کسانوں اور کاشتکاروں کی دکھ بھری کہانی
پاکستان ایک ایسا زرعی ملک ہے جسکی 65% آبادی کی روٹی روزی زراعت سے وابستہ ہے۔
پاکستان ایک ایسا زرعی ملک ہے جسکی 65%آبادی کی روٹی رو زی زراعت سے وابستہ ہے۔ اگر ایسے زرعی ملک کے کسان بلبلا اٹھیں اور کاشتکار چیخ رہے ہوں کہ حکومت کو ان کے مسائل کا ادراک نہیں اور اربابِ بست و کشاد کو ان کے دکھ دردکا احساس نہیںتو یہ انتہائی افسوسناک بھی ہے اور تشویشناک بھی۔ پاکستانی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہمار ی معیشت کا آخری سہارا ہمارا کھلیان اور ہمارا کسان ہے۔ مگر یہ آخری سہاراآج خود بے سہارا اور بے یارو مدد گار ہے۔
صورتِ حال یہ ہے کہ وطنِ عزیز کی پانچوں بڑی فصلیں چاول ،کپاس، گندم،گنّا اورآلو بدترین بحران کا شکارہیں پچھلے دو سالوں سے چاول برآمد نہیں ہوسکا ، پرانے اسٹاک گوداموں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس سال کاشتکارکو پچھلے سال کی نسبت مونجی کی آدھی قیمت بھی نہیں مل سکی۔ پچھلے سال باسمتی مونجی 2500روپے من بکتی رہی جب کہ اس سال کسان کے لیے وہی مونجی بارہ تیرہ سو روپے فی من بیچنا بھی مشکل تھا۔کپاس کی کاشت پرفی ایکڑتقریباً چوالیس ہزار روپے اخراجات آتے ہیں جب کہ کاشتکار کو بیس سے بائیس ہزارروپے فی ایکڑ قیمت وصول ہوئی جو اخراجات سے کہیں کم ہے۔گندم کی سرکاری قیمت خرید 1300روپے فی من مقررہے مگر کھیت میں کاشتکار کو دو سے تین سوروپے فی من کم ملتی رہی ہے۔گنّے کی فصل اچھی تھی مگر شوگر ملوں کے مالکان نے کاشتکاروں کو ان کی محنت کا صحیح معاوضہ نہیں دیا لہٰذا انھیں گنیّ کے بہت کم نرخ مل سکے۔
آلو کے کاشتکار نے جب اندازہ لگایا کہ فروخت کے بعد وصول ہونے والی رقم اس پر اُٹھنے والے اخراجات سے کہیں کم ملیگی تو اس نے آلو کی فصل کو منڈی تک پہنچانے کی زحمت ہی نہیں کی اور پکی ہوئی تیار فصل کو ہل چلا کر زمین کے اندر ہی دفن کردیا ۔یہ ہے اس ملک کے اس کاشتکار کی کہانی جو برفانی راتوں اور چلچلاتی دھوپ میں ہل چلاکر ملک کے کروڑوں باشندوں کا پیٹ بھرنے کے لیے خوراک مہیّاکررہا ہے۔ کچھ عرصے سے اجناس کی برآمدرک گئی ہے جسکے باعث سفید پوش کسان عرش سے فرش پر آگرا ہے۔
غرباء و مساکین کو خیرات و صدقہ دینے والے کنبے خود صدقہ وخیرات کے محتاج ہوگئے ہیں ایسی ہی ایک سفید پوش فیملی کا بزرگ پچھلے دنوں بتارہاتھا کہ "چند سال پہلے تک اﷲ کا فضل تھا، فصل اچھی ہوتی تھی اور جنس کے نرخ بہت اچھے مل رہے تھے ۔ہمارے گھروں میں خوشحالی تھی۔ بچّے اچھے اسکولوں میں پڑھ رہے تھے اور بچیوں کے اچھی جگہوں پر رشتے ہورہے تھے پھر یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے"مگراب کاشتکاروں کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ہم دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوگئے ہیں اور ہماری بیٹیوں کے رشتے ٹوٹ گئے ہیں" ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک کو قدرت کی طرف سے بے پناہ نعمتیں اور وسائل میّسر ہیں،یہاں کے موسم اور مٹّی قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ معدنیات سے بھرپور ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا اور نہریں موجود ہیں۔ مگر بے نیاز حکومتوں، قومی جذبے سے عاری نوکر شاہی فاترالعقل منصوبہ سازوں اورذاتی مفادات کے غلام عوامی نمایندوں نے مل کر اس کی زراعت کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
کسی بھی ملک کے زرعی سیکٹر کی ترقی کے لیے جدید طرز کی ریسرچ اور تحقیقی ادارے بنیادی اہمیّت کے حامل ہوتے ہیں، ہمارے ہاں زرعی تحقیق کے ادارے کبھی بہت فعال ہوتے تھے، حکومت کا رویہ ہمدردانہ اور مربّیانہ ہوتا تھا، ان کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا تھا اس لیے ان کی کاوشوں کے ثمرات کسانوں تک پہنچتے تھے۔ اب یہی ادارے حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔
اس ضمن میں نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ کونسل کی زمین کا اشومیڈیا کا موضوع بناہوا ہے۔لگتا ہے زراعت جیسے اہم ترین شعبے کی تحقیق کے لیے مختص جگہ پرکسی بیوروکریٹ کی ہوسناک نظریں پڑگئیں اور اس نے کچھ لوکل سیاستدانوں کو ساتھ ملا کر زراعت کی مقدّس زمین پر بھی اپنے لیے پلاٹ لینے کے خواب دیکھنا شروع کردیے ۔یہ سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ زرعی تحقیق کے لیے مخصوص جگہ ہتھیا کر اُس پر ہاؤسنگ کالونی بنانے کی سازش!توبہ! اَستغفراﷲ! ہوس کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اﷲ کرے ان ہوس کے پجاریوں سے اسلام آباد کے پارک اور گراؤنڈ محفوظ رہیں۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آتے ہی اس بات کی شدّت سے ضرورت محسوس کی گئی کہ زرعی تحقیق کے لیے وفاقی سطح پر ایک جدید قومی ادارہ قائم کیا جائے۔ بالآخر1975میں NARC کی بنیاد رکھی گئی بعدازاں RUSTکی بیماری نے گندم کی فصل او ر جھلساؤ کی بیماری نے چنے کی فصل کو نقصان پہنچایا جس سے اس ادارے کی ضرورت اور افادیت میں مزید اضافہ ہوا۔
USAID کے تعاون سے اس ادارے کو جدید بنیادوں پر استوار کیا گیا اور 10سال کی شبانہ روز محنت کے بعد Multidisciplinary ریسرچ سینٹر کا قیام عمل میں آیا۔ جو عالمی معیا ر کی حامل جدید ترین لیبارٹریز، تجرباتی پلاٹس، گرین ہاؤسز، گلاس ہاؤسز اور اینمل شیڈز پر مشتمل ہے جن کی موجودگی زرعی تحقیقی عمل کو جاری رکھنے کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں پاکستان کے نیشنل ایگرکلچرل ریسرچ کونسل کو بہت اچھے معیار کا تحقیقی ادارہ قرار دیا جاتاہے۔ NARC ملک کاایک قومی اثاثہ ہے۔جو دنیا کے1700 اداروں میں اٹھارویں نمبرپر شمار کیا جاتا ہے۔
یہ ادارہ زرعی تحقیق، فوڈ سیکیورٹی، پیداوار میں اضافے اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کررہاہے۔اس میں400سے زائداعلیٰ تعلیم یافتہ سائینسدان اور 800 سے زائد دیگر ملازمین کام کررہے ہیں۔ نیشنل ایگر کلچرل ریسرچ کونسل کے ذمے داران کا کہنا ہے کہ اس تحقیقی ادارے نے ملک کو اربوں روپے کافائدہ پہنچایا ہے اور کئی فصلوں کی بیماریوں کا تدارک کیا ہے۔
متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ جاپان کے تعاون سے یہاںمنفرد GeneBank قائم کیا گیا جو کہ ملکی فوڈ سیکیورٹی کا اہم ترین ستون ہے۔ جس میں 35000 ہزار سے زائد Germplasm محفوظ ہیں۔یہ بات نہایت اہم ہے کہ خیبر پختونخوا میں سیلاب اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے باعث مکمل طور پر تباہ ہوجانے والے Germplasm کی دوبارہ فراہمی NARC کے باعث ممکن ہوسکی۔ اس ادارے نے 1995 سے اب تکHydropericardium کی ویکسین تیار کرکے ملکی پولٹری انڈسٹری کو تباہی سے بچایا ہوا ہے۔ 2008 میںقائم کی گئی National Reference Lab for Poltry Diseases نے پاکستان کوبرڈفلو سے پاک ملک ہونے کا اعزازبخشاہے اور پاکستان سے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں پولٹری مصنوعات بر آمدکرنے پر پابندی اٹھالی گئی۔
پاکستان ہر سال تقریباً 12ارب روپے کا ٹماٹر بھارت سے درآمد کرتا ہے۔NARC کسان بھائیوں سے ملکر زیادہ پیداواری صلاحیت رکھنے والے ٹماٹر کی اقسام اور پیداواری ٹیکنالوجیز کو متعارف کروارہاہے۔ جس کے تحت ابتدائی طور پر 40مقامات پر 80 کسان خاندانوں کو تربیت دی جارہی ہے۔ جس سے نہ صرف خطیر زرمبادلہ بچانے میں مدد ملے گی بلکہ کسان بھی خوشحال ہوگا۔
NARC نے کینولہ سرسوں،Strawberry، انگور اور زیتون کی کاشت متعارف کروائی ہے جس سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچے گا۔ اس ادارے نے اطالوی حکومت کے تعاون سے زیتون کی ترویج و ترقی کے لیے ایک منصوبہ مکمل کیا ہے۔ جس کی بنیاد پر حکومت پاکستان نے قومی سطح پر ایک جامع منصوبہ منظور کیا ہے،جس کے تحت ملک بھر میں موزوں مقامات پر 50ہزار ایکڑ پر زیتون کی کاشت کی جائے گی۔
پاکستان سویا بین اور سویا میل کی درآمد پر ہر سال65 بلین روپے خرچ کرتا ہے۔ NARC نے ملکی سطح پر سویابین کی ترویج و ترقی کے لیے جامع منصوبہ ترتیب دیا ہے جس کے تحت ابتدائی طور پر200 ٹن بیج پیدا کرلیا گیا ہے جس کی Multiplication سے اس فصل کو وسیع رقبے پر کاشت کرنا ممکن ہوگا۔
اس ادارے نےSewage Water یعنی گندے پانی کو قابلِ اِستعمال بنانے کے لیےBioremediation ٹیکنالوجی متعارف کروائی ہے۔اس کے تیار کردہHot Water Treatment Plant کی بدولت وطن عزیز آم ایکسپورٹ کرنے والا بڑا ملک بن گیاہے۔ 2014میں91 ملین ٹن ریکارڈ ایکسپورٹ کی گئی۔ جب کہ پڑوسی ملک پر بدستور پابندی عائد ہے۔
اس ادارے کامزید دعوٰی ہے کہ اس نے نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ سسٹم کے تحت گندم،چاول، مکئی، کپاس، کماد،دالیں،چارہ جات،تیل والی فصلیں، سبزیوں اور پھلوں کی 600سے زائدنئی اقسام اور ہائبرڈ تیار کرنے میں مدد کی۔ جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا فائدہ مسلسل پہنچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ادارہ ٹشو کلچر ٹیکنالوجی سے وائرس سے پاک کیلے کے لاکھو ںپودے تیار کررہا ہے جس کی وجہ سے کیلے کی فصل کو صوبہ سندھ میں جدید خطوط پر استوار کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ قومی ادارہ ہر سال ملک بھر سے سیکڑوں کسانوں، توسیعی کارکنان، زراعت آفیسرز اور سائینسدانوں کو جدید تکنیکی تربیت مہیا کرتاہے۔
آج زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جوقومی پیداوار(GDP)کا22فیصدہے اور جو 65فیصد لوگوں کو روزگار مہیا کرتی ہے۔ فوڈ سیکیورٹی ملکی بقاء کی ضامن ہے اوراس کی اہمیّت کسی طرح بھی ایٹم بم سے کم نہیں۔ اس کی زندہ مثال سوویت یونین کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا ہے۔ جس نے سیکڑوں ایٹم بم بنالیے، چاند ستاروں پر کمندیں ڈال لیں لیکن خوراک کی عدم فراہمی کی وجہ سے اپنا وجود سوویت یونین کے طور پر برقرار نہ رکھ سکا۔
جنابِ وزیراعظم! آپ ملکی معیشت میںبہتری کے لیے کوشاں ہیں مگر زراعت کی بہتری کے بغیر معیشت میںکبھی بہتری نہیں آسکتی اور زراعت میں بہتری اَعلیٰ معیار کی ریسرچ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
کون نہیں جانتا کہ 2001تک پاکستان میںکپاس کی پیداوار بھارت سے زیادہ تھی۔ بھارت سالانہ 12ہزار ملین گانٹھیں جب کہ پاکستان تیرہ ہزار ملین گانٹھیں پیدا کرتا تھا مگر بھارت نے بہتر بیج پیدا کرلیا جسکی مدد سے اب ان کی سالانہ پیداوار پینتیس ہزار ملین تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح مستند اور بہتر بیج کے باعث بھارت میں گندم اور چاول کی فی ایکڑ پیداوار ہم سے دگنی ہے۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے زرعی تحقیق کے اداروں پرتوجہ دی جائے۔ انھیں فنڈز مہیّا کرکے ٹارگٹ دیے جائیں اور کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے نگرانی کا موثّر نظام وضع کیا جائے۔ ہمیں پوری توقع ہے کہ وزیرِاعظم صاحب زرعی تحقیق کے منافی کسی بھی اقدام کی اجازت نہیں دینگے اورناروے سے لوٹتے ہی ریسرچ کے لیے مختص زمین پر ہاؤسنگ کالونی بنانے کی بیہودہ اور شرمناک تجویز کو مسترد کردینگے۔ زراعت کی زبوں حالی کی کہانی ابھی جاری ہے۔
صورتِ حال یہ ہے کہ وطنِ عزیز کی پانچوں بڑی فصلیں چاول ،کپاس، گندم،گنّا اورآلو بدترین بحران کا شکارہیں پچھلے دو سالوں سے چاول برآمد نہیں ہوسکا ، پرانے اسٹاک گوداموں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس سال کاشتکارکو پچھلے سال کی نسبت مونجی کی آدھی قیمت بھی نہیں مل سکی۔ پچھلے سال باسمتی مونجی 2500روپے من بکتی رہی جب کہ اس سال کسان کے لیے وہی مونجی بارہ تیرہ سو روپے فی من بیچنا بھی مشکل تھا۔کپاس کی کاشت پرفی ایکڑتقریباً چوالیس ہزار روپے اخراجات آتے ہیں جب کہ کاشتکار کو بیس سے بائیس ہزارروپے فی ایکڑ قیمت وصول ہوئی جو اخراجات سے کہیں کم ہے۔گندم کی سرکاری قیمت خرید 1300روپے فی من مقررہے مگر کھیت میں کاشتکار کو دو سے تین سوروپے فی من کم ملتی رہی ہے۔گنّے کی فصل اچھی تھی مگر شوگر ملوں کے مالکان نے کاشتکاروں کو ان کی محنت کا صحیح معاوضہ نہیں دیا لہٰذا انھیں گنیّ کے بہت کم نرخ مل سکے۔
آلو کے کاشتکار نے جب اندازہ لگایا کہ فروخت کے بعد وصول ہونے والی رقم اس پر اُٹھنے والے اخراجات سے کہیں کم ملیگی تو اس نے آلو کی فصل کو منڈی تک پہنچانے کی زحمت ہی نہیں کی اور پکی ہوئی تیار فصل کو ہل چلا کر زمین کے اندر ہی دفن کردیا ۔یہ ہے اس ملک کے اس کاشتکار کی کہانی جو برفانی راتوں اور چلچلاتی دھوپ میں ہل چلاکر ملک کے کروڑوں باشندوں کا پیٹ بھرنے کے لیے خوراک مہیّاکررہا ہے۔ کچھ عرصے سے اجناس کی برآمدرک گئی ہے جسکے باعث سفید پوش کسان عرش سے فرش پر آگرا ہے۔
غرباء و مساکین کو خیرات و صدقہ دینے والے کنبے خود صدقہ وخیرات کے محتاج ہوگئے ہیں ایسی ہی ایک سفید پوش فیملی کا بزرگ پچھلے دنوں بتارہاتھا کہ "چند سال پہلے تک اﷲ کا فضل تھا، فصل اچھی ہوتی تھی اور جنس کے نرخ بہت اچھے مل رہے تھے ۔ہمارے گھروں میں خوشحالی تھی۔ بچّے اچھے اسکولوں میں پڑھ رہے تھے اور بچیوں کے اچھی جگہوں پر رشتے ہورہے تھے پھر یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے"مگراب کاشتکاروں کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ہم دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوگئے ہیں اور ہماری بیٹیوں کے رشتے ٹوٹ گئے ہیں" ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک کو قدرت کی طرف سے بے پناہ نعمتیں اور وسائل میّسر ہیں،یہاں کے موسم اور مٹّی قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ معدنیات سے بھرپور ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا اور نہریں موجود ہیں۔ مگر بے نیاز حکومتوں، قومی جذبے سے عاری نوکر شاہی فاترالعقل منصوبہ سازوں اورذاتی مفادات کے غلام عوامی نمایندوں نے مل کر اس کی زراعت کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
کسی بھی ملک کے زرعی سیکٹر کی ترقی کے لیے جدید طرز کی ریسرچ اور تحقیقی ادارے بنیادی اہمیّت کے حامل ہوتے ہیں، ہمارے ہاں زرعی تحقیق کے ادارے کبھی بہت فعال ہوتے تھے، حکومت کا رویہ ہمدردانہ اور مربّیانہ ہوتا تھا، ان کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا تھا اس لیے ان کی کاوشوں کے ثمرات کسانوں تک پہنچتے تھے۔ اب یہی ادارے حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔
اس ضمن میں نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ کونسل کی زمین کا اشومیڈیا کا موضوع بناہوا ہے۔لگتا ہے زراعت جیسے اہم ترین شعبے کی تحقیق کے لیے مختص جگہ پرکسی بیوروکریٹ کی ہوسناک نظریں پڑگئیں اور اس نے کچھ لوکل سیاستدانوں کو ساتھ ملا کر زراعت کی مقدّس زمین پر بھی اپنے لیے پلاٹ لینے کے خواب دیکھنا شروع کردیے ۔یہ سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ زرعی تحقیق کے لیے مخصوص جگہ ہتھیا کر اُس پر ہاؤسنگ کالونی بنانے کی سازش!توبہ! اَستغفراﷲ! ہوس کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اﷲ کرے ان ہوس کے پجاریوں سے اسلام آباد کے پارک اور گراؤنڈ محفوظ رہیں۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آتے ہی اس بات کی شدّت سے ضرورت محسوس کی گئی کہ زرعی تحقیق کے لیے وفاقی سطح پر ایک جدید قومی ادارہ قائم کیا جائے۔ بالآخر1975میں NARC کی بنیاد رکھی گئی بعدازاں RUSTکی بیماری نے گندم کی فصل او ر جھلساؤ کی بیماری نے چنے کی فصل کو نقصان پہنچایا جس سے اس ادارے کی ضرورت اور افادیت میں مزید اضافہ ہوا۔
USAID کے تعاون سے اس ادارے کو جدید بنیادوں پر استوار کیا گیا اور 10سال کی شبانہ روز محنت کے بعد Multidisciplinary ریسرچ سینٹر کا قیام عمل میں آیا۔ جو عالمی معیا ر کی حامل جدید ترین لیبارٹریز، تجرباتی پلاٹس، گرین ہاؤسز، گلاس ہاؤسز اور اینمل شیڈز پر مشتمل ہے جن کی موجودگی زرعی تحقیقی عمل کو جاری رکھنے کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں پاکستان کے نیشنل ایگرکلچرل ریسرچ کونسل کو بہت اچھے معیار کا تحقیقی ادارہ قرار دیا جاتاہے۔ NARC ملک کاایک قومی اثاثہ ہے۔جو دنیا کے1700 اداروں میں اٹھارویں نمبرپر شمار کیا جاتا ہے۔
یہ ادارہ زرعی تحقیق، فوڈ سیکیورٹی، پیداوار میں اضافے اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کررہاہے۔اس میں400سے زائداعلیٰ تعلیم یافتہ سائینسدان اور 800 سے زائد دیگر ملازمین کام کررہے ہیں۔ نیشنل ایگر کلچرل ریسرچ کونسل کے ذمے داران کا کہنا ہے کہ اس تحقیقی ادارے نے ملک کو اربوں روپے کافائدہ پہنچایا ہے اور کئی فصلوں کی بیماریوں کا تدارک کیا ہے۔
متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ جاپان کے تعاون سے یہاںمنفرد GeneBank قائم کیا گیا جو کہ ملکی فوڈ سیکیورٹی کا اہم ترین ستون ہے۔ جس میں 35000 ہزار سے زائد Germplasm محفوظ ہیں۔یہ بات نہایت اہم ہے کہ خیبر پختونخوا میں سیلاب اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے باعث مکمل طور پر تباہ ہوجانے والے Germplasm کی دوبارہ فراہمی NARC کے باعث ممکن ہوسکی۔ اس ادارے نے 1995 سے اب تکHydropericardium کی ویکسین تیار کرکے ملکی پولٹری انڈسٹری کو تباہی سے بچایا ہوا ہے۔ 2008 میںقائم کی گئی National Reference Lab for Poltry Diseases نے پاکستان کوبرڈفلو سے پاک ملک ہونے کا اعزازبخشاہے اور پاکستان سے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں پولٹری مصنوعات بر آمدکرنے پر پابندی اٹھالی گئی۔
پاکستان ہر سال تقریباً 12ارب روپے کا ٹماٹر بھارت سے درآمد کرتا ہے۔NARC کسان بھائیوں سے ملکر زیادہ پیداواری صلاحیت رکھنے والے ٹماٹر کی اقسام اور پیداواری ٹیکنالوجیز کو متعارف کروارہاہے۔ جس کے تحت ابتدائی طور پر 40مقامات پر 80 کسان خاندانوں کو تربیت دی جارہی ہے۔ جس سے نہ صرف خطیر زرمبادلہ بچانے میں مدد ملے گی بلکہ کسان بھی خوشحال ہوگا۔
NARC نے کینولہ سرسوں،Strawberry، انگور اور زیتون کی کاشت متعارف کروائی ہے جس سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچے گا۔ اس ادارے نے اطالوی حکومت کے تعاون سے زیتون کی ترویج و ترقی کے لیے ایک منصوبہ مکمل کیا ہے۔ جس کی بنیاد پر حکومت پاکستان نے قومی سطح پر ایک جامع منصوبہ منظور کیا ہے،جس کے تحت ملک بھر میں موزوں مقامات پر 50ہزار ایکڑ پر زیتون کی کاشت کی جائے گی۔
پاکستان سویا بین اور سویا میل کی درآمد پر ہر سال65 بلین روپے خرچ کرتا ہے۔ NARC نے ملکی سطح پر سویابین کی ترویج و ترقی کے لیے جامع منصوبہ ترتیب دیا ہے جس کے تحت ابتدائی طور پر200 ٹن بیج پیدا کرلیا گیا ہے جس کی Multiplication سے اس فصل کو وسیع رقبے پر کاشت کرنا ممکن ہوگا۔
اس ادارے نےSewage Water یعنی گندے پانی کو قابلِ اِستعمال بنانے کے لیےBioremediation ٹیکنالوجی متعارف کروائی ہے۔اس کے تیار کردہHot Water Treatment Plant کی بدولت وطن عزیز آم ایکسپورٹ کرنے والا بڑا ملک بن گیاہے۔ 2014میں91 ملین ٹن ریکارڈ ایکسپورٹ کی گئی۔ جب کہ پڑوسی ملک پر بدستور پابندی عائد ہے۔
اس ادارے کامزید دعوٰی ہے کہ اس نے نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ سسٹم کے تحت گندم،چاول، مکئی، کپاس، کماد،دالیں،چارہ جات،تیل والی فصلیں، سبزیوں اور پھلوں کی 600سے زائدنئی اقسام اور ہائبرڈ تیار کرنے میں مدد کی۔ جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا فائدہ مسلسل پہنچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ادارہ ٹشو کلچر ٹیکنالوجی سے وائرس سے پاک کیلے کے لاکھو ںپودے تیار کررہا ہے جس کی وجہ سے کیلے کی فصل کو صوبہ سندھ میں جدید خطوط پر استوار کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ قومی ادارہ ہر سال ملک بھر سے سیکڑوں کسانوں، توسیعی کارکنان، زراعت آفیسرز اور سائینسدانوں کو جدید تکنیکی تربیت مہیا کرتاہے۔
آج زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جوقومی پیداوار(GDP)کا22فیصدہے اور جو 65فیصد لوگوں کو روزگار مہیا کرتی ہے۔ فوڈ سیکیورٹی ملکی بقاء کی ضامن ہے اوراس کی اہمیّت کسی طرح بھی ایٹم بم سے کم نہیں۔ اس کی زندہ مثال سوویت یونین کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا ہے۔ جس نے سیکڑوں ایٹم بم بنالیے، چاند ستاروں پر کمندیں ڈال لیں لیکن خوراک کی عدم فراہمی کی وجہ سے اپنا وجود سوویت یونین کے طور پر برقرار نہ رکھ سکا۔
جنابِ وزیراعظم! آپ ملکی معیشت میںبہتری کے لیے کوشاں ہیں مگر زراعت کی بہتری کے بغیر معیشت میںکبھی بہتری نہیں آسکتی اور زراعت میں بہتری اَعلیٰ معیار کی ریسرچ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
کون نہیں جانتا کہ 2001تک پاکستان میںکپاس کی پیداوار بھارت سے زیادہ تھی۔ بھارت سالانہ 12ہزار ملین گانٹھیں جب کہ پاکستان تیرہ ہزار ملین گانٹھیں پیدا کرتا تھا مگر بھارت نے بہتر بیج پیدا کرلیا جسکی مدد سے اب ان کی سالانہ پیداوار پینتیس ہزار ملین تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح مستند اور بہتر بیج کے باعث بھارت میں گندم اور چاول کی فی ایکڑ پیداوار ہم سے دگنی ہے۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے زرعی تحقیق کے اداروں پرتوجہ دی جائے۔ انھیں فنڈز مہیّا کرکے ٹارگٹ دیے جائیں اور کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے نگرانی کا موثّر نظام وضع کیا جائے۔ ہمیں پوری توقع ہے کہ وزیرِاعظم صاحب زرعی تحقیق کے منافی کسی بھی اقدام کی اجازت نہیں دینگے اورناروے سے لوٹتے ہی ریسرچ کے لیے مختص زمین پر ہاؤسنگ کالونی بنانے کی بیہودہ اور شرمناک تجویز کو مسترد کردینگے۔ زراعت کی زبوں حالی کی کہانی ابھی جاری ہے۔