غزوۂ بدر پہلا معرکہ جو اسلام کی فتح مبین کی نوید بنا
حضور ؐ کا ارشاد ہے:اﷲ تعالیٰ نے اہل بدر کو دیکھا اور فرمایا:’’اب تم جو چاہو کرو، میں تمھیں بخش چکا ہوں‘‘
غزوۂ بدرحق اور باطل کے درمیان وہ پہلی بڑی جنگ تھی جس میں اﷲ نے اہل ایمان کو فتح مبین عطا فرمائی۔ اس غزوے میں اﷲ نے مسلمانوں کو اسلام کی حدود میں رہتے ہوئے جہاد کی اجازت دی۔ اسی جنگ میں مسلمانوں کی پہلی فوجی تربیت ہوئی جس کے بعد اﷲ نے اسلام کو تمام کرۂ ارض پر فتح مبین عطا فرمائی۔
حضور ﷺ اور مہاجرین مکے سے مدینے آچکے تھے، مگر کفار مکہ کی خواہش تھی کہ مسلمانوں کی اجتماعی قوت ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ اﷲ کے نبی ﷺ کفار کے ارادے سے باخبر تھے، اس لیے ان تمام راستوں کی نگرانی کرارہے تھے جن سے کفار کا حملہ متوقع تھا۔ جب خطرہ بڑھا تو صفر 2 ہجری میں اﷲ کے رسول ﷺ خود ستر سواروں کے ساتھ ابوا تک تشریف لے گئے۔
اس سفر میں عمرو بن مخشی الضمری سے معاہدہ ہوا کہ وہ غیر جانب دار رہے گا۔ ربیع الاول 2 ہجری میں کرز بن جابر الفہری مسلمانوں کی بے خبری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مدینے کی چراگاہ سے اہل مدینہ کے مویشی لے گیا۔ جمادی الآخر 2 ہجری کو حضورؐ نے بنو مدلج اور بنو ضمرا سے غیر جانب دار رہنے کا معاہدہ کیا۔
اس ماہ کے آخر میں 12 سوار عبداﷲ بن جحش کی قیادت میں بھیجے گئے جنھیں قریش کا قافلہ مل گیا۔ حضور ﷺ کی ہدایت کے خلاف مسلمانوں نے تیر چلائے جس میں قریش کا ایک آدمی مارا گیا اور دو قید ہوئے۔ حضورؐ نے قیدیوں کو چھوڑ دیا اور مقتول کا خوں بہا قریش کو ادا کردیا۔ قریش نے تاوان تو وصول کرلیا، مگر ابوجہل نے شور مچادیا کہ مسلمان قریش کے اس قافلے کو لوٹنا چاہتے ہیں جو ابو سفیان کی سرپرستی میں شام سے آرہا ہے۔
چناں چہ ایک ہزار کا لشکر تیار ہوگیا جس میں 300 گھوڑے اور 700 اونٹ شامل تھے۔ قریش کے 15 سردار بھی اس میں شامل ہوگئے۔ ہر سردار نے وعدہ کیا کہ وہ لشکر کی خوراک کی کفالت کریں گے۔ ابوجہل مکے سے کچھ ہی دور پہنچا تھا کہ اسے قافلے کے صحیح سلامت مکے پہنچنے کی خبر مل گئی۔ اب ابوجہل نے کہا کہ ہم مدینے کے قریب پہنچ کر جشن منائیں گے جس کا گرد و نواح کے قبائل پر اچھا اثر پڑے گا اور وہ مسلمانوں سے کوئی عہد نہیں کریں گے۔
جب یہ بات حضور ﷺ کو معلوم ہوئی تو آپؐ نے سرداران مہاجر و انصار کی مجلس طلب کی اور یہ معاملہ شوریٰ میں پیش کردیا۔ پہلے ابوبکرؓ اور پھر عمرؓ نے بات کی۔ اس موقع پر مقدارؓ بن عمروؓ انصاری نے کہا:''قسم اس ذات کی جس نے آپؐ کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا، ہم آپ ؐ کو آگے دائیں بائیں لے کر جنگ کریں گے۔''
سعدؓ بن معاذ نے عرض کیا:''حضورؐ پر ہمارا ایمان ہے، ہم اور ہمارے اموال حاضر ہیں۔ امید ہے کہ ہماری خدمات حضورؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوںگی۔''
اسلامی لشکر میں ستر اونٹ، تین گھوڑے تھے، تین سواروں کے لیے ایک اونٹ مقرر کیا گیا۔ حضورؐ کی سواری میں حضرت حمزہ ؓ، حضرت علیؓ اور حضرت ابولبابہ ؓ شامل تھے۔ ابو لبابہؓ راستے سے حاکم مدینہ بنا کر بھیجے گئے۔ مسلمانوں کو کفار کے مقابلے میں ریتیلے مقام پر اترنا پڑا جہاں ان کے پاؤں ریت میں دھنس رہے تھے، پینے کا پانی نہیں تھا، چناں چہ اﷲ نے ایسی بارش برسائی کہ ریت دب گئی اور مسلمانوں نے تالاب بنالیا جو پانی سے بھرگیا۔
لشکر کے پیچھے ایک بلند ٹیلے پر حضور ﷺ کے لیے ایک چھپر بنا دیا گیا جس کے سائے میں صرف ابوبکر صدیقؓ ہی حضورؐ کے ساتھ تھے۔ جنگ سے ایک روز پہلے حضورؐ نے میدان جنگ کا معائنہ کیا۔ صحابہؓ ساتھ تھے حضور ؐ جگہ جگہ ٹھہر کر فرماتے جاتے، کل یہاں فلاں کافر کی لاش ہوگی۔
جمعہ 17 رمضان2 ہجری کو صف بندی ہوئی۔ حضور ﷺ نے معائنہ فرمانے کے بعد یہ دعا فرمائی:''یا اﷲ! یہ وہ اہل ایمان ہیں کہ آج ان لوگوں کو تو نے ہلاک کردیا تو کل پورے کرۂ ارض پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔''
پھر دشمن فوج کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا:''الٰہیٰ! یہ قریش ہیں جو فخر و تکبر سے بھر پور ہیں، تیرے نافرمان، تیرے رسول سے جنگ کرنے والے! الٰہی! تیری نصرت تیری مدد کی ضرورت ہے جس کا تو نے وعدہ فرمایا ہے۔''
پھر اﷲ کے رسول ﷺ چھپر میں گئے اور دو رکعت نماز کی نیت باندھی۔ ابوبکر صدیقؓ شمشیر برہنہ لیے مستعد کھڑے تھے۔ نماز کے دوران حضورؐ نے دعا کی: ''الہیٰ! مجھے ندامت سے بچائیو۔ یا اﷲ! میں تجھے تیرا وعدہ یاد دلاتا ہوں۔''
بعد نماز حضورؐ نے طویل سجدہ فرمایا اور سجدے میں ''یاحی یا قیوم برحمتک استغیث'' پڑھتے رہے۔ یہ دعا اس قدر محویت سے کی کہ حضورؐ کی چادر مبارک بھی کندھوں سے گرگئی۔ اس وقت حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا:''یا رسول اﷲ! اپنے آپ کو اتنا ہلکان نہ کریں، اﷲ نے آپؐ سے فتح و ظفر کا وعدہ فرمایا ہے۔''
اتنے میں حضور ﷺ پر اونگھ طاری ہوگئی اور فوج پر بھی نیند کا غلبہ ہوگیا۔ پھر حضورؐ نے آنکھیں کھول کر فرمایا:''ابوبکرؓ ! تجھے بشارت ہو کہ نصرت الٰہی بھی آپہنچی۔ جبرئیل ؑ بھی آگئے ہیں۔
فوج نے آنکھ جھپک جانے کے بعد دشمن کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ ان کی تعداد بہت کم اور مسلمانوں کی زیادہ ہوگئی ہے جس سے ان کے حوصلے بڑھ گئے۔ اب حضور ﷺ میدان جنگ میں تشریف لائے اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا:''اپنی جگہ پر قائم رہنا، دشمن حملے کے لیے آگے بڑھے تو اسے آگے آنے دینا، جب وہ تمھارے تیروں کی زد میں آجائے تو خوب تیر برسانا، دشمن اور قریب آجائے تو نیزوں کا استعمال کرنا، تلوار کا استعمال آخر میں کرنا۔''
جنگ شروع ہوئی تو کفار کی طرف سے اسود مخزومی نکلا جس کی پیٹھ میں حضرت حمزہؓ نے ایسی ضرب لگائی کہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اس کے بعد کافروں کی صف سے عتبہ اور اس کا بھائی شیبہ اور فرزند ولید نکلے اور مسلمانوں کو للکارا۔
حضور ﷺ نے حمزہؓ، علیؓ اور عبیدہؓ بن حارث کو آگے بڑھنے کو کہا۔ حضرت حمزہ ؓ نے شیبہ کو اور حضرت علیؓ نے ولید کو جاتے ہی شکار کرلیا۔ عبیدہؓ اور عتبہ ایک دوسرے پر شمشیر زنی کر رہے تھے کہ حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے بھی عتبہ پر حملہ کرکے اسے ختم کر دیا۔
اس جنگ میں امیہ بن خلف جو بلال ؓ کو کلمہ توحید پر ستایا کرتا تھا، قتل ہوا۔ معاذؓ اور معوذ نے عبدالرحمنؓ بن عوف سے پوچھا کہ ابوجہل کہاں ہے؟ ہم نے عہد کیا ہے کہ یا تو اسے قتل کریں گے یا اپنی جان دے دیں گے۔ ''
عبدالرحمنؓ نے انھیں اشارے سے بتایا کہ وہ ابوجہل ہے۔ یہ سنتے ہی وہ جھپٹے اور اپنی تلواریں ابوجہل کے پیٹ میں گھونپ دیں۔ وہ مر رہا تھا کہ ابن مسعودؓ نے اس کی چھاتی پر پیر رکھ کر پہلے اس کا سر کاٹا، پھر داڑھی سے پکڑ کر اٹھا لیا۔
حضور ﷺ نے تینوں کی خدمت کو قبول کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:''اس امت کا فرعون یہی ابوجہل تھا۔''
لڑائی گھمسان کی ہو رہی تھی، اﷲ نے فرشتوں کو بھی اہل ایمان کی مدد کے لیے نازل فرمایا تھا، مسلمان، ان فرشتوں کو انسانوں کی صورت میں دیکھ رہے تھے۔ فرشتے مومنوں سے کہہ رہے تھے:''بہادر بنو، مضبوط رہو، فتح اور نصرت الٰہی تمھارے ساتھ ہے۔''
یہ جنگ جاری تھی کہ حضور ﷺ نے ایک مٹھی کنکریوں پر شاہت الوجوہ پڑھ کر پھونکا اور کفار کی جانب پھینکا ہی تھا کہ وہ مایوس ہوکر بھاگنے لگے۔ مسلمانوں نے تعاقب کرکے ستر کافروں کو گرفتار کرلیا۔
اس جنگ میں 70 کافر مارے گئے اور14 مسلمان شہید ہوئے۔ قیدیوں کے متعلق شوریٰ نے فیصلہ کیا کہ فدیہ لے کر رہا کردیا جائے اور اس رقم سے آئندہ جنگوں کی تیاری کی جائے۔ جن قیدیوں کے پاس رقم تھی، انھوں نے دے کر رہائی حاصل کر لی، جن کے پاس نہیں تھی، انھیں مدینے لے جایا گیا۔ بعض قیدی پڑھے لکھے بھی تھے، ان کے سپرد انصار کے بچے کردیے گئے اور انھوں زر فدیہ کے عوض ان بچوں کو تعلیم دی ۔ قیدیوں کو مدینے میں آرام سے ساتھ رکھا گیا۔ وہ بعد میں کہتے تھے:''خدا اہل مدینہ پر رحم کرے، خود کھجور پر گذارہ کرتے تھے اور ہمیں روٹی کھلاتے تھے۔''
حضور ؐ کا ارشاد ہے:اﷲ تعالیٰ نے اہل بدر کو دیکھا اور فرمایا:''اب تم جو چاہو کرو، میں تمھیں بخش چکا ہوں۔''
حضور ﷺ اور مہاجرین مکے سے مدینے آچکے تھے، مگر کفار مکہ کی خواہش تھی کہ مسلمانوں کی اجتماعی قوت ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ اﷲ کے نبی ﷺ کفار کے ارادے سے باخبر تھے، اس لیے ان تمام راستوں کی نگرانی کرارہے تھے جن سے کفار کا حملہ متوقع تھا۔ جب خطرہ بڑھا تو صفر 2 ہجری میں اﷲ کے رسول ﷺ خود ستر سواروں کے ساتھ ابوا تک تشریف لے گئے۔
اس سفر میں عمرو بن مخشی الضمری سے معاہدہ ہوا کہ وہ غیر جانب دار رہے گا۔ ربیع الاول 2 ہجری میں کرز بن جابر الفہری مسلمانوں کی بے خبری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مدینے کی چراگاہ سے اہل مدینہ کے مویشی لے گیا۔ جمادی الآخر 2 ہجری کو حضورؐ نے بنو مدلج اور بنو ضمرا سے غیر جانب دار رہنے کا معاہدہ کیا۔
اس ماہ کے آخر میں 12 سوار عبداﷲ بن جحش کی قیادت میں بھیجے گئے جنھیں قریش کا قافلہ مل گیا۔ حضور ﷺ کی ہدایت کے خلاف مسلمانوں نے تیر چلائے جس میں قریش کا ایک آدمی مارا گیا اور دو قید ہوئے۔ حضورؐ نے قیدیوں کو چھوڑ دیا اور مقتول کا خوں بہا قریش کو ادا کردیا۔ قریش نے تاوان تو وصول کرلیا، مگر ابوجہل نے شور مچادیا کہ مسلمان قریش کے اس قافلے کو لوٹنا چاہتے ہیں جو ابو سفیان کی سرپرستی میں شام سے آرہا ہے۔
چناں چہ ایک ہزار کا لشکر تیار ہوگیا جس میں 300 گھوڑے اور 700 اونٹ شامل تھے۔ قریش کے 15 سردار بھی اس میں شامل ہوگئے۔ ہر سردار نے وعدہ کیا کہ وہ لشکر کی خوراک کی کفالت کریں گے۔ ابوجہل مکے سے کچھ ہی دور پہنچا تھا کہ اسے قافلے کے صحیح سلامت مکے پہنچنے کی خبر مل گئی۔ اب ابوجہل نے کہا کہ ہم مدینے کے قریب پہنچ کر جشن منائیں گے جس کا گرد و نواح کے قبائل پر اچھا اثر پڑے گا اور وہ مسلمانوں سے کوئی عہد نہیں کریں گے۔
جب یہ بات حضور ﷺ کو معلوم ہوئی تو آپؐ نے سرداران مہاجر و انصار کی مجلس طلب کی اور یہ معاملہ شوریٰ میں پیش کردیا۔ پہلے ابوبکرؓ اور پھر عمرؓ نے بات کی۔ اس موقع پر مقدارؓ بن عمروؓ انصاری نے کہا:''قسم اس ذات کی جس نے آپؐ کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا، ہم آپ ؐ کو آگے دائیں بائیں لے کر جنگ کریں گے۔''
سعدؓ بن معاذ نے عرض کیا:''حضورؐ پر ہمارا ایمان ہے، ہم اور ہمارے اموال حاضر ہیں۔ امید ہے کہ ہماری خدمات حضورؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوںگی۔''
اسلامی لشکر میں ستر اونٹ، تین گھوڑے تھے، تین سواروں کے لیے ایک اونٹ مقرر کیا گیا۔ حضورؐ کی سواری میں حضرت حمزہ ؓ، حضرت علیؓ اور حضرت ابولبابہ ؓ شامل تھے۔ ابو لبابہؓ راستے سے حاکم مدینہ بنا کر بھیجے گئے۔ مسلمانوں کو کفار کے مقابلے میں ریتیلے مقام پر اترنا پڑا جہاں ان کے پاؤں ریت میں دھنس رہے تھے، پینے کا پانی نہیں تھا، چناں چہ اﷲ نے ایسی بارش برسائی کہ ریت دب گئی اور مسلمانوں نے تالاب بنالیا جو پانی سے بھرگیا۔
لشکر کے پیچھے ایک بلند ٹیلے پر حضور ﷺ کے لیے ایک چھپر بنا دیا گیا جس کے سائے میں صرف ابوبکر صدیقؓ ہی حضورؐ کے ساتھ تھے۔ جنگ سے ایک روز پہلے حضورؐ نے میدان جنگ کا معائنہ کیا۔ صحابہؓ ساتھ تھے حضور ؐ جگہ جگہ ٹھہر کر فرماتے جاتے، کل یہاں فلاں کافر کی لاش ہوگی۔
جمعہ 17 رمضان2 ہجری کو صف بندی ہوئی۔ حضور ﷺ نے معائنہ فرمانے کے بعد یہ دعا فرمائی:''یا اﷲ! یہ وہ اہل ایمان ہیں کہ آج ان لوگوں کو تو نے ہلاک کردیا تو کل پورے کرۂ ارض پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔''
پھر دشمن فوج کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا:''الٰہیٰ! یہ قریش ہیں جو فخر و تکبر سے بھر پور ہیں، تیرے نافرمان، تیرے رسول سے جنگ کرنے والے! الٰہی! تیری نصرت تیری مدد کی ضرورت ہے جس کا تو نے وعدہ فرمایا ہے۔''
پھر اﷲ کے رسول ﷺ چھپر میں گئے اور دو رکعت نماز کی نیت باندھی۔ ابوبکر صدیقؓ شمشیر برہنہ لیے مستعد کھڑے تھے۔ نماز کے دوران حضورؐ نے دعا کی: ''الہیٰ! مجھے ندامت سے بچائیو۔ یا اﷲ! میں تجھے تیرا وعدہ یاد دلاتا ہوں۔''
بعد نماز حضورؐ نے طویل سجدہ فرمایا اور سجدے میں ''یاحی یا قیوم برحمتک استغیث'' پڑھتے رہے۔ یہ دعا اس قدر محویت سے کی کہ حضورؐ کی چادر مبارک بھی کندھوں سے گرگئی۔ اس وقت حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا:''یا رسول اﷲ! اپنے آپ کو اتنا ہلکان نہ کریں، اﷲ نے آپؐ سے فتح و ظفر کا وعدہ فرمایا ہے۔''
اتنے میں حضور ﷺ پر اونگھ طاری ہوگئی اور فوج پر بھی نیند کا غلبہ ہوگیا۔ پھر حضورؐ نے آنکھیں کھول کر فرمایا:''ابوبکرؓ ! تجھے بشارت ہو کہ نصرت الٰہی بھی آپہنچی۔ جبرئیل ؑ بھی آگئے ہیں۔
فوج نے آنکھ جھپک جانے کے بعد دشمن کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ ان کی تعداد بہت کم اور مسلمانوں کی زیادہ ہوگئی ہے جس سے ان کے حوصلے بڑھ گئے۔ اب حضور ﷺ میدان جنگ میں تشریف لائے اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا:''اپنی جگہ پر قائم رہنا، دشمن حملے کے لیے آگے بڑھے تو اسے آگے آنے دینا، جب وہ تمھارے تیروں کی زد میں آجائے تو خوب تیر برسانا، دشمن اور قریب آجائے تو نیزوں کا استعمال کرنا، تلوار کا استعمال آخر میں کرنا۔''
جنگ شروع ہوئی تو کفار کی طرف سے اسود مخزومی نکلا جس کی پیٹھ میں حضرت حمزہؓ نے ایسی ضرب لگائی کہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اس کے بعد کافروں کی صف سے عتبہ اور اس کا بھائی شیبہ اور فرزند ولید نکلے اور مسلمانوں کو للکارا۔
حضور ﷺ نے حمزہؓ، علیؓ اور عبیدہؓ بن حارث کو آگے بڑھنے کو کہا۔ حضرت حمزہ ؓ نے شیبہ کو اور حضرت علیؓ نے ولید کو جاتے ہی شکار کرلیا۔ عبیدہؓ اور عتبہ ایک دوسرے پر شمشیر زنی کر رہے تھے کہ حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے بھی عتبہ پر حملہ کرکے اسے ختم کر دیا۔
اس جنگ میں امیہ بن خلف جو بلال ؓ کو کلمہ توحید پر ستایا کرتا تھا، قتل ہوا۔ معاذؓ اور معوذ نے عبدالرحمنؓ بن عوف سے پوچھا کہ ابوجہل کہاں ہے؟ ہم نے عہد کیا ہے کہ یا تو اسے قتل کریں گے یا اپنی جان دے دیں گے۔ ''
عبدالرحمنؓ نے انھیں اشارے سے بتایا کہ وہ ابوجہل ہے۔ یہ سنتے ہی وہ جھپٹے اور اپنی تلواریں ابوجہل کے پیٹ میں گھونپ دیں۔ وہ مر رہا تھا کہ ابن مسعودؓ نے اس کی چھاتی پر پیر رکھ کر پہلے اس کا سر کاٹا، پھر داڑھی سے پکڑ کر اٹھا لیا۔
حضور ﷺ نے تینوں کی خدمت کو قبول کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:''اس امت کا فرعون یہی ابوجہل تھا۔''
لڑائی گھمسان کی ہو رہی تھی، اﷲ نے فرشتوں کو بھی اہل ایمان کی مدد کے لیے نازل فرمایا تھا، مسلمان، ان فرشتوں کو انسانوں کی صورت میں دیکھ رہے تھے۔ فرشتے مومنوں سے کہہ رہے تھے:''بہادر بنو، مضبوط رہو، فتح اور نصرت الٰہی تمھارے ساتھ ہے۔''
یہ جنگ جاری تھی کہ حضور ﷺ نے ایک مٹھی کنکریوں پر شاہت الوجوہ پڑھ کر پھونکا اور کفار کی جانب پھینکا ہی تھا کہ وہ مایوس ہوکر بھاگنے لگے۔ مسلمانوں نے تعاقب کرکے ستر کافروں کو گرفتار کرلیا۔
اس جنگ میں 70 کافر مارے گئے اور14 مسلمان شہید ہوئے۔ قیدیوں کے متعلق شوریٰ نے فیصلہ کیا کہ فدیہ لے کر رہا کردیا جائے اور اس رقم سے آئندہ جنگوں کی تیاری کی جائے۔ جن قیدیوں کے پاس رقم تھی، انھوں نے دے کر رہائی حاصل کر لی، جن کے پاس نہیں تھی، انھیں مدینے لے جایا گیا۔ بعض قیدی پڑھے لکھے بھی تھے، ان کے سپرد انصار کے بچے کردیے گئے اور انھوں زر فدیہ کے عوض ان بچوں کو تعلیم دی ۔ قیدیوں کو مدینے میں آرام سے ساتھ رکھا گیا۔ وہ بعد میں کہتے تھے:''خدا اہل مدینہ پر رحم کرے، خود کھجور پر گذارہ کرتے تھے اور ہمیں روٹی کھلاتے تھے۔''
حضور ؐ کا ارشاد ہے:اﷲ تعالیٰ نے اہل بدر کو دیکھا اور فرمایا:''اب تم جو چاہو کرو، میں تمھیں بخش چکا ہوں۔''