سلیم کوثر کا نعتیہ مجموعہ کلام
یہ بڑی بات ہے کہ مطلع سے مقطع تک پوری غزل کا معیار ایک سا ہے۔
اردو بازار میں داخل ہوا تو میری نظریں دائیں جانب کھنچ کر رہ گئیں، شیلف میں دیدہ زیب سرورق جھلملا رہا تھا۔ ''میں نے اسم محمدؐ کو لکھا بہت'' جو اب میرے ہاتھوں میں تھا۔ پندرہ سال پہلے کا واقعہ مجھے یاد آگیا۔ سلیم کوثر میرے دفتر آیا، وہ جذبات سے مغلوب سرشاری کی کیفیت میں تھا۔ ''پیارے صاحب! حضورؐ کی شان میں شعر ہوگیا ہے۔'' شعر سنانے سے پہلے ہی وہ جھوم رہا تھا۔ میری بے تابی بھی بڑھ گئی اور پھر اس نے شعر سنایا۔
میرے ہاتھوں سے اور میرے ہونٹوں سے خوشبوئیں جاتی نہیں
میں نے اسم محمدؐ کو لکھا بہت اور چوما بہت
سلیم کوثر نے بار بار یہ شعر پڑھا اور ہر بار کیف و سرور میں اضافہ ہوتا رہا۔ میں نے شعر لکھ لیا۔ سلیم کوثر بولا ''پیارے صاحب! یہ شعر آپ کسی کو سنائیں گے نہیں، جب تک میں مکمل نعت شریف نہ کہہ لوں۔'' میں نے ایسا ہی کرنے کا وعدہ کرلیا۔
سلیم کوثر غزل کا شاعر ہے۔ اور اس نے خوب غزلیں کہی ہیں، مگر اللہ جسے چاہے اپنی جناب سے نواز دے اور جتنا چاہے نواز دے۔ اس کی ایک غزل نے اسے دنیا دکھا دی۔ کون سا ملک ہے جہاں سلیم کوثر کو نہیں بلایا گیا، اور اس کی شہرہ آفاق غزل حاصلِ مشاعرہ نہ رہی ہو۔
میں خیال ہوں کسی اور کا، مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِ آئینہ مرا عکس ہے، پسِ آئینہ کوئی اور ہے
یہ بڑی بات ہے کہ مطلع سے مقطع تک پوری غزل کا معیار ایک سا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک شعر ہے۔
سلیم کوثر کا رجحان ہمیشہ سے مذہب کی طرف رہا ہے۔ اس کا نعتیہ مجموعہ آنا ہی تھا، ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ نعتیہ کلام ایک الگ رنگ لیے ہوئے ہے۔ لیجیے سلیم کوثر سے ہی سنیے۔ کتاب میں شامل مضمون ''مرے سارے ہجر وصال ہوئے'' سے اقتباسات۔ ''اس دن میری کیفیت عجیب سی تھی، میں اندر سے بہت بے چین اور گہرے اضطراب آمیز لمحوں کی گرفت میں تھا۔ موسم میرے اندر نئے تجربوں کی دھنک لیے دل آنگن میں ہُلارے لے رہا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔۔۔۔ میں چونکتا ہوں۔ دعا سلام کے بعد ۔۔۔۔ آپ جدہ کے مشاعرے میں تشریف لا رہے ہیں۔ میری آنکھوں کے سامنے بے شمار ستارے جگمگ کرنے لگے۔ ان ھی کے درمیان حرم کا عکس نظر آیا اور پھر گنبد خضریٰ ابھر آیا، میں انھیں (مشاعرے کی دعوت دینے والوں کو) کیسے بتاؤں کہ اس سفر کے لیے میں ازل سے احرام باندھے تیار بیٹھا ہوں۔''
اور پھر شاعر حج بیت اللہ اور روضہ رسولؐ پر حاضری کے لیے روانہ ہوگیا۔ وہ خواب جو شاعر دیکھتا رہا، حقیقت بن کر سامنے آرہے تھے۔ کعبۃ اللہ سے تاجدار حرمؐ کی بارگاہ تک پھیلے فاصلوں میں کیا کیا انوار کی بارشیں ہوئیں۔ جسم و جان کیا کیا سرشار ہوئے اسی کا بیان سلیم کوثر نے اپنے مجموعہ کلام (حمد و نعت) میں شامل کیا ہے۔ کتاب میں شامل اشعار کی شان نزول، مقام اور تاریخ بھی درج ہے، اس طرح یہ ایک نہایت مقدس منظوم سفرنامہ بن گیا ہے۔ ایک ایسا سفرنامہ جس میں ارکان حج و عمرہ اور مقامات مقدسہ پر موجود کیفیات کا عقیدت و محبت میں ڈوبا ہوا بیان ہے۔
سلیم کوثر کی نثر بھی بہت ہی خوبصورت ہے، فقروں کی بُنت اور پیوستگی معنی و مطلب کے ساتھ دلوں میں اترتی چلی جاتی ہے۔ کتاب سے انتخاب کا آغاز ایک نثرپارے سے کرنا چاہوں گا۔ ملاحظہ فرمائیں۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ کا ترجماتی پھیلاؤ سلیم کوثر بیان کرتے ہیں ''وہی جو دکھ بھرے موسم کی ویرانی میں سینوں پر دھنک لمحوں کی خوشبو سے مہکتا ہاتھ رکھتا ہے۔ دلوں کو جوڑتا ہے اور پھر ان میں محبت نام کی سوغات رکھتا ہے، سفر میں راستے گم ہوں، ردائے گمرہی کتنی ہی میلی ہو غموں کی دھوپ پھیلی ہو۔ اسے کوئی کہیں جس وقت اور جس حال میں آواز دیتا ہے، وہ سنتا ہے، بہت ہی مہربان ہے رحم کرتا ہے، وہی سچ ہے، ہمیں سچ بولنے کا حکم دیتا ہے، سو اس کو یاد کرتے ہیں ، اسی کے نام سے آغاز کرتے ہیں۔''
میں کتاب کا ورق پلٹتے ہوئے آگے بڑھتا ہوں۔ لکھا ہے ''اللہ کے نام جس کا عظیم ترین احسان انسانوں پر ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰؐ عطا فرمائے اور ہمیں ان کا امتی بنایا۔'' پھر شعر معہ مقام و تاریخ درج ہے۔ 22 اپریل 2004 (مسجد نبویؐ)
ان ہی سے عشق کرو، ان کے راستے میں رہو
درود پڑھتے رہو اور رابطے میں رہو
نعتیہ مجموعہ کلام کا آغاز ہے۔ شاعر خانہ کعبہ میں سر جھکائے عرض گزار ہے:
حاضر ہوں اور لبوں پہ ہے تالا، قبول کر
لکھا ہے آنسوؤں سے مقالہ قبول کر
تیرے کرم سے تیری طرف آگیا ہوں میں
جیسا بھی ہوں میں چاہنے والا قبول کر
سرکار دو جہاںؐ کے سوا کون ہے مرا
میں ان کا ہوں، ان ھی کا حوالہ قبول کر
......
اس سے پہلے کہ یہ دنیا مجھے رسوا کردے
تُو مرے جسم مری روح کو اچھا کردے
میں مسافر ہوں سو رستے مجھے راس آتے ہیں
میری منزل کو مرے واسطے رستہ کردے
......
حرم شریف کے دن پورے ہوئے، اب مکے سے مدینے کا سفر ہے، شاعر کہتا ہے:
وداع و وصل کے دل میں چراغ جلتے ہیں
چلو سلیم حرم سے مدینہ چلتے ہیں
......
ایک ہی ہے سفر حاصلِ زندگی
ایک ہی راستہ، چل مدینے چلیں
چادرِ مصطفیٰؐ ہی میں موجود ہے
دامنِ کبریا، چل مدینے چلیں
......
مدینے کو جو رستہ جا رہا ہے
سرِ عرشِ معلی جا رہا ہے
نقوشِ ہجرت آقاؐ ہیں روشن
جہاں تک بھی یہ صحرا جا رہا ہے
......
سارے حرفوں میں اک حرف پیارا بہت اور یکتا بہت
سارے ناموں میں اک نام سوہنا بہت اور ہمارا بہت
میرے ہاتھوں سے اور میرے ہونٹوں سے خوشبوئیں جاتی نہیں
میں نے اسمِ محمدؐ کو لکھا بہت اور چوما بہت
......
جو خاکِ طیبہ سے دیکھا شکوہِ دنیا کو
بلند و پست کے معنی سمجھ میں آنے لگے
......
اور اب نعتیہ مجموعے کا آخری شعر درود و سلام بحضور آقائے دو جہاںؐ:
سلام اُن پر کہ جن کا آخری خطبہ پیامِ امنِ عالم ہے
درود اُن پر حیاتِ طیبہ جن کی نظامِ امنِ عالم ہے
سلیم کوثر دو ایک سال سے بیمار ہیں۔ دعا ہے اس نعتیہ مجموعے کے طفیل اللہ انھیں صحت یاب فرمادے (آمین)۔
میرے ہاتھوں سے اور میرے ہونٹوں سے خوشبوئیں جاتی نہیں
میں نے اسم محمدؐ کو لکھا بہت اور چوما بہت
سلیم کوثر نے بار بار یہ شعر پڑھا اور ہر بار کیف و سرور میں اضافہ ہوتا رہا۔ میں نے شعر لکھ لیا۔ سلیم کوثر بولا ''پیارے صاحب! یہ شعر آپ کسی کو سنائیں گے نہیں، جب تک میں مکمل نعت شریف نہ کہہ لوں۔'' میں نے ایسا ہی کرنے کا وعدہ کرلیا۔
سلیم کوثر غزل کا شاعر ہے۔ اور اس نے خوب غزلیں کہی ہیں، مگر اللہ جسے چاہے اپنی جناب سے نواز دے اور جتنا چاہے نواز دے۔ اس کی ایک غزل نے اسے دنیا دکھا دی۔ کون سا ملک ہے جہاں سلیم کوثر کو نہیں بلایا گیا، اور اس کی شہرہ آفاق غزل حاصلِ مشاعرہ نہ رہی ہو۔
میں خیال ہوں کسی اور کا، مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِ آئینہ مرا عکس ہے، پسِ آئینہ کوئی اور ہے
یہ بڑی بات ہے کہ مطلع سے مقطع تک پوری غزل کا معیار ایک سا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک شعر ہے۔
سلیم کوثر کا رجحان ہمیشہ سے مذہب کی طرف رہا ہے۔ اس کا نعتیہ مجموعہ آنا ہی تھا، ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ نعتیہ کلام ایک الگ رنگ لیے ہوئے ہے۔ لیجیے سلیم کوثر سے ہی سنیے۔ کتاب میں شامل مضمون ''مرے سارے ہجر وصال ہوئے'' سے اقتباسات۔ ''اس دن میری کیفیت عجیب سی تھی، میں اندر سے بہت بے چین اور گہرے اضطراب آمیز لمحوں کی گرفت میں تھا۔ موسم میرے اندر نئے تجربوں کی دھنک لیے دل آنگن میں ہُلارے لے رہا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔۔۔۔ میں چونکتا ہوں۔ دعا سلام کے بعد ۔۔۔۔ آپ جدہ کے مشاعرے میں تشریف لا رہے ہیں۔ میری آنکھوں کے سامنے بے شمار ستارے جگمگ کرنے لگے۔ ان ھی کے درمیان حرم کا عکس نظر آیا اور پھر گنبد خضریٰ ابھر آیا، میں انھیں (مشاعرے کی دعوت دینے والوں کو) کیسے بتاؤں کہ اس سفر کے لیے میں ازل سے احرام باندھے تیار بیٹھا ہوں۔''
اور پھر شاعر حج بیت اللہ اور روضہ رسولؐ پر حاضری کے لیے روانہ ہوگیا۔ وہ خواب جو شاعر دیکھتا رہا، حقیقت بن کر سامنے آرہے تھے۔ کعبۃ اللہ سے تاجدار حرمؐ کی بارگاہ تک پھیلے فاصلوں میں کیا کیا انوار کی بارشیں ہوئیں۔ جسم و جان کیا کیا سرشار ہوئے اسی کا بیان سلیم کوثر نے اپنے مجموعہ کلام (حمد و نعت) میں شامل کیا ہے۔ کتاب میں شامل اشعار کی شان نزول، مقام اور تاریخ بھی درج ہے، اس طرح یہ ایک نہایت مقدس منظوم سفرنامہ بن گیا ہے۔ ایک ایسا سفرنامہ جس میں ارکان حج و عمرہ اور مقامات مقدسہ پر موجود کیفیات کا عقیدت و محبت میں ڈوبا ہوا بیان ہے۔
سلیم کوثر کی نثر بھی بہت ہی خوبصورت ہے، فقروں کی بُنت اور پیوستگی معنی و مطلب کے ساتھ دلوں میں اترتی چلی جاتی ہے۔ کتاب سے انتخاب کا آغاز ایک نثرپارے سے کرنا چاہوں گا۔ ملاحظہ فرمائیں۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ کا ترجماتی پھیلاؤ سلیم کوثر بیان کرتے ہیں ''وہی جو دکھ بھرے موسم کی ویرانی میں سینوں پر دھنک لمحوں کی خوشبو سے مہکتا ہاتھ رکھتا ہے۔ دلوں کو جوڑتا ہے اور پھر ان میں محبت نام کی سوغات رکھتا ہے، سفر میں راستے گم ہوں، ردائے گمرہی کتنی ہی میلی ہو غموں کی دھوپ پھیلی ہو۔ اسے کوئی کہیں جس وقت اور جس حال میں آواز دیتا ہے، وہ سنتا ہے، بہت ہی مہربان ہے رحم کرتا ہے، وہی سچ ہے، ہمیں سچ بولنے کا حکم دیتا ہے، سو اس کو یاد کرتے ہیں ، اسی کے نام سے آغاز کرتے ہیں۔''
میں کتاب کا ورق پلٹتے ہوئے آگے بڑھتا ہوں۔ لکھا ہے ''اللہ کے نام جس کا عظیم ترین احسان انسانوں پر ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰؐ عطا فرمائے اور ہمیں ان کا امتی بنایا۔'' پھر شعر معہ مقام و تاریخ درج ہے۔ 22 اپریل 2004 (مسجد نبویؐ)
ان ہی سے عشق کرو، ان کے راستے میں رہو
درود پڑھتے رہو اور رابطے میں رہو
نعتیہ مجموعہ کلام کا آغاز ہے۔ شاعر خانہ کعبہ میں سر جھکائے عرض گزار ہے:
حاضر ہوں اور لبوں پہ ہے تالا، قبول کر
لکھا ہے آنسوؤں سے مقالہ قبول کر
تیرے کرم سے تیری طرف آگیا ہوں میں
جیسا بھی ہوں میں چاہنے والا قبول کر
سرکار دو جہاںؐ کے سوا کون ہے مرا
میں ان کا ہوں، ان ھی کا حوالہ قبول کر
......
اس سے پہلے کہ یہ دنیا مجھے رسوا کردے
تُو مرے جسم مری روح کو اچھا کردے
میں مسافر ہوں سو رستے مجھے راس آتے ہیں
میری منزل کو مرے واسطے رستہ کردے
......
حرم شریف کے دن پورے ہوئے، اب مکے سے مدینے کا سفر ہے، شاعر کہتا ہے:
وداع و وصل کے دل میں چراغ جلتے ہیں
چلو سلیم حرم سے مدینہ چلتے ہیں
......
ایک ہی ہے سفر حاصلِ زندگی
ایک ہی راستہ، چل مدینے چلیں
چادرِ مصطفیٰؐ ہی میں موجود ہے
دامنِ کبریا، چل مدینے چلیں
......
مدینے کو جو رستہ جا رہا ہے
سرِ عرشِ معلی جا رہا ہے
نقوشِ ہجرت آقاؐ ہیں روشن
جہاں تک بھی یہ صحرا جا رہا ہے
......
سارے حرفوں میں اک حرف پیارا بہت اور یکتا بہت
سارے ناموں میں اک نام سوہنا بہت اور ہمارا بہت
میرے ہاتھوں سے اور میرے ہونٹوں سے خوشبوئیں جاتی نہیں
میں نے اسمِ محمدؐ کو لکھا بہت اور چوما بہت
......
جو خاکِ طیبہ سے دیکھا شکوہِ دنیا کو
بلند و پست کے معنی سمجھ میں آنے لگے
......
اور اب نعتیہ مجموعے کا آخری شعر درود و سلام بحضور آقائے دو جہاںؐ:
سلام اُن پر کہ جن کا آخری خطبہ پیامِ امنِ عالم ہے
درود اُن پر حیاتِ طیبہ جن کی نظامِ امنِ عالم ہے
سلیم کوثر دو ایک سال سے بیمار ہیں۔ دعا ہے اس نعتیہ مجموعے کے طفیل اللہ انھیں صحت یاب فرمادے (آمین)۔