سیاسی منظر نامہ
سیاست میں بات عوام سے شروع ہوکر عوام پر ختم ہوجاتی ہے خواہ وہ پٹرول کی قیمتوں ہی کا مسئلہ کیوں نہ ہو
میگناکارٹا میں اشرافیہ کا مسئلہ تو طے ہوگیا ، لیکن اس کے رساؤ یا عمومی اثرات سے عام لوگ جو پرجا کہے جاتے تھے انھیں عوام کا درجہ مل گیا پھر مختلف سیاسی نظریات اور آزادی کی تحریکوں نے بھی عوامی قدروقیمت یہاں تک پہنچا دی کہ کہنے کی حد تک ہی سہی مقتدر اعلیٰ کہے جانے لگے۔ اقتدار انتخابات کے ذریعے منتقل ہونے لگا۔ جب سیاست نے عوام کو پوری طرح جکڑ لیا تو ہر ریاستی معاملے میں عوام، عوام کے نعرے گونجنے لگے۔ ہندی میں جنتا اورانگریزی میں پیپلزکہتے ہیں۔ اسی کے زیر اثر پاکستان میں پیپلز پارٹی تو بھارت میں جنتا پارٹی وجود میں آئی۔ کسی دل جلے نے تو یہاں تک کہہ دیا:
گھی سے ترکاری بنتی تھی اب ترکاری سے گھی بنتا ہے
پہلے عورت جنتی تھی اب سارا عالم جنتا ہے
سیاست میں بات عوام سے شروع ہوکر عوام پر ختم ہوجاتی ہے خواہ وہ پٹرول کی قیمتوں ہی کا مسئلہ کیوں نہ ہو۔ پریشانی اور بوجھ عوام پر ہی بتایا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں تو کوئی کل سیدھی نہیں ہے پہلے پاکستان کے تحفظ و استحکام کے نعرے لگتے رہے پھر طرز حکمرانی ''انصاف'' یا بہت چرچا ہوا تو دستور اور قانون کو بیچ میں لایا جانے لگا۔ مگر عوام کے مسائل کیا ہیں ان پر سرسری بات ہو تو ہوجائے شاذونادر ہی بے روزگاری، مہنگائی، غربت کی بڑھتی ہوئی سطح پر جلسے جلوس یا دھرنے دیے گئے ہوں۔
فی الوقت زندہ رہنا دشوار ہوا جا رہا ہے۔ مگر ہماری سیاسی جماعتیں کبڈی کھیلتی نظر آرہی ہیں۔ (ن) لیگ کی تو بات ہی کیا ہے اقتدار میں ہونے کی وجہ سے سب کچھ اچھا نظر آتا اور سب کام عوام کے مفاد میں ہی چل رہے ہیں لیکن پی پی پی جس نے پاکستان کے منظر نامے میں پہلی بار عوامی سیاست کو متعارف کرایا اور روٹی کپڑا مکان کا سحر انگیز نعرہ دے کر اقتدار حاصل کیا۔ بعد میں چولا بدل دیا پھر اس جماعت کے خلاف جو تحریک چلی وہ نظام مصطفیٰ کے جذباتی نعرے شروع ہوکر مارشل لا پر منتج ہوگئی۔
تھوڑے بہت جو عوام کے اختیارات تھے ان سے بھی محروم ہوگئے۔ پھر جماعت اسلامی تو مسئلہ ہی دوسرا ہے وہ جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کرانے کے مقصد میں مگن ہے۔ رہی ایم کیو ایم تو وہ اپنی شناخت کرانے کی جدوجہد میں لگی ہوئی ہے۔ تاریخ کے حساب سے چھٹی لیکن حیثیت میں تیسری سیاسی جماعت جو پچھلے چند برسوں میں ابھری ہے اس کا نام ہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ قیام انصاف کی تحریک چلا رہی ہے۔ مگر یہ بھید نہیں کھلتا کہ وہ معاشی نظام میں انصاف چاہتی ہے یا معاشرتی ڈھانچے میں یا پھر عدلیہ کے طریق کار میں۔ یوں تو سوشل جسٹس میں معاشیات کا بھی احاطہ کیا جاتا ہے لیکن ہم اسے علیحدہ کرکے معاشرتی انصاف تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔
معاشرتی انصاف اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ ایک شخص ایک ووٹ کے عادلانہ نظام کے تحت ہی اقتدار وجود میں آتا ہے۔ یا پھر عدالتی نظام میں انصاف کی تلاش کی جاسکتی ہے جس کی فراہمی کے لیے ایک مکمل ڈھانچہ موجود ہے کیا تحریک انصاف اس میں بنیادی تبدیلی لانا چاہتی ہے کہ انصاف ہر شخص کی دہلیز پر پہنچے۔ یہ وہ مخمصہ ہے جو تحریک انصاف کے خدوخال کو واضح نہیں کرتا۔ امید کی گئی تھی کہ سیاسی میدان میں عوام اور عوامی مسائل کو آگے رکھا جائے گا۔ تحریک انصاف کے قیام میں سابق طالب علم رہنما اور آزمودہ سیاسی کارکن معراج محمد خاں کی قیادت کو دوسرا نمبر حاصل تھا۔ معراج محمد خاں انقلابی طرز فکر اور بے لوث و نڈر رہنما کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ کیا وجوہ تھیں کہ ابتدائی منزل پر ہی وہ تحریک انصاف سے علیحدہ ہوگئے اور تحریک انصاف انتخابی پارٹی تک محدود ہوگئی۔
لوگوں نے نئی سیاسی جماعت کی وجہ سے امیدیں بھی وابستہ کرلی تھیں بلکہ گزشتہ انتخابات میں تو یہ تک مشہور ہوگیا کہ صرف تحریک انصاف اکثریتی جماعت بن کر ابھرے گی بلکہ عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوسکتے ہیں۔ یہ قیاس آرائی ڈرائنگ روم سے لے کر گلی کوچوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ غالباً اسی وجہ سے عمران خان کے پاس اب موثر حکمت عملی انتخابات کو چیلنج کرنا ٹھہری ہے جس میں وہ اس حد تک کامیاب بھی رہے کہ جوڈیشل کمیشن بنوالیا جس کے فیصلے کے بعد نئے انتخابات کے امکانات بھی نظر آتے ہیں۔
سب کچھ ہونے کے بعد عوامی سطح کے رہنما معراج محمد خاں کی علیحدگی سے لوگوں کو یہ تو یقین ہوگیا کہ اس سیاسی جماعت کی مقبولیت عمران خان کے گرد ہی گھومے گی لیکن کوئی انقلابی عوامی مفاد کا پروگرام یا مینی فسٹو ظہور میں نہیں آئے گا۔ جماعت میں دوسرے درجے کی قیادت میں وہی لوگ شامل ہوتے گئے جو اسٹیٹس کو کے پروردہ تھے۔
عمران خان یہ کہتے ہوئے تو نہیں تھکتے کہ پی پی پی اور (ن) لیگ ملے ہوئے ہیں عوام کے استحصال میں شریک ہیں مگر ان کے مقابلے میں وہ اپنا کوئی سیاسی یا معاشی نظام پیش نہیں کرتے۔ جو ان پارٹیوں سے انھیں ممتاز اور منفردکرسکے۔ لے دے کے انتخابات ہی ان کا موضوع سخن ہیں۔ مگر ملکی معیشت کے خوشہ چیں بننے کے لیے تیار نہیں۔ نہ ہی وہ بے روزگاری اور روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر عوام کو متحد اور متحرک بنا رہے ہیں۔ عمران خان کو یہ خطرہ تو مول لینا ہی پڑے گا کہ وہ منافع خوروں اور بدعنوان انتظامیہ کے خلاف بھی تحریک چلائیں۔ یقینا یہ طبقات ان کے خلاف سازشوں کے جال بچھائیں گے لیکن عوام ضرور عمران خان کی کامیابی سے پرامید ہوجائیں گے کہ برے وقت کا خاتمہ قریب ہے:
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات