رمضان المبارک کے حقیقی مسائل

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم فروعی مسائل میں الجھ گئے اور حقیقی مسائل کو فراموش کر دیا۔


اویس حفیظ July 08, 2015
ہم نے رمضان کو حقیقی اعمال بجا لانے کے بجائے محض فاقہ کشی اور بھوک ہڑتال کا مہینہ بنا لیا ہے۔ فوٹو:فائل

عصر کی نماز کے بعد مسجد میں درسِ قرآن تھا، میں چونکہ پہلی صف میں موجود تھا اور مجھے لوگوں کی گردنوں سے پھلانگ کر باہر جانا معیوب محسوس ہو رہا تھا، اسی لئے میں بیٹھا رہا۔ درس تو پانچ، دس منٹ میں ہی ختم ہوگیا لیکن اس کے بعد سوال و جواب کا سیشن شروع ہوگیا جو کچھ دیر تک چلتارہا۔ علامہ صاحب کی موجودگی کو غنیمت جانتے ہوئے لوگوں نے رمضان المبارک کے مسائل کے حوالے سے سوال پوچھنا شروع کردئیے۔ حاجی صاحب نے سب سے پہلے سوال کیا کہ اگر میں روزہ سعودیہ میں رکھتا ہوں اور واپس لاہور آجاتا ہوں تو میں افطار لاہور کے وقت کے حساب سے کروں گا یا پھر سعودیہ کے حساب سے؟ علامہ صاحب نے بتادیا کہ روزہ جہاں پر افطار کیا جائے گا، اُسی شہر کے حساب سے افطار کریں گے خواہ کہیں پر بھی رکھا گیا ہو۔

میں نے مُڑ کر حاجی صاحب کو دیکھا اور کچھ دیر ان کے سوال پرغور و فکر کرتا رہا کہ سننے میں تو یہی آیا تھا کہ حاجی صاحب نے اپنے مرحوم بھائی کے پلاٹ پر ''قبضہ'' کر رکھا ہے اور اُن کے یتیم بھتیجے، بھتیجیاں لوگوں کے ٹکڑوں پر پلنے پر مجبور ہیں مگر حاجی صاحب ہر سال حج اور رمضان میں عمرہ باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ شاید اُنہیں کسی نے یہ مسئلہ نہیں بتایا تھا کہ اگر حرام کا ایک لقمہ بھی پیٹ میں ہو تو روزہ تو کیا، حج وعمرہ بھی قبول نہیں ہوتا مگر ۔۔۔۔

خیر اگلا سوال قریشی صاحب کا تھا کہ روز ے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کرنے سے روزے پر تو کوئی فرق نہیں پڑتا؟ قریشی صاحب کی بازار میں گوشت کی دکان تھی اور یہ بات علاقے کے تھانے میں موجود میرے دوستوں کے ذریعے ہی میرے علم میں آئی تھی کہ اس پورے علاقے میں سب سے زیادہ بار قریشی صاحب کو ہی حرام و مردار گوشت فروخت کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا اور ہر بار یہ ''نذرانہ'' دے کر چھوٹ گئے۔ مجھے سختی سے ہدایات تھیں کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے قریشی صاحب کی دکان سے گوشت نہیں لینا کیونکہ ایک طرف تو یہ خود ایسا گوشت فروخت کرتے تھے دوسری طرف انہوں نے ایک غیر قانونی مذبحہ خانہ بھی قائم کر رکھا تھا جہاں پر غیر قانونی طور پر مردار اور گدھے وغیرہ فروخت کرکے انہیں مارکیٹ میں سپلائی کیا جاتا ہے مگر آج تو وہ ٹوتھ پیسٹ کے روزے پر اثر کے حوالے سے پریشان نظر آ رہے تھے۔ علامہ صاحب نے بتادیا کہ اگرچہ ٹوتھ پیسٹ سے روزہ نہیں ٹوٹتا مگر بازار میں کچھ فلیورڈ ٹوتھ پیسٹ بھی ہوتی ہیں جن کا ذائقہ منہ میں رہ جاتا ہے اور وہ تھوک کے ساتھ حلق سے نیچے اترنے کا خدشہ رہتا ہے اسی لئے بہتر ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے لیکن اگر کوئی روزے کی حالت میں برش کرلیتا ہے کہ اس کے روزے پر قطعاً کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

اس کے بعد خان صاحب نے اپنا سوال پوچھا کہ اگر کوئی ایک ہی روزے میں ایک سے زائد بار بھول چوک کر کچھ کھا لیتا ہے تو کیا اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا؟ علاقے میں خان صاحب کی وجہ شہرت سود کے کاروبار کے حوالے سے تھی اور کئی غریب ان کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے۔ جو ایک مرتبہ ان سے سود پر قرض لے لیتا وہ پھر تمام عمر سود ہی ادا کرتا رہتا تھا اور میں نے کم از کم کسی کو بھی سود پر قرض لے کر بعد میں وہ قرض ادا کرتے نہیں دیکھا تھا مگر خان صاحب کے ''کاروبار'' میں خدا خوب برکت ڈال رہا تھا اور اسی باعث وہ تقریباً ہر سال ہی علاقے میں ایک نیا مکان خرید رہے تھے۔ علامہ صاحب نے مسئلہ بتاتے ہوئے جواب دیا کہ روزے کی حالت میں بھول چوک سے خواہ کتنی بار ہی کچھ کھا، پی لیا جائے روزے کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اسے اللہ نے کھلایا اور پلایا۔

پھر زاہد صاحب نے سوال کیا کہ اگر بالفرض کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ٹیبلیٹ پر قرآن پاک پڑھا جاتا ہے تو کیا اس کے لئے بھی وضو کرنا پڑے گا؟ زاہد صاحب ایک سرکاری ملازم تھے اورابھی کل کی بات ہے کہ میں نے دیکھا وہ صبح نو بجے گھر سے آفس گئے۔ بارہ بجے کے قریب میں ان کے آفس گیا، ان سے کوئی کام تھا تو پتہ چلا کہ وہ گھر واپس جاچکے ہیں۔ میں حیران ہوا کر ادھر موجود شخص سے دریافت کیا تواس نے بتایا کہ رمضان المبارک میں آفس بس اتنی دیر ہی کام ہوتا ہے۔ اب جو فائلیں لٹکی ہوئی ہیں وہ رمضان کے بعد ہی کلیئر ہوںگی۔ خیر علامہ صاحب نے مسئلہ بتادیا کہ قرآن پاک کی تلاوت کیلئے وضو کمپیوٹر یا ٹبیلٹ تو کیا قرآن کریم کیلئے بھی قطعا ً کوئی شرط نہیں ہے اس کیلئے پاکی ہی واحد شرط ہے لیکن احتیاط و ثواب کا تقاضا یہی ہے کہ باوضو ہو کر ہی قرآن کی تلاوت کی جائے۔

زاہد صاحب کے بعد مطیب صاحب نے اپنا سوال پوچھا کہ اگر کوئی روزے کی نیت کرنا بھول جاتا ہے تو کیا روزہ ہوجائے گا؟ مطیب صاحب علاقے کی مارکیٹ میں سب سے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹور کے مالک ہیں اور اکثر لوگوں کو ان سے ناجائز منافع خوری، دو نمبر مال کی فروخت اور ذخیرہ اندوزی جیسی شکایات تھیں لیکن آپس کی بات ہے کہ میرا وہ بہت دید لحاظ کرتے ہیں۔ میں جب بھی جاتا ہوں مجھے ایک تو وہ اچھا سودا دیتے ہیں اور پھر باقی گاہکوں کی نسبت جلدی فارغ کردیتے ہیں۔ البتہ میں بیشمار لوگوں سے ملا ہوں جنہوں نے ان کے بارے میں ایسی ہی منفی رائے دیں۔ اُن میں سے ایک ان کی دکان کا سابق ملازم تھا۔ اسی نے مجھے کل یہ بھی بتایا کہ انہوں نے دو ماہ پہلے جو گودام کرائے پر لیا تھا وہاں پر صرف آٹا اور چینی ہی پڑی ہے جو دو ماہ پہلے ہی انہوں نے اسٹاک کرلی تھی۔ علامہ صاحب نے سوال کے جواب میں یہی بتایا کہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبانی نیت کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر ہم سحری میں اُٹھنے کا اردہ رکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم فرض روزے کی نیت کرچکے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ مسئلہ بھی بتا دیا کہ صرف فرض روزے کی نیت کرنا ضروری ہے، نفل روزے کیلئے نیت کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔



لوگ علامہ صاحب سے سوال پوچھ رہے تھے اور وہ ان کے جواب دے رہے تھے اور لوگوں کے چہرے پر خوشی سے محسوس ہو رہا تھا جیسے پورا دین ان سوالات میں ہی چھپا ہوا تھا جس پر انہوں نے عمل کر لیا۔ میں مستغرقِ فکر یہ سوچ رہا تھا کہ کیا ہمارے حقیقی مسائل یہ ہیں؟ کیا ہمیں افطار کے وقت، ٹوتھ پیسٹ، روزے میں بھول چوک کر کھانے پینے، قرآن کی تلاوت کیلئے وضو اور روزے کی نیت جیسے سوال پوچھنا چاہئیں یا پھر پوچھنا چاہئے کہ اگر کوئی یتیموں کا مال غصب کرتا ہے، کوئی حرام مال فروخت کرتا ہے، کوئی سود کھاتا ہے، کوئی اپنے کام کے ساتھ دیانتداری نہیں کرتا، کوئی ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کرتا ہے، کوئی جھوٹی قسمیں کھاتا ہے، کوئی ملاوٹ والی اشیاء بیچتا ہے، کوئی محض روزے کے باعث لوگوں کو کاٹ کھانے کودوڑتا ہے، ان سے بداخلاقی سے پیش آتا ہے، افطار کے وقت ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑا دیتا ہے، لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کرتا ہے، سارا دن بیٹھ کر لوگوں کی چغلیاں اورغیبت کرتا ہے تو کیا اس کا روزہ ہوجائے گا؟ افسوس کہ ہم فروعی مسائل میں الجھ گئے اور حقیقی مسائل کو فراموش کردیا۔ ہم نے رمضان کو محض فاقہ کشی اور بھوک ہڑتال کا مہینہ بنا لیا اور خدا کے اس حکم کو بھلا دیا کہ ''جو(روزے کی حالت میں) جھوٹ بولنا، اس پر عمل کرنا اور جہالت کے کاموں کو نہیں چھوڑتا تو اللہ کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ وہ اس کیلئے اپنا کھانا پینا ترک کردے''۔

[poll id="526"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں