110افسران و اہلکار قتل اور اغوا برائے تاوان میں ملوث نکلے
سزایافتہ افسران اور اہلکار ملازمت بحال کرانے کے بعد من پسندعہدے بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے
محکمہ انسداد دہشت گردی جیسے حساس ادارے کے افسران و اہلکار بھی جرائم کی وارداتوں میں کسی سے پیچھے نہیں رہے ،110 افسران و اہلکار قتل ، اقدام قتل اور اغوا برائے تاوان سمیت دیگر جرائم میں ملوث ہیں،بیشتر افراد کو ملازمت سے برخاست کردیا گیا تھا لیکن ایسے تمام افسران اور اہلکار مقدمات کا سامنا کرنے کے بعد نہ صرف ملازمت بحال کرانے اورمن پسند عہدے بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔
تفصیلات کے مطابق پولیس اہلکاروں کے جرائم ریکارڈ کے حوالے سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ محکمہ انسداد دہشت گردی جیسے حساس ادارے کے 110 افسران و اہلکار بھی جرائم میں ملوث نکلے ہیں ، ان میں سے بیشتر کو ملازمت سے برخاست ، مدت ملازمت میں کمی اور دیگر سزائیں دی جاچکی ہیں لیکن یہ تمام افراد مقدمات کا سامنا کرنے اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ملازمت پر بحال ہونے کے بعد من پسند عہدوں پر بھی براجمان ہوگئے ، ایکسپریس کو حاصل تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سب انسپکٹر سرفراز کے خلاف اغوا برائے تاوان کا مقدمہ درج ہے جس پر اسے ملازمت سے برخاست کردیا گیا تھا ۔
سب انسپکٹر غلام شبیر کو بھتہ خوری کے الزامات پر ملازمت سے برخاست کردیا گیا تھا ، ایس آئی پون کمار پر قتل سمیت کئی مقدمات درج ہیں ، ایس آئی عظیم الدین جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی پر ملازمت سے برخاست کردیا گیا تھا ، ایس آئی محمد حنیف کو خاتون کے اغوا اور زنا بالجبر پر ملازمت سے برخاست کیا گیا ، اے ایس آئی محمد خان جدون کے سیل سے مغوی کی بازیابی پر نوکری سے نکال دیا گیا ، انسپکٹر ملک ضمیر نے گاڑی چوری کا مقدمہ درج نہیں کیا جبکہ بعد میں وہ گاڑی حب میں ہونے والے ایک دھماکے میں استعمال کی گئی جس پر انھیں عہدے سے تنزلی کا سامنا کرنا پڑا ، ہیڈ کانسٹیبل ارشد اور محمد ظفر پر قتل ، اقدام قتل کے مقدمات قائم ہیں ۔
ہیڈ کانسٹیبل غلام شبیر اور جمیل احمد کو طویل غیر حاضری پر نوکری سے نکالا جاچکا ہے ، کانسٹیبل الطاف حسین پٹنی بھتہ خوری کی شکایات پر ملازمت سے برخاست کردیا گیا تھا ، کانسٹیبل حبیب الرحمن ڈکیتی کے مقدمے میں برخاست کیا گیا جبکہ کانسٹیبل ممتاز جونیجو ، کانسٹیبل محمد سہیل ، کانسٹیبل اعجاز علی اور کانسٹیبل عبدالعقیل قتل کے مقدمے کے بعد ملازمت سے برخاست کیے جاچکے ہیں ، تمام افراد مقدمات کا سامنا کرنے کے بعد دوبارہ عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔
تفصیلات کے مطابق پولیس اہلکاروں کے جرائم ریکارڈ کے حوالے سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ محکمہ انسداد دہشت گردی جیسے حساس ادارے کے 110 افسران و اہلکار بھی جرائم میں ملوث نکلے ہیں ، ان میں سے بیشتر کو ملازمت سے برخاست ، مدت ملازمت میں کمی اور دیگر سزائیں دی جاچکی ہیں لیکن یہ تمام افراد مقدمات کا سامنا کرنے اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ملازمت پر بحال ہونے کے بعد من پسند عہدوں پر بھی براجمان ہوگئے ، ایکسپریس کو حاصل تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سب انسپکٹر سرفراز کے خلاف اغوا برائے تاوان کا مقدمہ درج ہے جس پر اسے ملازمت سے برخاست کردیا گیا تھا ۔
سب انسپکٹر غلام شبیر کو بھتہ خوری کے الزامات پر ملازمت سے برخاست کردیا گیا تھا ، ایس آئی پون کمار پر قتل سمیت کئی مقدمات درج ہیں ، ایس آئی عظیم الدین جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی پر ملازمت سے برخاست کردیا گیا تھا ، ایس آئی محمد حنیف کو خاتون کے اغوا اور زنا بالجبر پر ملازمت سے برخاست کیا گیا ، اے ایس آئی محمد خان جدون کے سیل سے مغوی کی بازیابی پر نوکری سے نکال دیا گیا ، انسپکٹر ملک ضمیر نے گاڑی چوری کا مقدمہ درج نہیں کیا جبکہ بعد میں وہ گاڑی حب میں ہونے والے ایک دھماکے میں استعمال کی گئی جس پر انھیں عہدے سے تنزلی کا سامنا کرنا پڑا ، ہیڈ کانسٹیبل ارشد اور محمد ظفر پر قتل ، اقدام قتل کے مقدمات قائم ہیں ۔
ہیڈ کانسٹیبل غلام شبیر اور جمیل احمد کو طویل غیر حاضری پر نوکری سے نکالا جاچکا ہے ، کانسٹیبل الطاف حسین پٹنی بھتہ خوری کی شکایات پر ملازمت سے برخاست کردیا گیا تھا ، کانسٹیبل حبیب الرحمن ڈکیتی کے مقدمے میں برخاست کیا گیا جبکہ کانسٹیبل ممتاز جونیجو ، کانسٹیبل محمد سہیل ، کانسٹیبل اعجاز علی اور کانسٹیبل عبدالعقیل قتل کے مقدمے کے بعد ملازمت سے برخاست کیے جاچکے ہیں ، تمام افراد مقدمات کا سامنا کرنے کے بعد دوبارہ عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔