بُک شیلف
بڑے کالم کاروں کے کالموں کی ساخت،خیال اور فنی خوبیوں خامیوں کا ذکر کے ساتھ کچھ کو ’’براکالم‘‘ لکھنے والا بھی کہا ہے
مکتوبات رحمت اللعالمین (ﷺ)
مؤلف: علامہ عبدالستار عاصم
ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل
یثرب کالونی بینک سٹاپ، والٹن روڈ لاہور کینٹ،
ہدیہ: 2000 روپے
ملنے کا پتہ: مقبول اکیڈمی سرکلر روڈ، چوک اردو بازار لاہور
مکتوبات رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معروف ادیب اور عالم علامہ عبدالستار عاصم کی تالیف ہے جس میں باعث تخلیق کائنات، فخر آدم و بنی آدم، نیر تاباں، مہر درخشاں، سیاہ لامکاں، محبوب رب دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ خطوط مبارکہ جمع کیے گئے ہیں جو محبوب خدا نے اس دور کے مختلف حکمرانوں اور قبائلی سرداروں کے نام ارسال فرمائے اور معاہدات کیے۔
کتاب کا انتساب ڈاکٹر محمد اجمل خان نیازی، ملک مقبول احمد، ابو زر غفاری، جبار مرزا، پیر پروفیسر جلیل حسین نقوی اور محمد عظیم کے نام کیا گیا ہے۔ علامہ عبدالستار عاصم نے پیش لفظ سپرد قلم کرتے ہوئے آقا نامدار، مدنی تاجدار حضور نبی کریم رؤف الرحیمؐ سے اپنی محبت، عقیدت کا اظہار جس پیرائے میں کیا ہے وہ دل نشین ہے۔کتاب کے بارے میں روحانی شخصیت پیر صاحبزادہ میاں جمیل احمد شرقپوریؒ، شیخ الحدیث علامہ ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادریؒ، مجید نظامی جیسی نابغہ روزگار شخصیات نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ وہ بھی عقیدت و محبت کا انمول اظہار ہے۔
خالق ارض و سماء مالک دو جہاں اللہ تعالیٰ نے رحمت اللعالمین، خاتم النبین سرور کونین حضرت محمد مصطفیؐ کو کسی ایک مخصوص بستی، قبیلے، قوم، ملک یا کسی خاص زمانہ کیلئے نبی، رسول بناکر معبوث نہیں فرمایا بلکہ تمام مخلوقات، زمانوں، قبیلوںاور ملکوں کے لیے سرچشمہ رشدو ہدایت بلا شبہ جہاں جہاں تک خدا کی خدائی ہے وہاں تک نبی کریمؐ کی مصطفائی ہے۔
سرور کونینؐ نے خدائے واحدۂ لاشریک کی توحید اور اپنی رسالت کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے زبان و قلم اور سیف سے بھی کام لیا۔ اس دور کے سربراہان، حاکمان اور سرداروں کے نام مکتوبات شریف ارسال کیے اور انہیں راہ حق کی طرف بلایا۔ علامہ عبدالستار عاصم نے یہ مکتوب بزمی محنت، عرق ریزی اور تحقیق کے بعد جمع کرکے کتاب کی شکل میں پیش کیے ہیں۔
کتاب میں انہوں نے علمیت دکھانے، لفظ و بیان کی نمائش، موشگافیوں، نکتہ آفرینیوں کا اظہار کرنے کی بجائے سادگی اور حقیقت پسندی کو اپنایا ہے جس کی وجہ سے کتاب سے اہل علم ہی نہیں کم پڑھا لکھا آدمی بھی استفادہ کرسکتا ہے اور اپنے علمی خزانہ میں اضافہ کرسکتا ہے۔ غرض یہ کتاب ہر لحاظ سے مفید ہے۔
(محمد ابو بکر شاہد چشتی)
نیشنل بک فاؤنڈیشن نشتر و اشاعت کا سرکاری ادارہ ہے جس کا مقصد لوگوں کے ذوق مطالعہ کی حوصلہ افزائی اور تربیت کے لیے معیاری کتب انتہائی مناسب قیمت پر فراہم کرنا ہے۔ ایسے ادارے دنیا بھر میں قائم ہیں کیونکہ جو ادارے کاروباری مقاصد کے تحت نشرواشاعت کا کام کرتے ہیں ان کی مطبوعات کی قیمتیں متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوتی ہیں۔ اب تو پرانی کتابوں کے بازار میں بھی اچھی کتابیں بہت مہنگے داموں دستیاب ہیں۔ ایسے میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کا ادارہ قابل ذکر خدمت انجام دے رہا ہے۔ یہاں ہم نیشنل بک فاؤنڈیشن کی جانب سے پیش کی جانے والی تین کتابوں کا تعارف پیش کررہے ہیں۔
تیرے لیے (آزاد نظم)
''تیرے لیے'' عرب شاعرہ ہدیٰ النعمانی کی طویل نظم ہے جسے پروفیسر قیصرہ مختار علوی نے اردو زبان کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ہدیٰ نعمانی کا آبائی وطن لبنان ہے۔ دمشق میں پیدا ہوئیں۔ اردگرد کے ماحول میں تصوف رچا بسا تھا لہٰذا اس ماحول کا اثر ہونا لازم تھا۔ نانا کے گھر مہمانوں کو شاعری پڑھ کر سنانا ان کی ڈیوٹی تھی۔ شام سے قانون کی ڈگری لینے کے بعد امریکہ میں اسلامی فنون کا مطالعہ کیا۔ شاعری اور مصوری میں نام پیدا کیا۔ زیر نظر کتاب ہدیٰ کی طویل نظم پر مشتمل ہے جو ُجز میں ُکل کی جھلک دیکھنے اور ُکل میں ُجز کا کھوج لگانے کی جستجو کا احوال ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور قربت کے حصول کی تشنگی کا مستقل احساس ہے جو اس طویل نظم کے پورے بیانیے میں خون کی طرح رواں دواں ہے۔
اس نظم کو اردومیں منتقل کرنے اور اشاعت کو یقینی بنانے کا کام پروفیسر قیصرہ مختار علوی کے ہاتھوں ہوا۔ قیصرہ مختار اسلام آباد کے علمی ادبی حلقوں کا جانا پہچانا نام ہے۔ بیرون ملک مختلف کانفرنسوں میں ملک کی نمائندگی کرچکی ہیں۔ چینی کہانیوں کے پنجابی تراجم بھی ان کا اہم کام ہے جو شائع ہوچکا ہے۔ ہدیٰ کے صاحبزادے جب اسلام آباد میں سفیر تعینات ہوئے تو یہ بھی اسلام آباد آئیں اور یہاں چھ برس تک پروفیسر قیصرہ کے ساتھ قریبی تعلق استوار رہا جس کے نتیجے میں یہ خوبصورت اردو ترجمہ سامنے آیا۔
اس کتاب کو بک فاؤنڈیشن نے بہت اہتمام سے شائع کیا ہے۔ یا اس طرح کہنا چاہیے کہ کتاب کو وہی شکل و صورت دینے کی کوشش کی ہے جو نظم کے موضوع اور ماحول کا تقاضہ تھا۔ اس خوبصورت کتاب سے شناسائی بجا طور پر انتہائی خوشگوار تجربہ ہے۔
کلیات اقبال (اردو)
جیبی سائز میں اقبال کے اردو کلیات کی اشاعت بھی بک فاؤنڈیشن کی ایک خوبصورت پیشکش ہے۔ اقبال کی چاروں اردو مجموعے، بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارفغان حجاز کو ایک چھوٹی سی خوبصورت کتاب میں جمع کردیا گیا ہے۔اس کتاب کی ایک خاص بات آغاز میں خراج عقیدت کے عنوان کے تحت چند صفحات کا اضافہ ہے جن میں ملکی اور غیر ملکی صاحبان علم اور دانشور شخصیات کے اقبال کے بارے میں خیالات کو جگہ دی گئی ہے۔ کتاب کے صفحات کی تزئین خاص مشرقی انداز میں کی گئی ہے اور بعض مقامات پر اقبال کے اپنے ہاتھ سے تحریر شاعری کے نمونے بھی شامل ہیں۔
ادبی اصلاحات
پروفیسر انور جمال عمر بھر درس و تدریس اور تنقید و تحقیق کے کام سے وابستہ رہے۔ 2008ء کو گورنمنٹ کالج سول لائنز ملتان سے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے، تنقید اور تحقیق کے موضوع پر ان کی درجن سے زائد کتب شائع ہوچکی ہیں۔
زیر نظر کتاب میں ادبی اصلاحات کو جمع کیا گیا ہے اور ان کا مکمل تعارف کرایا گیا ہے۔ اس کتاب میں دی گئی معلومات کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہر ادبی اصطلاح کے ساتھ اس کا انگریزی مترادف بھی دے دیا گیا ہے، اس طرح وہ ابہام دور کردینے کا اہتمام بھی کردیا گیا ہے جو اردو اور انگریزی اصطلاحات کے استعمال میں غلطی کا باعث بنتا ہے۔ کتاب کی قیمت صرف 140 روپے ہے۔
یگانہ چنگیزی (شخصیت و فن مع کلام)
مرتب: وسیم فرحت کارنجوی۔ ناشر: بک کارنر، جہلم
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے۔ اگر آپ زندگی میں کوئی نمایاں کارنامہ دکھانا چاہتے ہیں تو بہائو کی مخالف سمت تیریئے۔ اس بات کی عملی شکل دیکھنی ہو تو اردو شاعر یگانہ چنگیزی کی حیات کا مطالعہ کرلیجئے۔یگانہ کا اصل نام مرزا واجد حسین تھا۔ 1884ء میں پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کرکے 1905ء میں لکھنؤ چلے گئے اور بقیہ زندگی وہیں گزاری۔ شاعری شروع کی، تو پہلے ''یاس تخلص رکھا۔ پھر ''یگانہ'' رکھ لیا۔ عرف کتاب عام میں مرزا یاس یگانہ چنگیزی کہلاتے ہیں۔
اوائل بیسویں صدی میں لکھنوی شعراء قدیم شاعروں کے رنگ میں غزلیں و نظمیں کہتے تھے۔ ان کی شاعری میں تازگی و جدت مفقود تھی۔ اسی لیے اسے یگانہ نے گھسی پٹی اور بکواس قرار دیا۔ خاص طور پر غالب کی پرستش انہیں ایک آنکھ نہ بھائی۔
یگانہ دبنگ آدمی تھے۔ جب انہوں نے علی الاعلان اپنے خیالات کا اظہار کیا، تو لکھنوی شعرا سے تصادم ہوگا۔ اس لڑائی نے انہیں بھی شدت پسند بنا دیا۔ یہی شدت پسندی ان کے کلام میں بھی نظر آتی ہے۔ اخیر عمر میں مخالفین نے انہیں ''کافر'' قرار دے ڈالا اور خوب بے عزتی کا نشانہ بنایا۔
مرحوم کی شاعری کے چار مجموعے شائع ہوئے تاہم طویل عرصے تک انہیں بھلا دیا گیا۔ آخر مشہور محقق مشفق خواجہ نے ''کلیات یگانہ'' مرتب کی تو اس منفرد اردو شاعر کو نئی نظر سے دیکھا گیا۔ ز یر تبصرہ کتاب اسی منفرد شاعر کی شخصیت، فن اور کلام خوبصورت طریقے سے سامنے لاتی ہے۔کتاب کے مرتب نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے یگانہ کے متعلق وہ معلومات جمع کیں جو کتب و رسائل میں بکھری پڑی تھیں۔ گو مرتب انہیں ''اردو کا پہلا جدید شاعر'' قرار دیتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یگانہ کے کلام میں نئے مضامین و خیالات کا پایا جانا ہے۔
یہ کتاب ایک اہم اردو شاعر کی شخصیت کے پوشیدہ گوشے عمدگی سے عیاں کرتی ہے۔ پیش کش اور چھپائی معیاری ہے۔ خصوصاً یگانہ چنگیزی کی حیات و خدمات سے دلچسپی رکھنے والے اس کتاب کو دل پسند پائیں گے۔
جرم وسزا کی کہانیوں کے دو مجموعے
مصنف انوار صدیقی درجنوں ناول لکھ چکے ہیں، ان کی کہانیوں کے مجموعے بھی بڑی تعداد میں شائع ہوچکے ہیں۔ نام و نمود اور شہرت سے کوسوں دور رہنے والے صدیقی صاحب کا سلسلہ نسب اکبر الہ آبادی سے ملتا ہے۔ ایشیا کے سب سے بڑے جاسوسی ناول نگار ابن صفی انوارصدیقی کے والد گرامی کے شاگرد تھے۔ انوار صدیقی کی بے مثال کہانیوں میں انکا، اقابلا، امبربیل، طاغوت، برہمچاری، ننکا، انکارانی، خبیث، وہ کون تھا، درخشاں،کشکول، برق پاش، آسیب زدہ، ابوالہول، بھنور، تارعنکبوت، تخریب کار، جنون، جلتی چھائوں، دستک، رقص ابلیس، سونا گھاٹ کا پجاری، غلام روحیں اور ٹوٹے تارے جیسی کہانیاں شامل ہیں۔ ان کے ناولوں اور کہانیوں کی تعداد اس قدرزیادہ ہے کہ شمار مشکل ہے۔ بعض ناول کئی جلدوں پر مشتمل ہیں۔
زیرنظرکہانیوں کے مجموعے'' ڈبل گیم'' اور''دوسرا رخ'' بنیادی طور پر ایک ایکسائز آفیسر کی پیشہ وارانہ زندگی میں پیش آنے والے جرم و سزا کے پیچیدہ کیسز ہیں۔ دونوں مجموعے دس دس کہانیوں پر مشتمل ہیں۔ 'ڈبل گیم ' میں شامل کہانیوں میں 'جوڑ توڑ'،'بہتی گنگا'، 'پوسٹ مارٹم'، 'پس پردہ'، 'ڈبل گیم'، 'ٹرمپ کارڈ'، 'قیدبامشقت'، 'کھوٹا سکہ'، 'چوہے دان' اور 'عقدہ مشکل' ہیں جبکہ 'دوسرا رخ' میں 'حق حلال'، 'احتساب'، 'سونے کا تمغہ' ، 'آنکھ مچولی'، 'شیرکی خاصیت'، 'پارس'، 'دھوپ چھائوں'، 'سیاناکوا'، 'دوسرا رخ' اور 'انا کامسئلہ' شامل ہیں۔ پراسرارکہانیوں کے خالق کے دونوں مجموعوںمیں سے ہرایک تین صد صفحات سے زائد پر مشتمل ہے اور ہر کتاب کی قیمت 300 روپے ہے۔ ملنے کا پتہ القریش پبلی کیشنز سرکلر روڈ چوک اردوبازارلاہور۔
میڈیا منڈی
مصنف:اکمل شہزاد گھمن
قیمت:700روپے
ناشر:نگارشات پبلشرز لاہور
''اس کا کام پروفیشنل سفاکی سے بھرا پڑا ہے'' یہ فلیپ پر لکھی تعارفی تحریر کا آخری جملہ ہے اور کتاب کے اوراق اس کا ثبوت ہیں۔کتاب صحافت سے زیادہ صحافیوں کے ذکر پر مشتمل ہے ۔ زیر نظرکتاب کی یہی خوبی ہے کہ مصنف سوال پوچھنے والوں کو کٹہرے میں لایا ہے۔ معمولی صحافی سے اخباری مالکان بن جانے والی شخصیات کی زندگی کے روشن وتاریک پہلوؤں کا تذکرہ روایت کے خلاف مگر اخلاقی جرأت کا مظہرہے۔ مجید نظامی سے پوچھے گئے سوال مگر بڑے تلخ ہیں ۔ملاحظہ کیجیے ''آپ اپنی تقریروں میںاکثر کہتے ہیں
،ہندوبنیا،مکار،عیار،تو پاکستان میں لاکھوں ہندو آباد ہیں؟جواب :''ہوتے رہیں''۔ روزنامہ پاکستان کاقصہ بھی ہے۔ شامی صاحب نے محتاط لب لہجہ اختیار کرتے ہوئے زیادہ تر سوالات کا جواب'' لعنت اللہ علی الکاذبین'' سے دیا۔ ''ادھر تم ادھر ہم '' کے خالق عباس اطہر عرف شاہ جی سے ملاقات کے دوران بھی انٹرویو نگار سفاک نظر آیا۔بھٹو،بے نظیر،ضیاء کے علاوہ بعض انتہائی ذاتی سوالات بھی کئے۔مثلاً ایک سوال کہ ''بعض لوگ کہتے ہیں آپ کے زیر سرپرستی تاج پورہ میںجواء ہوتا ہے؟'' پاکستانی صحافت کے کئی حوالوں سے معروف کردار ضیا شاہدسے پوچھا''ایک عوامی رائے کے مطابق خبریں بلیک میلر اخبار ہے۔اس میں کہاں تک سچائی ہے؟''
''کالم اور کالم نگاری'' کے تحت مصنف کے ذاتی تبصرے ہیں۔ بڑے کالم کاروں کے کالموں کی ساخت،خیال اور فنی خوبیوں خامیوں کا ذکر کے ساتھ کچھ کو ''براکالم'' لکھنے والا بھی کہا ہے ۔ پھر آتے ہیں حسن نثار۔سوالات حسب معمول کاٹ دار ہیں۔
حسن نثارتلملا بھی اٹھتے ہیں۔اس انٹرویومیں ''بے غیرت''،''بے ہودہ''، ''گند''،''بے شرم''، ''بکواس''، ''بھڑوے''، ''کتا''،''الو کا پٹھا'' ،''لعنتیوں'' قسم کی تراکیب نادرہ بکثرت ملتی ہیں۔ پھر اردو اور انگریزی صحافت کے امتیازی پہلووں پر تفصیلی کلام کے بعدپاکستان کے معروف اخبارات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ آخری باب '' پاکستانی صوبے،زبانیں اور پرنٹ میڈیا'' میں صوبوں سے شائع ہونے والے اخبارات اور ان کے مسائل مذکور ہیں۔ اس کتاب میں مصنف نے پاکستانی پرنٹ صحافت کے بہت سے اہم گوشوں سے نقاب ہٹا کر پڑھنے والوں پر احسان کیا ہے۔
مؤلف: علامہ عبدالستار عاصم
ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل
یثرب کالونی بینک سٹاپ، والٹن روڈ لاہور کینٹ،
ہدیہ: 2000 روپے
ملنے کا پتہ: مقبول اکیڈمی سرکلر روڈ، چوک اردو بازار لاہور
مکتوبات رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معروف ادیب اور عالم علامہ عبدالستار عاصم کی تالیف ہے جس میں باعث تخلیق کائنات، فخر آدم و بنی آدم، نیر تاباں، مہر درخشاں، سیاہ لامکاں، محبوب رب دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ خطوط مبارکہ جمع کیے گئے ہیں جو محبوب خدا نے اس دور کے مختلف حکمرانوں اور قبائلی سرداروں کے نام ارسال فرمائے اور معاہدات کیے۔
کتاب کا انتساب ڈاکٹر محمد اجمل خان نیازی، ملک مقبول احمد، ابو زر غفاری، جبار مرزا، پیر پروفیسر جلیل حسین نقوی اور محمد عظیم کے نام کیا گیا ہے۔ علامہ عبدالستار عاصم نے پیش لفظ سپرد قلم کرتے ہوئے آقا نامدار، مدنی تاجدار حضور نبی کریم رؤف الرحیمؐ سے اپنی محبت، عقیدت کا اظہار جس پیرائے میں کیا ہے وہ دل نشین ہے۔کتاب کے بارے میں روحانی شخصیت پیر صاحبزادہ میاں جمیل احمد شرقپوریؒ، شیخ الحدیث علامہ ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادریؒ، مجید نظامی جیسی نابغہ روزگار شخصیات نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ وہ بھی عقیدت و محبت کا انمول اظہار ہے۔
خالق ارض و سماء مالک دو جہاں اللہ تعالیٰ نے رحمت اللعالمین، خاتم النبین سرور کونین حضرت محمد مصطفیؐ کو کسی ایک مخصوص بستی، قبیلے، قوم، ملک یا کسی خاص زمانہ کیلئے نبی، رسول بناکر معبوث نہیں فرمایا بلکہ تمام مخلوقات، زمانوں، قبیلوںاور ملکوں کے لیے سرچشمہ رشدو ہدایت بلا شبہ جہاں جہاں تک خدا کی خدائی ہے وہاں تک نبی کریمؐ کی مصطفائی ہے۔
سرور کونینؐ نے خدائے واحدۂ لاشریک کی توحید اور اپنی رسالت کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے زبان و قلم اور سیف سے بھی کام لیا۔ اس دور کے سربراہان، حاکمان اور سرداروں کے نام مکتوبات شریف ارسال کیے اور انہیں راہ حق کی طرف بلایا۔ علامہ عبدالستار عاصم نے یہ مکتوب بزمی محنت، عرق ریزی اور تحقیق کے بعد جمع کرکے کتاب کی شکل میں پیش کیے ہیں۔
کتاب میں انہوں نے علمیت دکھانے، لفظ و بیان کی نمائش، موشگافیوں، نکتہ آفرینیوں کا اظہار کرنے کی بجائے سادگی اور حقیقت پسندی کو اپنایا ہے جس کی وجہ سے کتاب سے اہل علم ہی نہیں کم پڑھا لکھا آدمی بھی استفادہ کرسکتا ہے اور اپنے علمی خزانہ میں اضافہ کرسکتا ہے۔ غرض یہ کتاب ہر لحاظ سے مفید ہے۔
(محمد ابو بکر شاہد چشتی)
نیشنل بک فاؤنڈیشن نشتر و اشاعت کا سرکاری ادارہ ہے جس کا مقصد لوگوں کے ذوق مطالعہ کی حوصلہ افزائی اور تربیت کے لیے معیاری کتب انتہائی مناسب قیمت پر فراہم کرنا ہے۔ ایسے ادارے دنیا بھر میں قائم ہیں کیونکہ جو ادارے کاروباری مقاصد کے تحت نشرواشاعت کا کام کرتے ہیں ان کی مطبوعات کی قیمتیں متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوتی ہیں۔ اب تو پرانی کتابوں کے بازار میں بھی اچھی کتابیں بہت مہنگے داموں دستیاب ہیں۔ ایسے میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کا ادارہ قابل ذکر خدمت انجام دے رہا ہے۔ یہاں ہم نیشنل بک فاؤنڈیشن کی جانب سے پیش کی جانے والی تین کتابوں کا تعارف پیش کررہے ہیں۔
تیرے لیے (آزاد نظم)
''تیرے لیے'' عرب شاعرہ ہدیٰ النعمانی کی طویل نظم ہے جسے پروفیسر قیصرہ مختار علوی نے اردو زبان کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ہدیٰ نعمانی کا آبائی وطن لبنان ہے۔ دمشق میں پیدا ہوئیں۔ اردگرد کے ماحول میں تصوف رچا بسا تھا لہٰذا اس ماحول کا اثر ہونا لازم تھا۔ نانا کے گھر مہمانوں کو شاعری پڑھ کر سنانا ان کی ڈیوٹی تھی۔ شام سے قانون کی ڈگری لینے کے بعد امریکہ میں اسلامی فنون کا مطالعہ کیا۔ شاعری اور مصوری میں نام پیدا کیا۔ زیر نظر کتاب ہدیٰ کی طویل نظم پر مشتمل ہے جو ُجز میں ُکل کی جھلک دیکھنے اور ُکل میں ُجز کا کھوج لگانے کی جستجو کا احوال ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور قربت کے حصول کی تشنگی کا مستقل احساس ہے جو اس طویل نظم کے پورے بیانیے میں خون کی طرح رواں دواں ہے۔
اس نظم کو اردومیں منتقل کرنے اور اشاعت کو یقینی بنانے کا کام پروفیسر قیصرہ مختار علوی کے ہاتھوں ہوا۔ قیصرہ مختار اسلام آباد کے علمی ادبی حلقوں کا جانا پہچانا نام ہے۔ بیرون ملک مختلف کانفرنسوں میں ملک کی نمائندگی کرچکی ہیں۔ چینی کہانیوں کے پنجابی تراجم بھی ان کا اہم کام ہے جو شائع ہوچکا ہے۔ ہدیٰ کے صاحبزادے جب اسلام آباد میں سفیر تعینات ہوئے تو یہ بھی اسلام آباد آئیں اور یہاں چھ برس تک پروفیسر قیصرہ کے ساتھ قریبی تعلق استوار رہا جس کے نتیجے میں یہ خوبصورت اردو ترجمہ سامنے آیا۔
اس کتاب کو بک فاؤنڈیشن نے بہت اہتمام سے شائع کیا ہے۔ یا اس طرح کہنا چاہیے کہ کتاب کو وہی شکل و صورت دینے کی کوشش کی ہے جو نظم کے موضوع اور ماحول کا تقاضہ تھا۔ اس خوبصورت کتاب سے شناسائی بجا طور پر انتہائی خوشگوار تجربہ ہے۔
کلیات اقبال (اردو)
جیبی سائز میں اقبال کے اردو کلیات کی اشاعت بھی بک فاؤنڈیشن کی ایک خوبصورت پیشکش ہے۔ اقبال کی چاروں اردو مجموعے، بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارفغان حجاز کو ایک چھوٹی سی خوبصورت کتاب میں جمع کردیا گیا ہے۔اس کتاب کی ایک خاص بات آغاز میں خراج عقیدت کے عنوان کے تحت چند صفحات کا اضافہ ہے جن میں ملکی اور غیر ملکی صاحبان علم اور دانشور شخصیات کے اقبال کے بارے میں خیالات کو جگہ دی گئی ہے۔ کتاب کے صفحات کی تزئین خاص مشرقی انداز میں کی گئی ہے اور بعض مقامات پر اقبال کے اپنے ہاتھ سے تحریر شاعری کے نمونے بھی شامل ہیں۔
ادبی اصلاحات
پروفیسر انور جمال عمر بھر درس و تدریس اور تنقید و تحقیق کے کام سے وابستہ رہے۔ 2008ء کو گورنمنٹ کالج سول لائنز ملتان سے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے، تنقید اور تحقیق کے موضوع پر ان کی درجن سے زائد کتب شائع ہوچکی ہیں۔
زیر نظر کتاب میں ادبی اصلاحات کو جمع کیا گیا ہے اور ان کا مکمل تعارف کرایا گیا ہے۔ اس کتاب میں دی گئی معلومات کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہر ادبی اصطلاح کے ساتھ اس کا انگریزی مترادف بھی دے دیا گیا ہے، اس طرح وہ ابہام دور کردینے کا اہتمام بھی کردیا گیا ہے جو اردو اور انگریزی اصطلاحات کے استعمال میں غلطی کا باعث بنتا ہے۔ کتاب کی قیمت صرف 140 روپے ہے۔
یگانہ چنگیزی (شخصیت و فن مع کلام)
مرتب: وسیم فرحت کارنجوی۔ ناشر: بک کارنر، جہلم
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے۔ اگر آپ زندگی میں کوئی نمایاں کارنامہ دکھانا چاہتے ہیں تو بہائو کی مخالف سمت تیریئے۔ اس بات کی عملی شکل دیکھنی ہو تو اردو شاعر یگانہ چنگیزی کی حیات کا مطالعہ کرلیجئے۔یگانہ کا اصل نام مرزا واجد حسین تھا۔ 1884ء میں پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کرکے 1905ء میں لکھنؤ چلے گئے اور بقیہ زندگی وہیں گزاری۔ شاعری شروع کی، تو پہلے ''یاس تخلص رکھا۔ پھر ''یگانہ'' رکھ لیا۔ عرف کتاب عام میں مرزا یاس یگانہ چنگیزی کہلاتے ہیں۔
اوائل بیسویں صدی میں لکھنوی شعراء قدیم شاعروں کے رنگ میں غزلیں و نظمیں کہتے تھے۔ ان کی شاعری میں تازگی و جدت مفقود تھی۔ اسی لیے اسے یگانہ نے گھسی پٹی اور بکواس قرار دیا۔ خاص طور پر غالب کی پرستش انہیں ایک آنکھ نہ بھائی۔
یگانہ دبنگ آدمی تھے۔ جب انہوں نے علی الاعلان اپنے خیالات کا اظہار کیا، تو لکھنوی شعرا سے تصادم ہوگا۔ اس لڑائی نے انہیں بھی شدت پسند بنا دیا۔ یہی شدت پسندی ان کے کلام میں بھی نظر آتی ہے۔ اخیر عمر میں مخالفین نے انہیں ''کافر'' قرار دے ڈالا اور خوب بے عزتی کا نشانہ بنایا۔
مرحوم کی شاعری کے چار مجموعے شائع ہوئے تاہم طویل عرصے تک انہیں بھلا دیا گیا۔ آخر مشہور محقق مشفق خواجہ نے ''کلیات یگانہ'' مرتب کی تو اس منفرد اردو شاعر کو نئی نظر سے دیکھا گیا۔ ز یر تبصرہ کتاب اسی منفرد شاعر کی شخصیت، فن اور کلام خوبصورت طریقے سے سامنے لاتی ہے۔کتاب کے مرتب نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے یگانہ کے متعلق وہ معلومات جمع کیں جو کتب و رسائل میں بکھری پڑی تھیں۔ گو مرتب انہیں ''اردو کا پہلا جدید شاعر'' قرار دیتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یگانہ کے کلام میں نئے مضامین و خیالات کا پایا جانا ہے۔
یہ کتاب ایک اہم اردو شاعر کی شخصیت کے پوشیدہ گوشے عمدگی سے عیاں کرتی ہے۔ پیش کش اور چھپائی معیاری ہے۔ خصوصاً یگانہ چنگیزی کی حیات و خدمات سے دلچسپی رکھنے والے اس کتاب کو دل پسند پائیں گے۔
جرم وسزا کی کہانیوں کے دو مجموعے
مصنف انوار صدیقی درجنوں ناول لکھ چکے ہیں، ان کی کہانیوں کے مجموعے بھی بڑی تعداد میں شائع ہوچکے ہیں۔ نام و نمود اور شہرت سے کوسوں دور رہنے والے صدیقی صاحب کا سلسلہ نسب اکبر الہ آبادی سے ملتا ہے۔ ایشیا کے سب سے بڑے جاسوسی ناول نگار ابن صفی انوارصدیقی کے والد گرامی کے شاگرد تھے۔ انوار صدیقی کی بے مثال کہانیوں میں انکا، اقابلا، امبربیل، طاغوت، برہمچاری، ننکا، انکارانی، خبیث، وہ کون تھا، درخشاں،کشکول، برق پاش، آسیب زدہ، ابوالہول، بھنور، تارعنکبوت، تخریب کار، جنون، جلتی چھائوں، دستک، رقص ابلیس، سونا گھاٹ کا پجاری، غلام روحیں اور ٹوٹے تارے جیسی کہانیاں شامل ہیں۔ ان کے ناولوں اور کہانیوں کی تعداد اس قدرزیادہ ہے کہ شمار مشکل ہے۔ بعض ناول کئی جلدوں پر مشتمل ہیں۔
زیرنظرکہانیوں کے مجموعے'' ڈبل گیم'' اور''دوسرا رخ'' بنیادی طور پر ایک ایکسائز آفیسر کی پیشہ وارانہ زندگی میں پیش آنے والے جرم و سزا کے پیچیدہ کیسز ہیں۔ دونوں مجموعے دس دس کہانیوں پر مشتمل ہیں۔ 'ڈبل گیم ' میں شامل کہانیوں میں 'جوڑ توڑ'،'بہتی گنگا'، 'پوسٹ مارٹم'، 'پس پردہ'، 'ڈبل گیم'، 'ٹرمپ کارڈ'، 'قیدبامشقت'، 'کھوٹا سکہ'، 'چوہے دان' اور 'عقدہ مشکل' ہیں جبکہ 'دوسرا رخ' میں 'حق حلال'، 'احتساب'، 'سونے کا تمغہ' ، 'آنکھ مچولی'، 'شیرکی خاصیت'، 'پارس'، 'دھوپ چھائوں'، 'سیاناکوا'، 'دوسرا رخ' اور 'انا کامسئلہ' شامل ہیں۔ پراسرارکہانیوں کے خالق کے دونوں مجموعوںمیں سے ہرایک تین صد صفحات سے زائد پر مشتمل ہے اور ہر کتاب کی قیمت 300 روپے ہے۔ ملنے کا پتہ القریش پبلی کیشنز سرکلر روڈ چوک اردوبازارلاہور۔
میڈیا منڈی
مصنف:اکمل شہزاد گھمن
قیمت:700روپے
ناشر:نگارشات پبلشرز لاہور
''اس کا کام پروفیشنل سفاکی سے بھرا پڑا ہے'' یہ فلیپ پر لکھی تعارفی تحریر کا آخری جملہ ہے اور کتاب کے اوراق اس کا ثبوت ہیں۔کتاب صحافت سے زیادہ صحافیوں کے ذکر پر مشتمل ہے ۔ زیر نظرکتاب کی یہی خوبی ہے کہ مصنف سوال پوچھنے والوں کو کٹہرے میں لایا ہے۔ معمولی صحافی سے اخباری مالکان بن جانے والی شخصیات کی زندگی کے روشن وتاریک پہلوؤں کا تذکرہ روایت کے خلاف مگر اخلاقی جرأت کا مظہرہے۔ مجید نظامی سے پوچھے گئے سوال مگر بڑے تلخ ہیں ۔ملاحظہ کیجیے ''آپ اپنی تقریروں میںاکثر کہتے ہیں
،ہندوبنیا،مکار،عیار،تو پاکستان میں لاکھوں ہندو آباد ہیں؟جواب :''ہوتے رہیں''۔ روزنامہ پاکستان کاقصہ بھی ہے۔ شامی صاحب نے محتاط لب لہجہ اختیار کرتے ہوئے زیادہ تر سوالات کا جواب'' لعنت اللہ علی الکاذبین'' سے دیا۔ ''ادھر تم ادھر ہم '' کے خالق عباس اطہر عرف شاہ جی سے ملاقات کے دوران بھی انٹرویو نگار سفاک نظر آیا۔بھٹو،بے نظیر،ضیاء کے علاوہ بعض انتہائی ذاتی سوالات بھی کئے۔مثلاً ایک سوال کہ ''بعض لوگ کہتے ہیں آپ کے زیر سرپرستی تاج پورہ میںجواء ہوتا ہے؟'' پاکستانی صحافت کے کئی حوالوں سے معروف کردار ضیا شاہدسے پوچھا''ایک عوامی رائے کے مطابق خبریں بلیک میلر اخبار ہے۔اس میں کہاں تک سچائی ہے؟''
''کالم اور کالم نگاری'' کے تحت مصنف کے ذاتی تبصرے ہیں۔ بڑے کالم کاروں کے کالموں کی ساخت،خیال اور فنی خوبیوں خامیوں کا ذکر کے ساتھ کچھ کو ''براکالم'' لکھنے والا بھی کہا ہے ۔ پھر آتے ہیں حسن نثار۔سوالات حسب معمول کاٹ دار ہیں۔
حسن نثارتلملا بھی اٹھتے ہیں۔اس انٹرویومیں ''بے غیرت''،''بے ہودہ''، ''گند''،''بے شرم''، ''بکواس''، ''بھڑوے''، ''کتا''،''الو کا پٹھا'' ،''لعنتیوں'' قسم کی تراکیب نادرہ بکثرت ملتی ہیں۔ پھر اردو اور انگریزی صحافت کے امتیازی پہلووں پر تفصیلی کلام کے بعدپاکستان کے معروف اخبارات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ آخری باب '' پاکستانی صوبے،زبانیں اور پرنٹ میڈیا'' میں صوبوں سے شائع ہونے والے اخبارات اور ان کے مسائل مذکور ہیں۔ اس کتاب میں مصنف نے پاکستانی پرنٹ صحافت کے بہت سے اہم گوشوں سے نقاب ہٹا کر پڑھنے والوں پر احسان کیا ہے۔