بینکاری لین دین پر ٹیکس سے تجارتی ادائیگیاں متاثر کاروبار سست روی کا شکار

بینکوں کے ذریعے لین دین میں کٹوتیوں کے بعد بھاری مالیت کے کئی سودے منسوخ ہوگئے


Ehtisham Mufti July 05, 2015
دنیا بھر میں بینکوں کا کام مالیاتی ٹرانزیکشنز کرنا ہے لیکن پاکستان میں اب بینکوں کو بھی ٹیکس کلکٹر بنا دیا گیا ہے۔ فوٹو : فائل

وفاقی وزارت خزانہ کی جانب سے چیک سمیت ہرقسم کے بینکاری لین دین پر 0.6 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کے بعد تھوک وخوردہ مارکیٹوں میں کاروبار کرنے والے تاجر شدید متاثر ہوئے ہیں۔

بینکوں کے ذریعے لین دین میں کٹوتیوں کے بعد بھاری مالیت کے کئی سودے منسوخ ہوگئے جس کے بعد تاجر بڑی مالیت کے سودوں کے حوالے سے بینکوں کے ذریعے لین دین میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں اور نقد میں خریدوفروخت کا رجحان پھر سے فروغ پانے لگا ہے،بینکوں کے ذریعے لین دین متاثر ہونے سے کاروباری ادائیگیاں اور کاروباری عمل سست روی کا شکار ہو گیا ہے، بیوپاری ایک ماہ میں ادائیگیوں کے وعدے کوآئندہ 6 ماہ میں چھوٹی چھوٹی نقد اقساط میں ادائیگی کرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ ٹیکس درحقیقت ایک نہیں بلکہ ٹیکس در ٹیکس ہے جو کسی بھی کراس چیک کے آخری ٹرانزیکشن تک عائد ہوتا رہے گا اور ایک کراس چیک کئی مرتبہ نان فائلرز سے 0.6 فیصد کے تناسب سے ودہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتیاں کرتا رہے گا۔ حکومت مذکورہ بجٹ اقدام کے ذریعے اگرچہ سہل انداز میں ریونیو کے حجم میں اضافے کی خواہاں ہے لیکن تجارتی منڈیوں میں اس اقدام سے لین دین کا سرکل بری متاثر ہوگیا ہے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند روز سے بینکنگ ٹرانزیکشنز کم ہوگئی ہیں اور90 فیصد کاروباری لین دین نقد یا چھوٹے مالیت کے چیکوں کے ذریعے ہونے لگا ہے۔

تھوک مارکیٹوں کے بیوپاریوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اب تاجربرادری میں مکمل اعتماد رکھنے والے مالی طور پر مستحکم بڑے بیوپاری یا سرمایہ کار متوازی بینکاری نظام انتہائی کامیابی کے ساتھ متعارف کراسکتے ہیں جبکہ ہنڈی کی طرز پرمضبوط وقابل اعتماد پارٹیوں کی جانب سے بڑی رقوم کے ٹوکن بھی متعارف ہونے کا خدشہ ہے۔ اس ضمن میں جوڑیا بازار ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین جعفرکوڑیا نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ حکومت خود اپنے ہاتھوں سے ملک کے بینکاری نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کی کوششیں کررہی ہے اور اب تو پاکستان کے بینکنگ سسٹم میں سیکریسی ایکٹ بھی سال2003 سے ختم کردیا گیا ہے۔

دنیا بھر میں بینکوں کا کام مالیاتی ٹرانزیکشنز کرنا ہے لیکن پاکستان میں اب بینکوں کو بھی ٹیکس کلکٹر بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے نان ٹیکس فائلرز کی بینکنگ ٹرانزیکشن پر0.6 فیصد ایڈوانس ٹیکس کی کٹوتی پر یہ موقف ظاہر کیاکہ درحقیقت یہ ٹیکس نان فائلرز کے لیے ایمنسٹی اسکیم کے طور پر ابھرکر سامنے آئے گا جس کے تحت نان فائلرز اپنے رقم کو ٹیکس سے چھپانے اور عوام ادائیگی کی نیت سے اپنی بینکنگ ٹرانزیکشن پر معمولی ٹیکس دینا زیادہ پسند کریں گے۔

بینکوں میں صارفین کے ڈپازٹ کے حجم میں کمی کا رحجان غالب ہوجائے گاکیونکہ لوگ اپنی نقد رقوم کے عوض سونا ودیگر جائیدادوں کی خریداری پر زیادہ توجہ مرکوز کریں گے تاکہ وہ ٹیکسوں کی ادائیگیوں سے بچ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ریٹرن فائلرزکی حوصلہ شکنی ہوگی جو اصل ٹیکس دہندگان ہیں اور نان فائلرز کی بہ نسبت اپنے ریکارڈ کو ٹیکس کی ادائیگی کے لیے مکمل رکھتے ہیں اور ٹیکس مشیر تنخواہوں پر رکھتے ہیں اور اس کے باوجود وہ ہمیشہ ٹیکس حکام کی ستم ظریفی کا شکار ہوتے ہیں۔

دوسری جانب ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدر عبدالرحیم جانو نے کہاہے کہ ملک بھر کے چیمبرزآف کامرس وتجارتی انجمنوں کا ایف پی سی سی آئی پردباؤ ہے کہ وہ بینکنگ ٹرانزیکشن پر 0.6فیصد کی کٹوتی کے مسئلے پر حکومت سے دوٹوک بات چیت کرکے اس مسئلے کو فی الفورحل کرائے، بینکنگ ٹرانزیکشن پر متعلقہ بینک کسٹمر کی ٹیکس فائلر یا نان فائلر کی جانچ نہیں کرسکے گا کیونکہ اس کے پاس ایف بی آرکا ڈیٹا موجود نہیں ہے اور نہ ہی ایف بی آرکے پاس بھی اپنا ڈیٹا مکمل اور صحیح نہیں ہے۔

ایسی صورتحال میں نان فائلرز پر لاگو ہونے والے ٹیکس سے ٹیکس دہندگان بھی متاثر ہوں گے اور حکومت اور اصل ٹیکس دہندگان کے لیے ری فنڈز کا نیا سلسلہ چل پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بینکنگ ٹرانزیکشن نہ صرف کاروباری لوگوں کی ہی نہیں ہوتی بلکہ ان میں بیوائیں، پنشنرز اور معاشرے کے غریب لوگوں کی بھی ٹرانزیکشن ہوتی ہیں۔ رحیم جانو نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ نان فائلرز کو 3تا6 ماہ کا مزید وقت دے تاکہ وہ اپنے ٹیکس ریٹرن فائل کر سکیں اور نان فائلرز سے ٹیکس فائلرز بن جائیں اور اس مسئلے کو حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ بصورت دیگر ملک بھر کی بزنس کمیونٹی کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ اس قانو ن کے خلاف احتجاج کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔