دیس میں نکلا ہوگا چاند پردیسیوں کی عید کا احوال

پردیسی عید پر بس یہی سوچتے ہیں کہ کسی طرح پر لگ جائیں اور وہ اُڑ کر اپنے اہل خانہ کے پاس پہنچ جائیں۔


فہیم زیدی July 19, 2015
جو تارکین وطن اہل خانہ کے ہمراہ عید نہیں منانے سکتے وہ دل پر پتھر رکھ کر اور خود پر جبر کرکے عید کے دن بمشکل گزارتے ہیں۔ فوٹو:اے ایف پی

KARACHI: عید کی آمد کے ساتھ ہی خوشیوں اور مسرتوں نے ہر سو ڈیرہ ڈال لیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے اور واقعی ہنستے مسکراتے، خوش لباس سجے سنورے بچوں کی خوشی اور شادمانی دیکھ کر یقین بھی آجاتا ہے کیونکہ اِن میں کسی قسم کی فکر، سوچ اور تردد نہیں ہوتا، بس ان بچوں کے اذہان میں عیدی ملنے، جدید طرز کے نئے ملبوسات اور مزے مزے کے پکوان اور گھر سے باہر آئسکریم اور چاٹ کھانے کا تصور ہی ان کے لئے عید کا مفہوم بن جاتا ہے اور بڑے ان بچوں کو خوش ہوتا دیکھ کر اپنی عید منا رہے ہوتے ہیں۔



یہ تو وہ لوگ ہیں جو اپنے گھر اور اپنے دیس میں ہوتے ہوئے اپنی عید کی خوشیوں کو دوبالا کرتے نظر آتے ہیں مگر ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اپنے پیاروں، اپنے گھر اور اپنے ملک سے دور سمندر پار عید مناتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے دلوں میں یقیناً تھوڑی بہت خلش ضرور موجود ہوتی ہے کہ کاش وہ بھی عید کے اِس پُرمسرت موقع پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہوتے اور اُن تمام تر کیفیات اور رعنائیوں کو براہ راست محسوس کرکے اپنی خوشیوں کااظہار کررہے ہوتے۔ پردیس میں بسنے والے پاکستانیوں کے لئے یہ لمحہ واقعی بڑا پُرکٹھن اور دشوار ہوتا ہے جب وہ مبادا غم اور خاص طور پر خوشی کے موقع پر اہل خانہ کے ہمراہ نہ ہوں اور وہ بے چینی اور تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں۔

لیکن اِس کے برخلاف ایسے وہ تارکین وطن جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ پردیس میں آباد ہوں تو وہ بہت حد تک قدرے مطمئن ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایسے مواقعوں پر قریبی رشتوں سے قریب ہوتے ہیں اور وہ ان لمحات سے مشترکہ طور پر محظوظ ہورہے ہوتے ہیں۔ مگر ایسے لوگوں کی تعداد محض بہت زیادہ نہیں جبکہ ایک بڑی تعداد یہاں اپنوں سے دور انفرادی حیثیت سے گزر بسر کرتی نظر آتی ہے اور ایسے مواقعوں پر اُن کا دل مغموم ہوجانا ایک فطری عمل ہے۔ ایسے تارکین وطن جو پردیس میں کسی بھی نمایاں حیثیت جیسے انجینئرز، ڈاکٹرز، صحافی اور بھی متعدد بڑے شعبوں سے وابستہ افراد جن کی آمدنی خاطر خواہ ہوتی ہے وہ تو ایسے موقع پر اپنے دیس اپنے اہل خانہ کے ساتھ عید جیسی خوشی منانے کے متحمل ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی اتنی ہوتی ہے کہ وہ ایسے موقعوں پر ان کو اپنے گھر کا سفر کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی بلکہ زیادہ تر ایسے لوگوں کے اہل خانہ خود ان کے اپنے ہمراہ ہی ہوتے ہیں تاہم وہ اپنے دیگر قریبی رشتوں کے ساتھ عید جیسی خوشی میں شامل ہونے کے لئے با آسانی اپنے اپنے وطن روانہ ہوجاتے ہیں۔

مگر دیارِ وطن میں ایسا طبقہ جن کو محنت کش طبقہ کہا جاتا ہے جن کی اپنی آمدنی اس قدر نہیں ہوتی جو ایسے مواقعوں پر اپنے اہل خانہ کے پاس جانے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہوں اور اگر ان میں سے کچھ ایسے لوگ جنھوں نے اپنی آمدنی کا کچھ حصہ پس پشت ڈال کر محفوظ بھی کر رکھا ہو اور وہ عید کے موقع پر گھر جانا بھی چاہتے ہوں تو کمپنیوں کی جانب سے کچھ شرائط اور پابندیاں ان کے پاؤں کی زنجیر نظر آتی ہیں اور وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی عید اپنے پیاروں سے دور پردیس میں منانے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ مگر ہم یہاں ذکر ایسے محنت کش طبقہ کا ضرور کرنا چاہیں گے جو اپنی محدود آمدنی کے باعث اپنے اہل خانہ کے ہمراہ عید منانے کے متحمل نہیں ہوپاتے اور وہ دل پر پتھر رکھ کر اور خود پر جبر کرکے یہ دن بمشکل گزار پاتے ہیں۔

ایسے لوگ زیادہ تر اجتماعی طور پر رہتے ہیں۔ ایک کمرے میں موجود چند افراد ہی آپس میں فیملی کی مانند ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ بس سال میں ایک دو بار عید کے موقع پر ان کی تفریح باہمی طور پر وہ ایک دوسرے کے ساتھ کہیں کسی طرف تفریح کی غرض سے نکل کر یا کسی ریسٹورنٹ پر کھانا کھانا ہی ہوتی ہے۔ یا پھر کمروں میں ٹی وی پر اپنے ملک کے چینلز پر عید کے مناظر دیکھ کر خوشی کے ساتھ ساتھ افسردگی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں اور دل میں فقط یہ خیال ہوتا ہے کہ کسی طرح پر لگ جائیں اور وہ اُڑ کر اپنے اہل خانہ کے پاس پہنچ کر عید اور دیگر تہواروں میں شریک ہوجائیں۔

اگرچہ ٹیکنالوجی کی جدت کے ساتھ فاصلوں میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ ماضی میں جہاں رابطہ کرنا انتہائی مشکل تھا، اُس کے برعکس اب انٹرنیٹ کی مدد سے جب دل چاہے، جتنا دل چاہے اہل خانہ سے بات کی جاسکتی ہے مگر اس کے باوجود یہ بات بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ تہواروں کے مواقعوں پر دل میں یہی ہوتا ہے کہ کاش ہم اس موقع پر اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ہوتے کیونکہ پردیس میں سب تہوار ہی ایک عام دن کی طرح گزر جاتے ہیں جن کی خوشی کا احساس اس طریقے سے نہیں ہوپاتا جس طرح اس تہوار کو منانے کا حق ہے۔''چاند رات'' کو بھی چاند آسمان پر دیکھنے کے بعد دل سے بس یہی ایک صدا بلند ہوتی ہے،
''ہم تو ہیں پردیس میں، دیس میں نکلا ہوگا چاند۔۔۔!''

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں