فلمی صحافت سے شباب فلم اسٹوڈیو تک

کھانا کھانے کے بعد ہم پھر اسی آفس والے کمرے میں آگئے اور چائے بھی وہیں آگئی۔

hamdam.younus@gmail.com

WASHINGTON:
یہ میری نامور شاعر، صحافی، مصنف، فلمسازوہدایت کار شباب کیرانوی سے پہلی ملاقات تھی وہ شباب کیرانوی کا زمانہ تھا ان دنوں ان کی بنائی ہوئی درجنوں فلمیں یکے بعد دیگرے سپرہٹ ہوچکی تھیں اور ان کا فلمساز ادارہ شباب پروڈکشنز فلمیں پروڈیوس کرنے کی ایک مشین بن چکا تھا۔ ان کی بیشتر فلمیں گولڈن جوبلی مناکر بھی سینماؤں سے بڑی مشکل سے اترتی تھیں اور پھر اترتے ہی دوسرے رن کے لیے بک ہوجاتی تھیں، ایسا عروج اور اتنی ترقی لاہور فلم انڈسٹری کے کسی دوسرے فلمسازکو نصیب نہیں ہوئی تھی۔

اس دوران جہاں شباب صاحب کی فلموں کے کامیاب ہونے کے ہر طرف چرچے تھے ، وہاں شباب صاحب پر چربہ سازی کے الزامات بھی بہت لگائے جاتے تھے اور فلمی اخبارات میں بھی بڑے تذکرے رہتے تھے کہ ان کی بیشتر فلموں کی کہانیاں ہندوستان کی کامیاب فلموں کی کہانیوں کی کاپیاں ہوتی ہیں۔ میں ان دنوں لاہور میں نگار ویکلی کا نمایندہ تھا اور ان الزامات کے بارے میں ان سے بات کرکے ایک تفصیلی مضمون لکھنا چاہتا تھا ایک دن میں نے شباب کیرانوی صاحب کو فون کیا اور ملاقات کا وقت مانگا اور میں نے اپنی مجبوری بھی بتائی کہ میں شباب فلم اسٹوڈیوکی لوکیشن سے واقف نہیں ہوں ،کیونکہ وہ شہر سے کافی دور ایک بڑے قطعہ اراضی پر بنایا گیا تھا۔شباب صاحب نے بڑی شفقت سے کہا ہمدم میاں! آپ کل دوپہر سے شام کے دوران کسی وقت بھی آجائیں میں گاڑی بھیج دوں گا۔

پھر انھوں نے دوسرے دن گاڑی بھیج کر مجھے ایورنیو اسٹوڈیو سے شباب اسٹوڈیو بلوایا اور پھر میری شباب کیرانوی سے ایک بھرپور اور طویل ملاقات رہی۔ میں نے اپنی گفتگوکا آغاز اس بات سے ہی کیا کہ شباب صاحب! آپ کی بیشتر فلموں کی کہانیاں انڈیا کی مشہور فلموں کا ہو بہو چربہ ہیں۔ شباب کیرانوی صاحب نے بڑی خندہ پیشانی سے میری بات کو سنا پھر انھوں نے مسکراتے ہوئے اپنے مخصوص نرم اور دھیمے دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ یونس میاں! آپ بھی ایک رائٹر اور شاعر ہیں آپ نے اپنے موجودہ مقام تک آنے کے لیے بہت سے ادیبوں اورشاعروں کو پڑھا ہوگا کئی شاعروں کے خیال کو اپنے انداز میں استعمال کیا ہوگا۔

آپ نے اب تک جتنی بھی شاعری کی ہے، آپ نے پرانے شاعروں کی ردیف اور قافیہ پر ہی طبع آزمائی کی ہوگی۔کئی پرانی کہانیوں کو آپ نے بھی نیا رنگ دے کر لکھا ہوگا۔ پھر انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمدم میاں! آپ بھی جو کچھ شاعری کرتے ہیں وہ پرانے شاعروں کی تخلیقات کا عکس ہی ہوتی ہے۔ دراصل لکھنے کا فن کسی منڈیر پر جلتے ہوئے بے شمار چراغوں کی طرح ہے جس طرح ایک چراغ سے دیگر چراغ روشن کیے جاتے ہیں اور پھر چراغوں کی ایک قطار جلتی ہوئی نظر آتی ہے اور شعر وادب میں بھی چراغ سے چراغ جلانے کی روایت صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ برسوں سے چند قصوں اورکہانیوں کا سفر جاری وساری ہے اور فنون لطیفہ تو ایسی تمام روایتوں کا امین ہے۔

فلم انڈسٹری کا تعلق بھی فنون لطیفہ سے ہے۔ ہم سات سُروں کے بارے میں سنتے چلے آرہے ہیں کہ موسیقی کے سات ابتدائی سُر ہیں اور صدیوں سے موسیقی ان ہی سات سُروں کی مرہون منت چلی آرہی ہے، ان ہی سات سُروں سے ہزاروں سُر جنم لیتے رہے ہیں اور لیتے رہیں گے۔ اسی طرح صدیوں سے چند کہانیاں زبان زد خاص وعام ہیں ان کہانیوں ہی کے بطن سے کچھ اور کہانیاں جنم لیتی رہتی ہیں جن کہانیوں پر ہندوستان میں فلمیں بنائی گئیں ان کے ہدایت کار ان کے تکنیک کار اور ان کے فنکار ہماری بنائی ہوئی فلموں سے مختلف تھے۔

انھوں نے اپنی کہانیوں کو اپنے ماحول کا رنگ دیا ہم نے اپنی سہولیات کے ساتھ اپنے ماحول کا رنگ دیا تو یہ کہانیاں ساری دنیا کا مشترکہ اثاثہ ہوتی ہیں اور پھر ایک بات کی اور وضاحت کردوں کہ ہماری فلموں کی کہانیوں پر یہ الزام ہی غلط ہے کہ ہم نے ہندوستانی فلموں کی کہانیوں کا سرقہ کیا ہے جب کہ ہندوستان کے فلمسازوں نے ہالی ووڈ کی کامیاب ترین فلموں کی کہانیوں کو اپنایا ہے اور اپنے ڈھب سے انھیں فلمایا، اب ان کہانیوں کے اعتبار سے ہالی ووڈ کا اپنا انداز ہے۔ بالی ووڈ کا اپنا اور لالی ووڈ کا اپنا انداز ہے۔ یہ کہانیاں بھی ان چراغوں کی طرح ہیں جن سے بے شمار دوسرے چراغ روشن کیے جاتے ہیں۔ اسی دوران شباب صاحب کے ملازم نے آکر کہا۔ سر جی! گھر سے آپ کا کھانا آگیا ہے اور میں نے دوسرے کمرے میں لگا دیا ہے۔ شباب صاحب نے یہ سن کر مجھ سے کہا۔ آئیں ہمدم میاں!پہلے کھانا پھر مزید باتیں ہوں گی۔

کھانا کھانے کے بعد ہم پھر اسی آفس والے کمرے میں آگئے اور چائے بھی وہیں آگئی۔ اسی دوران کچھ جونیئر آرٹسٹ اور چند ٹیکنیشنز ان کے کمرے میں باری باری آتے رہے اور شباب صاحب سب کو باری باری پہلے سے بنے ہوئے لفافے نکال نکال کر انھیں دیتے رہے اور سب کو مسکراتے ہوئے رخصت کرتے رہے۔ میرے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ میں ہر ماہ کے پہلے ہفتے اسی طرح اپنے اسٹوڈیو کی فلموں کے ٹیکنیشنز اور تمام جونیئر آرٹسٹوں کو ان کے کہے بغیر ان کا معاوضہ ادا کردیتا ہوں اور اس بات کی میں پابندی بھی کرتا ہوں کہ کسی کو بھی میرے اسٹاف کے دیگر لوگوں سے کبھی کسی قسم کی کوئی شکایت نہ ہو۔ اس طرح آرٹسٹوں کو ان کا معاوضہ بروقت دے کر میرے سر سے ایک بوجھ اتر جاتا ہے اور اس طرح میرے دل کو بھی سکون ملتا ہے۔


یہاں میں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ فلم کی دنیا میں بے حسی قدم قدم پر کار فرما ہوتی ہے اور لاہور فلم انڈسٹری میں ننانوے فیصد فلمسازوں کا طریقہ کار شباب صاحب کے طریقہ کار سے بالکل برعکس ہوتا تھا۔ چھوٹے آرٹسٹ، کورس ڈانس کی لڑکیاں اپنے معاوضوں کے لیے فلمسازوں کے آفسوں کے چکر پہ چکر لگاتے تھے تب کہیں ان کو ان کا معاوضہ مل پاتا تھا فلم ٹیکنیشنز بھی اکثر فلمسازوں سے بے زار رہتے تھے اکثر انھیں دھتکار بھی دیا جاتا تھا اور معاوضہ مانگنے پر انھیں حقارت سے دیکھا جاتا تھا لیکن شباب پروڈکشنز کا انداز سب سے جدا تھا۔

شباب اسٹوڈیو میں چھوٹے آرٹسٹوں کی بھی عزت کی جاتی تھی اور انھیں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا یہی وجہ تھی کہ شباب صاحب جن کی ابتدا ایک فلمی صحافی سے ہوئی تھی وہ پھر اس مقام تک آئے کہ انھوں نے شباب فلم اسٹوڈیو بنایا اور فلمی دنیا میں ایک نمایاں مقام حاصل ہوا۔ شباب صاحب نے بے شمار آرٹسٹوں کو اپنی فلموں کے ذریعے روشناس کرایا اور پھر وہ آرٹسٹ شہرت کی بلندیوں تک پہنچے۔

اب میں شباب صاحب کی ابتدائی زندگی اور شخصیت کی طرف آتا ہوں یہ وہ زمانہ تھا جب لاہور سے ایک فلمی ماہنامہ ''ڈائریکٹر'' نکلتا تھا جس کے مالک فضل حق صاحب تھے اور شباب کیرانوی بھی اس کے ایک ایڈیٹر تھے کافی عرصے تک فلمی صحافی کی حیثیت سے ''ڈائریکٹر'' سے منسلک رہے پھر انھوں نے ''ڈائریکٹر'' سے علیحدگی اختیار کرکے ماہنامہ ''پکچر'' نکالا جس کے وہ مالک اور ایڈیٹر تھے۔

شباب صاحب ہندوستان کے علاقے کیرانہ سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے اور لاہور میں آکر سکونت اختیار کی۔ ان کا اصلی نام حافظ نذیر احمد تھا۔ ان کے والد محترم بھی حافظ تھے اور ان کا نام محمد اسمٰعیل تھا۔ گھر کا ماحول بہت ہی مذہبی تھا۔ شباب صاحب نے کمسنی ہی میں حفظ قرآن کرلیا تھا۔ گھر کے حالات نامساعد تھے، کسی اچھے اسکول میں یہ تعلیم حاصل نہ کرسکے پھر شباب صاحب نے اپنی محنت سے اردو فاضل کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا اور پھر گھر کے اخراجات چلانے کے لیے اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے اور ان کے کام میں معاونت کرتے رہے۔ شباب صاحب کو نوعمری ہی سے شعر و ادب سے دلچسپی ہوگئی تھی۔ ابتدا میں حمد و نعت لکھتے تھے۔ان کی ابتدائی ایک نعت کا پہلا شعر تھا:

ارض و سما کے مالک ہر جا ظہور تیرا

دل میں سُرور تیرا آنکھوں میں نور تیرا

شاعری کا یہ شوق آہستہ آہستہ پروان چڑھتا رہا حمد ونعت کے بعد شاعری کی دیگر اصناف کی طرف بھی توجہ دی اور پھر شعری محفلوں میں بھی ان کی پہچان ہوتی گئی، جب کیرانہ سے لاہور آگئے تو لاہور کی ادبی محفلوں میں شرکت کرتے رہے، ان دنوں لاہور میں مشہور شاعر علامہ تاجور نجیب آبادی کا ادبی حلقوں میں بڑا چرچا تھا اور لاہور کے شاعروں میں ان کی شاعری کی بھی بڑی دھوم تھی۔ شباب صاحب شروع میں تاجور نجیب آبادی کے شاگردوں میں شامل ہوگئے پھر انھیں اسی دور کے ایک اور نامور شاعر احسان دانش کی قربت حاصل ہوئی تو ان کی شاعری میں بھی نکھار آتا چلا گیا۔

(باقی آیندہ ہفتے)
Load Next Story