سو سال سے جاری جنگ قسط چہارم
ترکی کے لیے یہ ناقص فوجی مہم جوئی ایک بہت بڑا عسکری صدمہ تھا۔
لاہور:
گذشتہ مضمون میں تذکرہ ہو ہو چکا ہے کہ جنگِ عظیم اول کا آغاز ہوتے ہی جرمن ترک اتحاد نے فرض کرلیا کہ عثمانی سلطانِ معظم کی جانب سے جہاد کا فتویٰ جاری ہوتے ہی شمالی افریقہ کی مسلمان نوآبادیاں اپنے یورپی آقاؤں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں گی اور یوں ہمیں مختصر وقت میں فتح نصیب ہوجائے گی۔ برطانیہ اور فرانس کی مسلمان کالونیاںتو خیر کیا بغاوت کرتیں۔الٹا عثمانی حکمران اپنی غیر ترک رعایا کی وفاداری کی بابت شکوک میں مبتلا ہوتے چلے گئے اور مشکوک رعایا کو ساتھ رکھنے کے لیے دل جیتنے کے بجائے سختیوں کا سہارا لیا گیا اور یہی سختیاں وہ دلدل بن گئی جس میں پھنس کے چار سو سالہ سلطنتِ عثمانیہ کو غائب ہونے میں بس چار برس لگے۔ ظاہر ہے ان حالات کا برطانیہ اور فرانس نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔اور کیوں نہ اٹھاتے۔محبت اور جنگ میں تو سب جائز ہی ہوتا ہے۔
مثلاً شریف مکہ حسین ابنِ علی ہوں یا بلادِ شام کے عرب قوم پرست۔ سب کا خیال تھا کہ ترکی اگر جنگ میں کودا تو ہاتھیوں کی لڑائی میں بڑا نقصان عرب گھاس کا ہوگا۔جنگ میں عثمانی سلطان کی جانب سے کودنے کے یکطرفہ فیصلے نے عرب قوم پرستوں کی سیاسی محرومی کو بے چینی میں بدل دیا۔وہ پہلے ہی استنبول میں برسرِ اقتدار ینگ ٹرکس کی جانب سے سیاسی اصلاحات اور غیر مرکزیت کے وعدے انیس سو آٹھ کے بعد سے مسلسل ملتوی ہونے پر تپے بیٹھے تھے اور اب تو یہ وعدے اور امیدیں جنگ کی زد میں آ چکے تھے۔عثمانی اسٹیبلشمنٹ قوم پرستوں کی بے چینی کے اسباب پر غور کرنے اور تحمل سے نمٹنے کے راستے تلاش کرنے کے بجائے ترنت اس نتیجے پر پہنچی کہ ہو نہ ہو اس نازک موقع پر عربوں کو یہ پٹی سلطنت کے حصے بخرے کرنے کے خواہش مند برطانیہ اور فرانس نے پڑھائی ہے۔
نومبر انیس سو چودہ میں جنگ میں ترکی کی شمولیت کے صرف دس روز بعد بحریہ کے سخت گیر وزیر جمال پاشا کو بلادِ شام ( موجودہ شام ، لبنان ، اردن ، فلسطین ) کا گورنر بنا کے بھیجا گیا۔اسے یہ ذمے داری بھی دی گئی کہ اندرونی بے چینی کو دبانے کے ساتھ ساتھ مصر کو بھی برطانیہ سے واپس لے جو گذشتہ تین عشروں سے برطانیہ کے زیرِ اثر ایک رسمی عثمانی صوبہ بن کے رہ گیا تھا۔جمال پاشا نے مصر پر فوج کشی ضرور کی مگر بغیر جنگ کے پسپا ہونا پڑا۔لیکن اس ناکامی کا الزام عرب سپاہیوں کی غداری پر دھر دیا گیا۔
عربوں کی نگاہ سے دیکھا جائے تو گورنر جمال پاشا کادور بدعنوانیوں ، مخبری ، قحط سالی اور تشدد کا تاریک زمانہ تھا۔لبنانی مورخ ایسام خلف کے بقول قوم پرستوں سے ناطے کا جس جس پیذرا بھی شک ہوا دھر لیا گیا۔اس دور کی عثمانی ڈکشنری میں عرب قوم پرست اور برطانیہ و فرانس کا ایجنٹ ایک برابر تھا۔ ہزاروں عرب جلا وطن ہوئے یا زیرِِ زمین چلے گئے۔ سیکڑوں کو طویل قید سنائی گئی۔حیفہ ، بیروت اور دمشق میں بتیس عرب سیاسی کارکنوں اور دانشوروں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ گویا عرب انٹیلی جینشیا کے خلاف اعلانِ جنگ ہوگیا۔( جمال پاشا کا یہ طرزِ حکمرانی آج تک تک بیشتر عرب قیادت کا منشور بنا ہوا ہے )۔
مگر جنگ صرف عرب قوم پرستوں پر ہی مصیبت نہیں لائی۔جبر اور جنگ کی فضا میں ہر سیر بھر گیہوں کے ساتھ من بھر گھن بھی تو پستا ہے۔پہلی عالمی جنگ میں اگر آبادی وار متاثرین کو دیکھا جائے تو جرمن سلطنت کی نو فیصد ، سلطنتِ فرانس کی گیارہ فیصد اور سلطنتِ عثمانیہ کی لگ بھگ بیس تا پچیس فیصد آبادی جنگی صعوبتوں کا نشانہ بنی۔
مثلاً عثمانی بلادِ شام میں لبنان کے خطے کو ہی لے لیجیے۔صرف چار برس میں وہاں کی ایک تہائی آبادی مر گئی اور ایک تہائی دربدر ہوگئی۔اقتصادی ناکہ بندی کے سبب چونکہ بیرونِ ملک مقیم لبنانی گھر پیسے نہیں بھیج سکتے تھے لہذا قلیل خوراک کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں نے گاؤں کے گاؤںبھک مری اور قحط میں فنا کردیے۔کئی علاقوں میں نوبت عصمت فروشی تک آ گئی۔ سیر بھر غلے کے لیے مہاجن زمین کے کاغذات گروی رکھنے لگے۔ ایک لبنانی خاتون میمونہ الامین کا انتقال حال ہی میں ایک سو ایک برس کی عمر میں ہوا۔میمونہ نے بتایاکہ '' ایک بار میری ماں نے سونے کی بالیاں دے کر مٹھی بھر آٹا لیا۔ہم لوگ اپنا پہاڑی گھر چھوڑ کے خوراک کی تلاش میں جنگلات میں آ گئے۔وہاں ہم جیسے بے آسرا خاندان گھاس میں تھوڑا سا آٹا ملا کر روٹی سی بنا لیتے۔ بہت سے بچے یہ غذا برداشت نہ کر پاتے اور سامنے سامنے جان دے دیتے ''۔
جنگ سے پہلے عرب نوجوان خوشی خوشی عثمانی سپاہ میں بھرتی ہوتے تھے لیکن جب اسٹیبلشمنٹ نے لوگوں کو پکڑ پکڑ کے بھرتی کرنا شروع کیا تو بہت سے جوان زنانہ کپڑوں میں فرار ہونے لگے۔
برطانویوں کا خیال تھا کہ میسو پوٹامیا ( عراق ) نہ صرف لندن اور ہندوستان کے درمیان زمینی راہداری کی کنجی ہے بلکہ دفاعی لحاظ سے یہ جنوبی صوبہ عثمانیوں کی فوجی کمزوری بھی ہے۔ اگر اس پر قبضہ ہوجائے اور دوسری جانب مصر میں موجود برطانوی سپاہ آگے بڑھ کے فلسطین کے راستے دمشق تک پہنچ جائے تو سلطنتِ عثمانیہ کی کہانی ختم۔
برطانوی فوج نے انیس سو سولہ میں بصرہ کی جانب سے ہلا بولا اور قریباً چھ لاکھ سپاہ ( جس میں ہندوستانی سپاہیوں کی اکثریت تھی ) کو عراق سر کرنے کے لیے مختص کیا۔مگر انگریزی اندازے غلط ثابت ہوئے اور قوت الامارہ کی لڑائی میں عثمانیوں نے ڈیڑھ لاکھ انگریزی سپاہ کی طبیعت صاف کردی۔ انگریزی فوج کے جتنے ہندوستانی سپاہی ہلاک و زخمی ہوئے اتنے ہی جنگی قیدی بھی بنے اور پھر ان جنگی قیدیوں کو ہنکال کے ولائت ِموصل اور شام کی جانب لے جایا گیا۔کچھ راستے میں مرے اور باقیوں کو جنگی بیگار پر لگا دیا گیا۔ہندوستانی انگریزی سپاہ کا ایک بڑا حصہ ہیضے ، ملیریا اور جوؤں سے پھیلنے والے ٹائفس سے بھی متاثر ہوا اور پھر ان امراض نے عام عراقیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جتنی انگریزی سپاہ بیماریوں سے ہلاک ہوئی اتنے ہی عراقی بھی ان سے لگنے والی وباؤں کا رزق ہوئے۔جو عراقی اس ابتلا سے بھاگ کر ملک کے شمال اور پھر کاکیشیا تک پہنچے وہ زادِ راہ میں ٹائفس اور دست کی بیماریاں بھی لے گئے اور انھیں نئے میزبانوں تک بھی پہنچا دیا۔
سلطنتِ عثمانیہ کو دوسرا دھکا مشرق کی جانب سے لگا۔مگر یہ دھکے سے زیادہ ''خود کردہ را علاج نیست '' والامعاملہ تھا۔ اٹھارہ سو اٹہترمیں روسیوں نے سلطنتِ عثمانیہ کی لاغری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آرمینیا اور مشرقی اناطولیہ کا کچھ حصہ چھین لیا۔جب نومبرانیس سو چودہ میں ترکی عالمی جنگ کا حصہ بنا تو وزیرِ جنگ انور پاشا نے روس سے یہ علاقے واپس لینے کے لیے موقع غنیمت جانا۔انور کے اتحادی جرمنوں کو اس پر بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا کیونکہ اگر ترکی روسی فوجوں کا ایک بڑا حصہ آرمینیا اور مشرقی اناطولیہ کے پہاڑوں میں پھنسا لے تو یورپی محاذ پر روس کی قوت اور توجہ بٹ جائے گی اور اس کا فائدہ بہرحال جرمنی کو ہی ہوگا۔جب کہ انور پاشا کا تجزیہ یہ تھا کہ چونکہ روس کا بنیادی دھیان یورپ میں جرمن فوجی ہوے کی جانب ہے لہذا اگر ترک سپاہ مشرقی محاز پر اچانک فوج کشی کر دے تو کم ازکم جانی نقصان کے ساتھ پرانا علاقہ واگذار ہو سکتا ہے۔
اور پھر انور پاشا نے عین انیس سو پندرہ کے موسمِ سرما میں یہ سوچ کر جنگی نقارہ بجا دیا کہ برفباری سے بند راستوں کے سبب روسی بروقت اضافی کمک نہیں پہنچا سکیں گے۔ (کچھ ایسی ہی بات اٹھارہ سو چار میں نپولین نے بھی روس میں گھستے سمے سوچی تھی اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ اس مغالطے کی نپولین نے کیا قیمت چکائی)۔ انور پاشا نے موسمیاتی مفروضے پر جو ہاتھ دشمن کے ساتھ کرنا چاہا وہ ہاتھ الٹا ترکی کے ساتھ ہو گیا۔سرپرائیز اٹیک کے چکر میں جب ترک تھرڈ آرمی عجلت میں مشرقی اناطولیہ کی جانب روانہ کی گئی تو نہ ہی مناسب ہتھیار تھے اور نہ موسم کی سختیاں جھیلنے کے لیے مناسب وردیاں اور جوتے۔ جب یہ تھکی ہاری سپاہ سرکامش کے مقام پر روسیوں کے مقابل آئی تب تک سرد موسم اور ٹائفس ساٹھ ہزار ترک فوجی کھا چکا تھا اور بقیہ سپاہ روسیوں کے لیے بچوں کا کھیل تھی۔( اس مہم کے ٹھیک تیس برس بعد ہٹلر نے بھی روس پر یہی سوچ کے فوج کشی کی جو نپولین اور پھر انور پاشا بھگت چکا تھا )۔
ترکی کے لیے یہ ناقص فوجی مہم جوئی ایک بہت بڑا عسکری صدمہ تھا۔مگر انور پاشا کا کوئی بال بیکا نہ ہوا اور مہم کی ناکامی کا تمام الزام مشرقی اناطولیہ میں آباد آرمینائیوں کی مبینہ غداری پر جڑ دیا گیا۔اپریل انیس سو پندرہ میں ترکی میں آباد غدار آرمینیائی شہریوں سے بدلے کی مہم شروع ہوئی۔مرد یا تو مار دیے گئے یا پھر بیگار کے لیے لیبر بٹالینوں میں بھیج دیے گئے۔بوڑھوں ، عورتوں اور بچوں کو گھروں سے اکھاڑ کے بلادِ شام کی جانب پاپیادہ ہانک دیا گیا۔بہت سے راستے میں ہی مر گئے۔الغرض لگ بھگ ڈیڑھ برس میں آٹھ لاکھ آرمینیائی موت سے ہم کنار اور ایک ملین دربدر ہوئے۔اس ٹریجڈی کے ہدائت کار وزیرِ داخلہ طلعت پاشا نے حکومت کو بری الزمہ قرار دیتے ہوئے کہا ''روسیوں نے کاکیشیا کے مسلمانوں کو ترکی میں دھکیلا تو ہم نے آرمینیائیوں کو شام میں دھکیل دیا ''۔
اور عین اس وقت مشرقِ وسطی کے میدانوں سے دور بہت دور ایک بند کمرے میں دو افراد اس یقین کے ساتھ نقشہ بچھا کے اس پے سرخ اور نیلی لکیریں لگا رہے تھے کہ جب سلطنتِ عثمانیہ ختم ہوگی تو ترکہ کیسے اور کنہیں کنہیں بٹے گا۔ ( داستان جاری ہے )۔
(وسعت اللہ خان کے دیگرکالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پرکلک کیجیے )