من تُرا حاجی بگویم
کراچی میں اب موسم واپس اپنی سابقہ روش پر آ چکا ہے۔ سمندری ہوائیں گرمی کی شدت کو توڑ رہی ہیں
ابھی اس پہلو پر غور کر ہی رہے تھے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف اس قدر تاخیر سے اتنے مختصر دورے پر کراچی کیوں آئے؟ ان کی آمد کا اصل مقصد کیا تھا کہ خبر آئی کہ وہ اسپیشل ٹرین جو فوجیوں کو پنوعاقل چھاؤنی سے کھاریاں لے کر جا رہی تھی، وزیر آباد کے قریب نہر میں جاگری، جس کے نتیجے میں ڈیڑھ درجن کے قریب افسران اور جوان جاں بحق ہوئے، جب کہ بڑی تعداد میں مسافر زخمی ہوئے ہیں۔ کراچی میں پڑنے والی شدید گرمی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں ہوں یا ٹرین کو پیش آنے والا سانحہ، کوئی فوری رونما ہونے والا واقعہ نہیں ہے۔ بلکہ بقول شاعر
وقت کرتا پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
پہلے وزیر اعظم کے دورہ کراچی پر گفتگو کیے لیتے ہیں۔ کراچی میں اب موسم واپس اپنی سابقہ روش پر آ چکا ہے۔ سمندری ہوائیں گرمی کی شدت کو توڑ رہی ہیں۔ شامیں حسب روایت خوشگوار ہو چکی ہیں۔ ایسے میں وزیر اعظم صاحب محض رسم پوری کرنے تشریف لے آئے۔ اس میں شک نہیں کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد وفاق کی صوبائی معاملات میں مداخلت ختم ہو چکی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ کراچی میں ایک متنازع آپریشن شروع کر سکتے ہیں، تو اس شہر کی فلاح کے لیے بھی کچھ کرنے کا اعلان کر سکتے تھے۔ کم از کم صوبائی حکومت کی نااہلی پر اس کی سرزنش کی جا سکتی تھی۔ مگر آئے بھی وہ گئے بھی وہ، ختم فسانہ ہو گیا۔ البتہ فارسی کہاوت ''من تُرا حاجی بگویم، تو مرا حاجی بگو'' کے مصداق انھوں نے شاہ صاحب کی اور شاہ صاحب نے ان کی شان میں قصیدے پڑھے۔ پھر گورنر ہاؤس میں کابینہ کے اجلاس میں گورنر کو مدعو کر کے اہل کراچی کو بھی یہ جتا دیا کہ ان کے شہر کا گورنر کابینہ اجلاس میں شریک تھا، خواہ اس کی کوئی حیثیت ہو یا نہ ہو۔کراچی میں ہونے والی اموات کے کئی اسباب تھے۔
لیکن کوئی بھی سبب ایسا نہیں ہے، جسے قدرت کا شاخسانہ قرار دے کر اس سے صرف نظر کر لیا جائے۔ موسمیاتی تغیر (Climatic Change) ایک ناقابل تردید حقیقت ہے، جس پر کم ازکم دو دہائیوں سے پوری دنیا میں گفت و شنید اور مختلف تجاویز پر غور ہو رہا ہے۔ 2010ء میں کوپن ہیگن میں ہونے والی تین روزہ کانفرنس میں اس بارے میں تفصیلی بحث و مباحثہ ہوا اور تجاویز مرتب کی گئیں۔ اس وقت کی پاکستانی حکومت کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ وزارتی سطح پر ایک ایسے شخص کو بھیجا گیا، جو ان معاملات کے بارے میں ابتدائی معلومات تک نہیں رکھتا تھا۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ پاکستان میں نہ تو ریاستی سطح پر اس مسئلہ کی حساسیت کا احساس پیدا ہوا اور نہ ہی پیش کردہ کسی بھی تجویز پر عمل ہو سکا۔
اب دوسری طرف آئیے۔ گزشتہ مئی میں بھارت کے تین صوبوں، راجھستان، اترپردیش اور بہار میں ریکارڈ شدید گرمی پڑی تھی۔ مگر ہمارے یہاں اس خبر پر کسی نے کان دھرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اگر اس خبر پر توجہ دی جاتی اور احتیاطی تدابیر کر لی گئی ہوتیں تو شاید کراچی میں اتنی اموات نہ ہوتیں۔ اسی طرح چند برس پہلے گلگت کے نزدیک عطا آباد کے مقام پر گلیشیر پگھلنے سے ایک جھیل بن گئی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بے خبری اور بے عملی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ آج تک اس پانی کو محفوظ کرنے اور مختلف منصوبوں کے لیے استعمال کرنے کی کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی جا سکی ہے۔
اتنے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا دوسرا سبب یہ ہے کہ پورے ملک میں سرکاری اسپتال بدترین عدم توجہی کا شکار ہیں۔ کرپشن، بد عنوانی اور بدانتظامی ان کی شناخت بن چکی ہے۔ نجی اسپتالوں میں ناتجربہ کار عملہ اپنی کم علمی اور ناتجربہ کاری کے سبب مریضوں کو نئے عارضوں میں مبتلا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ جب کہ مریض کی جیب کاٹنے کا بندوبست پورا ہوتا ہے۔ مگر محکمہ صحت نہ تو سرکاری اسپتالوں کی حالت زار بہتر بنانے پر توجہ دے رہا ہے اور نہ ہی نجی اسپتالوں کی صحیح انداز میں مانیٹرنگ کر رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں ہزاروں کی تعداد میں اموات کا ہونا کوئی اچنھبے کی بات نہیں ہے۔ مگر وزیراعظم صوبائی حکومت کی سرزنش کرنے اور صحت کے حوالے سے کسی قسم کا مالی یا تکنیکی تعاون فراہم کرنے کے بجائے ان منصوبوں کا لالی پاپ دینے کا اعلان کر گئے، جن میں خود وفاقی حکومت کو بھاری کک بیک ملنے کی توقع ہے۔
اب بات ہو جائے وزیر آباد کے قریب ہونے والے ٹرین حادثے کی۔ اس نوعیت کے حادثے بھی پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں رہے ہیں۔ کبھی پل گرنے سے، کبھی دہشت گردی کی وجہ سے، یہ حادثات بھی معمول بن گئے ہیں۔ چند برس قبل (2006ء) حیدرآباد کے قریب رن پٹھانی ریلوے اسٹیشن کے نزدیک ریلوے ٹریک کے لیے بنایا ہوا پل زمین بوس ہو گیا تھا، جس کے نتیجے میں ریلوے ٹریک کئی دن متاثر رہا تھا۔ اب یہ سانحہ رونما ہوا ہے، جس میں ڈیڑھ درجن قیمتی جانیں خالق حقیقی سے جا ملیں،درجنوں زخمی بھی ہوئے۔ اگر ریلوے ٹریکوں کے لیے بنائے گئے پلوں کو دیکھا جائے تو کوئی پل ایسا نہیں جو قیام پاکستان کے بعد تعمیر ہوا ہو۔ بلکہ شاید ان 68 برسوں میں صرف چند ایک پلوں کی ہی مرمت ہو سکی ہو۔ وگرنہ باقی تمام پل جب سے بنے ہیں، اسی طرح چلے آ رہے ہیں۔
اگر کسی کا کوٹری اور حیدرآباد کے درمیان دریائے سندھ پر بنے ریلوے پل سے گزر ہو تو اسے یہ دیکھ کر حیرت ہو گی کہ اس پل پر 1898ء کی تاریخ کندہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس پل کی عمر سوا سو برس کے قریب پہنچ چکی ہے۔ خدانخواستہ یہ پل اگر ڈھے جاتا ہے، تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کتنا بڑا نقصان ہو گا۔ مگر حکمرانوں کا یہ وتیرہ ہے کہ جب کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے، تو وقتی یعنی Adhoc بنیادوں پر کچھ اقدام کر لیتے ہیں، لیکن ٹھوس بنیادوں پر طویل المدتی اقدام کرنے کی شاید ان میں اہلیت نہیں یا ان کی ترجیح نہیں ہے۔انگریزوں نے 1851ء میں برٹش انڈیا میں ریلوے کو متعارف کرایا۔ پہلی ٹرین 1853ء میں 16 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ممبئی سے تھانے (مہاراشٹر کا شہر) تک گئی۔ اس کے بعد انگریز سرکار نے پورے ہندوستان میں ریلوے لائنوں کا جال بچھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ 1939ء میں دوسری عالمی جنگ شروع ہونے تک پورے ہندوستان میں 70 ہزار کلومیٹر ریلوے ٹریک بچھایا جا چکا تھا، جس پر ٹرینیں بھی رواں ہو چکی تھیں۔
تقسیم ہند کے موقع پر 40 فیصد ٹریک پاکستان کے دو حصوں کو ملا۔ بھارت نے آزادی کے فوراً بعد دیگر شعبہ جات کی طرح ریلوے کی ترقی پر بھی خصوصی توجہ دی۔ اس نے ریلوے ٹریک میں اب تک 35 فیصد اضافہ کر لیا ہے، جب کہ تقسیم سے قبل ریلوے انجن بنانے کے تین کارخانے تھے، جو اب پانچ ہو چکے ہیں۔ راجیو گاندھی کے دور میں مرشد آباد میں لوکوموٹو انجن بنانے والے کارخانہ کو بجلی کے انجن بنانے کے لیے مخصوص کر دیا گیا۔ آج بھارت دنیا کے کئی ممالک کو ریلوے انجن نا صرف فروخت کر رہا ہے، بلکہ کرائے پر بھی دے رہا ہے۔ بھارتی ریلوے روزانہ 12 کروڑ روپے کا منافع اپنے قومی خزانے میں جمع کراتی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں ریلوے ٹریک میں اضافے کے بجائے کمی ہوئی ہے۔ کئی روٹس بند کیے جا چکے ہیں۔ ریلوے انتہائی درجہ کی بدانتظامی اور کرپشن کے باعث قومی خزانے کو ہر ماہ 12 کروڑ روپے کا خسارہ پہنچا رہی ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے ان دو برسوں کے دوران ریلوے کو کسی حد تک بحرانی کیفیت سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ریلوے جس تباہی سے دوچار ہے، اس کی مکمل بحالی کے لیے کم از کم دس برس درکار ہیں، بشرطیکہ انتہائی سنجیدگی، دیانتداری اور سیاسی عزم کے ساتھ کام کیا جائے، جس کی پاکستانی مقتدر اشرافیہ سے توقع کم ہی ہے۔یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کسی ایک مسئلے سے دوچار نہیں ہے، بلکہ ہر شعبہ حیات فرسودگی، خستگی اور بیچارگی کی آخری حدود کو چھو رہا ہے۔ اگر ابھی کراچی میں چار روز کی گرمی نے 12 سو کے قریب زندگیاں نگل لی ہیں، تو گرمی کم ہو جانے پر مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے، بلکہ آنے والے دنوں کے لیے احتیاطی تدابیر کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ آنے والے دنوں میں شدید بارشوں کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔
سیلاب اور خشک سالی غذائی قلت کی عفریت کا سبب بننے جا رہے ہیں۔ مگر حکومتی سطح پر کوئی ٹھوس اور قابل عمل اقدام نظر نہیں آ رہا۔ اسی طرح آج ایک ٹرین پل کی فرسودگی کا شکار ہوئی ہے، تو کل اپنی عمروں سے گزرے دیگر پل بھی کسی وقت اس سے بڑے سانحات کا سبب بن سکتے ہیں۔ جہاں تک اس سانحہ میں دہشت گردی کے عمل دخل کا تعلق ہے، تو حکومت اس مظہر پر بھی مکمل طور پر قابو پانے میں ناکام چلی آ رہی ہے۔ لہٰذا وفاق اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کی تعریف و توصیف کر کے اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں اور نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کے بجائے زمینی حقائق کو سمجھنے اور ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے پر توجہ مرکوز کریں تو یہ خود ان کے لیے بھی بہتر ہو گا اور عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں گے۔