خرم دستگیر کی افطاری

’بھارت سے افغانستان جانے والے سامان تجارت کی بلا روک ٹوک اور تلاشی کی ترسیل ممکن نہیں ہیں

budha.goraya@yahoo.com

عالمی تجارت میں پاکستان کی حصے داری کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ: ''وزیرتجارت بن کر میں نے عاجزی سیکھی، انکساری کے سبق لیے، اپنے مقام اور مرتبے کا حقیقی اندازہ لگانے کا فہم و ادراک پیدا کیا'' یہ خرم دستگیر خان تھے ہمارے وفاقی وزیر تجارت، جو بین الاقوامی تجارت میں پاکستان کے حصے کے بارے میں اظہار خیال کر رہے تھے' اس کالم نگار نے مدتوں بعد دعوت افطار میں جانا شروع کیا ہے کہ ایک دہائی تک ان بابرکت محافل کے ساتھ ساتھ شبینہ مجالس کو تج کر اپنے حجرے، گوشہ تنہائی میں گیان دھیان کے ساتھ ساتھ مطالعے میں ڈوبا رہا۔ صحافتی منظرنامہ، ٹی وی چینلز نے یکسر بدل کر رکھ دیا ہے' چمکتے دمکتے جواں سال چہرے، اعتماد سے پر انداز تکلم، تاریخ کے سیاق و سباق سے لاعلمی کے باوجود، ہر موضوع پر امرت دھارا تجزیہ نگاری آج کا چلن ہے۔

خاں غلام دستگیر خاں نے اپنے صاحبزادے کی تعلیم پر غیر معمولی توجہ دی۔ مایہ ناز پاکستانی درس گاہوں کے بعد انھیں اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا بھجوایا جہاں سے وہ انجینئرنگ اور اقتصادیات کے علوم سے مسلح ہو کر واپس لوٹا تو موقر اور معتبر ڈان کے ادارتی صفحات پر کالم کاری اور تجزیہ نگاری شروع کی چونکہ ان کی دلچسپی اور مہارت کا میدان کار اقتصادی اور معاشی مسائل تھے اس لیے عوام اُن کے علم و فضل اور عقل و دانش سے آگاہ نہ ہو سکے لیکن پاکستانی انگریزی اشرافیہ اور ماہرین معاشیات کے معتبر حلقوں میں اُن کی فہم و فراست کے چرچے ہوتے رہے۔

خرم دستگیر بتا رہے تھے کہ یورپ سے ہماری تجارت کا حجم ایسا نہیں ہے ترجیحی تجارتی مراعات کا درجہ (GSP Plus) ملنے سے صرف 20 ملین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔

''ہمارے برآمد کنندگان کے لیے مجھے تعلیم بالغاں کا انتظام کرنا پڑے گا کہ انھیں کاروبار کے جدید طور طریقے سمجھائے جائیں، میں تو تھک گیا یہ بتاتے اور سمجھاتے کہ دنیا بدل چکی ہے اگر ہم نے بین الاقوامی کاروبار کرنا ہے تو گاہکوں کے تمام مطالبات اور ضروریات کو پورا کرنا ہو گا آئی ایس او سرٹیفیکیشن کو ہمارے برآمد کنندگان بلاجواز ناروا بوجھ سمجھتے ہیں جب کہ ان کے بغیر اب برآمدات ممکن نہیں ہیں۔

خرم دستگیر بتا رہے تھے کہ وزارت تجارت منتیں کر رہی کہ خدا کے لیے آم کو فرسودہ پیٹیوں میں بھجوانے کے بجائے گتے کے خوبصورت ڈبوں میں پیک کیا جائے کسی نے ہماری آواز پر کان نہیں دھرا، دراصل وہ صدیوں پرانے طریقے کو چھوڑنے اور (Value Edition) کا جدید تصور اپنانے کے لیے تیار نہیں ہیں مجبوراً پیٹیوں میں آم برآمد کرنے پر پابندیاں لگانا پڑی۔ گزشتہ ہفتے سعودی عرب میں مقیم پاکستانی سفیر کا فون آیا وہ بتا رہے تھے کہ پاکستانی آم کی صرف پیکنگ تبدیل ہونے سے قیمت دوگنا ہو گئی ہے۔

یہ کالم نگار ماضی میں بہت دور سنگاپور جا نکلا ہمارے ایک کرم فرما ایس ڈی بخاری صاحب نے پی آئی اے سے فراغت کے بعد وہاں ڈیرے ڈال دیے تھے اور زندگی کا دھندہ چلانے کے لیے آم برآمد کرنا شروع کر دیے۔ شروع میں مشکلات آئیں لیکن انتھک محنت کے سامنے تو پہاڑ سرنگوں ہو جاتے ہیں (Mr Mango) کے نام سے معروف بخاری صاحب نے کثیرالنسلی سنگاپور میں رسیلے شریں اور خوشبودار آموں کے ذریعے سب کے دل جیت لیے ہیں اگر ایک فرد واحد سنگا پور میں سب حریفوں کو شکست دے سکتا ہے تو عالمی منڈیوں میں ہمارا سبز ہلالی پرچم کیوں نہیں لہرا سکتا۔

گوجرانوالہ کے روایتی پہلوانوں والے ڈیل ڈول والے خرم دستگیر پاک افغان تجارت میں حائل مشکلات اور مسائل کو عام فہم انداز میں بیان کر رہے تھے ''ہماری دو طرفہ تجارت میں کسی قسم کی کوئی مشکلات بظاہر نہیں ہونی چاہیں خشکی میں گھرے برادر ہمسایہ کے لیے تجارتی راہداریاں سب سے بڑا مسئلہ ہیں پاکستان اسے تمام سہولیات فراہم کر رہا ہے اب اُن کے مطالبے پر کارگو سامان کی تلاشی ختم کر دی ہے۔


صرف 25 فیصد سامان کو اچانک (Randomly) چیک کرتے ہیں یا پھر خفیہ ذرائع سے ملنے والی معلومات پر اچانک تلاشی لیتے ہیں لیکن افغانستان ہمیں وسط ایشیا کے لیے یہی سہولتیں دینے میں پس وپیش سے کام لے رہا ہے۔ افغان حکومت پاکستان سے وسطی ایشیا کو جانے والے سامان پر کئی طرح کے محاصل وصول کر رہی ہے اور ہم اچھے تعلقات کے لیے یہ سب کچھ خاموشی سے برداشت کر رہے ہیں۔

جناب خرم دستگیر اپنے تازہ ترین دورہ افغانستان کے بارے میں بتا رہے تھے کہ افغان صدر اشرف غنی نے ملاقات کے دوران پاکستان کو وسطی ایشیائی ریاستوں سے راہداری کو بھارت سے جوڑنے کی کوشش کی تو میں نے بصد ادب انھیں بتایا کہ پاک افغان دو طرفہ معاملات میں کسی تیسرے ملک کا تذکرہ نہیں ہونا چاہیے۔ معاشی امور پر رپورٹنگ کرنے والے وفاقی دارالحکومت کے تین مایہ ناز رپورٹر، خالد جمیل، سید خالد مصطفی اور ہم دم دیرینہ مشتاق گھمن اور صاحب اسلوب کالم نگار طارق چوہدری کے چبھتے ہوئے استفسارات اور نوکیلے سوالات کا بڑے پر اعتماد لہجے میں رواں انگریزی، شائستہ اردو اور کھلی ڈلی پنجابی میں وزیر تجارت خرم دستگیر خان جواب دے رہے تھے۔

''بھارت سے افغانستان جانے والے سامان تجارت کی بلا روک ٹوک اور تلاشی کی ترسیل ممکن نہیں ہیں جب کہ افغان حکام کا اصرار ہے کہ اسے بھی کراچی بندرگاہ کی طرح ترجیحاً سلوک کے ساتھ جانے کی اجازت دی جائے اور پھر ذکر چھڑ گیا بھارت کو پسندیدہ قوم قرار دینے میں حائل مشکلات کا، جس پر خرم دستگیر نے کہا کہ جس طرح کے محبت نامے سرحد پار سے آ رہے ہیں ان حالات میں معمول کے تعلقات ہی غنیمت ہیں وہ مودی سرکار کی عقل و دانشمندی پر اظہار افسوس کر رہے تھے کہ وہ اپنے فائدے کے لیے بھی تعلقات معمول پر لانے اور دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے بجائے نفرت کا کھیل کھیل رہے ہیں۔کابل میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے حوالے سے مسکراتے ہوئے انکشاف کیا کہ افغان وزارتوں میں بھارتی مشیر بیٹھے سارا 'کارخانہ' چلا رہے ہیں۔

افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کا ذکر بھی در آیا تو خرم دستگیر خاں مزے لے لے کر ان سے ملاقات کی تفصیلات بتائیں کہ کیسے پاکستان مخالفت کی شہرت رکھنے والے عبداللہ عبداللہ نے والہانہ گرم جوشی سے اُن کا استقبال کیا اپنے دفتر کے پائیں باغ میں شام کی طویل سیر کے دوران فارسی شاعری کے منتخب کلام سے ان کی تواضع کی اور وقت رخصت اسی کلام کا دیدہ زیب، دبیز چرمی جلد میں تحفہ پیش کر کے مجھے جیت لیا اس خوشگوار ملاقات میں جوانی کے قصے کہانیاں اور پاکستان میں قیام کے واقعات سنا کر محفوظ ہوتے رہے، ماضی کی یادوں کا دبستان، آسودہ حال افغان رہنما کے لیے خوش دلی کا سبب تھا۔

پاکستان مخالف شمالی اتحاد کے رہنما، سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ' شیر پنج شیر احمد شاہ مسعود اور سابق افغان صدر استاد برہان الدین ربانی کے دست راست رہنے والے اس سیاستدان نے صدارتی انتخاب کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا تو شاطر امریکیوں نے اُن کے لیے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ تخلیق کر ڈالا قبل ازیں سیاسیات کی جدید تاریخ میں پہلی بار یہ عہدہ 12 اکتوبر 1999ء کے مارشل لا پر پردہ ڈالنے کے لیے جدہ کے جادوگر شریف الدین پیرزادہ نے جنرل مشرف کے لیے تخلیق کیا تھا۔

وسط ایشیا سے تجارت کے امکانات پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر تجارت نے بتایا کہ تمام ریاستوں کی کل آبادی تو ہمارے لاہور، کراچی اور فیصل آباد کے برابر ہو گی جس سے تجارت کے حجم کا اندازہ کیا جا سکتا ہے صرف قازقستان بڑی ریاست ہے ویسے بھی عالمی بینکاری نظام کی عدم موجودگی میں مروج طریقے سے تجارت کرنا ممکن نہیں ہے۔

بہترین طریقہ یہی ہے کہ ایک گودام لیں وہاں مال ڈالیں خود نقد پر بیچیں اور موج کریں وہ ہلکے پھلکے انداز میں بتا رہے تھے کہ ہمارے بہت سے بھائی اس فارمولے پر عمل کرتے ہوئے کامیابی سے تجارت کر رہے ہیں کچھ وسط ایشیائی معاشروں میں رچ بس گئے ہیں بلکہ اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ وہاں شادیاں کر کے رشتہ داریاں استوار کر کے کاروبار کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا نام بھی روشن کر رہے ہیں۔ایران سے تجارت میں حائل مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ پابندیوں کی وجہ سے عالمی بینکاری نظام کے ذریعے لین دین ممکن نہیں ویسے بھی ایرانی بڑے مشکل گاہک اور خریدار ہیں مال کے بدلے مال کا قدیم طریقہ کار صرف محدود پیمانے پر تجارت کے لیے کارگر ہو سکتا ہے۔

انجینئر، ماہر اقتصادیات، دانشور اور سب سے بڑھ کر کالم نگار خرم دستگیر خان اور اس عاجز کالم نگار کے درمیان گوجرانوالہ اور ان کے والد خان غلام دستگیر خاں دو معتبر حوالے ہیں ان کے والد سیاست کو الوداع کہہ رہے تھے تو یہ شوریدہ سر90ء کی دہائی میں لاہور سے وفاقی دارالحکومت وارد ہوا۔ معتبر خاندانی حوالے اور گوجرانوالہ سے تعلق کا تعارف زندگی کی راہیں آسان بنا سکتا تھا لیکن صالحین کے خبط عظمت کی بے بنیاد فلاسفی نے اسے پیشہ وارانہ اخلاقیات کے منافی بنایا ہوا تھا جنھیں کبھی استعمال نہ کیا جواب ڈھلتی عمر کے ساتھ تعارف کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئے ہیں۔
Load Next Story