سلاطین صحرا زید حامد اور لالہ صحرائی
جس میں وہ دونوں بابرکت شہر پائے جاتے ہیں کہ جن کے تصور سے ہی روح میں گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں
برادرم زاہد فخری کی اعانت اور عزیزی ڈاکٹر جاوید احمد صادق کے توسط سے محمد صادق المعروف لالۂ صحرائی کے نعتیہ کلام پر مشتمل کچھ کتابیں چند دن قبل ہی مجھ تک پہنچیں، ارادہ تھا کہ انھیں ایک ایک کر کے تسلی سے پڑھوں گا مگر ان کی ورق گردانی کے دوران بہت سے اشعار اور بالخصوص ان کے نعت گوئی کی طرف مائل ہونے کے ایمان افروز واقعے نے مجبور کیا کہ ذہن میں بنائی ہوئی ترتیب کو توڑ کر سب سے پہلے لالۂ صحرائی کی نعت گوئی کے بارے میں لکھا جائے کہ جس کا پہلا مجموعہ ''لالہ زار نعت'' جو سو نعتوں پر مشتمل ہے صرف چھ مہینے کی مدت میں مکمل ہوا اور انتہائی دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس سے پہلے تقریباً 60 برس کی عمر تک انھوں نے کبھی نعت نہیں کہی تھی۔ اگرچہ ایک نثرنگار کے طور پر ان کا نام معروف بھی تھا اور ممتاز بھی۔ یہ واقعہ 1990ء میں پیش آیا۔
اس وقت ان کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید احمد صادق طائف میں ملازم اور مقیم تھے جب مکہ مکرمہ میں نعت کا یہ سلسلہ شروع ہوا تو کچھ دیر تک خود شاعر یعنی محمد صادق لالۂ صحرائی کی سمجھ میں بھی نہیں آیا کہ یہ اچانک ان میں شعر گوئی کی صلاحیت کیسے پیدا ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی اس الجھن نے بھی گھیر لیا کہ جو میں لکھ رہا ہوں یہ فنی اعتبار سے شاعری ہے بھی یا نہیں اور سب سے اہم سوال یہ کہ کیا یہ حضورؐ کی خدمت میں پیش کرنے کے لائق ہے بھی یا نہیں۔
انھوں نے اپنی دو تین ابتدائی نعتیں بیٹے کو بذریعہ ڈاک طائف بھجوائیں لیکن وہ خط پتہ نہیں کیسے پہلے مدینہ پہنچا اور لفافے پر پھر وہاں کی مہر لگنے کے بعد مکتوب الیہ کو ملا جس کا فوری ردعمل یہ تھا کہ آپ کی نعت کی قبولیت کی سند تو خود اس دربار سے مل گئی ہے جو آپ کے ممدوح ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ خط وہاں سے ہو کر مجھ تک پہنچا ہے۔ سو اس کے بعد سے نہ لالہ صحرائی نے کبھی مڑ کر دیکھا اور نہ رحمت کے اس دریا میں کوئی کمی آئی جو دن رات ان کے قلب و ذہن کو حمد و نعت کے لیے تیار اور سیراب کر رہا تھا یہ اور بات ہے کہ شاعر کو اپنے آخر دم تک یہ اصرار رہا کہ یہ شاعری نہیں ایک چرواہے کا خام اظہار جذبات ہے جو فن کے بجائے اپنی عقیدت کو بطور وسیلہ پیش کر رہا ہے لیکن اس سے قبل کہ لالۂ صحرائی کی نعت نگاری پر مزید بات کی جائے ایک معاملہ اور مسئلہ ایسا ہے جس کا تعلق بھی اسی خطۂ زمین سے ہے۔
جس میں وہ دونوں بابرکت شہر پائے جاتے ہیں کہ جن کے تصور سے ہی روح میں گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں اور جہاں سے مساوات، صبر، برداشت، انصاف اور حرمت انسانی کا پیغام پوری دنیا میں پھیلتا تھا۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق مبینہ طور پر سعودی حکمرانوں اور ان کے طرز حکومت پر تنقید کی پاداش میں زید حامد کو گرفتار کر کے آٹھ سال قید اور ایک ہزار کوڑوں کی سزا سنائی گئی ہے۔ میں ذاتی طور پر نہ تو زید حامد کے مداحین میں سے ہوں اور نہ ان کے خیالات سے کوئی بہت زیادہ اتفاق رکھتا ہوں ان کا رویہ اور انداز گفتگو بھی بعض اوقات بہت زیادہ کھلتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انھیں بولنے سے روکنے یا سزا دینے کے لیے حکومت اس طرح کا کوئی قدم اٹھائے اور پھر حکومت بھی وہ جس کے وہ شہری ہی نہیں ہیں۔ سعودی حکومت زیادہ سے زیادہ انھیں ناپسندیدہ شخص قرار دے کر ان کا ویزہ منسوخ کر کے انھیں ڈی پورٹ کر سکتی تھی اور بس۔ زید حامد پاکستان کے شہری ہیں اور حکومت پاکستان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ہر شہری کے حقوق کی حفاظت کرے۔
میرے علم میں نہیں کہ انھیں یہ سزا کس قانون کے تحت دی گئی ہے لیکن کامن سینس یہی کہتی ہے کہ اگر زید حامد نے واقعی کوئی ایسی بات کی تھی جو قابل تعزیر ہے تو اس کے باوجود بھی سعودی حکومت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایک پاکستانی شہری کو اس نوع کی سزا دے کہ یہ کوئی چوری، قتل، ڈاکے یا منشیات کی اسمگلنگ جیسا کیس بہرحال نہیں تھا۔ حکومت پاکستان اس مسئلے میںاپنی ذمے داریوں کو پورا کرے کہ یہ مسئلہ صرف زید حامد نامی کسی شخص کا نہیں بلکہ ایک اصول کا ہے اور اصولوں پر سمجھوتہ کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔
بات لالۂ صحرائی کی نعت نگاری سے چلتی ہوئی آج کے صحرا نشینوں کی طرف نکل گئی۔ مغلیہ سلطنت کے زمانۂ عروج کے آخری دنوں کا ایک شعر ہے جو اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی زیب النسا مخفیؔ سے منسوب کیا جاتا ہے۔
اے عندلیب ناداں غوغا مکن بہ ایں جا
نازک مزاج شاہاں تاب سخن ندارد
یہ بات آج کے شاہوں کے بارے میں بھی اتنی ہی صحیح اور درست ہے لیکن جس دونوں جہانوں کے بادشاہ کی بات لالۂ صحرائی اور ان جیسے لاکھوں غلامان رسولؐ کی ہے وہاں تو گالیوں کے بدلے میں بھی پھول اور پتھروں کے بدلے میں دعائیں ملا کرتی تھیں۔ اردو شاعری کی تاریخ میں لالۂ صحرائی اگلی صفوں میں ہوں یا نہ ہوں۔ عاشقان رسول کی صفوں میں یقینا وہ ایک اہم مقام کے حامل ہیں۔ انھوں نے عام طور پر اپنے سیدھے سادے انداز اور لاکھوں بار کے استعمال شدہ لفظوں اور استعاروں سے ہی اظہار مدعا کا کام لیا ہے اور یہ سلسلہ شروع ہونے کے بعد آخری دم تک حمد و نعت ہی کی فضا میں جئے اور اسی لے میں جھومتے رہے کہ
عجیب نسخہ ملا ہے قرار جاں کا مجھے
میں نعت کہنے لگا جب بھی بے قرار ہوا
نعت اور حمد کے باہمی روابط اور مناسبات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے اور اس ضمن میں یہ تاکید بھی بارہا کی گئی ہے کہ
با خدا دیوانہ باش و با محمدؐ ہوشیار
مگر لالۂ صحرائی نے اپنے ذاتی تجربے کی وساطت سے اس بات کو کچھ یوں بیان کیا ہے کہ
نعت نے مجھ کو سکھا دی حمد بھی
معجزہ مدحت نے یہ دکھلا دیا
جب ہوا عرفاں محمدؐ کا نصیب
مجھ کو عرفان خدا بھی ہو گیا
لالۂ صحرائی کے بام عمر پر نعت کا چاند دیر سے نمودار ہوا مگر اس کے بعد شاعر نے اسے کبھی آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیا اور جس طرح ابتدائی چار ماہ میں سو نعتیں قلمبند کی تھیں اسی طرح دم آخر تک شب و روز اسی دریائے رنگ و نور کی جھل مل میں رہے۔ شاعری ان کے لیے ایک ذریعہ اظہار تھی اور بس سو انھوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو شاعر کہنے اور سمجھنے سے گریز کیا لیکن جس عاجزی اور خوب صورتی سے انھوں نے مرنے سے پہلے وہ نعت لکھی (جو ان کے آخری مجموعے ''نعت شفیق کے آخر میں درج ہے) جس کا عنوان ''الوداع کہتا ہوں اب نعت نگاری کو میں'' ہے وہ ایک خاصے کی چیز ہے۔ سو آخر میں اسی کے چند اشعار
قصر مدحت ہے بدستور بھرا میرے بعد
دیکھ لو اس میں نہیں کوئی خلا میرے بعد
نعت کی کلیاں خیالوں سدا چٹکیں گی
آئے گی روز مدینے سے صبا میرے بعد
منظر نعت سے جو ہو رہا ہوں میں غائب
نعت گو ہوں گے نئے چہرہ کشا میرے بعد
اس کی کرنوں میں مرا سوز بھی ہو گا شامل
نعت آقاؐ کا دیا جو بھی جلا میرے بعد