ہمی سو گئے داستاں کہتے کہتے
ہمارے ادب میں پچھلی صدی کی تیسری چوتھی دہائیاں تو مختصر افسانے کی دہائیاں ہیں۔
آدمی کو جاتے دیر نہیں لگتی۔ ارے ایک ڈیڑھ ہفتے پہلے ہی تو عبداللہ حسین سے ملاقات ہوئی تھی۔ تین یار تھے مسعود اشعر' ایرج مبارک اور ہم۔ منہ اٹھایا۔ ان کے گھر پر جا کر دستک دیدی۔ اپنے مرض کا کوئی ذکر نہیں۔ ویسے دنیا جہان کی باتیں کر رہے تھے۔ ہم نے دل میں کہا کہ اچھے بھلے تو ہیں۔ خوب چہک رہے ہیں ع
مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا
تو لیجیے عبداللہ حسین دنیا سے گزر گئے۔ دھوم سے آئے تھے۔ خاموشی سے گزر گئے۔ قسمت کے دھنی تھے۔ منہ میں چاندی کا چمچہ لے کر نمودار ہوئے تھے۔ ان کے ناول کو چاندی کا چمچہ ہی سمجھو۔ ہمارے ادب میں ریت یہ چلی آتی تھی کہ پہلے چند کہانیاں لکھیں۔ پھر طبیعت مائل ہوئی تو ناول کی طرف چل پڑے۔ مگر عبداللہ حسین کا تو پہلا ہی کام ہے۔ ان کا ناول اور ناول تو آتے آتے ہی آیا۔ چرچا اس کا پہلے ہی سے شروع ہو گیا۔
پہلے یہ سن لیجیے کہ ہمارے ادب میں پچھلی صدی کی تیسری چوتھی دہائیاں تو مختصر افسانے کی دہائیاں ہیں۔ جس جس کی دھوم پڑی خواہ وہ کرشن چندر ہوں' یا بیدی ہوں یا منٹو ہوں یا عصمت چغتائی ہوں سب نے اپنے اپنے افسانے کے واسطے سے اپنے نام کا ڈنکا بجایا۔ مگر تقسیم کے بعد اچانک اردو میں خاص طور پر پاکستان میں ناول کا دور شروع ہو گیا۔ قرۃ العین حیدر خدیجہ مستور دونوں افسانے لکھتے لکھتے ناول کی طرف آ گئیں۔ عزیز احمد تو پہلے ہی سے چلے آ رہے تھے۔ پھر جمیلہ ہاشمی' بانو قدسیہ' نثار عزیز۔ پھر اچانک قرۃ العین حیدر کا آگ کا دریا' نمودار ہوا۔ وہ تو تاریخ ساز ناول بن گیا۔
تب اچانک نیا ادارہ کے ناشر مرحوم نذیر چوہدری نے ٹی ہاؤس میں آ کر اعلان کیا کہ اس عہد کا بڑا ناول اب آ رہا ہے۔ انتظار کرو۔ اداس نسلیں نمودار ہونے والا ہے۔ ناول نگار کون ہے۔ بالکل نیا نام۔ عبداللہ حسین۔ انتظار لمبا کھنچا تو نمونے کے طور پر سویرا میں ایک کہانی شایع ہوئی۔ ندی۔ لیجیے عبداللہ حسین کی منہ دکھائی تو ہو گئی۔ اور لیجیے آخر کے تئیں 'اداس نسلیں' بھی نمودار ہو ہی گیا
تھا جس کا انتظار وہ شہکار آ گیا
استقبال ویسا ہی ہوا جیسا نذیر چوہدری چاہتے تھے۔ ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ داد کے ڈونگرے خوب برسے۔
ہاں ان کے بعد بھی ایک ناول نگار منصۂ شہود پر آیا مستنصر حسین تارڑ۔ ان کے ناولوں نے بیسٹ سیلر بن کر اپنا سکہ جمایا۔
'اداس نسلیں' برحق۔ مگر ناول نگار کہاں ہے۔ ناول چلتا رہا۔ ناول نگار کے درشن کم کم ہوئے۔ اس نے لندن جا کر وہاں اپنا ڈیرا جما لیا۔ یا کہہ لیجیے کہ اپنی دکان کھول لی۔ لندن میں جا کر اس ناول نگار نے اپنی دکان کھولی سب سے الگ۔
اپنی کم نمائی کے جواز میں ناول نگار نے جو کچھ کہا ہے وہ ان کے مجموعہ نشیب کا دیباچہ بن گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ''میرے دوست اور اس کتاب کے ناشر ریاض احمد نے اصرار کیا ہے کہ میں مجموعہ کے شروع میں 'چند لفظ' لکھ دوں کیونکہ اس سے ادیب اور قاری میں رابطہ قائم رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کہانیاں لکھنے سے رابطہ قائم نہیں ہوتا''۔
پھر وضاحت یوں کی ''میرے خیال میں میرے کچھ کہنے یا نہ کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دراصل کسی کے بھی کچھ کہنے نہ کہنے سے فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ اگر کہانیاں اچھی ہیں تو دس بیس سال کے بعد بھی جب کہنے کہلانے والے رخصت ہو جائیں گے یہ پڑھی جاتی رہیں گی اور اگر اچھی نہیں تو کوئی کچھ بھی کہتا رہے یہ دیکھتے دیکھتے نظر سے غائب ہو جائیں گی۔ ان باتوں سے کسی اور کاروبار میں ہو سکتا ہے فرق پڑتا ہو' ادب کے معاملے میں نہیں پڑتا۔ اگر اسی بات کی سمجھ قارئین کو آ جائے تو میں سمجھوں گا کہ کافی رابطہ ہو گیا''۔
مگر لندن آخر کب تک۔ ہر پھر کر بھلے آدمی کو' پھر اپنے ٹھکانے ہی پر واپس آنا ہوتا ہے۔ سو لندن میں لمبے قیام کے بعد عبداللہ حسین واپس آئے اور لاہور میں آ کر ڈیرا کیا۔ مگر یہاں آ کر بھی وہ ادبی اجتماعات میں کم کم نظر آئے۔ اصل میں ان کی رونمائی اس وقت ہوئی جب عطاء الحق قاسمی لاہور آرٹس کونسل کے چیئرمین بنے اور آرٹس کونسل میں آرٹ کے ساتھ ادب کا بھی چرچا ہونے لگا۔ سب سے بڑھ کر یہاں منعقد ہونے والی اردو کانفرنسیں۔ سب سے بڑھ کر ان کانفرنسوں میں ان کی رونمائی ہوئی۔
اتفاق دیکھئے کہ اسی شام کاسمو پولیٹن کلب میں وہ ادبی تقریب ہوئی تھی جو یہاں ہر مہینے کی پہلی سنیچر کو منعقد ہوتی ہے۔ طے شدہ پروگرام کو معطل کر کے تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ سو ہم ادھر نماز جنازہ سے فارغ ہوئے اور چلے کاسمو پولیٹن کی طرف' یہاں تعزیت کے لیے کتنے لوگ جمع تھے۔ تعزیتی تقریبوں میں بالعموم تعزیتی کلمات ہی پر قناعت کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ خراج تحسین۔ پھر بھی یہاں بولنے والوں میں ایسے بھی تھے جنھوں نے 'اداس نسلیں' سے گزر کر عبداللہ حسین کے پورے کام پر گفتگو کی۔
بہر حال ان کی کم نمائی یہاں بھی زیر بحث رہی۔ برے ادب اور احترام سے اس کا تذکرہ ہوا۔ بس ایک زماں خاں تھے جنھوں نے ان کے حسن سلوک پر کسی قدر صاف گوئی سے تبصرہ کیا۔
بہر حال جو شخص اپنے قارئین کو کم کم نظر آتا تھا اب اس نے پورا پردہ کر لیا ہے۔
اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا
تو لیجیے عبداللہ حسین دنیا سے گزر گئے۔ دھوم سے آئے تھے۔ خاموشی سے گزر گئے۔ قسمت کے دھنی تھے۔ منہ میں چاندی کا چمچہ لے کر نمودار ہوئے تھے۔ ان کے ناول کو چاندی کا چمچہ ہی سمجھو۔ ہمارے ادب میں ریت یہ چلی آتی تھی کہ پہلے چند کہانیاں لکھیں۔ پھر طبیعت مائل ہوئی تو ناول کی طرف چل پڑے۔ مگر عبداللہ حسین کا تو پہلا ہی کام ہے۔ ان کا ناول اور ناول تو آتے آتے ہی آیا۔ چرچا اس کا پہلے ہی سے شروع ہو گیا۔
پہلے یہ سن لیجیے کہ ہمارے ادب میں پچھلی صدی کی تیسری چوتھی دہائیاں تو مختصر افسانے کی دہائیاں ہیں۔ جس جس کی دھوم پڑی خواہ وہ کرشن چندر ہوں' یا بیدی ہوں یا منٹو ہوں یا عصمت چغتائی ہوں سب نے اپنے اپنے افسانے کے واسطے سے اپنے نام کا ڈنکا بجایا۔ مگر تقسیم کے بعد اچانک اردو میں خاص طور پر پاکستان میں ناول کا دور شروع ہو گیا۔ قرۃ العین حیدر خدیجہ مستور دونوں افسانے لکھتے لکھتے ناول کی طرف آ گئیں۔ عزیز احمد تو پہلے ہی سے چلے آ رہے تھے۔ پھر جمیلہ ہاشمی' بانو قدسیہ' نثار عزیز۔ پھر اچانک قرۃ العین حیدر کا آگ کا دریا' نمودار ہوا۔ وہ تو تاریخ ساز ناول بن گیا۔
تب اچانک نیا ادارہ کے ناشر مرحوم نذیر چوہدری نے ٹی ہاؤس میں آ کر اعلان کیا کہ اس عہد کا بڑا ناول اب آ رہا ہے۔ انتظار کرو۔ اداس نسلیں نمودار ہونے والا ہے۔ ناول نگار کون ہے۔ بالکل نیا نام۔ عبداللہ حسین۔ انتظار لمبا کھنچا تو نمونے کے طور پر سویرا میں ایک کہانی شایع ہوئی۔ ندی۔ لیجیے عبداللہ حسین کی منہ دکھائی تو ہو گئی۔ اور لیجیے آخر کے تئیں 'اداس نسلیں' بھی نمودار ہو ہی گیا
تھا جس کا انتظار وہ شہکار آ گیا
استقبال ویسا ہی ہوا جیسا نذیر چوہدری چاہتے تھے۔ ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ داد کے ڈونگرے خوب برسے۔
ہاں ان کے بعد بھی ایک ناول نگار منصۂ شہود پر آیا مستنصر حسین تارڑ۔ ان کے ناولوں نے بیسٹ سیلر بن کر اپنا سکہ جمایا۔
'اداس نسلیں' برحق۔ مگر ناول نگار کہاں ہے۔ ناول چلتا رہا۔ ناول نگار کے درشن کم کم ہوئے۔ اس نے لندن جا کر وہاں اپنا ڈیرا جما لیا۔ یا کہہ لیجیے کہ اپنی دکان کھول لی۔ لندن میں جا کر اس ناول نگار نے اپنی دکان کھولی سب سے الگ۔
اپنی کم نمائی کے جواز میں ناول نگار نے جو کچھ کہا ہے وہ ان کے مجموعہ نشیب کا دیباچہ بن گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ''میرے دوست اور اس کتاب کے ناشر ریاض احمد نے اصرار کیا ہے کہ میں مجموعہ کے شروع میں 'چند لفظ' لکھ دوں کیونکہ اس سے ادیب اور قاری میں رابطہ قائم رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کہانیاں لکھنے سے رابطہ قائم نہیں ہوتا''۔
پھر وضاحت یوں کی ''میرے خیال میں میرے کچھ کہنے یا نہ کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دراصل کسی کے بھی کچھ کہنے نہ کہنے سے فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ اگر کہانیاں اچھی ہیں تو دس بیس سال کے بعد بھی جب کہنے کہلانے والے رخصت ہو جائیں گے یہ پڑھی جاتی رہیں گی اور اگر اچھی نہیں تو کوئی کچھ بھی کہتا رہے یہ دیکھتے دیکھتے نظر سے غائب ہو جائیں گی۔ ان باتوں سے کسی اور کاروبار میں ہو سکتا ہے فرق پڑتا ہو' ادب کے معاملے میں نہیں پڑتا۔ اگر اسی بات کی سمجھ قارئین کو آ جائے تو میں سمجھوں گا کہ کافی رابطہ ہو گیا''۔
مگر لندن آخر کب تک۔ ہر پھر کر بھلے آدمی کو' پھر اپنے ٹھکانے ہی پر واپس آنا ہوتا ہے۔ سو لندن میں لمبے قیام کے بعد عبداللہ حسین واپس آئے اور لاہور میں آ کر ڈیرا کیا۔ مگر یہاں آ کر بھی وہ ادبی اجتماعات میں کم کم نظر آئے۔ اصل میں ان کی رونمائی اس وقت ہوئی جب عطاء الحق قاسمی لاہور آرٹس کونسل کے چیئرمین بنے اور آرٹس کونسل میں آرٹ کے ساتھ ادب کا بھی چرچا ہونے لگا۔ سب سے بڑھ کر یہاں منعقد ہونے والی اردو کانفرنسیں۔ سب سے بڑھ کر ان کانفرنسوں میں ان کی رونمائی ہوئی۔
اتفاق دیکھئے کہ اسی شام کاسمو پولیٹن کلب میں وہ ادبی تقریب ہوئی تھی جو یہاں ہر مہینے کی پہلی سنیچر کو منعقد ہوتی ہے۔ طے شدہ پروگرام کو معطل کر کے تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ سو ہم ادھر نماز جنازہ سے فارغ ہوئے اور چلے کاسمو پولیٹن کی طرف' یہاں تعزیت کے لیے کتنے لوگ جمع تھے۔ تعزیتی تقریبوں میں بالعموم تعزیتی کلمات ہی پر قناعت کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ خراج تحسین۔ پھر بھی یہاں بولنے والوں میں ایسے بھی تھے جنھوں نے 'اداس نسلیں' سے گزر کر عبداللہ حسین کے پورے کام پر گفتگو کی۔
بہر حال ان کی کم نمائی یہاں بھی زیر بحث رہی۔ برے ادب اور احترام سے اس کا تذکرہ ہوا۔ بس ایک زماں خاں تھے جنھوں نے ان کے حسن سلوک پر کسی قدر صاف گوئی سے تبصرہ کیا۔
بہر حال جو شخص اپنے قارئین کو کم کم نظر آتا تھا اب اس نے پورا پردہ کر لیا ہے۔
اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر