ہمارے افسانہ ساز مؤرخین
ایران کے دارلحکومت تہران کے ایک جانب بلند وبالا پہاڑ البرز کے اس پار ایک انتہائی خوبصورت خطہ ہے
ایران کے دارلحکومت تہران کے ایک جانب بلند وبالا پہاڑ البرز کے اس پار ایک انتہائی خوبصورت خطہ ہے جسے مازندران کہتے ہیں ۔ ماضی میں اسے طبرستان کہتے تھے۔ یہ خطہ انتہائی سرسبز ہے اور البرز پہاڑ سے کیسپئن سمندر تک پھیلا ہوا ہے۔ کیسپئن جسے ایرانی دریائے خذر کہتے ہیں،وسطی ایشیاء کے کئی ممالک کے درمیان ایک بہت بڑا جھیل نما سمندر ہے۔
یہاں سے بخارات اٹھتے ہیں، بادل بنتے ہیں ، البرز کی بلندیوں سے ٹکراتے ہیں اور مازندران کے علاقے کو سرسبز و شاداب بناتے ہیں۔ کیسپئن سمندر کے ساحل کے ساتھ ساتھ ہر ملک نے ایک خوبصورت سڑک تعمیر کی ہے جس پر ہر چند کلو میٹر کے فاصلے پر سیر و تفریح کے لیے خوبصورت آبادیاں موجود ہیں۔ ایسی ہی ایک چھوٹی سی خوبصورت آبادی "امول" میں گیارہ سو سال قبل 838 عیسوی میں مسلمانوں کی تاریخ مرتب کرنے والا ایک فرد پیدا ہوا۔ والدین نے اس کا نام محمد رکھا، اس کے والد کا نام جریر اور دادا کا نام یزید تھا، ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید۔ لیکن دنیا اسے اپنے علاقے طبرستان کے حوالے سے الطبری کے طور پر جانتی ہے۔
اس نے سات سال کی عمر میں قرآنِ پاک حفظ کیا اور بارہ سال کی عمر میں اپنے گھر سے قصبہ رے موجودہ تہران میں مشہور مفسر الرازی سے درس لینے گیا۔ رازی اسوقت بہت ضعیف العمر ہو چکے تھے۔ تقریباً پانچ سال بعد وہ بغداد چلا گیا۔وہاںامام احمد بن حنبل کا بہت شہرہ تھا۔اسلامی تاریخ میں معتزلہ کے فتنے کے مقابلے میں جس قدر صعوبتیں اور تشدد امام احمد بن حنبل نے برداشت کیا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ لیکن طبری کے بغداد پہنچنے سے پہلے ہی امام احمدبن حنبل خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ طبری نے ان کے شاگردوں سے فقہ کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد شافعی مسلک کے استادوں سے بھی پڑھا۔ اس کے بعد وہ شام، فلسطین اور مصر چلا گیااور وہاں شیعہ اور اسماعیلی علماء سے کسبِ فیض کیا۔طبری بغداد واپس آیا تو بغداد پر عباسی خلیفہ المعتضدکی حکومت تھی۔
اسوقت طبری کی عمر پچاس سال ہو چکی تھی۔ طبری دربار سے وابستہ تو نہ ہوا لیکن اس کے خیالات عباسی خلفاء کے معتزلی خیالات سے ہم آہنگ ہوتے چلے گئے اور پھر اس نے اپنی فقہہ اور اپنے مسلک کی بنیاد رکھی جسے ـــ 'الجریری' کہا جاتا ہے۔ یہ مسلک اس کی موت کے فوراً بعد ہی دم توڑ گیا۔ اسلامی تاریخ میں امام احمد بن حنبل کا تمام مسالک میں احترام پایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ مسئلہ خلق قرآن پر استقامت نہ دکھاتے تو آج اسلامی علم کی میراث ہی مختلف ہوتی۔ معتزلہ کا فتنہ پرداز قرآن کو مخلوق ثابت کرنا چاہتے تھے جس کا مقصد یہ تھا کہ اگر ایک دفعہ اس امت نے قرآن کو مخلوق مان لیا توپھر جس طرح ہر مخلوق میں تبدیلی کی جا سکتی ہے ویسے قرآن میں بھی وقت اور حالات کے مطابق تبدیلی کی جا سکے گی۔
امام احمد بن حنبل کی بصیرت اور قربانی نے اس امت کو اس فتنے سے محفوظ رکھا۔ اسلامی تاریخ میں امام احمد بن حنبل کا واحد ناقد اور مخالف محمد بن جریر الطبری نظر آتا ہے۔ یہ اس قدر مخالف تھا کہ عباسی خلفاء کے دور میں لوگ نفرت کے طور پر گزرتے ہوئے اس کے گھر پر پتھر پھینکا کرتے تھے۔ لوگوں کی مخالفت اسقدر بڑھی کہ عباسی خلفاء نے ایسے لوگوں کو قید میں ڈالنا اور کوڑے مارنا شروع کر دیا جو طبری کو برا بھلا کہتے تھے۔ 17 فروری923 ء کو وہ انتقال کر گیااور عباسیوں نے اسے کسی خفیہ مقام پر دفن کر دیا تاکہ لوگ اس کی قبر کی بے حرمتی نہ کریں۔
ایران جیسے علاقے میں پیدا ہونے کے باوجود طبری کا رنگ کافی سیاہی مائل تھا، بڑی بڑی آنکھیں، لمبا قد، چھریرا بدن، اس نے لمبی داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ صحت کی حفاظت کے لیے گوشت اور چربی وغیرہ نہیں کھاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ موت تک اس کی داڑھی میں سفید بال نہیں آئے تھے۔ستر سال کی عمر میں اس نے اپنی مشہور اور متنازعہ ترین 'تاریخ الرسل و الملوک' لکھی۔ یہ وہ تاریخ ہے جس کے مندرجات آج تک امتِ مسلمہ میں فتنہ و فساد اور فرقہ بندی و نفرت کا باعث بنے ہوئے ہیں۔اور مغرب کے سیکولر انھیں ہتھیار بنا کر ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
طبری مغرب کے اسلام دشمنوں کا محبوب مؤرخ ہے۔ شروع شروع میں جب یورپ میں تحریک احیائے علوم شروع ہوئی تو عیسائی چرچ نے باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت اپنے زیرِاثر کچھ مؤرخین کو اسلام کی تاریخ اور اسلامی کتب کے ترجمے کی ذمے داری سونپی۔ انھوں نے سب سے پہلے الیگزینڈر پاگا نینی کا قرآن کا ترجمہ 1537 ء میں شایع کیا۔ اس ترجمے میں جان بوجھ کر ایسی غلطیاں کیں جن سے قرآنی آیات کے مطالب بدل جاتے تھے۔ترجمے کو ایک خاص مقصد کے تحت استنبول برآمدکیا گیا۔
پاگا نینی جب اسے لے کر خلیفہ کے پاس پہنچا تو وہ سخت غصے میں آ گیا اور اس نے اسے تلف کرنے کا حکم دے دیا۔اس کے تمام نسخے جلا دیے گئے لیکن پھر بھی اس وقت دنیا میں اس تحریف شدہ قرآن کے آٹھ نسخے موجود ہیں جن میں سے دو برٹش میوزیم میں رکھے ہوئے ہیں۔ اس تحریف شدہ قرآنی ترجمے کے ساتھ ساتھ دوسری کتاب جو مغرب کے ان متعصب اور بدنیت لوگوں نے عیسائی چرچ کی سربراہی میں ترجمہ کر کے چھاپی وہ تاریخ طبری تھی۔
طبری کی تاریخ چھاپنے کی ایسی کیا ضرورت محسوس کی گئی۔ اس کے پیچھے کونسے ایسے مقاصد تھے۔ اس تاریخ میں ایسا کیا درج تھا کہ مغرب کے ان متعصب تاریخ دانوں کے ہاتھ میں آگیا اور پھر وہ آج تک اسلام اور مسلمانوں کو اپنا تختہء مشق بنائے ہوئے ہیں۔ طبری اور اس قبیل کے کئی مؤرخین ہیں جنھوں نے من گھڑت، جھوٹے اور بیہودہ افسانوی قصوں کو مسلمانوں کی تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ان قصوں کی نہ تو وہ کوئی سند دیتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس ان کے ماخذ کا کوئی علم ہے۔ خود طبری نے اپنے دیباچے میں لکھا ہے " میں نے اس کتاب میں وہی کچھ لکھا ہے جو میں نے سنا ہے یا مجھے بتایا گیا ہے۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر اس کتاب میں میں نے ماضی کے کسی آدمی یا واقعہ کا ذکر کیا ہے اور پڑھنے اور سننے والا اس کو قابلِ اعتراض یا تنقید و تردید کے قابل سمجھے تو یاد رہے کہ میں نے وہی کچھ لکھا ہے جو مجھے بتایا گیا ہے۔
" جس کتاب کو بازاری قصوں کی کتاب ہونا چاہیے تھی اسے مستند ترین تاریخ سمجھ کر یورپ نے پیش کیا۔ طبری عام مسلمانوں کی بات کرتا توبرداشت تھا لیکن اس نے تو سیدالانبیاء ﷺ کی ذات کے بارے میں بھی دو عدد من گھڑت قصے اسقدر فضول اور بیہودہ انداز میں تحریر کیے ہیں کہ انھیں درج کرنے کی بھی ہمت نہیں پاتا۔ ان دونوں فضول قصوں کا نہ کہیں قرآن میں ذکر ہے اور نہ ہی احادیث کی کتابوں میں۔ لیکن طبری نے اپنے ذہن کی غلاظت کو تاریخ کی چاشنی بنا کر پیش کیا ہے۔طبری کے تحریر کردہ قصوں کو ولیم میؤر سے لے کر میکس ویبر، جرجی زیدان، منٹگمری واٹ اور موجودہ مؤرخین ایسے پیش کرتے ہیں جیسے اصل سچ یہی ہے۔ مقصد صرف مسلمانوں کی سب سے قابلِ احترام شخصیات کے بارے میں فتنہ کھڑا کرنا۔ اس لیے کہ پوری تاریخِ طبری صحابہ سے لے کر عباسی دور تک ایسے افسانوں سے بھری ہوئی ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے تمام افسانے، من گھڑت قصے جن میں اختلاف کی بو آتی ہو، مسلمانوں کے کردار کی خرابی نظر آئے۔ سب طبری اور اسی قبیل کے مؤرخین کی ایجادات ہیں اور یہ مؤرخین مغرب اور اس کے سیکولر حواریوں کو بہت محبوب ہیں۔گزشتہ چھ سو سال سے یہ مغربی مؤرخین اسلام پر کتابیں تحریر کر رہے ہیں لیکن کوئی قرآن کی تعلیمات کا ذکر نہیں کرتا۔ کوئی حدیث کی کتابوں سے معلومات نہیں لیتا۔ سب جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں مسلمانوں نے حدیث کی احتیاط کے سلسلہ میں اسماء الرجال کا ایک علم ایجاد کیا جو تاریخ کو مستند بناتا ہے۔
لیکن چونکہ مسئلہ تذلیل اور امت کی تذلیل ہے اس لیے جھوٹی افسانوی تاریخ کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس امت کی پانچ فقہوں میں دین کے نافذالعمل اصولوں پر ذرا برابر اختلاف نہیں۔ شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی سب سود کو حرام، زنا پر سنگسار، چوری پر ہاتھ کاٹنا، جھوٹ، غیبت، وعدہ خلافی کو گناہ سمجھتے ہیں۔ سب پانچ نمازوں، ان کے اوقات، تیس روزوں، حج اور زکوۃ پر متفق ہیں۔ کوئی اس کا ذکر نہیں کرے گا۔ تاریخ اٹھائے گا جو جھوٹے من گھڑت قصے کہانیوں پر مبنی ہے اور اس امت کے سارے جھگڑے تاریخ سے جنم لیتے ہیں۔ اور اسے ہوا دینے میں ان تمام مستشرقین کا دخل ہے جو ہمارے خیر خواہ بن کر ہم پر کتابیں لکھتے رہے اور ہمارے تابناک ماضی کو زہر آلود کرتے رہے۔