’’بڑا آدمی‘‘

دنیا نے ہنس کے جواب دیا کے جو مرد تھے انہوں نے ہاتھ تک نہ لگایا اور جو مرد نہ تھے وہ کوششوں میں لگے رہے۔


سب کچھ ہے میرے پاس مگر دل کا چین اور روح کا سکون نہیں ہے، پتا نہیں کہاں چوک ہوگئی ہے؟ فوٹو :فائل

ابّا مجھے بڑا آدمی بننا ہے، بہت بڑا۔ بہت پیسہ کمانا ہے، بہت شہرت و نام کمانا ہے اور بڑی کامیابی چاہیے MBBS کے آخری سال کے طالب علم اسلم نے اپنے ان پڑھ باپ سے کہا۔۔۔

نہ بیٹا نہ، ایسا نہیں کہتے۔ بھلا پیسوں، شہرت اور ڈگری کا بڑے آدمی بننے سے کیا تعلق؟

بوڑھے باپ نے سوال کیا۔

دیکھ بیٹا اسلم، یہ زندگی کا سفر ہے نا یہ بشر سے انسان کی طرف چلتا ہے، پھر انسان سے بندا بنتا ہے اور پھر بندے سے کامیاب آدمی اور ایسا آدمی بڑا ہوتا ہے۔

ابّا کچھ سمجھ نہیں آیا، اسلم نے کھوئی کھوئی آنکھوں سے پوچھا۔

بیٹا، بشر وہ ہے جس میں علم حاصل کرنے کی جستجو ہے (جانوروں میں نہیں ہوتی)، جو علم سیکھ لے وہ انسان ہوجاتا ہے (اور علم وہ جو اخلاقی اقدار سکھائے)، پھر جو اس علم کو سیکھ کر اس پر عمل کرلے وہ بندا بن جاتا ہے اور رب کی بندگی میں لگ جاتا ہے، بے شک بندگی سے بڑی سند اور کوئی نہیں اور جس کی یہ بندگی قبول ہوجائے وہ ہوتا ہے کامیاب اور بڑا آدمی۔ حشر میں الله آپکو دیکھ کر مسکرائے اور آپ الله کو دیکھ کر، یہ ہوتی ہے اصل کامیابی اور ایسی کے جس پر فخر کیا جا سکے۔ آدمی جب بڑا ہوتا ہے تو دنیا چھوٹی ہو جاتی ہے۔

اسلم نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے باپ کی بات کو بیچ میں سے کاٹا۔

ابّا تو چھوڑ ان فالتو باتوں کو، میں ڈاکٹر بن کے ڈھیر سارا پیسہ کماؤنگا، اس پیشے میں بہت منافع ہے، پھر تجھے یہ دوپٹے رنگنے کا کام نہیں کرنا پڑے گا۔

نہ بیٹا نہ، ڈاکٹری پیشہ نہیں خدمت ہے اور خدمت میں نظر ماوضہ پر نہیں ہوتی۔ بندا تو بس اپنی سی کوشش کرکے اپنے آپ کو باری تعالیٰ کے حضور پیش ہی کرسکتا ہے۔ چناؤ تو وہاں سے ہوتا ہے۔ الله بڑا قدردان ہے۔ اس کی دی ہوئی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرو تو وہ اور نوازے گا۔ بیٹا تو بس دعا مانگنا سیکھ لے، دعا پکار کو کہتے ہیں، ایک دہائی ہے، نام جپنا ہے اور دعا کے اول و آخر میں شکر ملا لے کے الله سبحانہ و تعالیٰ شکر گزار کو سزا نہیں دیتے بلکہ نواز دیتے ہیں۔

اسلم نے پھر بات اچک لی، ابّا اس دنیا کو تو میں اپنے پاؤں تلے روند کے دکھاؤنگا، میرے میں صلاحیتیں ہیں، عقل ہے، جنون ہے، کچھ کر دکھانے کی لگن ہے، سب سے آگے نکل جانے کا جذبہ ہے، ایک ویژن ہے، نظم و ضبط ہے، حاضر جوابی ہے۔

نہ بیٹا نہ، حاضر جواب لوگ تو بے وقوف ہوتے ہیں، جسے الله کا ڈر ہو وہ بھلا حاضر جواب کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ تو کئی بار سوچے گا بولنے سے پہلے اور یہ جو دنیا ہے یہ کسی کی نہ ہوئی اور کسی سے نہ روندی گئی۔ یہ تو ایک آزمائش ہے۔ کسی بزرگ نے دنیا کو خواب میں دیکھا تو وہ کنواری لڑکی کی شکل میں نظر آئی۔ انہوں نے تعجب سے پوچھا کے تو ابھی تک کوری پتے میں ہی ہے؟ دنیا نے ہنس کے جواب دیا کے جو مرد تھے انہوں نے ہاتھ تک نہ لگایا اور جو مرد نہ تھے وہ کوششوں میں لگے رہے۔

اسلم پر ان باتوں کا کیا اثر ہوتا، زندگی کے اگلے 30 سال وہ اپنے کہے کو سچ ثابت کرنے میں جتا رہا اور بوڑھا باپ دوپٹے رنگتا رہا۔

آج بوڑھے باپ کا آخری وقت ہے، اسلم سرہانے بیٹھا ہے، کہنے لگا ابّا سب کچھ ہے میرے پاس مگر دل کا چین اور روح کا سکون نہیں ہے، پتا نہیں کہاں چوک ہوگئی ہے؟

کچھ نہیں بیٹا، بس تیرے رنگ بکھر گئے ہیں، کبھی کپڑا بننے سے پہلے بھی کوئی رنگ چڑھتا ہے؟ رنگ تو بندے پر چڑھتا ہے۔ بندگی کی بناوٹ پوری ہوجائے تو پھر جو چاہو رنگ چڑھا دو ورنہ سب اکارت ہوجاتا ہے۔

بیٹا ایک آخری بات سن لے

بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جسے معلوم ہو کہ وہ سب سے چھوٹا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں