ترقی کا سفر
ڈاکٹر صاحب نے بہت جلد حسب وعدہ میرے افسانوں پر چند اہم ترین سطور لکھ کر میرا حوصلہ بڑھا دیا تھا۔
گزشتہ دنوں''انجمن ترقی اردو'' جانے کا اتفاق ہوا، تو یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ انجمن ترقی اردو حقیقی معنوں میں ترقی کی راہوں پر گامزن ہوچکی ہے اور اپنا سفر بہت تیزی سے طے کر رہی ہے جوکہ یقینا خوش آئند بات ہے۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے دوران گفتگو بتایا کہ اردو باغ کا کام شروع ہوچکا ہے، اس عمارت کی تعمیر و ترقی کے لیے ڈیڑھ کروڑ روپے صدر پاکستان ممنون حسین کی گرانٹ سے منظور ہوچکے ہیں، نیس پاک کو اس کا نگران مقرر کردیا گیا ہے اور تیزی کے ساتھ کام جاری ہے، اگر رفتار کا حال یہی رہا، تو انشا اللہ یہ عمارت بہت جلد تکمیل کے مراحل سے گزرے گی۔
فی الحال ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تعمیر کا پہلا مرحلہ شروع ہوا ہے، اس اہم ترین کام کی ابتدا صدر پاکستان ممنون حسین کی پاکستان اور اس کی قومی زبان اردو سے محبت کا نتیجہ ہے، صدر صاحب کی علمیت اور اپنے وطن سے محبت مسلم ہے، انھوں نے درست فرمایا اور جوکہ حقیقت بھی ہے کہ وہ ''انجمن ترقی اردو کا قیام دراصل دو قومی نظریے کی بنیاد ہے'' انجمن ترقی اردو وہ ادارہ ہے جہاں طلبا علوم و فنون کے خزانوں سے استفادہ کرتے ہیں، بے حد نایاب کتب اس کے کتب خانے کی زینت ہیں۔ ''انجمن ترقی اردو'' پاکستان کی شناخت ہے، پاکستان اور اس طرح کے ادارے لازم و ملزوم ہیں، عمارت مکمل ہونے کے بعد اس کا درجہ مزار قائد کے بعد دوسرے نمبر پر ہوگا، ادبی و تحقیقی کاموں کے حوالے سے آج بھی انجمن ترقی اردوکی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے۔ انشا اللہ یہ پاکستانی قومیت کا بطل جلیل (Icon) ثابت ہوگا۔
جو لوگ قائد اعظم کے فرمان کے مطابق کام اورکام کرنے کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں وہی اپنی کاوشوں کی بدولت زندگی کے ہر میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے ہیں اور زمانہ انھیں سلام کرتا ہے، بشرطیکہ اخلاص نیت سے کام کیا جائے۔انجمن ترقی میں جتنے بھی اہل علم مسند علم پر جلوہ افروز ہوئے وہ سب مذکورہ ادارے کی خدمات انجام دینا چاہتے تھے اور انھوں نے دیں۔ ان ھی نابغہ روزگار شخصیات میں ڈاکٹر اسلم فرخی کا نام بھی شامل ہے۔
میری باقاعدہ ملاقات ڈاکٹر صاحب سے انجمن میں ہی ہوئی، مجھے اپنے افسانوی مجموعے ''آج کا انسان'' پر ڈاکٹر صاحب کی گراں قدر رائے کی ضرورت تھی، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ڈاکٹر صاحب نہایت شفقت اور محبت کے ساتھ پیش آئے، مجھے انھوں نے انجمن کی لائبریری دکھائی کچھ ادب کی لیجنڈ شخصیات کی کتابوں اور تصاویر پر تبادلہ خیال کیا اور معلومات فراہم کیں، میں ان کے اعلیٰ اخلاق سے بے حد متاثر ہوئی یقینا بڑے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں جو دلوں کو اپنی انکساری اور اعلیٰ ظرفی کی بدولت جیت لیتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے بہت جلد حسب وعدہ میرے افسانوں پر چند اہم ترین سطور لکھ کر میرا حوصلہ بڑھا دیا تھا۔ یہ غالباً 1994 یا 1995 کی یادگار ملاقات تھی، دوسری ملاقات ڈاکٹر صاحب سے ان کے دولت کدہ پر حال میں ہی ہوئی جہاں ہر اتوار کو ادب کے طالب ان کی علمیت و قابلیت سے استفادہ کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، ڈاکٹر صاحب علوم و فنون کے دریا بہانے میں ذرہ برابر بھی بخیلی سے کام نہیں لیتے، بلکہ ادب کی خدمت فراخ دلی اور روشن خیالی کے ساتھ کرنے میں ڈاکٹر صاحب کا کوئی ثانی نہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے بعد (غالباً) ناول نگاروافسانہ نگار امراؤ طارق آئے اور انھوں نے اپنے تئیں بہت سے ادبی امور انجام دیے اور نئی نئی کتابوں کی تصنیف وتالیف ہوئی۔ امراؤ طارق اپنی زندگی کے آخری دنوں تک انجمن سے وابستہ رہے اور خلوص دل سے کام کرتے رہے ان کی وفات کے بعد ممتاز صحافی حسن ظہیر اور اظفر رضوی نے کامیابیوں کا زینہ طے کرنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ اجل نے انھیں کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ دونوں یکے بعد دیگرے آخرت کے سفر پر روانہ ہوئے۔ ڈاکٹر جاوید منظر کا نام بھی سامنے آیا، اسی دوران ڈاکٹر فاطمہ حسن بھی معتمد اعزازی کے عہدے پر فائز ہوئیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انھوں نے کم وقت میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔
ویسے حق تو یہ ہے کہ فاطمہ کو کام کرنے کا خبط ہے،عالمی کانفرنس کے مواقعوں پر وہ آرٹس کونسل میں بے حد مصروف نظرآئیں اور ان دنوں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی ذمے داریوں کو احسن طریقے سے انجام دے رہی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا انجمن کو فعال بنانے میں فاطمہ حسن نے اپنی کاوشوں کی بدولت اہم کام انجام دیے ہیں۔ معتبر ذرائع سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ 2014 اور 2015 میں انجمن ترقی اردوکی طرف سے کئی تحقیقی کتابوں کی اشاعت ہوئی وہ کتابیں بھی شایع کی گئیں جو ڈھونڈے سے نہیں ملتی تھیں یقینا ان کی اشاعت ادب کے طالب علموں کے لیے مفید ثابت ہوگی۔ میر باقر علی داستان گو، داستانیں اور داستان گوئی ''خواتین کے اردو سفر نامے'' اس سفرنامے کی قلمکار ڈاکٹر صدف فاطمہ ہیں، ڈاکٹر صدف فاطمہ نے 2000 سے 2012 تک کے لکھے جانے والے سفرناموں کو اپنی تحقیق کا مرکز بنایا ہے۔
اسی طرح اردو تنقیدکا ارتقا ڈاکٹر عبادت بریلوی، متنی تنقید، جناب ڈاکٹر خلیق انجم، میرامن دہلوی کی ''باغ و بہار (قصہ چہار درویش) کراچی کے دبستان شاعری میں اردو غزل گو شعرا کا تذکرہ ڈاکٹر جاوید منظر کا تحقیقی مقالہ، اس کی پہلی اشاعت انجمن کی طرف سے نصابی ضرورت کو مد نظر رکھ کر کی گئی۔ جناب جاوید منظر قومی زبان میں تبصرہ نگار کی حیثیت سے اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ سال رواں کے بجٹ کے تحت دو اہم کتابیں اشاعت کے مرحلوں سے گزرنے والی ہیں پہلی کتاب ہے ملا وجہی کی کتاب ''سب رس'' یہ کتاب جامعات کے نصاب میں شامل ہے۔
درج بالا سطور میں جن کتابوں کا تذکرہ ہے، ان میں سے کئی کتابیں نصاب میں شامل ہیں۔ اساتذہ وطلبا ان سے مستفید ہو رہے ہیں، نیز یہ کہ میرامن دہلوی کی ''باغ و بار'' (1مرتبہ ڈاکٹر مولوی عبدالحق) اس کتاب کی پہلی اشاعت پاکستان بننے سے پہلے اور (دوسری اشاعت) اب انجمن سی کی گئی ہے گویا پاکستان میں انجمن کی طرف سے پہلی اشاعت کہلائے گی۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ہماری معلومات میں مزید اضافہ کیا کہ آج کل انجمن کی ویب سائٹ پر تیزی سے کام ہو رہا ہے اور جلد ہی تکمیل کے مراحل میں داخل ہوجائے گا جس میں انجمن سے متعلق مکمل معلومات فراہم کی جائیں گی۔ یقینا اردو دنیا میں یہ ایک خوبصورت اضافہ کہلائے گا، ممبرشپ فارم بھی ویب سائٹ سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ویب سائٹ یہ ہے (www.atu.org.pk)
انجمن ترقی اردو پاکستان کے کتب خانے میں مطالعہ کرنے والے طلبا و طالبات میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے، یہاں پر ملک اور بیرون ملک سے آنے والے طلبا اپنے مقالات کی تیاری میں مصروف عمل نظر آتے ہیں، اسی طرح اہم شخصیات بھی انجمن کی علمی و ادبی تقریبات میں شرکت کرکے مجالس کو وقار بخشتی ہیں، انجمن دیار غیر سے آنے والے ادبا و شعرا اور محققین کے اعزاز میں تقریبات کا اہتمام کرتی ہے۔ پچھلے دنوں ڈاکٹر انیس اشفاق اور تسلیم الٰہی زلفی، امجد اسلام امجد، اور حال ہی میں بھارت سے تشریف لانے والے مشہور ناول نگار وبھوتی نارائن رائے اور معروف شاعرہ وندانہ مشرا کے علمی و ادبی کاموں پر سیر حاصل گفتگو کے لیے تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔
حاضرین کی بڑی تعداد نے ہمیشہ کی طرح شرکت کی۔ ایک بڑی اچھی بات یہ بھی دیکھنے میں آئی وہ یہ کہ عاشقین اردو نے حیرت انگیز طور پر مالی تعاون کیا اور اردو کی ترقی اور خدمت میں نمایاں کردار ادا کرنے والے اس ادارے کو عطیات سے نوازا گیا۔ امریکا سے آئے ہوئے طالب علم عماد منظور نے ایک جدید ترین کمپیوٹر کا تحفہ اور فرحت پروین نے بھی کمپیوٹر کا تحفہ فراہم کیا۔ تحریک نفاذ اردو و صوبائی زبان کے سرپرست ڈاکٹر مبین اختر نے ایک لاکھ روپے رکنیت کے لیے عنایت فرمائے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دامے، درمے، سخنے اہل ادب اپنے ادارے کو مستحکم کرنے کی تگ و دو میں خلوص دل کے ساتھ مصروف ہیں۔
فی الحال ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تعمیر کا پہلا مرحلہ شروع ہوا ہے، اس اہم ترین کام کی ابتدا صدر پاکستان ممنون حسین کی پاکستان اور اس کی قومی زبان اردو سے محبت کا نتیجہ ہے، صدر صاحب کی علمیت اور اپنے وطن سے محبت مسلم ہے، انھوں نے درست فرمایا اور جوکہ حقیقت بھی ہے کہ وہ ''انجمن ترقی اردو کا قیام دراصل دو قومی نظریے کی بنیاد ہے'' انجمن ترقی اردو وہ ادارہ ہے جہاں طلبا علوم و فنون کے خزانوں سے استفادہ کرتے ہیں، بے حد نایاب کتب اس کے کتب خانے کی زینت ہیں۔ ''انجمن ترقی اردو'' پاکستان کی شناخت ہے، پاکستان اور اس طرح کے ادارے لازم و ملزوم ہیں، عمارت مکمل ہونے کے بعد اس کا درجہ مزار قائد کے بعد دوسرے نمبر پر ہوگا، ادبی و تحقیقی کاموں کے حوالے سے آج بھی انجمن ترقی اردوکی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے۔ انشا اللہ یہ پاکستانی قومیت کا بطل جلیل (Icon) ثابت ہوگا۔
جو لوگ قائد اعظم کے فرمان کے مطابق کام اورکام کرنے کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں وہی اپنی کاوشوں کی بدولت زندگی کے ہر میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے ہیں اور زمانہ انھیں سلام کرتا ہے، بشرطیکہ اخلاص نیت سے کام کیا جائے۔انجمن ترقی میں جتنے بھی اہل علم مسند علم پر جلوہ افروز ہوئے وہ سب مذکورہ ادارے کی خدمات انجام دینا چاہتے تھے اور انھوں نے دیں۔ ان ھی نابغہ روزگار شخصیات میں ڈاکٹر اسلم فرخی کا نام بھی شامل ہے۔
میری باقاعدہ ملاقات ڈاکٹر صاحب سے انجمن میں ہی ہوئی، مجھے اپنے افسانوی مجموعے ''آج کا انسان'' پر ڈاکٹر صاحب کی گراں قدر رائے کی ضرورت تھی، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ڈاکٹر صاحب نہایت شفقت اور محبت کے ساتھ پیش آئے، مجھے انھوں نے انجمن کی لائبریری دکھائی کچھ ادب کی لیجنڈ شخصیات کی کتابوں اور تصاویر پر تبادلہ خیال کیا اور معلومات فراہم کیں، میں ان کے اعلیٰ اخلاق سے بے حد متاثر ہوئی یقینا بڑے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں جو دلوں کو اپنی انکساری اور اعلیٰ ظرفی کی بدولت جیت لیتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے بہت جلد حسب وعدہ میرے افسانوں پر چند اہم ترین سطور لکھ کر میرا حوصلہ بڑھا دیا تھا۔ یہ غالباً 1994 یا 1995 کی یادگار ملاقات تھی، دوسری ملاقات ڈاکٹر صاحب سے ان کے دولت کدہ پر حال میں ہی ہوئی جہاں ہر اتوار کو ادب کے طالب ان کی علمیت و قابلیت سے استفادہ کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، ڈاکٹر صاحب علوم و فنون کے دریا بہانے میں ذرہ برابر بھی بخیلی سے کام نہیں لیتے، بلکہ ادب کی خدمت فراخ دلی اور روشن خیالی کے ساتھ کرنے میں ڈاکٹر صاحب کا کوئی ثانی نہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے بعد (غالباً) ناول نگاروافسانہ نگار امراؤ طارق آئے اور انھوں نے اپنے تئیں بہت سے ادبی امور انجام دیے اور نئی نئی کتابوں کی تصنیف وتالیف ہوئی۔ امراؤ طارق اپنی زندگی کے آخری دنوں تک انجمن سے وابستہ رہے اور خلوص دل سے کام کرتے رہے ان کی وفات کے بعد ممتاز صحافی حسن ظہیر اور اظفر رضوی نے کامیابیوں کا زینہ طے کرنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ اجل نے انھیں کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ دونوں یکے بعد دیگرے آخرت کے سفر پر روانہ ہوئے۔ ڈاکٹر جاوید منظر کا نام بھی سامنے آیا، اسی دوران ڈاکٹر فاطمہ حسن بھی معتمد اعزازی کے عہدے پر فائز ہوئیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انھوں نے کم وقت میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔
ویسے حق تو یہ ہے کہ فاطمہ کو کام کرنے کا خبط ہے،عالمی کانفرنس کے مواقعوں پر وہ آرٹس کونسل میں بے حد مصروف نظرآئیں اور ان دنوں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی ذمے داریوں کو احسن طریقے سے انجام دے رہی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا انجمن کو فعال بنانے میں فاطمہ حسن نے اپنی کاوشوں کی بدولت اہم کام انجام دیے ہیں۔ معتبر ذرائع سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ 2014 اور 2015 میں انجمن ترقی اردوکی طرف سے کئی تحقیقی کتابوں کی اشاعت ہوئی وہ کتابیں بھی شایع کی گئیں جو ڈھونڈے سے نہیں ملتی تھیں یقینا ان کی اشاعت ادب کے طالب علموں کے لیے مفید ثابت ہوگی۔ میر باقر علی داستان گو، داستانیں اور داستان گوئی ''خواتین کے اردو سفر نامے'' اس سفرنامے کی قلمکار ڈاکٹر صدف فاطمہ ہیں، ڈاکٹر صدف فاطمہ نے 2000 سے 2012 تک کے لکھے جانے والے سفرناموں کو اپنی تحقیق کا مرکز بنایا ہے۔
اسی طرح اردو تنقیدکا ارتقا ڈاکٹر عبادت بریلوی، متنی تنقید، جناب ڈاکٹر خلیق انجم، میرامن دہلوی کی ''باغ و بہار (قصہ چہار درویش) کراچی کے دبستان شاعری میں اردو غزل گو شعرا کا تذکرہ ڈاکٹر جاوید منظر کا تحقیقی مقالہ، اس کی پہلی اشاعت انجمن کی طرف سے نصابی ضرورت کو مد نظر رکھ کر کی گئی۔ جناب جاوید منظر قومی زبان میں تبصرہ نگار کی حیثیت سے اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ سال رواں کے بجٹ کے تحت دو اہم کتابیں اشاعت کے مرحلوں سے گزرنے والی ہیں پہلی کتاب ہے ملا وجہی کی کتاب ''سب رس'' یہ کتاب جامعات کے نصاب میں شامل ہے۔
درج بالا سطور میں جن کتابوں کا تذکرہ ہے، ان میں سے کئی کتابیں نصاب میں شامل ہیں۔ اساتذہ وطلبا ان سے مستفید ہو رہے ہیں، نیز یہ کہ میرامن دہلوی کی ''باغ و بار'' (1مرتبہ ڈاکٹر مولوی عبدالحق) اس کتاب کی پہلی اشاعت پاکستان بننے سے پہلے اور (دوسری اشاعت) اب انجمن سی کی گئی ہے گویا پاکستان میں انجمن کی طرف سے پہلی اشاعت کہلائے گی۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ہماری معلومات میں مزید اضافہ کیا کہ آج کل انجمن کی ویب سائٹ پر تیزی سے کام ہو رہا ہے اور جلد ہی تکمیل کے مراحل میں داخل ہوجائے گا جس میں انجمن سے متعلق مکمل معلومات فراہم کی جائیں گی۔ یقینا اردو دنیا میں یہ ایک خوبصورت اضافہ کہلائے گا، ممبرشپ فارم بھی ویب سائٹ سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ویب سائٹ یہ ہے (www.atu.org.pk)
انجمن ترقی اردو پاکستان کے کتب خانے میں مطالعہ کرنے والے طلبا و طالبات میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے، یہاں پر ملک اور بیرون ملک سے آنے والے طلبا اپنے مقالات کی تیاری میں مصروف عمل نظر آتے ہیں، اسی طرح اہم شخصیات بھی انجمن کی علمی و ادبی تقریبات میں شرکت کرکے مجالس کو وقار بخشتی ہیں، انجمن دیار غیر سے آنے والے ادبا و شعرا اور محققین کے اعزاز میں تقریبات کا اہتمام کرتی ہے۔ پچھلے دنوں ڈاکٹر انیس اشفاق اور تسلیم الٰہی زلفی، امجد اسلام امجد، اور حال ہی میں بھارت سے تشریف لانے والے مشہور ناول نگار وبھوتی نارائن رائے اور معروف شاعرہ وندانہ مشرا کے علمی و ادبی کاموں پر سیر حاصل گفتگو کے لیے تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔
حاضرین کی بڑی تعداد نے ہمیشہ کی طرح شرکت کی۔ ایک بڑی اچھی بات یہ بھی دیکھنے میں آئی وہ یہ کہ عاشقین اردو نے حیرت انگیز طور پر مالی تعاون کیا اور اردو کی ترقی اور خدمت میں نمایاں کردار ادا کرنے والے اس ادارے کو عطیات سے نوازا گیا۔ امریکا سے آئے ہوئے طالب علم عماد منظور نے ایک جدید ترین کمپیوٹر کا تحفہ اور فرحت پروین نے بھی کمپیوٹر کا تحفہ فراہم کیا۔ تحریک نفاذ اردو و صوبائی زبان کے سرپرست ڈاکٹر مبین اختر نے ایک لاکھ روپے رکنیت کے لیے عنایت فرمائے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دامے، درمے، سخنے اہل ادب اپنے ادارے کو مستحکم کرنے کی تگ و دو میں خلوص دل کے ساتھ مصروف ہیں۔