ڈرون حملہ کیسامریکاسے معاہدوں کی تفصیلات طلب

یہ اہم اورحساس معاملہ ہے، عالمی قوانین کا بھی ذکر ہوناچاہیے،چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ


Numainda Express October 16, 2012
یہ اہم اورحساس معاملہ ہے، عالمی قوانین کا بھی ذکر ہوناچاہیے،چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ۔ فوٹو: فائل

RAWALPINDI: لاہور ہائیکورٹ نے ڈرون حملوں کے خلاف کیس کی سماعت یکم نومبرتک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کیس کی سماعت شروع کی تو جماعت الدعوتہ کے امیرحافظ محمد سعید کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ موجودہ حکومت شہریوں کے جان مال کاتحفظ کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔

امریکی ڈرون حملوں سے اب تک 132 معصوم بچے، طلبا و طالبات جاں بحق ہوچکے ہیں یہ ڈرون حملے حکومتی اجازت سے ہورہے ہیں ورنہ کسی غیرملکی کی ہمت نہیں کہ وہ پاکستانی شہریوں کا قتل عام کرے اورحکومت خاموش رہے۔ چیف جسٹس نے قراردیاکہ یہ ایک اہم اور حساس معاملہ ہے اس پرانٹرنینشل قوانین سے متعلق بھی پٹیشن میں ذکر ہوناچاہیے عدالت نے حافظ سعید کے وکیل سے آئند ہ سماعت پرحکومت اورامریکا کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت یکم نومبرتک ملتوی کردی۔ دریں اثنا لاہورہائیکورٹ نے ڈاکٹرزکی ہڑتال کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت سترہ اکتوبرتک ملتوی کردی۔

عدالت نے پنجاب حکومت کو ینگ ڈاکٹرز کے معاملات جلد طے کرکے رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کاحکم دیدیا جبکہ پی ایم ڈی سی سے بھی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔ ادھر لاہور ہائی کورٹ نے عدلیہ کے خلاف بیان بازی کرنے والے پارلیمینٹیریرین کے خلاف کارروائی کے لیے دائر کی گئی درخواست کی سماعت سولہ اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزار کودرخواست کے قابل سماعت ہونے کے حوالے سے دلائل دینے کی ہدایت کی ہے۔ لاہورہائیکورٹ نے پی ایم ڈی سی کے نائب صدر عاصم حسین کی تعیناتی کیخلاف دائردرخواست سماعت کیلیے منظورکرلی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کیس کی سماعت شروع کی تودرخواست گزارکے وکیل نے موقف اختیارکیا کہ ڈاکٹرعاصم حسین صدر زرداری کے ذاتی معالج ہیں اوراسی بنیاد پرانھیں سیاسی بنیاد پر نوازنے کیلیے پی ایم ڈی سی کا نائب صدر بنایا گیا۔ ڈاکٹرعاصم حسین کے اپنے پرائیویٹ میڈیکل کالجز بھی ہیں اس لیے انھیں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں تعینات کرنا سراسر غیرآئینی ہے۔ عدالت نے درخواست سماعت کیلیے منظور کرتے ہوئے سات نومبر کو فریقین سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں