چھوٹی خبر بڑا خطرہ

اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ رُونما ہوگیا تو اس کے نتیجے میں ہزاروں قیمتی جانیں اور اربوں روپے کا نقصان ہوسکتا ہے


Moosa Raza Afandi July 06, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: 28جون بروز اتوار اخبارات میں ڈھیر ساری خبروں کے درمیان ایک خبر یہ بھی چھپی کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر نے وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف کو منگلا ڈیم کے پشتوں سے رساؤ کے بارے میں خط لکھا ہے جس میں متنبہ کیا گیا ہے کہ پانی کے رساؤ سے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں اور ملحقہ پاکستانی شہروں میں بڑی تباہی کا خدشہ ہے۔ خط میں انکشاف کیا گیا ہے کہ میرپور ٹاؤن کے قریب منگلا ڈیم کے پشتوں میں دراڑیں پڑگئی ہیں اور مزید جگہوں سے پانی رسنا شروع ہوگیا ہے۔ خبر کے مطابق واپڈا نے ایک روز قبل پانی رسنے کی تردید کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے خالق آباد سڑک کا کچھ حصہ متاثر ہوا اور ایک ماہ قبل اس متاثرہ حصے کی لیے ضروری اقدامات حکومت آزاد کشمیر کے ساتھ مل کر شروع کردیے گئے ہیں۔

خبر کے مطابق حکومت آزاد کشمیر آج بھی اپنے موقف پر قائم ہے، خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر نے اس سلسلے میں آرمی چیف کو بھی خط لکھا ہے خبر کے مطابق حکومت آزاد کشمیر کے اعلیٰ عہدیداروں کا کہنا کہ تعمیر کا کام شروع ہونا تو ایک طرف ابھی تو یہ فیصلہ بھی نہیں کیا جاسکا کہ اس تعمیر کا کام کون کرے گا۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالحمید کے جناب خواجہ آصف کے نام خط کی کاپیاں وزیراعظم پاکستان ملٹری سیکریٹری ٹو پی ایم، وفاقی وزیر امور کشمیر جناب برجیس طاہر، چیئرمین این ڈی ایم اے جنرل اصغر نواز اور چیئرمین واپڈا جناب ظفر محمود کو بھجوائی گئی ہیں۔

اس خط کے مندرجات کے مطابق چوہدری عبدالحمید وزیراعظم آزاد کشمیر نے نہایت واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ '' میں آپ کے علم میں یہ سنگین مسئلہ لانا چاہتا ہوں کہ میر پور ٹاؤن کے قریب منگلا ڈیم کے پشتوں میں دراڑیں پڑگئی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی ہدایت پر 21مئی 2015 کو وزارت پانی وبجلی کے حکام چیف سیکریٹری آزاد جموں وکشمیر اور ضلعی اور ڈویژنل حکام پر مشتمل ایک ٹیم معائنہ کے لیے سائٹ پر پہنچی اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی مگر اس کے باوجود حفاظتی اقدامات نہیںکیے گئے اور اب کچھ مزید جگہوں سے بھی پانی رسنا شروع ہوگیا ہے جس سے صورت حال خطرناک شکل اختیار کرسکتی ہے۔

اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ رُونما ہوگیا تو اس کے نتیجے میں ہزاروں قیمتی جانیں اور اربوں روپے کا نقصان ہوسکتا ہے، پشتے ٹوٹنے کی صورت میں جہلم، گجرات منڈی بہاؤالدین اور ملحقہ علاقوں کی آبادی کو خوف ناک تباہی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے''۔ خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ حکومت آزاد وجموں وکشمیراس سلسلے میں تمام کوشش کررہی ہے اور حکام کے نوٹس میں بھی لایا گیا ہے مگر اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے اور کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے اس وقت جب کہ ڈیم میں پانی کی سطح کم ہے فوری مرمت کا کام شروع کرکے خطرناک تباہی سے بچا جا سکتا ہے چنانچہ اس موقعے پر فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے''

یہ ایک چھوٹی سے خبر تھی جو گذشتہ اتوار کو اخبارات میں چھپی، جس کے چھپنے کے بعد تادم تحریر کوئی بھی اثر نہیں لیا گیا کسی ٹی وی ٹاک شو نے اس چھوٹی سے خبر کے اندر پوشیدہ ممکنہ ہولناک تباہی وبربادی کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ حکومت آزاد کشمیر کا نقطہ نظر حقائق پر مبنی نہیں ہے اور خطرے والی کوئی بات نہیں جس طرح کہ واپڈا کے ترجمان نے اپنے بیان میں وضاحت کردی ہے کہ اس کی وجہ لینڈ سلائیڈنگ ہے اور کچھ نہیں تب بھی اس حد تک تو ضروری اقدامات اٹھا لیے گئے ہوتے جو کہ اب تک نہیں اٹھائے گئے۔ اس مسئلے کی سنگینی کا جائزہ لیا جائے اور فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ جن خدشات کا اظہار وزیراعظم آزاد کشمیر نے اپنے خط میںکیا ہے وہ حقیقت کا روپ نا دھار سکیں۔

مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصہ پہلے جب پٹرول کا بحران آیا تو کرتا دھرتا لوگوں نے ایک دوسرے پر ذمے داری اں ڈالنا شروع کردیں۔گرمی کی شدت جس میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نے مزید اضافہ کردیا ہے نے ہزار سے زائد لوگوں کی جان لے لی، ہمارے کرتا دھرتا اس بحث میں مصروف ہوگئے کہ سانحے کی ذمے داری وفاقی حکومت پر ہے یا سندھ حکومت پر یہ تو ایک ہزار اموات تھیں کہیں خدانخوانستہ ایسا نا ہوکہ لاتعداد اموات اور تصور میں نا آسکنے والی پانی سے تباہی کے بعد ہم بحث کررہے ہوں کہ یہ حکومت آزاد کشمیرکا قصور تھا واپڈا کا یا وزارت پانی وبجلی کا ۔

بھارت میں مون سون شروع ہوچکا ہے ہمارے ہاں شروع ہونے والا ہے بھارت میں بارشوں کے باعث جنگلی حیات اس قدر متاثر ہوئی کہ نایاب قسم کے شیر سیلاب کے پانی میں بہہ کر ہلاک ہوگئے جس ممکنہ تباہی کے بارے میں اس خط کے ذریعے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے وہ جنگلی حیات کو برباد کرنے تک محدود نہیں رہی گی بلکہ اس سے ان گنت انسانی حیات نیست ونابود ہوجائے گی یہ اوپر سے برسنے والی بارش کے سیلاب کی طرح نہیں ہوگا جو کم ازکم سوچنے سمجھنے کا موقع تو دے دیتا ہے یہ زمینی پانی کا سیلاب ہوگا جو کسی سوچ سمجھ اور تدبیر کا موقع نہیں دے گا۔ بھٹو صاحب کے دور میں تربیلا ڈیم کی ایک سرنگ میں شگاف پڑنے کا اندیشہ بڑی گھناونی صورت اختیار کرگیا تھا۔ فوری طور پر ساری حکومت اور اس کے کُل پرزے حرکت میں آگئے تھے۔

جناب عبدالحفیظ پیرزادہ جو اس وقت مرکزی تعلیمی وزیر تھے جن کا واپڈا، پانی اور بجلی کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا وہ بھی روزانہ تربیلا ڈیم پہنچے ہوتے تھے یہی حال وزیر اعظم اور وزیروں کا ہوتا تھا کہ کیونکہ اس ممکنہ تباہی کے نتیجے میں کسی نے بھی نہیں بچنا تھا۔ فوری طور پر بین الاقوامی ماہرین طلب کر لیے گئے تھے ان فوری اقدامات کے باعث خدا کے فضل و کرم سے پاکستان تباہ ہونے سے بچ گیا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اُس وقت جس اطالوی انجینئر نے تربیلا ڈیم ڈیزائن کیا تھا اسے سرنگ میں شگاف کے پھیل جانے کے باعث ممکنہ تباہی کا اندازہ اور لوگوں کی نسبت زیادہ تھا۔ اس نے خود کو اس ممکنہ تباہی کا ذمے دار سمجھتے ہوئے تربیلا ڈیم ہی کے پانی میں کود کر خودکشی کرلی تھی کیونکہ وہ خود کو اپنے تئیں اسقدر بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے اتلاف کا ذمے دار سمجھ چکا تھا۔

خدا نہ کرے کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر کے خط میں درج کیے گئے خدشات درست ہوں اگر یہ خدشات درست نہیں بھی ہیں تو ان کے تدارک کے لیے کیے گئے اب تک انتہائی بے دلی سے خانہ پری کرنے والے اقدامات پانی و بجلی کے کرتا دھرتا لوگوں کی واضح غیر سنجیدگی کا ایک اور عملی مظاہرہ ہے۔ پاکستان میں بارشوں کا سلسلہ جلد شروع ہونے والا ہے ظاہر ہے اس کے نتیجے میں منگلا ڈیم کے اندر پانی کی سطح بلند ہونا شروع ہوجائے گی اور اس وقت تمام تر سنجیدگی اور دلچسپی کے باوجود رسنے والی جگہوں پر مرمت کا کام بے سود ثابت ہوسکتاہے۔ خدا ناخواستہ منگلا ڈیم کے پشتے ٹوٹنے سے جو تباہی اس بدنصیب ملک اور اس کے لوگوں پر پڑے گی وہ گزشتہ اڑسٹھ سالوں میں پڑنے والی تباہیوں اور بربادیوں کو بُھلا کر رکھ دیگی، اس تباہی اور بربادی کا فائدہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر بیٹھا بھارت بھرپور فائدہ اٹھانے میں ایک لمحہ بھی ضایع نہیں کرے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں