عقل منطقدلیل اور بچے

ایس ایم شاہد کی کتاب ’’ابا بتائیے‘‘ ان کی دو چھوٹی بیٹیوں کے سوالات پر مشتمل روزنامچہ ہے

shaikhjabir@gmail.com

FAISALABAD:
زماں زماںشکند آں چہ می تراشد عقل۔''میاں کوئی عقل کی بات کرو'' یہ جملہ اکثر آپ نے بھی سُنا ہو گا۔عقل کیا ہے عقل کی بات کیا ہے، بے عقلی اورکم عقلی کیا ہو گی؟یہ ادق فلسفیانہ مباحث ہوسکتے ہیں ،لیکن کیا عقل کی بات کرنے کے لیے فلسفے پڑھنا ضروری ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ جو بھی فطری اندازِ فکر اپنائے، بغیرکوئی اثر لیے تدبر کرے وہ عقل ہی کی بات تک پہنچے گا خواہ کوئی بچہ ہی کیوں نہ ہو۔

اٹھارہویں صدی کے بڑے فلسفی کانٹ نے'' تنقید عقل محض'' میں لکھا ہے کہ عقل سے مابعد الطبیعیات کا علم ممکن ہی نہیںوہ 'نا منا 'اور' فنا منا' کی اصطلاح استعمال کرتا ہے وہ کہتاہے کہ انسان زماں ومکاں کے چشموں (تجربہ) سے دیکھتا ہے، لہٰذا حقیقت کا علم صرف عقل محض سے ممکن ہی نہیں یہ عقل کا دائرہ نہیں ہے۔

انسان ماورائے حواس کچھ نہیں جان سکتا۔اس نے مابعد الطبیعیات کا انکار نہیں کیا بلکہ اس کے حصول کی مجردعقلی سرگرمی کا انکارکیا کہ عقل کی یہ استطاعت واستعداد ہی نہیں ہے کہ وہ ماورائے تجربہ امورکا ادراک کرسکے اصولاً ہونا یہ چاہیے تھا کہ عقل اپنے عجزکا اعتراف کرنے کے بعد سرجھکادیتی کسی ادراک کے ماورائے عقل ہونے کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ وہ خلاف عقل بھی ہے، موجود کا دائرہ ہمیشہ معلوم سے بڑا ہوتا ہے، لہٰذا اگر موجود آپ کو بہ ظاہر معدوم نظر آتا ہے تو یہ حواس کی نارسائی ہے موجود کے عدم کی دلیل نہیںہے کسی شے کے نظر نہ آنے سے اس کا عدم وجود ثابت نہیں ہوتا، عقل ان تجلیات کیفیات کے تحمل سے عاجز ہے جو ماورائے طبیعیات ہیں۔ عقل اپنی حدود میں ادراک کی ہر ممکن کوشش کرسکتی ہے لیکن اس کا ادراک محض ایک ذاتی تجربہ ہے جو صرف اُسی کے لیے اہمیت ووقعت رکھتا ہے۔

ابن تیمیہ نے ''نقض المنطق'' اورالرد علی المنطقیٔن میں ان دعوؤں کو علمی بنیادوں پر رد کیا اور منطق کو تمام علوم عقلیہ کی میزان قرار دینے کے دعوؤں کا ناقدانہ جائزہ لیا۔الرد علی المنطقیٔن پر سید سلیمان ندویؒ نے مقدمہ بھی تحریرکیا ہے۔ ابن تیمیہؒ نے ثابت کیا ہے کہ منطق کو جس قدر مسلم اور محکم سمجھا گیا ہے وہ صحیح نہیں ہے ۔ ان کا ایک مشہور قول ہے کہ عاقل کو منطق کی ضرورت نہیں ہے اور غبی کے لیے منطق بے فائدہ ہے۔ ابن تیمیہؒ نے اصولی بات کہی ہے کہ منطق کوئی ایسا علم نہیں ہے جس پر فخر کیا جائے اور حقیقت کے فہم کو صرف اسی پر منحصر رکھا جائے۔

عقل کی طرح ہر انسان کو منطق بھی فطری طور پر میسر ہوتی ہے ۔ایک بچہ بھی چار سال کی عمر میں منطق کے تحت نتائج اخذکرنے لگتا ہے جب کہ اس نے کبھی منطق نہیں پڑھی ۔ راقم کے مشاہدے اور حافظے میں بچوں کے بعض فلسفیانہ منطقی سوالات محفوظ ہیں جو درج کیے جاتے ہیں:

بچی کو باپ نے اندھے اور لنگڑے کی کہانی سنائی کہ' بستی میں آگ لگ گئی لوگ بھاگنے لگے صرف بستی میں دو لوگ رہ گئے اندھا اور لنگڑا ۔ ایک بھاگ نہیں سکتا تھادوسرا نابینا تھا لہٰذا وہ بھی بھاگنے سے معذور تھا۔ اندھے نے لنگڑے سے کہا تم مجھ پر بیٹھ جاؤاور مجھے راستہ بتاتے جاؤ ۔ میں چلتا جاؤں گا اس طرح دونوں مصیبت سے بچ گئے ۔ تو بچی نے فوراً سوال کیا ۔ابو لنگڑا تو لنگڑا لنگڑا کر بھاگ سکتا تھا، لنگڑاتے ہوئے بھاگ جاتا وہ کیوں انتظار کرتا رہا؟ گھر میں مہمان بھرے ہوئے تھے اچانک بجلی چلی گئی ایک بچہ چیخا بابا مجھے کچھ نظر نہیں آرہا۔ بچی نے فوراً جواب دیا کیا آپ کو اندھیرا بھی نظر نہیں آرہا ،بچے نے کہا وہ تو نظر آرہا ہے مگر اندھیرے کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا ۔


بچی نے کہا آ پ یہ کیوں کہہ رہے تھے کہ کچھ نظر نہیں آرہا ۔ ماں نے بچی کو کہانی سنائی کہ بیٹا ایک پیاسا کوا تھا بہت پیاسا اسے پانی کہیں نہ ملا اچانک ایک مٹکا نظر آیا جس کی تہہ میں پانی کے چند قطرے تھے کوے نے سوچا یہ قطرے میرے منہ میںکیسے آجائیں وہ تھا چالاک اس نے فوراً چند کنکریاں اٹھائیں اور مٹکے میں ڈالنے لگا کنکریاں ڈالتا رہا اور پانی اوپر آگیا پانی پی کر اڑ گیا۔ بچی نے سوال کیا کنکریاں گیلی تھیں یا نہیں ماں نے کہا کنکریاں خشک تھیں ۔بچی کا جواب تھا تو پانی تو کنکریوں نے پی لیا ہوگا پانی اوپر کیسے آسکتا ہے؟ یہ کہانی تو ٹھیک نہیں ہے۔ بچی کو کہانی سنائی گئی صبح ہوئی دادی اماں نے مرغی کا ڈربہ کھولا ۔یہ کہانی نصابی کتابوں میں بھی درج ہے بچی نے سوال کیا صبح ہونے کے بعد تو سب سے پہلے وضو کرکے نماز پڑھتے ہیں تو کیا دادی اماں نماز نہیںپڑھتیں؟

ایک بچے کو نانی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ سنایا جب وہ کوہ طور پر تشریف لے گئے اور نُور ربانی دیکھ نہ سکے ،پہاڑ جل گیا اور وہ بے ہوش ہوگئے ۔نواسے نے پوچھا نانی جان نور کس سے بنتا ہے کیسا ہوتا ہے؟ بیٹے نور ٹھنڈا ہوتا ہے رات کو تم نہیں دیکھتے نور کی چادر ٹھنڈی ٹھنڈی ہر طرف پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔بچے نے دوبارہ سوال کیا ''نانی جان اللہ میاں نور ہیں نا ؟''، ہاں بیٹے نور ہیں۔ تو نانی اماں نور ٹھنڈا ہوتا ہے یا گرم؟کیا مطلب؟ میرا مطلب یہ ہے کہ ٹھنڈی چیزوں میں کیا بہت زیادہ گرمی ہوتی ہے ۔

کیا مطلب؟ ٹھنڈی چیزیں کیا کسی چیز کو جلاسکتی ہیں؟نانی نے غصے سے گھورا اور نواسے کو کمرے سے نکل جانے کا حکم دیا بچہ روتا رہا ۔رات کو ماموں آئے تو اس کا سوال یہی تھا نور ٹھنڈا ہوتا ہے یا گرم ؟ماموں نے کہا بیٹے نور ٹھنڈا بھی ہوتا ہے گرم بھی ہوتا ہے چاند نور ہے مگر اس کی روشنی ٹھنڈی ہے اسے جمال کہتے ہیں۔ سورج بھی نور ہے اس کی روشنی گرم ہے اسے جلال کہتے ہیں۔ اللہ میاں بھی نور ہیں ۔وہ جلال و جمال ہیں۔ جب بندہ اچھے کام کرتا ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں مہربان ہوتے ہیں رحمت بھیجتے ہیں جب برا کام کرتا ہے تو ناراض ہوتے ہیں غضب نازل کرتے ہیں۔اللہ میاں خوش بھی ہوتے ہیں ناراض بھی ، رحم بھی کرتے ہیں غصہ بھی۔ اسی کا نام جلال و جمال ہے۔

ایک بچہ سڑک پر ٹھہرے ہوئے پانی سے کہہ رہا تھا تم یہاں کیا کررہے ہوکیوں کھڑے ہو آگے جاؤ ۔دوسرے بچے نے پوچھا کیا پانی کے کان ہوتے ہیں وہ سن سکتا ہے؟ تیسرے بچے نے پوچھا، کتے کے کان ہوتے ہیں؟ ہاں ہوتے ہیں وہ سن بھی سکتا ہے ۔جواب ملا کتا اگر سن سکتا ہے تو یہ سامنے کتا ہے میں اس سے کہتا ہوں یہاں آکر کتاب پڑھودیکھو سنتا ہے یا نہیں۔ مگر کتایہ بات سن کر نہیں آیا۔پہلے بچے نے کہا اصل میں کتا سنتا تو ہے سمجھتا نہیں ۔ایک دوسرے بچے نے کتے کو پچکارا تووہ دم ہلاتا ہوا آگے آگیا۔

ایک بچے نے پوچھا کہ آپ کی زبان کیسے سمجھ گیا ان کی زبان کیوں نہیں سمجھ سکا ؟ایک اور بچہ بولا یہ زبان نہیں ہے آوازیں ہیں کتا صرف آوازیں سمجھتا ہے ہماری زبان نہیں سمجھتا ۔ بچے نے پوچھا کیا زبان بغیر آوازوں کے ہوتی ہے؟دوسرے نے جواب دیا ہر زبان کی آواز بھی ہوتی ہے ورنہ ہم سنیں گے کیسے اورسنیں گے نہیں تو سمجھیں گے کیسے؟چوتھے بچے نے کہا کان کا کیا فائدہ اگر سن بھی لے لیکن سمجھ میں نہ آئے جب تک زبان سے واقف نہ ہو کان سے زیادہ زبان اہم ہے۔ پانچویں بچے نے کہا اگر زبان ہو مگرکان نہ ہو تو کیا ہوگا اور کان بھی ہو لیکن زبان نہ ہو تو پھر کیا ہوگا اورکان بھی ہو زبان بھی ہو مگر کان والا وہ زبان ہی نہ جانتا ہو تو پھر کیا ہوگا جیسے یہ کتا؟ دوسرے بچے نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں بہت ساری باتوں کو جاننا چاہیے ۔مگر پچکارنا آواز تو نہیں ہے یہ تو محبت کی زبان ہے؟

ایس ایم شاہد کی کتاب ''ابا بتائیے'' ان کی دو چھوٹی بیٹیوں کے سوالات پر مشتمل روزنامچہ ہے جس میں معصوم بچیاں منطق اور فلسفے پر مبنی ایسے ایسے سوالات پوچھتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے یہ اور ایسے کئی سوالات ہمارے اس خیال کا ثبوت ہیں کہ منطق و فلسفے کے حصول کے لیے باقاعدہ تعلیم ضروری نہیں۔محض غوروفکر کے ذریعے منطق وفلسفے کا ظہور ہوجاتا ہے۔
Load Next Story