فوج سرحدوں کی حفاظت کرے ملکی معاملات منتخب حکومت چلائے چیف جسٹس

اقتدارمیں کس کولانا ہے یہ کام عوام کا ہے،صدرکسی ایک جماعت کوسپورٹ نہیںکر سکتے،ریمارکس

ضیا دورمیںآئی ایس آئی سیاست میںمداخلت کرتی تھی،روئیدادخان،70 ملین تقسیم کیے،بتایاگیاتھایہ قومی مفادمیںہے،اسددرانی،فریقین کوآج دلائل مکمل کرنیکاحکم۔ فوٹو: آن لائن/فائل

سپریم کورٹ نے سیکریٹری ایوان صدرکو اصغرخان کیس میں جواب جمع کرانے کیلیے بدھ تک کی مہلت دی ہے جبکہ درخواست گزاراور فریقین کو آج دلائل مکمل کر نے کی ہدایت کی ہے۔

چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری نے ریمارکس دیے کہ قومی مفاد صرف یہ ہے کہ ملک کے اندرونی معاملات منتخب حکومت چلائے، فوج کا کام صرف سرحدوںکی حفاظت کرناہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کسی شخص کے ذاتی فعل کو ادارے سے منسوب کرنا درست نہیں،عدلیہ کے خلاف تین نومبرکا اقدام ایک شخص کا تھا اس کی ذمے داری ادارے پر نہیں ڈالی جاسکتی۔چیف جسٹس نے کہا فوج کے ہر افسر اور جوان پر حلف کی پابندی لازمی ہے،فوج کا کام سرحدوںکاتحفظ، حکومت کا کام اندرونی استحکام اور عدلیہ کاکام آئین کا تحفظ ہے، یہی قومی مفادہے، صدروفاق کی علامت ہے۔

آئین کی رو سے وہ کسی ایک سیاسی جماعت کو سپورٹ نہیںکر سکتے ۔پیرکو چیف جسٹس کی سر براہی میں تین رکنی بینچ نے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کے مقدمے کی سماعت شروع کی توایوان صدر کے سیکریٹری آصف حیات پیش ہوئے اوربتایاکہ ان کے خیال میں ایوان صدر میںکوئی سیاسی سیل موجود نہیں۔عدالت نے انھیں بیان ریکارڈکرانے کیلیے کہا تو سیکریٹری نے بتایا ریکارڈ دیکھنے اور قانونی ماہرین سے مشاورت کے بعدوہ بیان ریکارڈکرائیںگے۔روئیداد خان نے تحریری جواب جمع کرایا اور سیاسی سیل سے لاعلمی کا اظہارکیا۔روئیدادخان نے بتایااسددرانی نے غلط بیانی کی، انھوں نے صدرکا کوئی پیغام ان تک نہیں پہنچایا تھا۔


فاضل جج نے کہااس بات کا احاطہ کرکے فیصلہ کرناہے کہ ملک کی سلامتی کی ایجنسیوںکوسیاست میںکیوںملوث کیا گیا؟اسددرانی نے بتایاروئیدادخان کا سیاسی سیل سے کوئی تعلق نہیںتھا، عدالت کے استفسار پرانھوں نے بتایاانھیں کبھی اسلم بیگ اورکبھی اجلال حیدرزیدی سے ہدایات ملتی تھیں، کرنل رفیع رضا بھی سیاسی سیل سے منسلک تھے۔جسٹس جواد نے سوال اٹھایا کون تھاوہ شخص جس کے کہنے پرسب کچھ ہو رہاتھا؟اسد درانی نے بتایا پہلا فیصلہ کس کا تھا انھیں نہیں معلوم لیکن انھیں پی پی حکومت کے بارے میںکراچی کی تاجربرادری کے تحفظات سے آگاہ کیا گیاجس پر انھوں نے ذمے داری قبول کی۔چیف جسٹس نے کہاہمیشہ کیلیے یہ فیصلہ اب ہوناچاہیے کہ سیاست میں مداخلت نہیںہونی چاہیے،ملک میںجمہوریت ہے پارلیمنٹ موجود ہے موثر عدالتی نظام قائم ہے ۔

درخواست گزار اصغر خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہاسیاست میں مداخلت قومی مفادکے نام پر ہوتی رہی،جسٹس خلجی عارف نے کہا اس لفظ سے تو ہم بیزار ہو چکے ہیں ،قومی مفاد آئین کے اندر ہے آئین سے باہرکوئی قومی مفاد نہیں۔چیف جسٹس نے کہا قومی مفاد یہ ہے کہ فوج سرحد سنبھالے اور حکومت اندرونی استحکام پر توجہ دے ،کراچی میں ہلاکتوںکوروکنا قومی مفاد ہے۔اسد درانی نے کہا ایوان صدر میں سیاسی سیل موجود تھا اسے جو بھی نام دیا جائے۔روئیداد خان نے بتایا وہ ضیاء دور میں آٹھ سال وزیر داخلہ رہے اس دوران سیاست میں آئی ایس آئی مداخلت کرتی تھی۔سلمان اکرم راجہ نے کہا جنرل وحیدکاکڑ نے بیان دیا تھا کہ اسلم بیگ نے فوج کو سیاست میں ملوث کیا۔چیف جسٹس نے کہا نہ تو پٹیشن میں فوج کا ذکر ہے اور نہ ہی دونوں جرنیلوں نے فوج کا نام لیا ہے۔

یونس حبیب کے وکیل منیر پراچہ نے بتایا انھوں نے تو صرف رقم کا بندوبست کیا تھا اس کے علاوہ ان کا کوئی کردار نہیں۔چیف جسٹس نے کہا قومی دولت کو اس طرح ضائع نہیںکیا جاسکتا انھوں نے اپنا جرم تسلیم کیا ہے انھیں سزا ہوسکتی ہے۔آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قومی مفاد صرف یہ ہے کہ ملک کے اندرونی معاملات منتخب حکومت چلائے، فوج کا کام صرف سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔بی بی سی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ کسی ایک شخص کے باعث پوری فوج اور آئی ایس آئی کو الزام نہیں دیاجاسکتا۔

اسددرانی نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے70ملین کی رقم اس وقت کے صدرغلام اسحاق خان اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے احکامات پر تقسیم کی۔آن لائن کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہاکہ وفاق کی علامت صدرکوئی سیاسی گروپ بنائے تو یہ بدقسمتی ہوگی۔ ایوان صدرکے سیکرٹری آصف حیات نے بتایاکہ ان کے علم کے مطابق ایوان صدر میں اب سیاسی سیل نہیں ہے۔جسٹس جواد نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں حقائق سامنے آنے سے قوم کا فائدہ ہوگاآئی ایس آئی میں سیاسی سیل بنا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ قومی مفاد یہ ہے کہ فوج سرحدوں کی حفاظت کرے اور اقتدار میںکس کو لانا ہے یہ کام عوام کا ہے کسی ایک شخص کی وجہ سے فوج اور آئی ایس آئی کوکیوں الزام دیا جائے ۔صدر تو ملک کا صدر ہوتا ہے آئی جے آئی کا نہیں الیکشن شفاف ہونے چاہئیں آج ملک میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کام کررہی ہیںکئی چیزیں صاف ہوگئی ہیں فیصلہ کرنا ہے کہ اداروںکا کیا کردار ہے ہم اس طرف جارہے ہیں، عدالت عظمیٰ نے بدھ تک کی مہلت دیدی۔

Recommended Stories

Load Next Story