طاقت کا کھیل
ہمارے اکثراہل علم وقلم اورسنجیدہ لوگ اس تفریق کوملحوظ خاطرنظرنہیں رکھتے۔
ISLAMABAD:
ہمارے ملک میں طاقت اور اقتدارکاکھیل دو مختلف عناصرہیں۔بظاہرایک جیسے مگرجوہری طورپراذیت ناک حدتک ایک دوسرے کی ضد۔کبھی کبھی ان میں یکسانیت پیدا کردی جاتی ہے۔اس کا مقصدبھی کسی خصوصی شخص یاسیاسی جماعت کوفائدہ یانقصان پہنچاناہوتاہے۔ہمارے اکثراہل علم وقلم اورسنجیدہ لوگ اس تفریق کوملحوظ خاطرنظرنہیں رکھتے۔ دونوں کھیلوں کے میدان میں کھلاڑی،تماشائی اورٹیم کے انچارج بدلتے رہتے ہیں۔یہ سب کچھ انتہائی منظم اورسنجیدہ طریقے سے کیاجاتاہے۔اس کی واحدوجہ یہ کہ عام لوگ ہرحکومت کوقانونی طریقے سے وجودمیں آئی ہوئی حکومت گردانیںاوراس پرکوئی سوال اٹھانے کی نوبت نہ آئے؟
اس وقت پاکستان میں یہ دونوں کھیل دانائی سے بالکل عاری طریقے سے کھیلے جارہے ہیں۔متانت اور احتیاط توبڑے دورکی بات،سب کچھ انتہائی عجلت میں کیا جا رہا ہے۔ واقعی انسان خسارے میں ہے۔چھوٹی چھوٹی ذاتی مہم جوئی۔ اگر آپ عقل کی گوندکے ذریعے ہرواقعہ کو جوڑ کر دیکھیںتوتمام معاملہ کھل کرسامنے آجاتاہے۔ایک اور حقیقت بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ اس خوفناک کھیل میں کسی قسم کاکوئی اصول روا نہیں رکھاجاتا۔اس معاملہ میں کسی کے ذہن میں کوئی مغالطہ نہیں رہناچاہیے۔
سیاسی تاریخ میں محض تلخیاں اور سوالیہ نشان ہیں۔ہاں ایک عجیب سی تشنگی بھی۔جس پاکستان میں آج ہم بلند و بانگ جذباتیت کے جھنڈے اٹھائے ہوئے اپنے آپ کو بہت قدآورثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اس کا وجود کیسے قائم رہا؟مطالعہ اورتجزیہ کیجیے تواصل بات بہت تلخ ہے۔1970ء میں اندراگاندھی مشرقی پاکستان حاصل کرنے کے بعدمغربی پاکستان پریقینی یلغارکاحکم دے چکی تھی۔
اس کا نتیجہ کیاہوسکتاتھا،اس کا تصورکرنابھی بہت مشکل ہے۔اس وقت کے امریکی صدرنے ہندوستان کی وزیراعظم کواس مہم جوئی سے انتہائی سختی سے روکا تھا۔ اگر امریکی صدربروقت اس طرح کامضبوط پیغام نہ دیتا تو صورتحال انتہائی مختلف ہوتی۔ہم اس سچ کوتسلیم کرنے کے بجائے اس کا ذکرکرنابھی توہین سمجھتے ہیں۔میری بات نہ مانیے۔امریکا کے خفیہ اداروں کے چندبرسوں کے شایع شدہ کاغذات کوپڑھ لیجیے۔آپ کو اندازہ ہوجائیگا اور رائے قائم کرنے میں قدرے آسانی ہوجائیگی۔ مگر اکثر لوگ اس سنجیدگی سے محروم ہیں یا بتدریج کردیے گئے ہیں، کہ سچ سن سکیں یابرداشت کرسکیں۔
عملی سیاست کودیکھیے۔نوے کی مکمل دہائی میں اقتدار ایک فریق کے پاس تھامگرطاقت دوسرے فریق کی مٹھی میں تھی۔طاقت کے کھلاڑی جب چاہتے تھے،اپنی ذاتی مرضی کے مطابق بساط کوتبدیل کردیتے تھے۔کوئی اُف بھی نہیں کرسکتاتھا۔کیونکہ درون خانہ سب کوسب کچھ معلوم تھا۔یہ سلسلہ پاکستان بننے کے فوراًبعدشروع ہوگیا تھا۔بدقسمتی سے یہ آج بھی جاری ہے۔
غورکیجیے،کہ سیاستدانوں کی اکثریت کوہرطریقے سے نااہل اورکرپٹ ثابت کیاجاتاہے۔درست ہے کہ ان میں سے اکثریت مالی اوراخلاقی طورپراس اہلیت کی حامل نہیں جواس کااصل خاصہ ہوناچاہیے۔مگریہ سب کچھ اس طرح کیایاکروایاجاتاہے کہ سچ اورجھوٹ میں تمیزکرنامشکل بلکہ ناممکن ہوجاتی ہے۔سیاستدان بارباراپنی غلطیوں کو دہراتے ہیں۔وہ یہ جوازبذات خودمہیاکردیتے ہیں کہ ان کے متعلق جومنفی تاثرپھیلایاجارہاہے،وہ اس پرپورے اتریں۔ کوئی بھی ٹھنڈے دل سے نہیں سوچتاکہ صورتحال کے گرداب سے کیسے نکلاجائے۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ پوری قوم کاایک خاص مصنوعی مزاج مرتب ہوجاتا ہے۔ افواہوں اورجھوٹی سچی خبروں سے نتائج نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جواکثرغلط ہوتے ہیں۔
زرداری صاحب کے پانچ سالوں کوپرکھیے۔وہ ایک خصوصیArrangementکے تحت حکومت میں آئے تھے۔اس منصوبہ بندی میں شخصی اوربین الاقوامی ضمانتیں موجودتھیں۔طاقتورحلقوں نے انکویقین دلایاتھاکہ ان کی حکومت کوکسی قسم کاکوئی مسئلہ درپیش نہیں آئیگا۔لہذاوہ آرام اورسکون سے بیٹھ کرحکومت کے مزے لوٹ سکتے ہیں۔ انکو پانچ سال صرف اسلیے پورے کرنے دیے گئے کہ ان کی سیاسی جماعت کواس ابتری تک پہنچادیاجائے کہ سندھ کے چنددیہی حلقوں تک محدودہوجائے۔صدرزرداری اوران کے قریبی رفقاء اپنے نقصان سے بے خبراس جانب چل پڑے جس میں وہ حکومت کااخلاقی جوازکھوبیٹھے۔صرف انگلی کے ایک اشارے سے پاکستان کے وزیراعظم کوگھربھیج دیا گیا۔ پتا تک نہیں ہلا۔کیوں؟صرف اسلیے کہ طاقت کے میدان میں وہ ضیعف ہوچکے تھے۔میں قصداً کرپشن پربات نہیں کرناچاہتاکیونکہ یہ موضوع ہرطرف زبان زدعام کی حیثیت اختیارکرچکاہے۔اس میں حقیقت بھی ہے اور چند فیصد فسانہ بھی۔
آج کی موجودہ صورتحال بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔ اسلیے کہ کوئی بھی فریق اس حیثیت میں نہیں کہ مکمل طور پر بساط کولپیٹ سکے یاتبدیل کرسکے۔میں لفظ حیثیت استعمال کررہاہوں،طاقت نہیں۔یہ غلط فہمی بھی دورہونی چاہیے کہ مقتدرطبقے اگرحکومت سنبھالنے کافیصلہ کرلیں تو کوئی بھی آئینی ادارہ ان کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے۔یہ محض ایک مفروضہ ہے۔وقت آنے پرہرادارہ وہی کرتا ہے جو حکم دیاجاتاہے۔
دو اہم بین الاقوامی تبدیلیاں ایسی ہیں جن پرغور کرنا ضروری ہے۔تجزیہ اپنااپنا۔پہلے توسعودی عرب کے شاہی خاندان کی باہمی رنجش اوربادشاہ کی تبدیلی کامصمم خاندانی اصول کاٹوٹناہے۔اس وقت سعودی عرب میں وہ سیاسی استحکام نہیں جوبظاہرنظرآتاہے۔اس کا ہمارے حالات سے براہِ راست تعلق ہے۔کیونکہ ایک سطح پرہمارے سیاسی نظام میںان کی ضمانت شامل ہے۔اس وقت سعودی عرب، پاکستان کے دفاعی اداروں سے براہِ راست رابطہ میں ہے۔ ان دونوں کے درمیان اعتمادکابھرپوررشتہ موجود ہے۔ دوسرا اہم نکتہ ترکی میں محترم طیب اردگان کی الیکشن میں جزوی شکست ہے۔
اس شکست کی وجوہات داخلی نظرآتی ہیں مگر خارجی عوامل کومکمل طورپرردنہیں کیاجاسکتا۔ترکی کی سیاسی قیادت بھی ہمارے کئی معاملات میں براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔وہ اس میں کسی طرح کی لگی لپٹی بات ملحوظِ خاطر نہیں لاتے۔آپ ان دونوںتبدیلیوں کوآپس میں جوڑ کر دیکھیے توآپ کوہمارے سیاسی نظام کی موجودہ کمزوری کی وجوہات معلوم کرنے میں آسانی ہوجائیگی۔
کراچی کے موجودہ حالات سے آپ بہت کچھ اخذ کر سکتے ہیں۔یہ درست ہے کہ اسکا ٹ لینڈیارڈایک غیرجانبدار اورآزادادارہ ہے۔مگروہ بھی برطانیہ کے خفیہ اداروں کی دسترس سے باہرنہیں ہے۔لازم ہے،کہ اس سطح پر جو کیا جاتا ہے،وہ بتایانھیں جاتا۔ایم کیوایم کی پہاڑجیسی غلطیاں ہیں۔دکھ کی بات یہ ہے کہ ان کی سیاسی قیادت نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی روشنی میں اپنی داخلی تصحیح نہیں کی۔وہ الزام کاجواب ایک اورالزام لگانے کی روش اختیارکرچکے ہیں۔دلیل سے بات کرنے کی استطاعت بظاہرکم ہورہی ہے۔
میرے لیے یہ ایک سوال ہے کہ ایساکیوں ہورہاہے یا ایساکیوں کرنے دیاجارہاہے میں اکثرلوگوں کی طرح مکافات عمل کے کلیہ کوزیادہ اہمیت نہیںدیتا۔طالبعلم کی دانست میں طاقت کے میدان کے کھلاڑی سیاسی جماعتوں کے چندعناصرپرفیصلہ کن برتری چاہتے ہیں۔اگراحتساب مقصودہوتا،توہرایک کوکرپشن کے حقائق اوراس سے مستفید ہونے والوں کامعلوم ہے۔
ان پرہاتھ نہ ڈالنااس نظریہ کو تقویت دیتاہے کہ اصل مقصد دباؤ بڑھانا ہے، شفاف اور بے لاگ احتساب نہیں۔سندھ کی دوسری سیاسی جماعت بھی اس دباؤکاشکارنظرآرہی ہے مگراس میں اس کی مالی بے ضابطگیوں کادخل بہت زیادہ ہے۔وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ کسی بھی طریقے سے اپنادفاع کرسکے۔یہ بذات خودایک المیہ ہے۔کہاں محترمہ بے نظیربھٹواورکہاں دوسری سفید کپڑوں میں ملبوس خاتون۔وہ ٹی وی پرجتنابولتی ہیں، اپنے اوراپنی پارٹی کے لیے اتنی ہی مشکلات میں اضافہ کاباعث بنتی ہیں۔
مجھے ایسے لگتاہے کہ ایک نئی سیاسی اور انتظامی صف بندی وجودمیں آ رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس سچ سے بھی لگایا جا سکتاہے کہ بقیہ صوبوں اورمرکزمیں کرپشن کے عمل میں انتہائی تیزی آچکی ہے۔کوئی ایک دن کے لیے بھی ایک دوسرے پراعتبارکے لیے تیارنہیں۔یہ اس وقت ہوتاہے جب مقتدرحلقہ بے یقینی کاشکارہوجاتاہے۔بے یقینی انتہائی سرعت سے بڑھ رہی ہے۔
طاقت کے میدان کے کھلاڑی بڑی مضبوطی سے اپنی جگہ بنارہے ہیں بلکہ بناچکے ہیں۔بین الاقوامی ادارے پھرہمارے پورے نظام میں عدم استحکام پیداکررہے ہیں۔اقتدارپربراجمان لوگ اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہیں۔یہ دباؤآنے والے وقت میں بڑھے گا۔ جیت کس کی ہوگی، اس کے متعلق کچھ نہیں کہاجاسکتا؟یہ بھی ہوسکتاہے کہ سارے فریق ہارجائیں۔یہ طاقت کاکھیل ہے،اس میں کچھ بھی ہو سکتاہے!
ہمارے ملک میں طاقت اور اقتدارکاکھیل دو مختلف عناصرہیں۔بظاہرایک جیسے مگرجوہری طورپراذیت ناک حدتک ایک دوسرے کی ضد۔کبھی کبھی ان میں یکسانیت پیدا کردی جاتی ہے۔اس کا مقصدبھی کسی خصوصی شخص یاسیاسی جماعت کوفائدہ یانقصان پہنچاناہوتاہے۔ہمارے اکثراہل علم وقلم اورسنجیدہ لوگ اس تفریق کوملحوظ خاطرنظرنہیں رکھتے۔ دونوں کھیلوں کے میدان میں کھلاڑی،تماشائی اورٹیم کے انچارج بدلتے رہتے ہیں۔یہ سب کچھ انتہائی منظم اورسنجیدہ طریقے سے کیاجاتاہے۔اس کی واحدوجہ یہ کہ عام لوگ ہرحکومت کوقانونی طریقے سے وجودمیں آئی ہوئی حکومت گردانیںاوراس پرکوئی سوال اٹھانے کی نوبت نہ آئے؟
اس وقت پاکستان میں یہ دونوں کھیل دانائی سے بالکل عاری طریقے سے کھیلے جارہے ہیں۔متانت اور احتیاط توبڑے دورکی بات،سب کچھ انتہائی عجلت میں کیا جا رہا ہے۔ واقعی انسان خسارے میں ہے۔چھوٹی چھوٹی ذاتی مہم جوئی۔ اگر آپ عقل کی گوندکے ذریعے ہرواقعہ کو جوڑ کر دیکھیںتوتمام معاملہ کھل کرسامنے آجاتاہے۔ایک اور حقیقت بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ اس خوفناک کھیل میں کسی قسم کاکوئی اصول روا نہیں رکھاجاتا۔اس معاملہ میں کسی کے ذہن میں کوئی مغالطہ نہیں رہناچاہیے۔
سیاسی تاریخ میں محض تلخیاں اور سوالیہ نشان ہیں۔ہاں ایک عجیب سی تشنگی بھی۔جس پاکستان میں آج ہم بلند و بانگ جذباتیت کے جھنڈے اٹھائے ہوئے اپنے آپ کو بہت قدآورثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اس کا وجود کیسے قائم رہا؟مطالعہ اورتجزیہ کیجیے تواصل بات بہت تلخ ہے۔1970ء میں اندراگاندھی مشرقی پاکستان حاصل کرنے کے بعدمغربی پاکستان پریقینی یلغارکاحکم دے چکی تھی۔
اس کا نتیجہ کیاہوسکتاتھا،اس کا تصورکرنابھی بہت مشکل ہے۔اس وقت کے امریکی صدرنے ہندوستان کی وزیراعظم کواس مہم جوئی سے انتہائی سختی سے روکا تھا۔ اگر امریکی صدربروقت اس طرح کامضبوط پیغام نہ دیتا تو صورتحال انتہائی مختلف ہوتی۔ہم اس سچ کوتسلیم کرنے کے بجائے اس کا ذکرکرنابھی توہین سمجھتے ہیں۔میری بات نہ مانیے۔امریکا کے خفیہ اداروں کے چندبرسوں کے شایع شدہ کاغذات کوپڑھ لیجیے۔آپ کو اندازہ ہوجائیگا اور رائے قائم کرنے میں قدرے آسانی ہوجائیگی۔ مگر اکثر لوگ اس سنجیدگی سے محروم ہیں یا بتدریج کردیے گئے ہیں، کہ سچ سن سکیں یابرداشت کرسکیں۔
عملی سیاست کودیکھیے۔نوے کی مکمل دہائی میں اقتدار ایک فریق کے پاس تھامگرطاقت دوسرے فریق کی مٹھی میں تھی۔طاقت کے کھلاڑی جب چاہتے تھے،اپنی ذاتی مرضی کے مطابق بساط کوتبدیل کردیتے تھے۔کوئی اُف بھی نہیں کرسکتاتھا۔کیونکہ درون خانہ سب کوسب کچھ معلوم تھا۔یہ سلسلہ پاکستان بننے کے فوراًبعدشروع ہوگیا تھا۔بدقسمتی سے یہ آج بھی جاری ہے۔
غورکیجیے،کہ سیاستدانوں کی اکثریت کوہرطریقے سے نااہل اورکرپٹ ثابت کیاجاتاہے۔درست ہے کہ ان میں سے اکثریت مالی اوراخلاقی طورپراس اہلیت کی حامل نہیں جواس کااصل خاصہ ہوناچاہیے۔مگریہ سب کچھ اس طرح کیایاکروایاجاتاہے کہ سچ اورجھوٹ میں تمیزکرنامشکل بلکہ ناممکن ہوجاتی ہے۔سیاستدان بارباراپنی غلطیوں کو دہراتے ہیں۔وہ یہ جوازبذات خودمہیاکردیتے ہیں کہ ان کے متعلق جومنفی تاثرپھیلایاجارہاہے،وہ اس پرپورے اتریں۔ کوئی بھی ٹھنڈے دل سے نہیں سوچتاکہ صورتحال کے گرداب سے کیسے نکلاجائے۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ پوری قوم کاایک خاص مصنوعی مزاج مرتب ہوجاتا ہے۔ افواہوں اورجھوٹی سچی خبروں سے نتائج نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جواکثرغلط ہوتے ہیں۔
زرداری صاحب کے پانچ سالوں کوپرکھیے۔وہ ایک خصوصیArrangementکے تحت حکومت میں آئے تھے۔اس منصوبہ بندی میں شخصی اوربین الاقوامی ضمانتیں موجودتھیں۔طاقتورحلقوں نے انکویقین دلایاتھاکہ ان کی حکومت کوکسی قسم کاکوئی مسئلہ درپیش نہیں آئیگا۔لہذاوہ آرام اورسکون سے بیٹھ کرحکومت کے مزے لوٹ سکتے ہیں۔ انکو پانچ سال صرف اسلیے پورے کرنے دیے گئے کہ ان کی سیاسی جماعت کواس ابتری تک پہنچادیاجائے کہ سندھ کے چنددیہی حلقوں تک محدودہوجائے۔صدرزرداری اوران کے قریبی رفقاء اپنے نقصان سے بے خبراس جانب چل پڑے جس میں وہ حکومت کااخلاقی جوازکھوبیٹھے۔صرف انگلی کے ایک اشارے سے پاکستان کے وزیراعظم کوگھربھیج دیا گیا۔ پتا تک نہیں ہلا۔کیوں؟صرف اسلیے کہ طاقت کے میدان میں وہ ضیعف ہوچکے تھے۔میں قصداً کرپشن پربات نہیں کرناچاہتاکیونکہ یہ موضوع ہرطرف زبان زدعام کی حیثیت اختیارکرچکاہے۔اس میں حقیقت بھی ہے اور چند فیصد فسانہ بھی۔
آج کی موجودہ صورتحال بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔ اسلیے کہ کوئی بھی فریق اس حیثیت میں نہیں کہ مکمل طور پر بساط کولپیٹ سکے یاتبدیل کرسکے۔میں لفظ حیثیت استعمال کررہاہوں،طاقت نہیں۔یہ غلط فہمی بھی دورہونی چاہیے کہ مقتدرطبقے اگرحکومت سنبھالنے کافیصلہ کرلیں تو کوئی بھی آئینی ادارہ ان کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے۔یہ محض ایک مفروضہ ہے۔وقت آنے پرہرادارہ وہی کرتا ہے جو حکم دیاجاتاہے۔
دو اہم بین الاقوامی تبدیلیاں ایسی ہیں جن پرغور کرنا ضروری ہے۔تجزیہ اپنااپنا۔پہلے توسعودی عرب کے شاہی خاندان کی باہمی رنجش اوربادشاہ کی تبدیلی کامصمم خاندانی اصول کاٹوٹناہے۔اس وقت سعودی عرب میں وہ سیاسی استحکام نہیں جوبظاہرنظرآتاہے۔اس کا ہمارے حالات سے براہِ راست تعلق ہے۔کیونکہ ایک سطح پرہمارے سیاسی نظام میںان کی ضمانت شامل ہے۔اس وقت سعودی عرب، پاکستان کے دفاعی اداروں سے براہِ راست رابطہ میں ہے۔ ان دونوں کے درمیان اعتمادکابھرپوررشتہ موجود ہے۔ دوسرا اہم نکتہ ترکی میں محترم طیب اردگان کی الیکشن میں جزوی شکست ہے۔
اس شکست کی وجوہات داخلی نظرآتی ہیں مگر خارجی عوامل کومکمل طورپرردنہیں کیاجاسکتا۔ترکی کی سیاسی قیادت بھی ہمارے کئی معاملات میں براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔وہ اس میں کسی طرح کی لگی لپٹی بات ملحوظِ خاطر نہیں لاتے۔آپ ان دونوںتبدیلیوں کوآپس میں جوڑ کر دیکھیے توآپ کوہمارے سیاسی نظام کی موجودہ کمزوری کی وجوہات معلوم کرنے میں آسانی ہوجائیگی۔
کراچی کے موجودہ حالات سے آپ بہت کچھ اخذ کر سکتے ہیں۔یہ درست ہے کہ اسکا ٹ لینڈیارڈایک غیرجانبدار اورآزادادارہ ہے۔مگروہ بھی برطانیہ کے خفیہ اداروں کی دسترس سے باہرنہیں ہے۔لازم ہے،کہ اس سطح پر جو کیا جاتا ہے،وہ بتایانھیں جاتا۔ایم کیوایم کی پہاڑجیسی غلطیاں ہیں۔دکھ کی بات یہ ہے کہ ان کی سیاسی قیادت نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی روشنی میں اپنی داخلی تصحیح نہیں کی۔وہ الزام کاجواب ایک اورالزام لگانے کی روش اختیارکرچکے ہیں۔دلیل سے بات کرنے کی استطاعت بظاہرکم ہورہی ہے۔
میرے لیے یہ ایک سوال ہے کہ ایساکیوں ہورہاہے یا ایساکیوں کرنے دیاجارہاہے میں اکثرلوگوں کی طرح مکافات عمل کے کلیہ کوزیادہ اہمیت نہیںدیتا۔طالبعلم کی دانست میں طاقت کے میدان کے کھلاڑی سیاسی جماعتوں کے چندعناصرپرفیصلہ کن برتری چاہتے ہیں۔اگراحتساب مقصودہوتا،توہرایک کوکرپشن کے حقائق اوراس سے مستفید ہونے والوں کامعلوم ہے۔
ان پرہاتھ نہ ڈالنااس نظریہ کو تقویت دیتاہے کہ اصل مقصد دباؤ بڑھانا ہے، شفاف اور بے لاگ احتساب نہیں۔سندھ کی دوسری سیاسی جماعت بھی اس دباؤکاشکارنظرآرہی ہے مگراس میں اس کی مالی بے ضابطگیوں کادخل بہت زیادہ ہے۔وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ کسی بھی طریقے سے اپنادفاع کرسکے۔یہ بذات خودایک المیہ ہے۔کہاں محترمہ بے نظیربھٹواورکہاں دوسری سفید کپڑوں میں ملبوس خاتون۔وہ ٹی وی پرجتنابولتی ہیں، اپنے اوراپنی پارٹی کے لیے اتنی ہی مشکلات میں اضافہ کاباعث بنتی ہیں۔
مجھے ایسے لگتاہے کہ ایک نئی سیاسی اور انتظامی صف بندی وجودمیں آ رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس سچ سے بھی لگایا جا سکتاہے کہ بقیہ صوبوں اورمرکزمیں کرپشن کے عمل میں انتہائی تیزی آچکی ہے۔کوئی ایک دن کے لیے بھی ایک دوسرے پراعتبارکے لیے تیارنہیں۔یہ اس وقت ہوتاہے جب مقتدرحلقہ بے یقینی کاشکارہوجاتاہے۔بے یقینی انتہائی سرعت سے بڑھ رہی ہے۔
طاقت کے میدان کے کھلاڑی بڑی مضبوطی سے اپنی جگہ بنارہے ہیں بلکہ بناچکے ہیں۔بین الاقوامی ادارے پھرہمارے پورے نظام میں عدم استحکام پیداکررہے ہیں۔اقتدارپربراجمان لوگ اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہیں۔یہ دباؤآنے والے وقت میں بڑھے گا۔ جیت کس کی ہوگی، اس کے متعلق کچھ نہیں کہاجاسکتا؟یہ بھی ہوسکتاہے کہ سارے فریق ہارجائیں۔یہ طاقت کاکھیل ہے،اس میں کچھ بھی ہو سکتاہے!