عزت مآب عبدالستار ایدھی اور بدکار سیاستدان
بات اس انسانی عظمت کی ہو رہی تھی جو ان دنوں اسپتال میں زیر علاج ہے۔
میں ایک مدت سے اپنے اوپر ایک بھاری قرض لیے پھرتا ہوں اور جب بھی لکھتا ہوں تو یہ قرض مجھے تنگ کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ قرض ہے ایک بوڑھے سال خورہ ضدی شخص کا تذکرہ جو اپنی پوری زندگی دوسروں کے نام کر چکا ہے اور خود اپنی مانگے تانگے کی زندگی بسر کرتا ہے اور اس میں اتنا خوش ہے کہ اور کچھ سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ بوڑھا عبدالستار ایدھی ہے۔
جس نے اپنی زندگی ایک کامیاب زندگی دوسروں کے لیے وقف کر دی ہے، ان کے لیے جنھیں وہ جانتا تک نہیں ہے اور نہ ہی کبھی ان سے متعارف ہو گا کیونکہ وہ ان سب کی خدمت کچھ دیکھے بغیر کرتا ہے، اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ جس کی خدمت کر رہا ہے وہ کون ہے، پاکستان کے کس صوبے اور برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے لیے صرف ایک ہی تعارف ہوتا ہے کہ وہ ضرورت مند ہے اور ایدھی اس کا خدمت گزار ہے۔
ایدھی صاحب سے میری پہلی ملاقات ڈھاکہ کے سفر کے دوران ہوئی جب ان کی نشست میری نشست کے قریب ہی تھی۔ صدر ضیاء الحق ان لوگوں کو جو خدمت خلق میں مصروف رہتے ہیں اپنے ساتھ ڈھاکہ لے جا رہے تھے۔ ان لوگوں میں میرے مرحوم دوست فاروق مظہر بھی تھے اور اس سفر میں پتہ چلا کہ فاروق یہ کام بھی کرتا ہے یعنی خدمت خلق کا کام۔ اس کی دوسری مصروفیات اور خدمت خلق کا آپس میں بظاہر کوئی رشتہ دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن وہ اپنی تمام مصروفیات کے ساتھ یہ کفارہ بھی ادا کرتا تھا۔
بہرکیف اس سفر میں مجھ پر بہت کچھ منکشف ہوا۔ ایدھی صاحب ایک گندی چپلی پہن کر دنیا سے بے خبر سفر کر رہے تھے اور شاید یہ سوچ رہے تھے کہ اس سفر کا کرایہ اگر انھیں نقد مل جاتا تو وہ کسی ریل گاڑی سے سفر کر لیتے اور باقی رقم اپنے کسی کام میں خیرات کر دیتے۔ اس شخص کی سوچ بھی ہماری آپ کی سوچ سے مختلف ہوتی تھی۔ انھوں نے بنگلہ دیش کے حکمران جنرل ارشاد کو کچھ رقم دی اور سامان بھی۔ یہ سب وہاں کے سیلاب میں کام آ سکتا تھا اور اسی دورے میں صدر ضیاء الحق اور جنرل ارشاد کی وہ جذباتی ملاقات بھی ہوئی جو شاید ہی کسی کو فراموش ہو سکے۔ یہ دونوں لیڈر جس کمرے میں مل رہے تھے وہ بھی لبالب بھر گیا تھا۔
میں دروازے کے باہر کھڑا تھا کہ اندر سے اونچی اونچی آواز میں کسی کے رونے کی آواز آئی اور ساتھ ہی یہ الفاظ بھی سنائی دیے کہ ہم ایک تھے، ہم ایک ہوں گے اور ایک رہیں گے۔ یہ رونا اور الفاظ جنرل ارشاد کے تھے۔ میں یہ واقعہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں لیکن نئے پڑھنے والوں اور متحدہ پاکستان کی محبت میں زندہ رہنے والوں کی یادداشت تازہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ وقت گزر جاتا ہے اپنی تلخیاں ساتھ لے کر اور سوائے رونے کے اور کچھ باقی نہیں چھوڑ جاتا۔ پاکستان کے اتحاد کا خاتمہ بھی ایک ایسا ہی سانحہ ہے جو اس قوم کو کبھی بھولے گا نہیں اور نئی نسل تک یہ سب کیسے پہنچے گا مجھے معلوم نہیں۔
میں بات کر رہا تھا عالی مرتبت ستار ایدھی کی۔ پاکستان کی انیس بیس کروڑ آبادی میں فرشتوں کو اگر کوئی سب سے برگزیدہ انسان ملے گا تو وہ یہی ہو گا، باقی سب ہمارے جیسے عام اور چھوٹے آدمی یا سیاستدان جن کو مجرم پاکستانی سمجھنا چاہیے کہ ہمارے اس شاندار ملک کا حال انھوں نے برباد کیا ہے۔ شہید حکیم سعید کہا کرتے تھے کہ ان کے حساب کے مطابق قدرت نے سورۂ رحمن میں جن نعمتوں کا ذکر کیا ہے پاکستان میں تین چار ان سے زیادہ ہیں لیکن غلط کار پاکستانیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے اس شخص نے اپنے انداز میں اپنی عمر بھی خدمت خلق میں بسر کر دی اور پاکستان کے ساتھ محبت سے باز نہ آئے۔ یہ بھی دلی کے ایم کیو ایم تھے۔ اصل ایم کیو ایم کراچی کی پیداوار نہیں تھے۔
بات اس انسانی عظمت کی ہو رہی تھی جو ان دنوں اسپتال میں زیر علاج ہے۔ انھیں ایک دن ذرا افاقہ ہوا تو باہر نکل کر خیرات مانگنی شروع کر دی کہ ان کے کسی منصوبے کے لیے سرمائے کی کمی ہو رہی تھی۔ انھوں نے اسے یک روزہ خیرات کا نام دیا۔ عجیب انسان ہے کہ بیمار ہو یا صحت مند زندگی کا کوئی لمحہ ضایع نہیں کرتا۔ پاکستان بنیادی طور پر برصغیر کے مسلمانوں کی ایک ویلفیئر اسٹیٹ تھی بہبودی ریاست لیکن ہمارے بعض خبیث سیاست دانوں نے اسے اپنی ویلفیئر کے لیے مخصوص کر دیا۔ اس وقت پاکستان میں اس قدر زیادہ کرپشن پھیل چکی ہے کہ دانش مند لوگوں کو اندیشہ ہے کہ اس کرپشن کے ساتھ یہ ملک کیسے چلے گا۔
یہ کرپشن اور رشوت ستانی ہمارے سیاستدانوں نے پھیلائی ہے تا کہ وہ اس کے ذریعے اپنے لیے سرمایہ جمع کر سکیں، ساتھ انھوں نے قوم کو بھی گمراہ کر دیا ہے جو اس کرپشن کی اصل وجوہات سے دور رہتی ہے۔ اس ملک میں ایدھی کی بیماری کی خبر اخبار کے اندر کے صفحات میں سنگل کالم چھپتی ہے لیکن اس ملک میں بذریعہ کرپشن اربوں روپے کمانے والوں کا نام اخباروں کے پہلے صفحات پر لکھا جاتا ہے۔
ایک بات سے کچھ اطمینان ہوتا ہے کہ ملک میں اب کرپشن کے عذاب کا احساس پیدا ہو رہا ہے اور لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ کرپشن رہی تو ملک کیسے چلے گا۔ یہی احساس ملک کو بچانے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے اور اسے جس قدر ممکن ہو عام کیا جائے اور ساتھ ہی ایدھی جیسے لوگوں کے کارناموں اور عوامی زندگی کو بھی عام کیا جائے، اسے اپنا آئیڈیل بنایا جائے، اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمارے لیڈر کون لوگ ہیں۔ ایدھی کی برادری کے لوگ یا کرپشن میں پلے ہوئے بددیانت لوگ، یہ زندگی، موت کا سوال ہے اور دشمن اسے بہت غور کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔
جس نے اپنی زندگی ایک کامیاب زندگی دوسروں کے لیے وقف کر دی ہے، ان کے لیے جنھیں وہ جانتا تک نہیں ہے اور نہ ہی کبھی ان سے متعارف ہو گا کیونکہ وہ ان سب کی خدمت کچھ دیکھے بغیر کرتا ہے، اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ جس کی خدمت کر رہا ہے وہ کون ہے، پاکستان کے کس صوبے اور برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے لیے صرف ایک ہی تعارف ہوتا ہے کہ وہ ضرورت مند ہے اور ایدھی اس کا خدمت گزار ہے۔
ایدھی صاحب سے میری پہلی ملاقات ڈھاکہ کے سفر کے دوران ہوئی جب ان کی نشست میری نشست کے قریب ہی تھی۔ صدر ضیاء الحق ان لوگوں کو جو خدمت خلق میں مصروف رہتے ہیں اپنے ساتھ ڈھاکہ لے جا رہے تھے۔ ان لوگوں میں میرے مرحوم دوست فاروق مظہر بھی تھے اور اس سفر میں پتہ چلا کہ فاروق یہ کام بھی کرتا ہے یعنی خدمت خلق کا کام۔ اس کی دوسری مصروفیات اور خدمت خلق کا آپس میں بظاہر کوئی رشتہ دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن وہ اپنی تمام مصروفیات کے ساتھ یہ کفارہ بھی ادا کرتا تھا۔
بہرکیف اس سفر میں مجھ پر بہت کچھ منکشف ہوا۔ ایدھی صاحب ایک گندی چپلی پہن کر دنیا سے بے خبر سفر کر رہے تھے اور شاید یہ سوچ رہے تھے کہ اس سفر کا کرایہ اگر انھیں نقد مل جاتا تو وہ کسی ریل گاڑی سے سفر کر لیتے اور باقی رقم اپنے کسی کام میں خیرات کر دیتے۔ اس شخص کی سوچ بھی ہماری آپ کی سوچ سے مختلف ہوتی تھی۔ انھوں نے بنگلہ دیش کے حکمران جنرل ارشاد کو کچھ رقم دی اور سامان بھی۔ یہ سب وہاں کے سیلاب میں کام آ سکتا تھا اور اسی دورے میں صدر ضیاء الحق اور جنرل ارشاد کی وہ جذباتی ملاقات بھی ہوئی جو شاید ہی کسی کو فراموش ہو سکے۔ یہ دونوں لیڈر جس کمرے میں مل رہے تھے وہ بھی لبالب بھر گیا تھا۔
میں دروازے کے باہر کھڑا تھا کہ اندر سے اونچی اونچی آواز میں کسی کے رونے کی آواز آئی اور ساتھ ہی یہ الفاظ بھی سنائی دیے کہ ہم ایک تھے، ہم ایک ہوں گے اور ایک رہیں گے۔ یہ رونا اور الفاظ جنرل ارشاد کے تھے۔ میں یہ واقعہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں لیکن نئے پڑھنے والوں اور متحدہ پاکستان کی محبت میں زندہ رہنے والوں کی یادداشت تازہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ وقت گزر جاتا ہے اپنی تلخیاں ساتھ لے کر اور سوائے رونے کے اور کچھ باقی نہیں چھوڑ جاتا۔ پاکستان کے اتحاد کا خاتمہ بھی ایک ایسا ہی سانحہ ہے جو اس قوم کو کبھی بھولے گا نہیں اور نئی نسل تک یہ سب کیسے پہنچے گا مجھے معلوم نہیں۔
میں بات کر رہا تھا عالی مرتبت ستار ایدھی کی۔ پاکستان کی انیس بیس کروڑ آبادی میں فرشتوں کو اگر کوئی سب سے برگزیدہ انسان ملے گا تو وہ یہی ہو گا، باقی سب ہمارے جیسے عام اور چھوٹے آدمی یا سیاستدان جن کو مجرم پاکستانی سمجھنا چاہیے کہ ہمارے اس شاندار ملک کا حال انھوں نے برباد کیا ہے۔ شہید حکیم سعید کہا کرتے تھے کہ ان کے حساب کے مطابق قدرت نے سورۂ رحمن میں جن نعمتوں کا ذکر کیا ہے پاکستان میں تین چار ان سے زیادہ ہیں لیکن غلط کار پاکستانیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے اس شخص نے اپنے انداز میں اپنی عمر بھی خدمت خلق میں بسر کر دی اور پاکستان کے ساتھ محبت سے باز نہ آئے۔ یہ بھی دلی کے ایم کیو ایم تھے۔ اصل ایم کیو ایم کراچی کی پیداوار نہیں تھے۔
بات اس انسانی عظمت کی ہو رہی تھی جو ان دنوں اسپتال میں زیر علاج ہے۔ انھیں ایک دن ذرا افاقہ ہوا تو باہر نکل کر خیرات مانگنی شروع کر دی کہ ان کے کسی منصوبے کے لیے سرمائے کی کمی ہو رہی تھی۔ انھوں نے اسے یک روزہ خیرات کا نام دیا۔ عجیب انسان ہے کہ بیمار ہو یا صحت مند زندگی کا کوئی لمحہ ضایع نہیں کرتا۔ پاکستان بنیادی طور پر برصغیر کے مسلمانوں کی ایک ویلفیئر اسٹیٹ تھی بہبودی ریاست لیکن ہمارے بعض خبیث سیاست دانوں نے اسے اپنی ویلفیئر کے لیے مخصوص کر دیا۔ اس وقت پاکستان میں اس قدر زیادہ کرپشن پھیل چکی ہے کہ دانش مند لوگوں کو اندیشہ ہے کہ اس کرپشن کے ساتھ یہ ملک کیسے چلے گا۔
یہ کرپشن اور رشوت ستانی ہمارے سیاستدانوں نے پھیلائی ہے تا کہ وہ اس کے ذریعے اپنے لیے سرمایہ جمع کر سکیں، ساتھ انھوں نے قوم کو بھی گمراہ کر دیا ہے جو اس کرپشن کی اصل وجوہات سے دور رہتی ہے۔ اس ملک میں ایدھی کی بیماری کی خبر اخبار کے اندر کے صفحات میں سنگل کالم چھپتی ہے لیکن اس ملک میں بذریعہ کرپشن اربوں روپے کمانے والوں کا نام اخباروں کے پہلے صفحات پر لکھا جاتا ہے۔
ایک بات سے کچھ اطمینان ہوتا ہے کہ ملک میں اب کرپشن کے عذاب کا احساس پیدا ہو رہا ہے اور لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ کرپشن رہی تو ملک کیسے چلے گا۔ یہی احساس ملک کو بچانے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے اور اسے جس قدر ممکن ہو عام کیا جائے اور ساتھ ہی ایدھی جیسے لوگوں کے کارناموں اور عوامی زندگی کو بھی عام کیا جائے، اسے اپنا آئیڈیل بنایا جائے، اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمارے لیڈر کون لوگ ہیں۔ ایدھی کی برادری کے لوگ یا کرپشن میں پلے ہوئے بددیانت لوگ، یہ زندگی، موت کا سوال ہے اور دشمن اسے بہت غور کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔