشتہ روز وکی لیکس نے جرمنی حکومت کے اہم ٹیلی فون نمبروں کی ایک فہرست شایع کی ہے جن کی جاسوسی کی جاتی رہی ہے،ان میں جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کا نمبر بھی شامل ہے' وکی لیکس نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا کی خفیہ ایجنسی ان نمبروں کی جاسوسی کرتی رہی ہے' جمعرات کو جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کے چیف آف اسٹاف افسر نے امریکی سفیر کو ایک اہم ملاقات کے لیے بلایا' اس ملاقات میں ان خبروں کے بارے میں بات چیت ہوئی کہ امریکا جرمنی کی جاسوسی کر رہا ہے۔
مسز مرکل کے ترجمان اسٹیفن سیبرٹ نے کہا ہے کہ جرمنی کا قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی بیرونی ملک جرمن حکام کے فون بلا اجازت سنے لہذا اس قانون کی خلاف ورزی پر مناسب کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ ''جرمنی اور امریکا میں انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کا باقاعدہ انتظام موجود ہے جو کہ جرمن شہریوں کی سلامتی کے لیے بھی ضروری ہے لیکن ہمارے حساس افسروں کی جاسوسی ہمارے قانون کے منافی ہے۔ مسٹر سی بیرٹ نے یہ بھی بتایا کہ تازہ رپورٹوں کا اعلیٰ سطح پر جائزہ لیا جا رہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ دو سال قبل یہ رپورٹ ملی تھی کہ چانسلر مرکل کے سیل فون کو امریکا کے خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے ''مانیٹر'' کیا ہے جس پر برلن اور واشنگٹن میں سفارتی تلخی پیدا ہو گئی تھی۔ وکی لیکس نے جن فون نمبروں کی فہرست جاری کی ہے ان میں زیادہ تر وزارت اقتصادیات اور وزارت مالیات کے نمبر ہیں۔ وکی لیکس نے دو دستاویزات بھی جاری کی ہیں جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ مس مرکل کی اپنے ایک سینئر مشیر کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا خلاصہ ہے جو یونان کے مالیاتی بحران پر کی گئی تھی۔ مذکورہ دستاویزات کے منظرعام پر آنے کے بعد جرمن حکام کہہ رہے ہیں کہ امریکا جرمنی کی اقتصادی جاسوسی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
جرمنی کے وزیر مالیات نے کہا ہے کہ امریکا کی طرف سے جاسوسی کی اطلاعات کے بعد ان کی وزارت نے رازداری کے خصوصی انتظامات کر لیے ہیں اور یہ کوشش کی ہے کہ ان کی کوئی اطلاع باہر نہ جا سکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکا کے منحرف شہری ایڈورڈ سنوڈن کے 2013ء میں بعض سرکاری راز لے کر امریکا سے جرمنی چلے جانے پر دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔
ایڈورڈ سنوڈن نے امریکا پر الزام لگایا ہے کہ وہ جرمنی کے علاوہ کئی دیگر یورپی ممالک کی بھی جاسوسی کر رہا ہے حالانکہ یہ تمام ممالک امریکا کے قریبی اتحادی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جرمن چانسلر مس مرکل نے جاسوسی کی اطلاع کے بعد بذات خود امریکی صدر باراک اوباما کو ٹیلی فون کر کے اس بارے میں استفسار کیا ہے اور کہا ہے کہ جرمنی تو امریکا کا نیٹو اتحادی ہے۔ اس کے باوجود اس کے ساتھ اس قسم کا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟
مسز مرکل کے ترجمان اسٹیفن سیبرٹ نے کہا ہے کہ جرمنی کا قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی بیرونی ملک جرمن حکام کے فون بلا اجازت سنے لہذا اس قانون کی خلاف ورزی پر مناسب کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ ''جرمنی اور امریکا میں انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کا باقاعدہ انتظام موجود ہے جو کہ جرمن شہریوں کی سلامتی کے لیے بھی ضروری ہے لیکن ہمارے حساس افسروں کی جاسوسی ہمارے قانون کے منافی ہے۔ مسٹر سی بیرٹ نے یہ بھی بتایا کہ تازہ رپورٹوں کا اعلیٰ سطح پر جائزہ لیا جا رہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ دو سال قبل یہ رپورٹ ملی تھی کہ چانسلر مرکل کے سیل فون کو امریکا کے خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے ''مانیٹر'' کیا ہے جس پر برلن اور واشنگٹن میں سفارتی تلخی پیدا ہو گئی تھی۔ وکی لیکس نے جن فون نمبروں کی فہرست جاری کی ہے ان میں زیادہ تر وزارت اقتصادیات اور وزارت مالیات کے نمبر ہیں۔ وکی لیکس نے دو دستاویزات بھی جاری کی ہیں جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ مس مرکل کی اپنے ایک سینئر مشیر کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا خلاصہ ہے جو یونان کے مالیاتی بحران پر کی گئی تھی۔ مذکورہ دستاویزات کے منظرعام پر آنے کے بعد جرمن حکام کہہ رہے ہیں کہ امریکا جرمنی کی اقتصادی جاسوسی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
جرمنی کے وزیر مالیات نے کہا ہے کہ امریکا کی طرف سے جاسوسی کی اطلاعات کے بعد ان کی وزارت نے رازداری کے خصوصی انتظامات کر لیے ہیں اور یہ کوشش کی ہے کہ ان کی کوئی اطلاع باہر نہ جا سکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکا کے منحرف شہری ایڈورڈ سنوڈن کے 2013ء میں بعض سرکاری راز لے کر امریکا سے جرمنی چلے جانے پر دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔
ایڈورڈ سنوڈن نے امریکا پر الزام لگایا ہے کہ وہ جرمنی کے علاوہ کئی دیگر یورپی ممالک کی بھی جاسوسی کر رہا ہے حالانکہ یہ تمام ممالک امریکا کے قریبی اتحادی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جرمن چانسلر مس مرکل نے جاسوسی کی اطلاع کے بعد بذات خود امریکی صدر باراک اوباما کو ٹیلی فون کر کے اس بارے میں استفسار کیا ہے اور کہا ہے کہ جرمنی تو امریکا کا نیٹو اتحادی ہے۔ اس کے باوجود اس کے ساتھ اس قسم کا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟