جمہوریت پسندوں کا امتحان

ملکی سیاست کا ’’سیاسی منظر نامہ‘‘ تبدیل ہونے والا ہے، عمران خان کا جوڈیشل کمیشن کےفیصلےکے بعد تحریک چلانے کا ارادہ ہے



ملکی سیاست کا ''سیاسی منظر نامہ'' تبدیل ہونے والا ہے۔انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے بارے میں جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ چند روز میں متوقع ہے، طاہر القادری کی پاکستان تشریف آوری ہو چکی ہے، پرویز مشرف نے بھی طاہرالقادری کو کراچی آنے اور بالمشافہ ملاقات کرنے کی دعوت دی ہے، عمران خان بھی جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد حکومت کے خلاف پرزور تحریک چلانے کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں، سربراہ تحریک انصاف نے تو اپنی جماعت والوں سے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ الیکشن کی تیاری کریں، فیصلہ ان کے حق میں آئے گا۔

بہرحال یہ خواہشات ہیں جن کا فیصلوں سے کوئی تعلق نہیں۔ جمہوریت پسند قوتیں گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی دست و گریباں ہونے کے اشارے دے رہی ہیں، وفاقی حکومت پردباؤ بڑھ رہا ہے، ملکی سیاست کے کئی نئے پہلو سامنے آتے جا رہے ہیں اور یہ سب انتشار کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ماضی قریب میں بابائے مفاہمت جناب زرداری صاحب کی تلخ و شیریں تقریر نے سیاسی فضاء کو نہ صرف گرما دیا ہے، بلکہ سیاسی Polarization کو بھی واضح کر کے بیرون ملک تشریف لے گئے ہیں، میری ناقص رائے میں اب زرداری صاحب ''پراکسی وار'' شروع کرنے والے ہیں یعنی بلاول کو فرنٹ مین کا کردار سونپ کر خود بیک اینڈ سے سیاست کی قلابازیاں لگائیں گے اوربلاول جن کا رجحان پنجاب کی طرف زیادہ دکھائی دیتا ہے۔

پسند نہیں کرتا، اگر نوازشریف پر مزید دباؤ بڑھتا ہے تو پیپلز پارٹی حکومت کا ساتھ دے گی یا نہیں۔ جوڈیشل کمیشن کی تلوار نوازشریف کے سر پر لٹک رہی ہے' سہ رکنی جوڈیشل کمیشن نے انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے تحقیقات کی سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ اب فیصلے کا انتظار ہے۔ اس طرح کے فیصلے کی امید بھی کی جاسکتی ہے کہ 2013کے انتخابات میں بعض جگہوں پر بے ضابطگیاں ہوئیں، بدانتظامی ہوئی وغیرہ ۔

موجودہ حالات کس سمت میں جا رہے ہیںاور کہاں پہنچ کر رکیں گے، اس کا اندازہ تو سبھی کو ہے، مگر منہ کھولنے پر کوئی بھی آمادہ نہیں ہے۔ جمہوریت پسند قوتیں نہ جانے کیوں یہ چاہتی ہیں کہ ان کے درمیان تیسری قوت آجائے اور پھر انھیں برسوں انتظار کرنا پڑے۔کوئی فرد واحد بھی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں بات کرنے سے قاصر ہے، حالانکہ اسٹیبلشمنٹ کبھی نہیں چاہے گی کہ وطن عزیز کے حالات سیاستدانوں کی پہنچ سے دور چلے جائیں اور اسے ماضی کی طرح دوبارہ سیاست میں کودنا پڑے اور نواز شریف بھی کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ برسوں بعد ملنے والا اقتدار ان کے ہاتھ سے اس دفعہ پھر چھن جائے اور انھیں جلاوطن ہونا پڑے۔!!! اور بقول شاعر بھوشن سونم، مصالحت ممکن نظر نہیں آتی۔۔۔

میرے پاس اصول ہیں ، اقتدار نہیں
تمہارے پاس اقتدار ہے، اصول نہیں
تم تم ہو اور میں میں ہوں
مصالحت ممکن نہیں

محترم نوازشریف! آپ بڑے قد کے وزیراعظم ہیں، آپ نے اقتدار میں آنے کے بعد بہت سے اچھے کام کیے ہیں جن میں میگا پراجیکٹس بھی شامل ہیں، تو ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد متوقع خراب حالات، ملک و قوم کو نقصان پہنچائیں اور بعد میں مورد الزام بھی آپ کو ٹھہرایا جائے تو آپ خود ہی اسمبلیاں ختم کرکے دوبارہ شفاف الیکشن کروا دیں اس اثناء میں اگر آپ الیکشن سسٹم کو ٹھیک کر جائیں توآپ تاقیامت لوگوں کے دلوں میں راج کریں گے بالکل ویسے ہی جیسے لینن آج بھی ہر روسی، ماوزے تنگ ہر چینی، امام خمینی ہر ایرانی اور قائد اعظم محمد علی جناح ہر پاکستانی کے دل میں زندہ ہے اور وہ انھیں اپنا مسیحا اور نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔

محترم وزیراعظم! ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ جمہوریت ڈی ریل نہیں ہونی چاہیے، حالانکہ عوام کا اس جمہوریت میں پانچ سال کے بعد پرچی پر مہر لگانے کے سوا اور کوئی کردار نہیں رہا۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور انتخابات کو ہی جمہوریت سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ جمہوریت ایک ایسا سیاسی نظام ہے جس میں گڈ گورننس بنیادی تقاضا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو مدتوں یاد رکھیں، آپکی تصویریں اپنے گھروں میں لگائیں، لوگ آپ کی خدمات پر آپ کو خراج عقیدت پیش کریں تو آپ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، جناب وزیراعظم گستاخی معاف لیکن یہ کہہ کر کہ الیکشن میری سربراہی میں نہیں ہوئے یہ کام الیکشن کمیشن کا ہے، آپ کسی طور بھی اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآں اور بری الذمہ نہیں ہوسکتے، اقتدار کی پروا نہ کریں' جمہوریت بچائیے،،، ورنہ اقبالؒ کا یہ شعر کہیں سچ نہ ہو جائے جو انھوں نے جمہوریت کی مخالفت میں کہا تھا،،،

گریز اَز طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید

''یعنی اے تجربہ کار اور عقل مند غلام جمہوری طرز حکومت سے دور رہ، کبھی دو سو گدھوں کی عقل و فہم ایک انسانی عقل و فہم و تدبر کے برابر نہیں ہو سکتی''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں