نو سال کی عمر اورغریبوں کی خدمت کا یہ جذبہ۔۔۔۔۔
چار برس پہلے جب ہیلی کی والدہ، ہیلن نے ایک بے گھر کو سینڈوچ خرید کردیا تو اس نے ماں سے اس بابت استفسار کیا
نو سالہ بچوں کے معمولات پڑھائی اور کھیل کود تک محدود ہوتے ہیں۔ واشنگٹن کے قصبے بریمرٹن میں اپنی ماں کے ساتھ رہنے والی ہیلی فورڈ بھی اپنے ہم عمروں کی طرح اسکول کی طالبہ ہے مگر فارغ اوقات میں کھیل کود کے بجائے وہ کام کررہی ہے جس کے بارے میں سُن کر ہر کوئی حیران رہ جاتا ہے، اور بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ اتنی سی عمر اور یہ جذبہ!
نو سالہ ہیلی فارغ وقت میں گڑیوں اور کھلونوں سے کھیلنے کے بجائے اوزار تھامے بے گھروں کے لیے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے گھر تیار کرنے میں جُتی رہتی ہے۔ ایک کیبن نما کمرے پر مشتمل چوبی گھر اتنا کشادہ ہوتا ہے کہ اس میں ایک فرد آسانی سے بیٹھ اور لیٹ سکتا ہے۔ ہیلی کا کہنا ہے کہ اسے اپنے قصبے میں بے گھر لوگوں کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ان پاس سَر چھپانے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ہیلی کے خیال میں ہر فرد کے پاس رہنے کے لیے اپنا گھر ہونا چاہیے چاہے وہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔
ہیلی بہت چھوٹی عمر میں دوسروں کے دکھ درد کو سمجھنے لگی تھی۔ چار برس پہلے جب ہیلی کی والدہ، ہیلن نے ایک بے گھر کو سینڈوچ خرید کردیا تو اس نے ماں سے اس بابت استفسار کیا۔ ماں کے بتانے پر اسے پتا چلا کہ اس شخص کا نہ تو کوئی گھر تھا اور نہ ہی آمدنی کا کوئی ذریعہ۔ اس پر پانچ سالہ ہیلی نے اپنی ماں سے کہا کہ کیوں نہ وہ ان ( بے گھر ) لوگوں کے لیے اپنے گھر کے عقبی باغیچے میں سبزیاں اگانا شروع کردیں۔ ہیلن کو یہ آئیڈیا بہت پسند آیا۔ چناں چہ اس نے باغیچے میں اُگی ہوئی گھاس صاف کی، اور باغیچے کے ساتھ خالی پڑی ہوئی زمین کو شامل کرکے چھوٹے سے کھیت کی شکل دے دی۔ اس میں کئی دن لگ گئے تھے۔ پھر ماں بیٹی نے مل کر یہاں سبزیاں اُگانی شروع کردیں۔
ہیلن کا خیال تھا کہ دو چار روز میں اس کی بیٹی کے دل میں اُبھرنے والا غریبوں کی مدد کا جذبہ ماند پڑجائے گا اور وہ پھر سے کھیل کود میں مگن ہوجائے گی۔ مگر وہ اس کی ثابت قدمی دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس بات کو اب چار برس ہوگئے ہیں اور وہ ہر ہفتے باقاعدگی سے بے گھر لوگوں کو جاکر اپنے باغیچے میں اُگی ہوئی تازہ سبزیاں پہنچاتی ہے۔
2014ء میں ہیلی کے باغیچے میں 60 کلو وزن کے مساوی سبزیاں اُگی تھیں جو سب کی سب اس نے بے گھروں کے لیے قائم کردہ مقامی فوڈ بینک کو عطیہ کردی تھیں۔ چند ماہ پہلے اسے بے گھروں کے لیے رہائش کا انتظام کرنے کا بھی خیال آیا۔ اس نے اپنی ماں سے اس سلسلے میں تبادلۂ خیال کیا۔ ماں بیٹی اس پر متفق ہوگئیں بے گھروں کے لیے کیبن نما گھر بنائے جاسکتے ہیں، جس میں بنیادی سہولتیں موجود ہوں۔
ماں کی مدد سے ہیلی ایک این جی او سے 3000 ڈالر کی گرانٹ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئی۔ ایک سپراسٹور کے مالک نے ہیلی کے فلاحی جذبے سے متاثر ہوکر چوبی گھروں کی تیاری کے لیے درکار سامان نصف قیمت پر فراہم کرنے کا وعدہ کرلیا۔ اس طرح ہیلی نے کیبن نما گھروں کی تعمیر شروع کردی۔ کیبن کی لمبائی آٹھ فٹ ، چوڑائی چار فٹ اور اونچائی قریباً پانچ فٹ ہے۔ اس میں ایک دروازہ، دو کھڑکیاں ہیں۔ روشنی کا انتظام کرنے کے لیے کیبن میں سولرپینل بھی لگائے گئے ہیں۔ درجۂ حرارت معتدل رکھنے کے لیے چوبی چھت میں اندرونی جانب انسولیشن میٹیریل کی تہہ بچھائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پہیے بھی لگے ہوئے ہیں، تاکہ مکین اسے جہاں چاہے لے جاسکے۔
جذبۂ خدمت سے سرشار ہیلی نے اپنی ماں اور نانا کی رہنمائی میں کیبن کی تعمیر کا بیشتر کام خود انجام دیا ہے۔ وہ اپنا تیارکردہ پہلا کیبن ایڈورڈ کو دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایڈورڈ وہی شخص ہے جسے چار سال پہلے اس کی ماں نے سینڈوچ کھانے کے لیے دیا تھا۔ ہیلی کا کہنا ہے وہ بے گھروں کو چھت فراہم کرنے کا کام ہمیشہ جاری رکھے گی۔
نو سالہ ہیلی فارغ وقت میں گڑیوں اور کھلونوں سے کھیلنے کے بجائے اوزار تھامے بے گھروں کے لیے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے گھر تیار کرنے میں جُتی رہتی ہے۔ ایک کیبن نما کمرے پر مشتمل چوبی گھر اتنا کشادہ ہوتا ہے کہ اس میں ایک فرد آسانی سے بیٹھ اور لیٹ سکتا ہے۔ ہیلی کا کہنا ہے کہ اسے اپنے قصبے میں بے گھر لوگوں کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ان پاس سَر چھپانے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ہیلی کے خیال میں ہر فرد کے پاس رہنے کے لیے اپنا گھر ہونا چاہیے چاہے وہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔
ہیلی بہت چھوٹی عمر میں دوسروں کے دکھ درد کو سمجھنے لگی تھی۔ چار برس پہلے جب ہیلی کی والدہ، ہیلن نے ایک بے گھر کو سینڈوچ خرید کردیا تو اس نے ماں سے اس بابت استفسار کیا۔ ماں کے بتانے پر اسے پتا چلا کہ اس شخص کا نہ تو کوئی گھر تھا اور نہ ہی آمدنی کا کوئی ذریعہ۔ اس پر پانچ سالہ ہیلی نے اپنی ماں سے کہا کہ کیوں نہ وہ ان ( بے گھر ) لوگوں کے لیے اپنے گھر کے عقبی باغیچے میں سبزیاں اگانا شروع کردیں۔ ہیلن کو یہ آئیڈیا بہت پسند آیا۔ چناں چہ اس نے باغیچے میں اُگی ہوئی گھاس صاف کی، اور باغیچے کے ساتھ خالی پڑی ہوئی زمین کو شامل کرکے چھوٹے سے کھیت کی شکل دے دی۔ اس میں کئی دن لگ گئے تھے۔ پھر ماں بیٹی نے مل کر یہاں سبزیاں اُگانی شروع کردیں۔
ہیلن کا خیال تھا کہ دو چار روز میں اس کی بیٹی کے دل میں اُبھرنے والا غریبوں کی مدد کا جذبہ ماند پڑجائے گا اور وہ پھر سے کھیل کود میں مگن ہوجائے گی۔ مگر وہ اس کی ثابت قدمی دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس بات کو اب چار برس ہوگئے ہیں اور وہ ہر ہفتے باقاعدگی سے بے گھر لوگوں کو جاکر اپنے باغیچے میں اُگی ہوئی تازہ سبزیاں پہنچاتی ہے۔
2014ء میں ہیلی کے باغیچے میں 60 کلو وزن کے مساوی سبزیاں اُگی تھیں جو سب کی سب اس نے بے گھروں کے لیے قائم کردہ مقامی فوڈ بینک کو عطیہ کردی تھیں۔ چند ماہ پہلے اسے بے گھروں کے لیے رہائش کا انتظام کرنے کا بھی خیال آیا۔ اس نے اپنی ماں سے اس سلسلے میں تبادلۂ خیال کیا۔ ماں بیٹی اس پر متفق ہوگئیں بے گھروں کے لیے کیبن نما گھر بنائے جاسکتے ہیں، جس میں بنیادی سہولتیں موجود ہوں۔
ماں کی مدد سے ہیلی ایک این جی او سے 3000 ڈالر کی گرانٹ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئی۔ ایک سپراسٹور کے مالک نے ہیلی کے فلاحی جذبے سے متاثر ہوکر چوبی گھروں کی تیاری کے لیے درکار سامان نصف قیمت پر فراہم کرنے کا وعدہ کرلیا۔ اس طرح ہیلی نے کیبن نما گھروں کی تعمیر شروع کردی۔ کیبن کی لمبائی آٹھ فٹ ، چوڑائی چار فٹ اور اونچائی قریباً پانچ فٹ ہے۔ اس میں ایک دروازہ، دو کھڑکیاں ہیں۔ روشنی کا انتظام کرنے کے لیے کیبن میں سولرپینل بھی لگائے گئے ہیں۔ درجۂ حرارت معتدل رکھنے کے لیے چوبی چھت میں اندرونی جانب انسولیشن میٹیریل کی تہہ بچھائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پہیے بھی لگے ہوئے ہیں، تاکہ مکین اسے جہاں چاہے لے جاسکے۔
جذبۂ خدمت سے سرشار ہیلی نے اپنی ماں اور نانا کی رہنمائی میں کیبن کی تعمیر کا بیشتر کام خود انجام دیا ہے۔ وہ اپنا تیارکردہ پہلا کیبن ایڈورڈ کو دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایڈورڈ وہی شخص ہے جسے چار سال پہلے اس کی ماں نے سینڈوچ کھانے کے لیے دیا تھا۔ ہیلی کا کہنا ہے وہ بے گھروں کو چھت فراہم کرنے کا کام ہمیشہ جاری رکھے گی۔