ہفتے کو چار بجے شام یورپ بدل گیا
دسمبر 2009کو دنیا کی تین بڑی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے یونان کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کردی
ہم یورپ کا ہی حصہ ہیں! یہ ایک یونانی اخبار کی سرخی ہے، لیکن یورپی وقت کے مطابق 27جون بروز ہفتہ شام چار بجے یورپ بدل گیا۔ جب یورپی یونین گروپ نے یونان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے پہلے سے دیے گئے بیل آؤٹ پیکیج میں 7جولائی کے بعد توسیع سے انکار کردیا۔
اس موقع پر یورپی یونین گروپ کے سربراہ جیرون ڈیشیل بلوم نے کہا کہ یونان نے دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے غیرملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے رکھی گئی شرائط کو ماننے کے بجائے ان شرائط پر ریفرنڈم کرانے کا اعلان کرکے بیل آؤٹ پیکیج میں توسیع کے لیے بات چیت کے عمل کو ختم کر دیا۔ برسلز پریس کے مطابق یونان 'واک آؤٹ' کرچکا ہے جو یورپی یونین کے لیے ایک اعصاب شکن مرحلہ ہے۔
یونانی معیشت نے 2008 میں سکڑنا شروع کر دیا تھا، اُس وقت تک امریکا کا مالیاتی بحران ظاہر نہیں ہوا تھا، جس نے بعد میں عالمی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ 2010 میں یورو زون میں شامل پانچ ممالک نے یورپی یونین سے مالی امداد طلب کی، جن میں سے چار ممالک یعنی یونان، آئرلینڈ، پرتگال اور قبرص نے فوری طور پر بیل آؤٹ کی درخواست کی جب کہ اسپین نے محدود پیمانے پر مالی امداد حاصل کی۔
مالیاتی بحران کے شکار ممالک کو یورپی یونین، عالمی مالیاتی فنڈ اور یورپی سینٹرل بینک کی جانب سے عوام پر ٹیکسز کی شرح اور دیگر سرکاری اخراجات میں کمی کی مخصوص مگر سخت شرائط پر قرضہ دیا گیا۔ آئرلینڈ اور پرتگال کی حکومتیں تو مالیاتی بحران سے باہر نکل گئیں لیکن یونان اور قبرص تین بین الاقوامی اداروں کے سہارے پر قائم ہے۔
ان اداروں کی جانب سے لاگو کی گئی کڑی شرائط نے یونان میں بے روزگاری کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ کردیا ہے۔ اس سے قبل یونان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اور اسے یورپی اتحاد میں شامل رکھنے کے لیے یورپی یونین کے کئی اجلاس ہوئے۔ جیرون ڈیشل بلوم کے مطابق یونان نے دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے غیرملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے رکھی گئی شرائط کو ماننے کے بارے میں ریفرنڈم کرانے کا اعلان کرکے بات چیت کا عمل ختم کر دیا تھا۔ تاہم یورو زون کے وزرائے خزانہ اس سلسلے میں دوبارہ ملاقات کریں گے۔
دوسری جانب عالمی مالیاتی ادارے کی سربراہ کرسٹینا لوگارٹ کا کہنا ہے کہ یونان کی حکومت کی جانب سے بیل آؤٹ پیکج کے حوالے سے ریفرنڈم کا اعلان غیرموثر ہے، کیوں کہ لوگ ان تجاویز کے بارے میں کیسے ووٹ دے سکتے ہیں۔ انہوں نے یونان کی حکومت سے کہا کہ اب بھی اُن کے لیے موقع ہے کہ وہ یورو زون کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز کو کھُلے ذہن کے ساتھ تسلیم کرے۔
2009سے مالیاتی بحران کا سامنے کرنے والے یونان کا مجموعی قرض اْس کی مجموعی سالانہ قومی پیداوار سے بھی دُگنا زاید ہوچکا ہے اور اسے دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں اور مشترکہ کرنسی یورو کے رکن ملکوں سے تقریباً سوا سات ارب یورو کے ہنگامی قرض کی ضرورت ہے۔ اگر اسے قرض نہیں ملا تو حکومت ڈیڑھ ارب یورو سے زیادہ مالیت کے پرانے قرضے عالمی مالیاتی اداروں کو واپس نہیں کر پائے گی۔
اگر یونان قرض ادا کرنے میں ناکام رہا تو تو پھر اُسے دیوالیہ قرار دے دیا جائے گا، جس کے نتیجے میں یونان کو یورپی یونین کی مشترکہ کرنسی یورو سے نکال باہر کیا جائے گا، بل کہ وہ یورپی اتحاد سے بھی باہر نکالا جاسکتا ہے۔ ماہرین کے بقول اگر اْسے ادائیگی میں سہولت نہ ملی تو یونان کے لیے ہر کچھ عرصے بعد نئے قرضوں کے حصول کے چکر سے نکلنا مشکل ہو گا۔
کیا تبدیل ہوا؟ اگر یونان پر پابندی لگی تو اس کا نتیجہ بہت اندوہناک ہوگا، کیوں کہ یورپ تاریکی کی طرف جا رہا ہے، باہمی اتفاق کم ہورہا ہے، ایک ایسا معاہدہ جس پر یونانیوں کے اخراجات میں کمی لانے کے لیے کئی ہفتے کام کیا گیا، اسے مزید معاشی استحکام کے لیے یک طرفہ منظور نہیں کیا جاسکتا۔ نئے ٹیکسز کا نفاذ یونانیوں کو شکستگی کی طرف لے جائے گا۔ یورپ کے لیے پیسوں کا انتظام اس کے عوام کی جمہوری خواہشات کے ساتھ زیادہ دیر نہیں چلے گا اور یہ صرف عدم استحکام نہیں ہے۔
فری نقل و حرکت کے حوالے سے ہونے والا شین جین معاہدہ بھی اُس وقت ٹوٹ گیا تھا جب یورپی طاقتوں نے یونان اور اسپین میں آنے والے مہاجرین کو اپنے یہاں پناہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ یونان کی حکمت عملی تو یہی ہے کہ وہ قرض دینے والوں سے بیک چینل سے گفت و شُنید کی کوششیں کرے۔ وہ عوام میں، اداروں میں کچھ بھی کہیں لیکن وہ سمجھوتا کرنے کی کوشش کریں گے چاہے اس پر دست خط وزیر اعظم تیسی پراز کریں یا اُن کے جانے کے بعد برسراقتدار آنے والا اگلا وزیر اعظم۔
ہفتے کو ہونے والی یورپین سینٹرل بین کی میٹنگ بہت اہم تھی، جس میں یورپی یونین کے رکن ممالک نے حصہ لیا۔ انہوں نے یونانی بینکوں کی امداد روکنے کا اعادہ کیا، تاکہ اس کے یونان کے بینک کاری نظام کو دیوالیہ پن کی جانب دھکیلے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر یہ یورپی یونین کے لیے دوسرا اعصاب شکن مرحلہ ہوگا۔
یونان کے معاشی بحران کا ایک اہم سبب اُس کا ٹیکس کا پیچیدہ نظام بھی ہے۔ یونان میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس (ویٹ) کے چھے نظام ہیں۔ عام ریٹ 23 فی صد ہے، دو کم ریٹ ہیں جو خوراک، ایندھن اور ادویات وغیرہ پر عاید ہیں، لیکن یونان کے جزیرے بھی ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی کم شرح سے مستفید ہوتے ہیں، تاکہ ملک کے دور دراز علاقوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوسکے اور سیاحت کی اہم صنعت فروغ پا سکے۔ دوسری جانب یونان کا پینشن کا نظام بھی اتنا ہی پیچیدہ ہے۔ اس کے بعد نج کاری بھی ہے۔
مالیاتی بحران کے آغاز میں یونان کی حکومت نے 50 ارب یورو کے قومی اثاثے فروخت کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس میں بتدریج کمی کی گئی پہلے پچاس ارب سے تیس اور پھر بیس ارب یورو کردیا گیا۔ اُس میں سے بھی حکومت اب تک صرف دو سے تین ارب یورو ہی اکٹھا کر پائی ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یونان کا معاشی اصلاحات کرنا یا نہ کرنا مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ یونان نے معیشت کو درپیش اہم مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی سے کوششیں نہیں کی اور کئی سال ضایع کردیے۔ اگر وہ پانچ سال پہلے معاشی اصلاحات کا آغاز کرتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی، لیکن اس ضمن میں تو اُس نے ابھی تک کام ہی شروع نہیں کیا۔
یونان کو دیوالیہ پن سے بچانے کے رواں سال کے آغاز سے ہی مذاکرات جاری ہیں تاہم آئی ایم ایف اور یورپی سینٹرل بینک نے یونان میں نئی اصلاحات کے نفاذ تک کسی بھی طرح کی مزید امداد دینے سے انکار کردیا ہے۔ یورو گروپ کی جانب سے مالیاتی امدادی پیکیج مسترد ہونے کے بعد یونان میں کھاتے داروں اور نجی اداروں نے گذشتہ چند روز میں بینکوں سے اربوں یورو نکال لیے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق روزانہ 70 کروڑ یورو بینکوں سے نکالے گئے، جس سے بینک کاری نظام پر بہت دباؤ پیدا ہوا اور یونانی وزیراعظم نے ملک کے تمام بینک اور حصص مارکیٹس بند رکھنے کا اعلان کردیا۔
یورپی سینٹرل بینک کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب آئندہ ہفتے منگل کو قرضے کی ادائیگی کی مدت ختم ہونے پر یونان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ قوم سے خطاب میں یونانی وزیراعظم نے عوام کو پُرامن رہنے کی درخواست کرتے ہوئے یقین دلایا کہ ان کے پیسے، تن خواہیں اور پینشنز محفوظ ہیں۔ ہفتے کی شام یونان کی پارلیمینٹ نے 5 جولائی کو ہونے والے ریفرنڈم کی حمایت میں ووٹ دیا۔ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ پانج جولائی کو ہونے والے ریفرنڈم کے بعد بینک کھُل جائیں گے۔
کب کیا ہوا
دسمبر 2009کو دنیا کی تین بڑی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے یونان کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کردی۔ ان بین الاقوامی اداروں نے قرضوں کی وجہ سے یونان کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا۔
اس کے بعد اُس وقت کے وزیراعظم جارج پاپین ڈریو نے آسٹریٹی اقدامات (حکومتی اخراجات میں کمی اور ٹیکسوں میں اضافہ کرنا) کے لیے سخت قانون متعارف کروائے۔ کفایت شعاری اور ٹیکسوں میں اضافے کے ان پروگرامز کی وجہ سے حکومت کو بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج اور ہڑتالوں کا سامنا کرنا پڑا۔
دیوالیہ ہونے کے خطرے کے پیش نظر2010کی دوسری سہ ماہی میں یورو زون میں شامل ممالک نے یونان کے لیے110ارب یورو (145ارب ڈالر) کا قرض منظور کیا لیکن اس کے عوض حکومتی اخراجات اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کے مزید سخت قوانین نافذ کروائے۔ ان قوانین کے خلاف عوام کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا اور ہزاروں شہریوں نے ان قوانین کے خاتمے کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے مظاہرہ کیا۔
جولائی 2011میں یورپی یونین کے سربراہان یونان کے قرض کے بحران سے نکلنے کے لیے یورپین فنانشل اسٹیبلیٹی فیسیلیٹی کے تحت 109ارب یورو کے ایک بڑا بیل آؤٹ پیکیج پر متفق ہوئے، جس کے بعد عالمی کریٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے یونان کو دیوالیہ ہونے کے خطرے کے درجے سے نکال دیا۔
اکتوبر 2011 کو یورو زون کے راہ نماؤں نے مزید آسٹریٹی اقدامات کے عوض یونان کا 50فی صد قرضہ معاف کرنے پر متفق ہوئے۔ وزیراعظم جارج نے ریسکیو پیکیج پر ریفرنڈم کروانے کا اعلان کرکے اس ڈیل کو شک میں ڈال دیا۔ ریفرنڈم کے اعلان پر پاپین ڈریو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ایک ماہ بعد ہی انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اور بینک آف یونان کے سابق سربراہ لوکاس پاپاڈیموس عبوری وزیراعظم بن گئے۔
ایتھنز کی سڑکوں پر ہونے والے پُرتشدد مظاہروں کا پس منظر جانتے ہوئے بھی فروری 2012میں یونان کی پارلیمنٹ نے ایک نئے اور سخت آسٹریٹی پیکیج کے نفاذ کی منظوری دے دی، جس کے بدلے میں یورپی یونین کے ساتھ 130ارب یورو کے بیل آؤٹ پیکیج کا معاہدہ ہوا۔ مارچ 2012میں قرض کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے یونان نے نجی شعبے کے ساہو کاروں کے ساتھ ڈیبٹ سواپ (ایک معاہدہ جس کے تحت ترقی پذیر ملک کا قرضہ کسی مخصوص ادارے کو منتقل کردیا جاتا ہے) ڈیل کی۔
اسی سال اکتوبر میں پارلیمنٹ نے یورپی یونین اور آئی ایم ایف سے چوتھے امدادی پیکیج اور قرضے کی وصولی کے لیے ساڑھے 13ارب یورو کا آسٹریٹی پلان منظور کیا جس میں ٹیکسوں کی شرح میں اضافے اور پینشن میں کٹوتیاں کی گئیں۔ حکومتی اقدامات سے ملک بھر میں بے روزگاری کی شرح 26اعشاریہ 8 فی صد تک پہنچ گئی جو یورپی یونین میں بلند ترین ہے۔
2013میں حکومت نے 15ہزار سرکاری ملازمتوں میں کٹوتی، مزید نئے ٹیکسز کے اطلاق، اور سرکاری ملازمین کی تن خواہوں میں کٹوتی کا بل پاس کیا اور بغیر انتباہ سرکاری نشریاتی ادارے کو بند کردیا۔2014 میں یونان کی کریڈٹ ریٹنگ میں تھوڑی بہتری آئی اور اس نے سرمایہ مارکیٹ میں تین ارب یورو مالیت کے یورو بانڈ جاری کیے۔
رواں سال فروری میں یورو گروپ نے یونان اور یورو زون کے درمیان قرض کی واپسی میں چار ماہ توسیع کے معاہدے کو منسوخ کردیا۔ چار جون کو یونان نے آئی ایم ایف کو ادا کی جانے والی قسط کی ادائیگی جون کے آخر تک موخر کرنے کا مطالبہ کیا۔ 27 جون کو یونان کے وزیر اعظم الیکسز نے 5جولائی کو 2015کو ہونے والے بیل آؤٹ معاہدے پر ریفرنڈم کروانے کا اعلان کیا۔
اس موقع پر یورپی یونین گروپ کے سربراہ جیرون ڈیشیل بلوم نے کہا کہ یونان نے دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے غیرملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے رکھی گئی شرائط کو ماننے کے بجائے ان شرائط پر ریفرنڈم کرانے کا اعلان کرکے بیل آؤٹ پیکیج میں توسیع کے لیے بات چیت کے عمل کو ختم کر دیا۔ برسلز پریس کے مطابق یونان 'واک آؤٹ' کرچکا ہے جو یورپی یونین کے لیے ایک اعصاب شکن مرحلہ ہے۔
یونانی معیشت نے 2008 میں سکڑنا شروع کر دیا تھا، اُس وقت تک امریکا کا مالیاتی بحران ظاہر نہیں ہوا تھا، جس نے بعد میں عالمی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ 2010 میں یورو زون میں شامل پانچ ممالک نے یورپی یونین سے مالی امداد طلب کی، جن میں سے چار ممالک یعنی یونان، آئرلینڈ، پرتگال اور قبرص نے فوری طور پر بیل آؤٹ کی درخواست کی جب کہ اسپین نے محدود پیمانے پر مالی امداد حاصل کی۔
مالیاتی بحران کے شکار ممالک کو یورپی یونین، عالمی مالیاتی فنڈ اور یورپی سینٹرل بینک کی جانب سے عوام پر ٹیکسز کی شرح اور دیگر سرکاری اخراجات میں کمی کی مخصوص مگر سخت شرائط پر قرضہ دیا گیا۔ آئرلینڈ اور پرتگال کی حکومتیں تو مالیاتی بحران سے باہر نکل گئیں لیکن یونان اور قبرص تین بین الاقوامی اداروں کے سہارے پر قائم ہے۔
ان اداروں کی جانب سے لاگو کی گئی کڑی شرائط نے یونان میں بے روزگاری کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ کردیا ہے۔ اس سے قبل یونان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اور اسے یورپی اتحاد میں شامل رکھنے کے لیے یورپی یونین کے کئی اجلاس ہوئے۔ جیرون ڈیشل بلوم کے مطابق یونان نے دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے غیرملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے رکھی گئی شرائط کو ماننے کے بارے میں ریفرنڈم کرانے کا اعلان کرکے بات چیت کا عمل ختم کر دیا تھا۔ تاہم یورو زون کے وزرائے خزانہ اس سلسلے میں دوبارہ ملاقات کریں گے۔
دوسری جانب عالمی مالیاتی ادارے کی سربراہ کرسٹینا لوگارٹ کا کہنا ہے کہ یونان کی حکومت کی جانب سے بیل آؤٹ پیکج کے حوالے سے ریفرنڈم کا اعلان غیرموثر ہے، کیوں کہ لوگ ان تجاویز کے بارے میں کیسے ووٹ دے سکتے ہیں۔ انہوں نے یونان کی حکومت سے کہا کہ اب بھی اُن کے لیے موقع ہے کہ وہ یورو زون کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز کو کھُلے ذہن کے ساتھ تسلیم کرے۔
2009سے مالیاتی بحران کا سامنے کرنے والے یونان کا مجموعی قرض اْس کی مجموعی سالانہ قومی پیداوار سے بھی دُگنا زاید ہوچکا ہے اور اسے دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں اور مشترکہ کرنسی یورو کے رکن ملکوں سے تقریباً سوا سات ارب یورو کے ہنگامی قرض کی ضرورت ہے۔ اگر اسے قرض نہیں ملا تو حکومت ڈیڑھ ارب یورو سے زیادہ مالیت کے پرانے قرضے عالمی مالیاتی اداروں کو واپس نہیں کر پائے گی۔
اگر یونان قرض ادا کرنے میں ناکام رہا تو تو پھر اُسے دیوالیہ قرار دے دیا جائے گا، جس کے نتیجے میں یونان کو یورپی یونین کی مشترکہ کرنسی یورو سے نکال باہر کیا جائے گا، بل کہ وہ یورپی اتحاد سے بھی باہر نکالا جاسکتا ہے۔ ماہرین کے بقول اگر اْسے ادائیگی میں سہولت نہ ملی تو یونان کے لیے ہر کچھ عرصے بعد نئے قرضوں کے حصول کے چکر سے نکلنا مشکل ہو گا۔
کیا تبدیل ہوا؟ اگر یونان پر پابندی لگی تو اس کا نتیجہ بہت اندوہناک ہوگا، کیوں کہ یورپ تاریکی کی طرف جا رہا ہے، باہمی اتفاق کم ہورہا ہے، ایک ایسا معاہدہ جس پر یونانیوں کے اخراجات میں کمی لانے کے لیے کئی ہفتے کام کیا گیا، اسے مزید معاشی استحکام کے لیے یک طرفہ منظور نہیں کیا جاسکتا۔ نئے ٹیکسز کا نفاذ یونانیوں کو شکستگی کی طرف لے جائے گا۔ یورپ کے لیے پیسوں کا انتظام اس کے عوام کی جمہوری خواہشات کے ساتھ زیادہ دیر نہیں چلے گا اور یہ صرف عدم استحکام نہیں ہے۔
فری نقل و حرکت کے حوالے سے ہونے والا شین جین معاہدہ بھی اُس وقت ٹوٹ گیا تھا جب یورپی طاقتوں نے یونان اور اسپین میں آنے والے مہاجرین کو اپنے یہاں پناہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ یونان کی حکمت عملی تو یہی ہے کہ وہ قرض دینے والوں سے بیک چینل سے گفت و شُنید کی کوششیں کرے۔ وہ عوام میں، اداروں میں کچھ بھی کہیں لیکن وہ سمجھوتا کرنے کی کوشش کریں گے چاہے اس پر دست خط وزیر اعظم تیسی پراز کریں یا اُن کے جانے کے بعد برسراقتدار آنے والا اگلا وزیر اعظم۔
ہفتے کو ہونے والی یورپین سینٹرل بین کی میٹنگ بہت اہم تھی، جس میں یورپی یونین کے رکن ممالک نے حصہ لیا۔ انہوں نے یونانی بینکوں کی امداد روکنے کا اعادہ کیا، تاکہ اس کے یونان کے بینک کاری نظام کو دیوالیہ پن کی جانب دھکیلے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر یہ یورپی یونین کے لیے دوسرا اعصاب شکن مرحلہ ہوگا۔
یونان کے معاشی بحران کا ایک اہم سبب اُس کا ٹیکس کا پیچیدہ نظام بھی ہے۔ یونان میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس (ویٹ) کے چھے نظام ہیں۔ عام ریٹ 23 فی صد ہے، دو کم ریٹ ہیں جو خوراک، ایندھن اور ادویات وغیرہ پر عاید ہیں، لیکن یونان کے جزیرے بھی ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی کم شرح سے مستفید ہوتے ہیں، تاکہ ملک کے دور دراز علاقوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوسکے اور سیاحت کی اہم صنعت فروغ پا سکے۔ دوسری جانب یونان کا پینشن کا نظام بھی اتنا ہی پیچیدہ ہے۔ اس کے بعد نج کاری بھی ہے۔
مالیاتی بحران کے آغاز میں یونان کی حکومت نے 50 ارب یورو کے قومی اثاثے فروخت کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس میں بتدریج کمی کی گئی پہلے پچاس ارب سے تیس اور پھر بیس ارب یورو کردیا گیا۔ اُس میں سے بھی حکومت اب تک صرف دو سے تین ارب یورو ہی اکٹھا کر پائی ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یونان کا معاشی اصلاحات کرنا یا نہ کرنا مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ یونان نے معیشت کو درپیش اہم مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی سے کوششیں نہیں کی اور کئی سال ضایع کردیے۔ اگر وہ پانچ سال پہلے معاشی اصلاحات کا آغاز کرتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی، لیکن اس ضمن میں تو اُس نے ابھی تک کام ہی شروع نہیں کیا۔
یونان کو دیوالیہ پن سے بچانے کے رواں سال کے آغاز سے ہی مذاکرات جاری ہیں تاہم آئی ایم ایف اور یورپی سینٹرل بینک نے یونان میں نئی اصلاحات کے نفاذ تک کسی بھی طرح کی مزید امداد دینے سے انکار کردیا ہے۔ یورو گروپ کی جانب سے مالیاتی امدادی پیکیج مسترد ہونے کے بعد یونان میں کھاتے داروں اور نجی اداروں نے گذشتہ چند روز میں بینکوں سے اربوں یورو نکال لیے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق روزانہ 70 کروڑ یورو بینکوں سے نکالے گئے، جس سے بینک کاری نظام پر بہت دباؤ پیدا ہوا اور یونانی وزیراعظم نے ملک کے تمام بینک اور حصص مارکیٹس بند رکھنے کا اعلان کردیا۔
یورپی سینٹرل بینک کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب آئندہ ہفتے منگل کو قرضے کی ادائیگی کی مدت ختم ہونے پر یونان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ قوم سے خطاب میں یونانی وزیراعظم نے عوام کو پُرامن رہنے کی درخواست کرتے ہوئے یقین دلایا کہ ان کے پیسے، تن خواہیں اور پینشنز محفوظ ہیں۔ ہفتے کی شام یونان کی پارلیمینٹ نے 5 جولائی کو ہونے والے ریفرنڈم کی حمایت میں ووٹ دیا۔ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ پانج جولائی کو ہونے والے ریفرنڈم کے بعد بینک کھُل جائیں گے۔
کب کیا ہوا
دسمبر 2009کو دنیا کی تین بڑی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے یونان کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کردی۔ ان بین الاقوامی اداروں نے قرضوں کی وجہ سے یونان کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا۔
اس کے بعد اُس وقت کے وزیراعظم جارج پاپین ڈریو نے آسٹریٹی اقدامات (حکومتی اخراجات میں کمی اور ٹیکسوں میں اضافہ کرنا) کے لیے سخت قانون متعارف کروائے۔ کفایت شعاری اور ٹیکسوں میں اضافے کے ان پروگرامز کی وجہ سے حکومت کو بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج اور ہڑتالوں کا سامنا کرنا پڑا۔
دیوالیہ ہونے کے خطرے کے پیش نظر2010کی دوسری سہ ماہی میں یورو زون میں شامل ممالک نے یونان کے لیے110ارب یورو (145ارب ڈالر) کا قرض منظور کیا لیکن اس کے عوض حکومتی اخراجات اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کے مزید سخت قوانین نافذ کروائے۔ ان قوانین کے خلاف عوام کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا اور ہزاروں شہریوں نے ان قوانین کے خاتمے کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے مظاہرہ کیا۔
جولائی 2011میں یورپی یونین کے سربراہان یونان کے قرض کے بحران سے نکلنے کے لیے یورپین فنانشل اسٹیبلیٹی فیسیلیٹی کے تحت 109ارب یورو کے ایک بڑا بیل آؤٹ پیکیج پر متفق ہوئے، جس کے بعد عالمی کریٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے یونان کو دیوالیہ ہونے کے خطرے کے درجے سے نکال دیا۔
اکتوبر 2011 کو یورو زون کے راہ نماؤں نے مزید آسٹریٹی اقدامات کے عوض یونان کا 50فی صد قرضہ معاف کرنے پر متفق ہوئے۔ وزیراعظم جارج نے ریسکیو پیکیج پر ریفرنڈم کروانے کا اعلان کرکے اس ڈیل کو شک میں ڈال دیا۔ ریفرنڈم کے اعلان پر پاپین ڈریو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ایک ماہ بعد ہی انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اور بینک آف یونان کے سابق سربراہ لوکاس پاپاڈیموس عبوری وزیراعظم بن گئے۔
ایتھنز کی سڑکوں پر ہونے والے پُرتشدد مظاہروں کا پس منظر جانتے ہوئے بھی فروری 2012میں یونان کی پارلیمنٹ نے ایک نئے اور سخت آسٹریٹی پیکیج کے نفاذ کی منظوری دے دی، جس کے بدلے میں یورپی یونین کے ساتھ 130ارب یورو کے بیل آؤٹ پیکیج کا معاہدہ ہوا۔ مارچ 2012میں قرض کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے یونان نے نجی شعبے کے ساہو کاروں کے ساتھ ڈیبٹ سواپ (ایک معاہدہ جس کے تحت ترقی پذیر ملک کا قرضہ کسی مخصوص ادارے کو منتقل کردیا جاتا ہے) ڈیل کی۔
اسی سال اکتوبر میں پارلیمنٹ نے یورپی یونین اور آئی ایم ایف سے چوتھے امدادی پیکیج اور قرضے کی وصولی کے لیے ساڑھے 13ارب یورو کا آسٹریٹی پلان منظور کیا جس میں ٹیکسوں کی شرح میں اضافے اور پینشن میں کٹوتیاں کی گئیں۔ حکومتی اقدامات سے ملک بھر میں بے روزگاری کی شرح 26اعشاریہ 8 فی صد تک پہنچ گئی جو یورپی یونین میں بلند ترین ہے۔
2013میں حکومت نے 15ہزار سرکاری ملازمتوں میں کٹوتی، مزید نئے ٹیکسز کے اطلاق، اور سرکاری ملازمین کی تن خواہوں میں کٹوتی کا بل پاس کیا اور بغیر انتباہ سرکاری نشریاتی ادارے کو بند کردیا۔2014 میں یونان کی کریڈٹ ریٹنگ میں تھوڑی بہتری آئی اور اس نے سرمایہ مارکیٹ میں تین ارب یورو مالیت کے یورو بانڈ جاری کیے۔
رواں سال فروری میں یورو گروپ نے یونان اور یورو زون کے درمیان قرض کی واپسی میں چار ماہ توسیع کے معاہدے کو منسوخ کردیا۔ چار جون کو یونان نے آئی ایم ایف کو ادا کی جانے والی قسط کی ادائیگی جون کے آخر تک موخر کرنے کا مطالبہ کیا۔ 27 جون کو یونان کے وزیر اعظم الیکسز نے 5جولائی کو 2015کو ہونے والے بیل آؤٹ معاہدے پر ریفرنڈم کروانے کا اعلان کیا۔