قیامت خیزگرمی قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع
حالیہ دنوں میں پڑوسی ملک بھارت میں بھی شدید گرمی پڑی ، جس میں کئی ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
لاہور:
گرمی بلاشبہ ایک قدرتی آفت ہے اور دنیا کے متعدد ممالک میں گرمی سے ہلاکتوں کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پڑوسی ملک بھارت میں بھی شدید گرمی پڑی ، جس میں کئی ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ایسی قدرتی آفات کے مواقعے پر حکومتی اداروں اور فلاحی تنظیموں کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے اور ان کی کارکردگی کی بدولت متاثرین کی مشکلات میں کمی لائی جاسکتی ہے لیکن ہمارے ملک کی یہ بدنصیبی ہے کہ ایسے موقعے پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ شروع کردی جاتی ہے اورکوئی شخص یا ادارہ کسی قسم کی ذمے داری قبول کرنے کے بجائے سب ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے لگتے ہیں۔ باالفاظ دیگر باظاہر قتل کے کیس کو بلوے کا کیس بنادیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہر شخص اپنی ذمے داری سے آزاد ہوجاتا ہے جب گرمی شدت کی تھی تو سندھ حکومت کے دوسرے اداروں کے علاوہ خود وزیر اعلیٰ بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ اور کے الیکٹرک کو مورد الزام ٹھہراتے رہے ۔
پھر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ، محکمہ موسمیات اور بعض دوسرے اداروں کی کارکردگی بھی موضوع بحث رہی۔ اس کے علاوہ اسپتالوں میں لولگنے سے متاثرہ افراد کو ناکافی طبی سہولتوں کی شکایات بھی سامنے آئیں۔ حکومت سندھ نے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی قیادت میں احتجاجی دھرنا بھی دیا، جو سوائے فوٹو سیشن کے کچھ نہیں تھا۔ اتنے بڑے سانحے پر اس قسم کی سرگرمی مضحکہ خیز محسوس ہوتی ہے۔
سندھ حکومت گرمی کی لہر سے متاثرہ لوگوں پر توجہ دینے کے بجائے مسلسل وفاقی حکومت سے الجھتی رہی۔ تھر میں بھوک، قحط یا بیماریوں سے ہلاکتیں ہوں یا پھر کراچی میں گرمی سے 12 سو سے زائد افراد جاں بحق ہوجائیں صوبائی حکومت کسی المیے کی ذمے داری قبول نہیں کرتی اور اس قسم کے سانحات سے نمٹنے کے لیے نہ ہی سنجیدہ اقدامات کرتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اپنے صوبائی اداروں کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق بنانا ہوگا۔
ان اداروں کو کرپشن دیمک کی طرح کھا رہی ہے۔ سرکاری انتظامیہ کے مقاصدکچھ بھی ہوں لیکن عوامی مفادات کے منصوبے اور فلاحی پراجیکٹ صوبائی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ عوام مرتے ہیں تو مرجائیں احتجاج کرتے ہیں توکرتے رہیں بجلی اور پانی جیسے مسائل ایک عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنادیں لیکن سندھ حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور قائم علی شاہ 7 سال سے وزیراعلیٰ ہیں لیکن ان کے دور حکومت میں کوئی قابل ذکر عوامی منصوبہ نہیں بنایا گیا۔
سندھ کے عوام کی حالات پہلے سے بھی بدتر ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، بجلی، پانی، گیس، بیروزگاری، غربت اور لاقانونیت ان کے دورکی خصوصیات تصور کی جاسکتی ہیں۔ کروڑوں کے آبادی والے شہرکراچی میں شہری ٹرانسپورٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔ سرکاری ادارے کرپشن کا گڑھ بن چکے ہیں اور نیب کی کارروائی کے خوف سے بدعنوان سرکاری افسران ملک سے فرار ہورہے ہیں۔ ایسی حکومت سے ایک عام شہری کیا توقعات وابستہ کرسکتا ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سندھ حکومت گرمی سے ہلاکتوں کی ذمے دار کے الیکٹرک کو قرار دیتی رہی۔ بلاشبہ کے الیکٹرک کی کارکردگی سے کراچی کے عوام قطعی مطمئن نہیں۔ اس سانحے کے دوران لوگ کے الیکٹرک کو بددعائیں دیتے رہے۔
وزیر مملکت عابد شیر علی نے کہا تھا کہ اگر کے الیکٹرک نے اپنی کارکردگی کو بہتر نہیں بنایا تو اسے قومی تحویل میں بھی لیا جاسکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ کے الیکٹرک کی مایوس کن کارکردگی کے باعث اب سنجیدگی سے اس ادارے کو قومی ملکیت میں لینے پر غور کرنا چاہیے۔ دراصل گرمی سے ہلاکتیں اتنی نہیں ہوتیں جتنی ہوگئیں اور ایسا اس لیے ہوا کہ شدید گرمی اور حبس میں بجلی غائب ہوگئی اور لوگ گرمی سے بری طرح متاثر ہونے لگے۔ اگر شہر میں بڑے پیمانے پر بجلی موجود ہوتی تو بیشتر لوگوں کی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔
بجلی غائب ہونے سے پانی کا نظام بھی متاثر ہوا۔ شدید گرمی سے کراچی ہی نہیں اندرون سندھ میں بھی کئی شہروں میں متعدد افراد جاں بحق ہوئے اور ہزاروں مریضوں کو اسپتال علاج و معالجے کے لیے لایا گیا۔ کراچی میں گرمی سے 1200 سے زائد افراد کے جاں بحق اور تقریباً کئی ہزار افراد کے متاثر ہونے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ وزیرِ اعظم نوازشریف کراچی کا دورۂ ضرور کریں گے۔ توقع کے مطابق وزیر اعظم نوازشریف نے گزشتہ دنوں کراچی کا دورہ کیا اور وزیر اعلیٰ ہاؤس میں اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی۔ اس موقعے پر وزیر اعظم نے واضح طور پر ہدایت کی کہ شہریوں کی ہلاکت کے ذمے دار افراد اور اداروں کا کڑا احتساب کیا جائے اور متاثرہ خاندانوں کی مدد کے لیے فوری تحقیقات کرائی جائیں اور جامع رپورٹ مرتب کرکے ان کی نشاندہی کی جائے تاکہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
وزیر اعظم نے خیال ظاہر کیا کہ ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مشترکہ حکمت اختیارکرنا ہوگی۔وزیر اعظم میاں نوازشریف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ آیندہ کسی بھی قدرتی آفت یا ہنگامی صورتحال کے مقابلے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ گرمی کی حالیہ لہرکے دوران ہلاکتوں کے ذمے داروں کی نشاندہی سے یہ فائدہ بھی ہوگا کہ آیندہ ایسے حالات میں متعلقہ افراد اور ادارے اپنی ذمے داریاں زیادہ موثر انداز میں ادا کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔
ایسے واقعات کے بعد ذمے داروں کا تعین کرنا اور ان کا احتساب کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ سانحہ کراچی ہو یا کسی بھی ہنگامی صورتحال میں ہونے والا جانی یا مالی نقصان یہ سلسلہ اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک اعلیٰ سطح پر خود احتسابی کے طرز عمل کی بنیاد پر ان اسباب کو ختم کرنے کی عملی کوششیں نہیں کی جائیں گی جن کے باعث کسی بھی حادثے کی صورت میں نقصان کی شرح حد سے تجاوز کرجاتی ہے۔
وزیر اعظم میاں نوازشریف نے اپنے دورۂ کراچی کے دوران پانی کے ایک اہم منصوبے کے فور کو 2سال میں مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی۔ شدید گرمی اور جس کی وجہ سے کراچی میں مسلسل ہلاکتیں ہو رہی تھیں صوبائی اداروں کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ لوگ گھروں میں محصور تھے اور گھر سے باہر جاتے ہوئے خوفزدہ تھے کہ کہیں انھیں لو نہ لگ جائے۔ ایسے میں ایدھی، چھیپا، خدمت خلق فاؤنڈیشن اور دیگر فلاحی اداروں کے رضاکار نہایت مستعدی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
میں سلام پیش کرتا ہوں ان تمام رضاکاروں کو جنہوں نے اس قدرتی آفت کے دوران اپنے فرائض نہایت تندہی سے انجام دیے۔ اسی طرح میرے لیے یہ بات بھی خوش آیند ہے کہ رینجرز نے ہیٹ اسٹروک کے متاثرین کے لیے سب سے پہلے کراچی سمیت دیگر شہروں میں مراکز قائم کیے اور متاثرین کو بروقت طبی امداد فراہم کی۔ بلاشبہ گرمی سے ہلاکتیں بڑا سانحہ تھا لیکن آیندہ ایسے واقعات سے بچاؤ کے لیے ہمیں اپنے اداروں کو عصری تقاضوں کے مطابق تیارکرنا ہوگا۔