بھارت میں خواجہ سرا جو کالج کا پرنسپل بن گیا
تیسری جنس کے نمائندوں نے ایک غیر سرکاری ادارے، نیشنل لیگل سروسز اتھارٹی کی مدد سے عدالت میں اپنا مقدمہ لڑا تھا
عدالتی فیصلے کے بعد خواجہ سراؤں کو ’’تھرڈ جینڈر‘‘ کی شناخت مل گئی ہے۔:فوٹو : فائل
QUETTA:
ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں منابی بندیو پڈھیا کی شخصیت اوران کی کام یابیوں کا چرچا ہورہا ہے۔ سرکاران کی خدمات کا اعتراف کررہی ہے اور وزرا ان کے حق میں بول رہے ہیں۔ عام آدمی بھی ایک کالج میں ان کی بہ حیثیت پرنسپل تقرری پرخوشی کا اظہار کررہا ہے۔ غرض ہندوستان میں ہر طرف ان کے تذکرے ہیں۔ منابی خوش اور اپنے لیے تہنیتی پیغامات پر سب کی شکر گزار نظر آتی ہیں، لیکن اپنا مسلسل تعاقب کرتے ذرایع ابلاغ کے نمائندوں سے انہیں کچھ گلہ بھی ہے!
پچاس سالہ منابی بندیو پڈھیا بھارتی ریاست مغربی بنگال کے کرشن گڑھ، وومن کالج کی ایسوسی ایٹ پروفیسر تھیں اور حال ہی میں اس کالج کی پرنسپل مقرر کی گئی ہیں۔ فلسفے کی یہ استاد درس وتدریس کو اپنی زندگی کے بیس برس دے چکی ہیں۔ ہم کار انہیں باہمت، خوش اخلاق اور باصلاحیت انسان مانتے ہیں۔ طالبات انہیں بہترین استاد کہتی ہیں اور ان کا بے حد احترام کرتی ہیں۔ عزیز و اقارب اور حلقۂ احباب میں بھی انہیں بہت عزت اور مان دیا جاتا ہے۔ یہ سب ان کا حوصلہ بڑھاتا اور انہیں آگے بڑھنے کی تحریک دیتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ منابی کے پرنسپل بن جانے میں کیا بھید ہے کہ ہندوستانی ذرایع ابلاغ ان کے پیچھے پڑ گیا ہے؟
قارئین، دراصل منابی ''خواجہ سرا'' ہیں! اور ہندوستان میں پہلی بار تیسری صنف کے کسی فرد کو پرنسپل کے عہدے پر فائز کیا گیا ہے۔ میڈیا اسے معاشرے، خصوصاً 'تیسری جنس' کے سامنے ایک روشن مثال کے طور پر پیش کررہا ہے، لیکن منابی کا کہنا ہے کہ وہ اسی شناخت کے ساتھ برسوں پہلے تدریس سے وابستہ ہوئی تھیں، اس وقت کسی نے کیوں اسے اہم نہیں جانا۔ ایسا لگتا ہے کہ میڈیا میں صلاحیت، کارنامے اور کسی کی انفرادیت کا تذکرہ اس کے مقام و مرتبے یا بھاری بھر کم عہدے کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ یہ افسوس ناک ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج بھی پسماندہ اور خصوصاً ناخواندہ افراد کی اکثریت پر مشتمل معاشروں میں انسانوں کے اس گروہ سے توہین آمیز برتاؤ عام ہے۔ یہ ذلّت و تضحیک کا نشانہ بنتے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کے لیے انہیں بھیک مانگنا پڑتی ہے۔ شادی بیاہ و خوشی کی دیگر تقاریب میں عورتوں کی طرح بن سنور کر ناچتے ہیں تو پیٹ بھرتا ہے۔ کبھی چند روپوں کے عوض اپنے جسم کا سودا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
تہواروں پر عیدی اور دکشنا کا تقاضا کرنے کے لیے گھر گھر جاتے ہیں، جہاں دروازہ پیٹنے پر کوئی مہربان بھی سامنے آسکتا ہے اور کبھی کسی قہربان سے بھی واسطہ پڑجاتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں بھی بدقسمتی سے ان کے عام اور معاشی مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ ان سے گھروں میں کام لینے یا کسی ادارے میں معمولی درجے کی بھی ملازمت دینے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں ہے۔ اسی طرح مخصوص ذہنیت اور اخلاقی پستی کا شکار معاشروں میں انہیں کتنے ہی بھدے اور بُرے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔
برصغیر کی تاریخ کے اوراق الٹیں تو معلوم ہو گاکہ اس طبقۂ نامراد نے شہنشاہوں کے دربار اور پھر شاہی خاندانوں میں بھی جگہ پائی۔ یہ بیگمات اور شہزادیوں کے خدمت گار اور رکھوالے بنے۔ کھسرا، آختہ، مخنث کے ناموں سے پکارے اور دھتکارے گئے ان انسانوں کو شاہی دربار میں پہنچنے کے بعد تکریم اور عزت سے نوازا گیا اور یہ 'خواجہ سرا' کہلائے۔ یہ دراصل غلاموں یا نوکروں کی ایک شکل تھی جو شاہی خاندان اور امرا کی بیگمات اور دیگر عورتوں کے خدمت گار مقرر ہوئے، لیکن وہ دور تمام ہوا اور یہ تیسری جنس بھیک یا بخشش پر پلنے لگی۔
ہندوستان میں بھی انسانوں کا یہ طبقہ بدتر حالات میں زندگی بسر کررہا ہے، لیکن عدالتی فیصلے کے بعد خواجہ سراؤں کو ''تھرڈ جینڈر'' کی شناخت مل گئی ہے۔ انہیں بنیادی حقوق اور معاشی تحفظ ملنے کا امکان پیدا ہوا ہے۔ انڈیا نے 1994 میں انہیں ووٹ کاسٹ کرنے کا حق بھی دیا۔ اس کے بعد خواجہ سراؤں نے سیاست، پبلک سروسز کے شعبوں، کاروبار اور ذرایع ابلاغ میں مختلف حیثیوں میں خود کو منوایا۔ اس طرح دیکھا جائے تو منابی پہلی خواجہ سرا نہیں جو تعلیم یا ہنر سیکھ کر باعزت روزگار حاصل کرنے میں کام یاب ہوئی ہیں بلکہ رکنِ اسمبلی بننے والی شبنم موسی اور ٹیلی ویژن ٹاک شو کی میزبان پدمنی پرکاش بھی اہم مثالیں ہیں۔
اسی طرح مدھو بائی بھارت کی پہلی خواجہ سرا ہیں، جنہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے بلدیاتی انتخاب جیت کر ڈسٹرکٹ میئر کی نشست حاصل کی۔ یہ مقابلہ ریاست چھتیس گڑھ کے ضلع رائے گڑھ میں ان کے مقابل بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار سے ہوا تھا۔ مدھو بائی نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اور مجبوراً ناچ گانے کو اپنے پیٹ بھرنے کا ذریعہ بنالیا، لیکن قسمت نے یاوری کی اور آج وہ باعزت طریقے سے زندگی بسر کر رہی ہیں۔ ان کا اصل نام نریش چوہان ہے۔ پدمنی پرکاش، تامل زبان کے ٹی وی چینل پر خبروں کے پروگرام کی میزبان ہیں۔
معاشرتی دباؤ پر تیرہ سال کی عمر میں اپنا گھر چھوڑا اور تکلیف دہ حالات میں زندگی بسر کی۔ ایک یونیورسٹی میں کامرس کے مضمون میں داخلہ لیا، لیکن فیس ادا نہ کرنے پر تعلیم کا خواب ادھورا رہا۔ پھر رقص 'بھارت ناٹیم' سیکھا اور ایک روز ٹی وی پروڈیوسرز سنگیت کمار اور سراؤنا راما کمار سے ہونے والی ملاقات نے انہیں ٹاک شو کا میزبان بنا دیا۔ 2000ء میں شبنم موسی مدھیا پردیش سے الیکشن جیت کر ریاستی اسمبلی کی پہلی منتخب رکن بنی تھیں۔ اسی طرح ایک عام انتخاب میں ریاست اتر پردیش سے اٹھارہ خواجہ سرا میدان میں آئے۔ اسے ملک کی اہم شخصیات اور عوام بھی مثبت تبدیلی تصور کرتے ہیں۔
منابی کا ذکر کیا جائے تو سیاسی شخصیات اور دیگر لوگوں نے ان کی بطور پرنسپل تقرری پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ وزیرِتعلیم پرتھا چترجی کا کہنا تھا کہ یہ کالج سروس کمیشن کا فیصلہ ہے، جس میں ہم نے دخل اندازی نہیں کی، کیوں کہ ہم کشادہ ذہن کے مالک ہیں اور اسے مظلوم طبقے کو ان کے حقوق دینے کے ضمن میں ایک اہم قدم تصور کرتے ہیں۔
اسی طرح فنی تعلیم کے وزیر اور چیئرمین کالجز گورننگ باڈی کا کہنا تھاکہ اس کالج کے لیے ایک مضبوط شخصیت کی ضرورت تھی اور منابی میں اس ذمہ داری کو سنبھالنے کی صلاحیت موجود ہے۔ کلیانی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رتن لال ہنگلو منابی کو ایک اچھا انسان سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ منابی فروغِ تعلیم میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، کیوں کہ وہ باصلاحیت ہیں۔ انہوں نے منابی کو تیسری صنف کے لیے روشن مثال قرار دیا۔
جے سری موندل، کرشن گڑھ، وومن کالج میں جغرافیے کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ان کے مطابق دورانِ تدریس منابی کی صنف کسی طرح مسئلہ نہیں بنی اور انتظامی امور میں بھی اپنی صلاحیتوں کی بدولت کام یاب رہیں گی۔ وہ اپنے مضمون میں ماہر بہترین انسان ہیں۔ کالج کا تمام اسٹاف ان کے پرنسپل بننے پر خوش ہے۔ دوسری طرف طالبات بھی ان کے کالج کا انتظام سنبھالنے پر خوش ہیں۔ وہ ان کی شخصیت سے بے حد متأثر نظر آتی ہیں۔ یہ طالبات، خواجہ سراؤں کی زندگی، ان کے گزر اوقات کے ذرایع اور ان کے ساتھ سماج کے سلوک سے اچھی طرح واقف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ عدالتی فیصلے اور اقدامات کو اہم تبدیلی تصور کرتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر منابی کا اکاؤنٹ تہنیتی پیغامات سے بھر گیا ہے۔ انہیں بڑی تعداد میں فرینڈ ریکویسٹ بھی موصول ہو رہی ہیں۔ بظاہر انڈیا صنفی امتیاز سے باہر نکلتا ہوا نظر آرہا ہے اور یوں لگتا ہے کہ انہیں 'تھرڈ جینڈرز' کی نئی شناخت ملی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طبقے کو عزت و مرتبہ حاصل کرنے کے لیے ابھی طویل عرصے انتظار کرنا ہوگا۔ منابی، عام معاشرتی رویّوں پر نالاں نظر آتی ہیں۔ کہتی ہیں، آج بھی کسی گھر میں خواجہ سرا پیدا ہوجائے تو والدین پریشان ہوجاتے ہیں۔ وہ اسے ایک صنف یا جنس نہیں بلکہ ایسی اولاد کو اپنے لیے شرمندگی کا باعث سمجھتے ہیں۔ اکثریت انہیں ذہنی مریض مانتی ہے۔ منابی نے اس نوجوان خواجہ سرا کی مثال دی، جس نے چند ماہ قبل والدین کی طرف سے نفسیاتی معالج سے رجوع کرنے کے لیے دباؤ اور سماجی رویّے سے تنگ آکر اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔
٭ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ
خواجہ سراؤں نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھاکہ دستورِ ہند کے مطابق جنس کی بنیاد پر شہریوں میں تفریق نہیں کی جاسکتی اور عدالت ان سے متعلق قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کا حکم دے۔ اس درخواست پر سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے جسٹس کے ایس رادھا کرشن کی سربراہی میں اپنے فیصلے میں کہا کہ خواجہ سراؤں کو تیسری جنس کے طور پر تسلیم کرنا معاشرتی اور طبی مسئلہ نہیں بلکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ یہ بھارت کے شہری ہیں اور ریاست انہیں 'تیسری جنس' کے طور پر تسلیم کرے۔
اس فیصلے سے قبل سرکاری ریکارڈ میں جنس کے تعین کے لیے صرف مرد اور عورت کا خانہ موجود تھا۔ خواجہ سرا بھی سرکاری کاغذات میں انہی میں سے کسی ایک پر نشان لگاتے تھے، لیکن اب ایک خانے کے اضافے کے بعد اپنی شناخت میں خواجہ سرا لکھ سکتے ہیں۔ عدالت کا حکم تھاکہ ریزرویشن سمیت وہ تمام سہولیات فراہم کی جائیں جو دستورِ ہند کے تحت دیگر طبقات کو حاصل ہیں۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ خواجہ سراؤں کے لیے نوکریوں اور تعلیم کے میدان میں اقلیتوں کے طرز کا کوٹا متعارف کروایا جائے۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت میں خواجہ سراؤں کی تعداد 20 لاکھ سے زاید ہے۔
مقدمہ کس نے لڑا؟
تیسری جنس کے نمائندوں نے ایک غیر سرکاری ادارے، نیشنل لیگل سروسز اتھارٹی کی مدد سے عدالت میں اپنا مقدمہ لڑا تھا۔ ان کے وکیل سنجیو بھٹناگر نے اسے خواجہ سراؤں سے امتیازی سلوک کے خاتمے کا تاریخ ساز عدالتی فیصلہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حکم معاشرتی مساوات اور طبقات میں برابری کے لیے اس ادارے کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔
لکشمی نارائن کون ہیں؟
ہندوستان میں تیسری جنس کے حقوق کی جدوجہد کرتی لکشمی نارائن ترپاٹھی نے 2012 میں عدالت میں درخواست دائر کی، جس پر فیصلے سے ہندوستانی خواجہ سراؤں کی زندگی میں تبدیلی کی شروعات ہو چکی ہیں۔ لکشمی بھی خواجہ سرا ہیں۔ وہ ممبئی کے ایک کالج سے آرٹس کے مضامین میں سندیافتہ ہیں۔ رقص، ان کا جنون، موسیقی شوق ہے۔ انہوں نے رقص کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اور ایک ڈانس کلب سے وابستہ ہوگئیں۔ لکشمی باصلاحیت اور اپنے فن میں ماہر تھیں۔ ان کے رقص کی ویڈیوز کا انٹرنیٹ پر خوب چرچا ہوا، جس کے بعد متعدد ڈانس کلبز میں لکشمی کو پرفارمینس کا موقع دیا گیا۔ اس دوران وہ مختلف غیرسرکاری تنظیموں سے جُڑ کر خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے بھی آواز بلند کرتی رہیں۔
2005 میں لکشمی ایوارڈ یافتہ ڈاکیومینٹری فلم ''انڈیا کی تیسری جنس'' میں نظر آئیں۔ ایک مظلوم طبقے کے حقوق کی جدوجہد نے انہیں میڈیا پر آنے کا موقع دیا۔ وہ ہندوستانی ریالٹی شوز میں شرکت کر کے خواجہ سراؤں کی تکالیف اور مشکلات کا ذکر کرنے کے ساتھ ریاست سے سہولیات اور آئین کے مطابق حقوق دینے کے مطالبات دہراتی رہیں۔ 2011ء میں بولی وڈ کی ایک فلم میں کردار سونپا گیا، جو اسی طبقے کے مسائل کو اجاگر کرتی تھی۔ عدالت کا فیصلہ اپنے حق میں آنے پر لکشمی نے کہا، ''پہلی بار مجھے اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر محسوس ہو رہا ہے۔''
تذکرہ پاکستانی خواجہ سراؤں کا
2013 کے عام انتخابات میں ملک بھر سے سات خواجہ سرا بھی میدانِ میں اترے، لیکن کوئی بھی کام یاب نہیں ہوا۔ پاکستان میں بھی خواجہ سراؤں کی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد جاری ہے۔ 2009 میں انہیں اس وقت امید کی کرن نظر آئی، جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے قرض نادہندگان سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران حکومت کو مشورہ دیا کہ انڈیا کی طرح قرضوں کی واپسی کے لیے خواجہ سراؤں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ چیف جسٹس نے خواجہ سراؤں کی تعداد معلوم کر کے سرکاری ملازمتیں دینے اور وراثت میں ان کا حصّہ دلانے سے متعلق اقدامات کا بھی حکم دیا۔
2011 کو سپریم کورٹ نے ان کے ووٹ کے اندراج کی ہدایات جاری کیں اور پہلی بار شناختی کارڈ میں جنس کے خانے میں انہیں اپنی شناخت ا ظاہر کرنے کی اجازت دی گئی۔ کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ نے سابق چیف جسٹس کے مشورے پر عمل کیا اور واجبات کی وصولی کے لیے پانچ خواجہ سرا کنٹریکٹ پر ملازم ہو گئے۔ یہ خواجہ سرا اب تک کروڑوں روپے وصول کر کے ادارے کو دے چکے ہیں۔
حال ہی میں نیشنل کالج آف آرٹس نے راول پنڈی کیمپس میں ایک خواجہ سرا کو ملازمت دی ہے، جو قابلِ ستائش ہے۔ سرکاری اداروں کے علاوہ نجی شعبے بھی اگر اس طرف توجہ دیں تو معاشرے کے اس پسے ہوئے طبقے کو سڑکوں پر ناچ گانے اور بھیک مانگ کر گزارہ کرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔