غزوہ بدر حق و باطل کا پہلا معرکہ عظیم

جب فرشتے مسلمانوں کی مدد اور نصرت کو موجود تھے

جب فرشتے مسلمانوں کی مدد اور نصرت کو موجود تھے فوٹو : فائل

PESHAWAR:
بد ر ایک کنویں کا نام ہے، اسی کی مناسبت سے اس وادی کا نام ''بدر'' پڑ گیا، یہ مکہ اور مدینہ کی درمیانی شاہ راہ پر واقع ہے جو دور عثمانی میں تعمیر ہوئی تھی۔ علامہ شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ بدر ایک کنویں کا نام ہے جہاں ہر سال میلا لگتا تھا۔ یہ مقام اسی نقطے کے قریب تھا جہاں شام سے مدینے جانے کا راستہ دشوار گزار گھاٹیوں میں سے ہوکر گزرتا تھا، یہ مدینے سے 80 کلو میٹر فاصلہ پر ہے۔

بدر کا معرکہ 17 رمضان المبارک 02 ہجری کو پیش آیا جس میں حضور اکرم ﷺ کی قیادت میں 313 مجاہدین نے شرکت کی تھی جن میں اکابر صحابہؓ بھی شامل تھے۔ دوسری جانب دشمنان اسلام کے لشکر میں 1000 کی نفری تھی جس کا سپہ سالار ابوجہل تھا۔ اس معرکے کی تفصیلات قرآن حکیم میں بھی مذکور ہیں۔

اس دن حضور ﷺ نے یہ دعا فرمائی تھی:

''اے اﷲ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا وعدہ اور اقرار پورا کر، یا اﷲ! اگر تیری مرضی یہی ہے (کہ کافر غالب ہوں) تو پھر زمین میں تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔''

نبی پاکؐ نہایت خشوع و خضوع سے بارگاہ الٰہی میں دعا فرما رہے تھے، آپؐ کے استغراق کا یہ عالم تھا کہ آپؐ قرب و جوار سے بھی بے نیاز ہوگئے تھے، شانۂ مبارک سے چادر ڈھلک گئی تھی، حضرت ابوبکرؓ آگے بڑھ کر اسے درست کرتے ہوئے فرماتے جارہے تھے:''اے اﷲ کے رسول ؐ! بس کیجیے، آپؐ نے اپنے رب سے بڑی خوش الحانی سے التجا فرمادی ہے۔''

اسی پس منظر میں رب کائنات نے فرشتوں کو وحی دے کر بھیجا:''میں تمھارے ساتھ ہوں، تم اہل ایمان کے قدم جماؤ، میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا، سنو! تم گردنوں پر مارو (قتل) اور ان کی پور پور پر مارو۔'' (سورۂ انفال آیت 12)

یہاں ایک لفظ ''بنان'' استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ ہیں، ہاتھوں اور پیروں کی پوریں۔ جب ان پر تلوار کی چوٹ پڑتی ہے تو وہ پوریں ٹوٹ کر گر پڑتی ہیں جس کے بعد دشمن نہ تو تلوار چلانے کے قابل رہتا ہے گا اور نہ ہی بھاگ پاتا ہے۔

پیارے نبیﷺ نے اپنے رب سے دعا فرمائی تھی، بھلا وہ رد کیسے ہوسکتی تھی، چناں چہ فوراً ہی وحی کا نزول ہوا:''میں ایک ہزار فرشتوں سے تمھاری مدد کروں گا جو آگے پیچھے آئیں گے۔''

(سورۂ انفال آیت9)

اس موقع پر ابن اسحاق نے ایک روایت بیان کی ہے ۔ حضورﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:''خوش ہوجاؤ، تمھارے پاس اﷲ کی مدد آن پہنچی۔ یہ جبرئیل ؑ ہیں جو اپنے گھوڑے کی لگام تھامے آگے چلے آرہے ہیں اور گرد و غبار سے اٹے ہوئے ہیں۔''

آپؐ نے جس مقام پر دعا فرمائی تھی، وہ خیمے سے مشابہ تھی۔ پھر آپؐ زرہ پہنے قیام گاہ سے باہر تشریف لائے اور اپنے مجاہدین کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے پیش گوئی فرمائی:''عن قریب یہ جتھا شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔'' (سورۃ القمر آیت 45) اس کے بعد آپؐ نے ایک مٹھی کنکریاں لیں اور قریش کی جانب رخ مبارک کرکے فرمایا، ''شاہت الوجوہ'' (چہرے بگڑ جائیں) اور پھر وہ کنکریاں کفار کی جانب پھینک دیں۔

یہ مشت خاک ہر مشرک کے کان، نتھنے یا آنکھوں میں ضرور گئی جس کی بابت اﷲ کا فرمان ہے:''جب آپؐ نے پھینکا تو درحقیقت آپؐ نے نہیں پھینکا، بلکہ اﷲ نے پھینکا۔'' (سورۂ الانفال آیت17) پھر آپؐ نے جوابی حملے کا حکم دیا اور مجاہدین کو جنگ کی ترغیب دلائی۔ اس موقع پر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''چڑھ دوڑو! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، ان سے جو آدمی بھی ڈٹ کر ثواب سمجھ کر آگے بڑھ کر اور پیچھے نہ ہٹ کر لڑے گا اور پھر مارا جائے گا، اﷲ اسے ضرور جنت میں داخل کرے گا۔''

جنت کی اس بشارت پر عمیرؓ بن حمام بولے: بہت خوب فرمایا۔ پھر دریافت کیا: ''کیا میں بھی جنت والوں میں سے ہوں؟''

آپؐ نے فرمایا:''تم بھی ان جنت والوں میں سے ہو۔'' اس وقت وہ توشے دان سے کھجور نکال کر کھا رہے تھے۔ اچانک انھوں نے عقل کو دنگ کردینے والا ایک جملہ ارشاد فرمایا جو کتب احادیث میں درج ہے۔ وہ جملہ یہ ہے:''اگر میں اتنی دیر زندہ رہا کہ یہ کھجوریں کھالوں تو یہ لمبی زندگی ہوجائے گی۔''


چناں چہ ان کے پاس جو کھجوریں تھیں، انھیں پھینک دیا اور مشرکین سے لڑنے دوڑے اور لڑتے لڑتے شہادت پائی۔ ایک اور پروانۂ رسول ؐ کا نام عوفؓ تھا، وہ حارث کے بیٹے تھے، ان کی والدہ کا نام عفرا تھا، انھوں نے رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا:''اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کی کس بات پر خوش ہو کر مسکراتا ہے؟''

حضورﷺ نے جواب میں فرمایا:''اس بات سے کہ بندہ خالی جسم (بغیر زرہ) اپنا ہاتھ دشمن کے اندر ڈبو دے۔''

یہ سننا تھا کہ عوف نے بدن سے زرہ اتار پھینکی اور تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے، یہاں تک کہ شہادت کی زندگی پائی۔

میدان کارزار میں دشمن مغلوب تھے، ان کے بڑے بڑے رؤسا اور رستم جہنم واصل ہونے کی بنا پر ان کا جوش و جذبہ سرد پڑ چکا تھا، جب کہ شہادت کے متوالوں کا جو ش جہاد شباب پر تھا، کیوں کہ نبیﷺ مجاہدین کو فتح کی بشارت دے چکے تھے۔

ابن سعید لکھتے ہیں کہ حضرت عکرمہؓ سے مروی ہے کہ اس دن آدمی کا سرکٹ کر گرتا تو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ اس دشمن دیں کا کام کس نے تمام کیا۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان ایک مشرک کا تعاقب کر رہا تھا کہ اچانک اس پر کوڑے برسنے کی آوازیں آئیں اور ایک گھڑ سوار کی آواز سنائی دی ''حیزوم'' (آگے بڑھ) مسلمان نے اپنے آگے جانے والے مشرک کو دیکھا کہ وہ اچانک زمین پر چت گرگیا۔

مسلمان نے لپک کر دیکھا کہ اس کے چہرے اور ناک پر چوٹ کا نشان تھا، چہرہ پھٹا ہوا تھا جیسے کوڑے سے مارا گیا ہو۔ وہ ہڑبڑایا ہوا تھا۔ اس انصاری مسلمان نے یہ تمام واقعہ حضور ﷺ کی خدمت میں بیان کیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:''تم سچ کہتے ہو، یہ تیسرے آسمان کی مدد تھی۔''

جہاں مسلمانوں کے کیمپ میں یہ حیران کن اور عقل کو دنگ کرنے والے واقعات پیش آئے، وہیں مشرکین کے کیمپ میں بھی پیش آئے جس کی گواہی احادیث اور تاریخ کی کتب دیتی ہیں۔ اس معرکے میں ابلیس بھی شریک تھا جو سراقہ بن مالک کے روپ میں تھا، مگر جب اس نے فرشتوں کو مشرکین کے خلاف کارروائی کرتے دیکھا تو الٹے پاؤں بھاگنے لگا، مگر حارث بن ہشام نے اسے پکڑ لیا۔ اس نے اسے واقعی سراقہ سمجھا، ابلیس نے اس زور سے اس کے گھونسا مارا کہ وہ گر پڑا اور ابلیس نکل بھاگا تو اس نے آواز دے کر کہا:''سراقہ! کہاں جارہے ہو؟ کیا تم نے نہیں کہا تھا کہ تم ہمارے مدد گار ہو؟ ہم سے جدا نہیں ہوگے؟''

یہ سن کر ابلیس نے کہا:''جو میں دیکھ رہا ہوں، وہ تم نہیں دیکھ سکتے، اﷲ سے ڈر لگتا ہے۔ وہ بڑی سخت سزا دینے والا ہے۔''

ابوجہل نے جب اپنی صفوں میں اضطراب کی علامات دیکھیں تو چاہا کہ مسلم افواج کے سامنے ڈٹ جائے۔ چناں چہ وہ اپنے لشکر کو اکساتا ہوا تکبر کے ساتھ یہ جملے کہنے لگا:''سراقہ کی کنارہ کشی سے تمھیں پست ہمت نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ اس نے محمد سے ساز باز کر رکھی تھی، تم پر عتبہ، شیبہ اور ولید کے قتل کا بھی ہول نہیں ہونا چاہئے، کیوں کہ انھوں نے جلد بازی سے کام لیا تھا۔ لات و عزیٰ کی قسم! ہم اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک کہ ہم انھیں رسیوں میں نہ جکڑلیں۔ دیکھو تمھارا کوئی آدمی ان کے کسی آدمی کو قتل نہ کرے، بلکہ انھیں پکڑو اور زندہ گرفتار کرو، تاکہ ہم انھیں ان کی بری حرکت کا مزہ چکھائیں۔''

اس کے بعد مسلمانوں نے دیکھا کہ وہ ایک گھوڑے پر چکر کاٹ رہا ہے اور ادھر دو انصاری نوجوان معاذؓ بن عمرو جموح اور معاذ ؓ بن عفرا تلواریں سونتے اس کی تاک میں تھے۔ پھر دیکھا کہ اس پر شدید حملہ کیا گیا، مگر وہ مرا نہیں، کیوں کہ اس میں ابھی تک جان باقی تھی۔ حضرت عبداﷲ ابن مسعودؓ نے اسے میدان کارزار میں سخت زخمی حالت میں دیکھا۔ وہ آگے بڑھے اور اس کی گردن پر پیر رکھ دیا، پھر اس کا سر کاٹنے کے لیے اس کی داڑھی پکڑی اور فرمایا:''او اﷲ کے دشمن! آخر اﷲ نے تجھے رسوا کیا نا؟''

مگر اس مرتے ہوئے انسان نے بڑے تکبّر سے کہا:''مجھے کیوں رسوا کیا؟ جس شخص کو تم لوگوں نے قتل کیا ہے، کیا اس سے بھی بلند پایہ کوئی اور شخص ہے ؟''

پھر نہایت ڈھٹائی سے کہنے لگا''او بکریاں چرانے والے! تو بڑی اونچی اور مشکل جگہ پر چڑھ گیا ہے، کاش! مجھے کسانوں کے بجائے کسی اور نے قتل کیا ہوتا۔''

پھر عبداﷲ بن مسعودؓ نے اس کا سر کاٹ کر حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ خدا اور رسول کے اس دشمن کے سر کو دیکھ کر نبی رحمتؐ نے تین بار ارشاد فرمایا:''اﷲ اکبر! تمام حمد اﷲ کے لیے ہے جس نے اپنا وعدہ سچ کردیا اور اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تنہا سارے گروہوں کو شکست دے دی۔''

پھر فرمایا:''مجھے اس کی لاش دکھاؤ۔''

حکم کی تعمیل ہوئی، دین اسلام کے اس دشمن کی لاش کو دیکھ کر رسول کریم ﷺ نے بے ساختہ ارشاد فرمایا:''یہ اس امت کا فرعون ہے۔''
Load Next Story