وقت ِ د ُعا
کئی مسلم ریاستوں کا شمار دنیا کی امیر ترین ریاستوں میں ہونے کے باوجود مسلمان ذلت اور خواری کا شکار ہیں۔
دنیا میں مسلمانوں کی تعداد دو ارب کے لگ بھگ ہے ۔ مال و دولت کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کی حیثیت مستحکم ہے۔ کتنے ہی مسلم ممالک تیل اور دیگر معدنیات اور ہیروں اور جواہرت کے اتھاہ خزانوں اور ذخائر سے مالا مال ہیں، کئی مسلم ریاستوں کا شمار دنیا کی امیر ترین ریاستوں میں ہوتا ہے لیکن مسلمان اس کے باوجود ذلت اور خواری کا شکار ہیں۔کیفیت یہ ہے کہ بقول مولانا حالی:
اے خاصۂ خاصانِ رُسُل وقت ِدعا ہے
امت پہ تری آکے عجیب وقت پڑا ہے
ذلت اور رسوائی امت مسلمہ کا مقدر بنی ہوئی ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کو دہشت گرد کا نام دے کر حقارت کی نگاہوں سے دیکھا جارہاہے اور ان کی حالت یہ ہے کہ بقول اقبال:
یہ مسلمان ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
مسلمانوں کی اس حالت کا یوں تو بہت سے اسباب گنائے جاسکتے ہیں لیکن اس کا بنیادی سبب ایک ہی ہے اور وہ ہے عشق رسولؐ سے محرومی اور ﷲ کے خوف سے دوری۔ذرا ماضی پر نظر ڈالیے تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ بے سروسامانی کی حالت میں بھی اہل ایمان کو باطل پر غلبہ حاصل تھا۔ جنگ بدر کے موقعے پر مسلمانوں کے لشکر میں صرف 2گھوڑے، 6تلواریں اور 70اونٹ تھے جب کہ ان کے مد مقابل دشمن کے پاس 100 زرہیں اور 950فوجی تھے جب کہ مسلمانوں کے لشکرکی تعداد صرف 313 تھی لیکن اس کے باوجود انھیں باطل پر غلبہ حاصل ہوا اور فتح مبین ان کا مقدر بنی۔
غزوہ احد میں حضور ؐکے چچا حضرت امیر حمزہ کے علاوہ ایک اور نامی گرامی صحابہ حضرت مصعب بن عمیرؓ بھی شہید ہوئے جوکہ مکہ مکرمہ کی امیر ترین خاتون کے لخت جگر تھے اور ان کی امارت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پورے مکہ شہر میں عالم یہ تھا کہ جہاں سے ان کا گزر ہوتا وہ پورا راستہ دیر تک مہکتا رہتا تھا۔
ہر شخص کو معلوم تھا کہ یہ خوشبو مصعب بن عمیرؓ کے سوا اور کوئی شخص نہیں لگاسکتا مگر جب اسلام قبول کیا تو ماں نے یہ تمام آسائشیں ان سے واپس لے لیں حتیٰ کہ جسم پر زیب تن کیے ہوئے کپڑے بھی واپس لے لیے۔ چنانچہ جب ہجرت کرکے حبشہ کی طرف واپس آئے تو چادر جگہ جگہ سے تار تار تھی اورقمیص میں پیوند لگے ہوئے تھے۔
اس وقت مسلمانوں کی بے سروسامانی کی کیفیت یہ تھی کہ غزوہ احد کے موقعے پر اپنے ساتھ کفن تک نہیں لاسکے تھے۔ اس موقعے پر حضورؐ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ دو عدد چادریں لے کر آئیں جن کے بارے میں اﷲ کے نبیؐ نے فرمایا کہ ایک چادر میرے چچا کو کفن کے طور پر دے دو اور دوسری مصعب بن عمیر کو دے دو ۔اسلام کی عظمت اور سر بلندی کے دور میں یہ تھی مسلمانوں کی حالت۔ایک مرتبہ حضورؐ مسجد سے باہر نکلے تو آپؐ کی نظر مبارک وہاں کھڑے ہوئے ابوبکرؓ اور عمرؓ پر پڑی جن کے چہروں پر بھوک کے آثار نمایاں تھے۔ آپؐ نے پوچھا کیا بات ہے تو آپ دونوں نے عرض کیا کہ بھوک کی شدت ہے تو ہم نے سوچا کہ آپؐ کی زیارت کرلی جائے اس پر آپؐ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ جس چیز نے آپ دونوں کو تنگ کیا ہوا ہے اس نے مجھے بھی تنگ کیا ہے آؤ باہر چلتے ہیں۔
چنانچہ وہاں سے روانہ ہوکر آپ تینوں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر تشریف لے گئے ۔ آپ کی خوشبو پاکر حضرت ابو ایوب انصاری گھر سے باہر آتے ہیں تو حضورؐ چہرہ مبارک سے صاف ظاہر ہورہا ھا کہ بھوک کی شدت نے تنگ کر رکھا ہے ۔ حضرت ایوب انصاریؓ اپنی بکری کو ذبح کرکے اپنی زوجہ کوکھانا تیارکرنے کی ہدایت کرتے ہیں ۔
جب کھانا تیار ہوجاتا ہے توحضورؐ فرماتے ہیں ایک روٹی اور چند بوٹیاں میری بیٹی حضرت فاطمہؓ کو دے آؤکیوں کہ اس نے کئی روز سے کچھ بھی نہیں کھایا ہے یہ تھی سرورکونینؐ کے اپنے گھر کی معاشی حالت۔ایک مرتبہ ایک صحابی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے پیٹ پر بھوک کی حالت میں پتھر بندھا ہوا تھا۔ مگر جب مولائے کائنات نے اپنا پیٹ کھول کر انھیں دکھایا تو وہاں ایک کے بجائے دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔عدی بن خاتم سے روایت ہے کہ میں حضورؐکی خدمت اقدس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص وہاں آیا اور اﷲ کے پیارے نبیؐ کی خدمت میں عرض کی کہ حضورؐ میں بہت خستہ حال اور انتہائی غریب آدمی ہوں عدی کو مخاطب فرماتے ہوئے حضورؐ نے پوچھا کہ عدی کیا تم نے ہیرہ دیکھا ہے؟
ہیرہ عراق کا ایک شہر ہے میں نے عرض کی ''حضورؐ نہیں!'' اس پر آپؐ نے فرمایا ''عدی اﷲ تمہیں زندگی دے تم ایک روز دیکھوگے کہ ایک عورت اکیلی مکہ مکرمہ پہنچے گی جو بڑی مال دار ہوگی اس کے پاس بہت مال واسباب ہوگا مگر اس کے باوجود اسے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوگا اور تم دیکھوگے کہ کسریٰ کی خزانے تمہاری جھولی میں ہوں گے اور تم دیکھوگے کہ اگر زندگی نے وفا کی تو تم یہ بھی دیکھوگے کہ ایک بندہ ہاتھ میں زکوٰۃ لے کر پھر رہا ہوگا مگرکوئی اس کا لینے والا نہیں ہوگا۔
پھر وہ وقت بھی آیا جب حضرت عدی نے دیکھا کہ ایک عورت آئی ہے مال سے لدی پھندی ہوئی اور مسجد نبویؐ کے دروازے پرکسریٰ کے خزانے پڑے ہوئے ہیں۔ فرمایا کہ زندگی نے وفا کی تو تیسری پیش گوئی بھی لازمی پوری ہوکر رہے گی، حضرت یحییٰ بن سعد فرماتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے دور خلافت میں ایک شخص کو زکوٰۃ کی وصولیابی کرنے کے لیے افریقہ کی جانب روانہ کیا۔ اس نے خط کے ذریعے جواب دیا کہ اتنے پیسے جمع ہوگئے ہیں اب فرمائیں کہ ان کا کیا کریں؟ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا کہ جو لوگ زکوٰۃ کے مستحق ہیں ان کو دے دو وہاں سے جواب موصول ہوا کہ یہاں کوئی بھی شخص ایسا موجود نہیں ہے کہ جو زکوٰۃ لینے والا ہو، فرمایئے کہ اب اس جمع شدہ رقم کا کیا کیا جائے ۔آپ نے فرمایا کہ غریب بچیوں کی شادی پر یہ رقم خرچ دی جائے۔
افریقہ سے خط موصول ہوا کہ اب بھی رقم باقی بچ گئی ہے اس کا کیا کریں؟ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے ہدایت جاری فرمائی کہ بچی ہوئی تھی سے مسلمانوں کے قرضے اتار دیے جائیں جواب موصول ہوا کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہے کہ جس پر قرض واجب ہو۔ یہ تھا امت مسلمہ کی عظمت کا سنہری دور جب مسلمانوں کے دل ایمان کی دولت سے غنی ہوا کرتے تھے۔
ایک آج کا دور ہے جب مسلمانوں کے دل جذبۂ ایمانی سے خالی ہیں اور ایک مسلمان دوسرے کی چمڑی ادھیڑنے میں مصروف ہے، رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مال کم تو لا بھی جارہا ہے اور انتہائی مہنگا فروخت بھی کیا جارہاہے۔ اﷲ کا گھر یعنی مسجد بھی محفوظ نہیں جہاں نمازیوں کے جوتے چرائے جارہے ہیں اس پر ہمیں ایک سچا واقعہ یاد آرہا ہے امریکا سے آیا ہوا ایک مسلمان لاہور میں سکھوں کا ایک گوردوارا دیکھنے کے لیے چلاگیا اس نے اپنے جوتے اتارے اور انھیں دیکھنے کے لیے کسی محفوظ جگہ کی تلاش کے لیے سوچ میں پڑ گیا۔
قریب ہی کھڑا ہوا ایک سکھ اس کی اس کیفیت کو بھانپ گیا اور بولا ''بھائی صاحب پریشان نہ ہوں آپ اپنے جوتے جہاں چاہیں رکھ دیں اور بے فکر ہوجائیں کیوں کہ یہ گردوارا ہے کوئی مسجد نہیں ہے'' اپنے حکمرانوں کی بے حسی کا عالم ملاحظہ فرمائیں کہ بجلی کی غیر اعلانیہ اور غیر معینہ لوڈ شیڈنگ کے نتیجے میں گرمی کی شدت کے دوران ہیٹ اسٹروک سے ڈیڑھ ہزار سے بھی زیادہ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہمارے منتخب وزیراعظم ذمے داری کے خلاف کوئی سخت ایکشن لینے کے بجائے الٹا عوام کو جبر کی تلقین فرمارہے ہیں۔ واﷲ! چہ خوب! ہم کہیںگے حال دل اورآپ فرمائیںگے کیا؟
اے خاصۂ خاصانِ رُسُل وقت ِدعا ہے
امت پہ تری آکے عجیب وقت پڑا ہے
ذلت اور رسوائی امت مسلمہ کا مقدر بنی ہوئی ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کو دہشت گرد کا نام دے کر حقارت کی نگاہوں سے دیکھا جارہاہے اور ان کی حالت یہ ہے کہ بقول اقبال:
یہ مسلمان ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
مسلمانوں کی اس حالت کا یوں تو بہت سے اسباب گنائے جاسکتے ہیں لیکن اس کا بنیادی سبب ایک ہی ہے اور وہ ہے عشق رسولؐ سے محرومی اور ﷲ کے خوف سے دوری۔ذرا ماضی پر نظر ڈالیے تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ بے سروسامانی کی حالت میں بھی اہل ایمان کو باطل پر غلبہ حاصل تھا۔ جنگ بدر کے موقعے پر مسلمانوں کے لشکر میں صرف 2گھوڑے، 6تلواریں اور 70اونٹ تھے جب کہ ان کے مد مقابل دشمن کے پاس 100 زرہیں اور 950فوجی تھے جب کہ مسلمانوں کے لشکرکی تعداد صرف 313 تھی لیکن اس کے باوجود انھیں باطل پر غلبہ حاصل ہوا اور فتح مبین ان کا مقدر بنی۔
غزوہ احد میں حضور ؐکے چچا حضرت امیر حمزہ کے علاوہ ایک اور نامی گرامی صحابہ حضرت مصعب بن عمیرؓ بھی شہید ہوئے جوکہ مکہ مکرمہ کی امیر ترین خاتون کے لخت جگر تھے اور ان کی امارت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پورے مکہ شہر میں عالم یہ تھا کہ جہاں سے ان کا گزر ہوتا وہ پورا راستہ دیر تک مہکتا رہتا تھا۔
ہر شخص کو معلوم تھا کہ یہ خوشبو مصعب بن عمیرؓ کے سوا اور کوئی شخص نہیں لگاسکتا مگر جب اسلام قبول کیا تو ماں نے یہ تمام آسائشیں ان سے واپس لے لیں حتیٰ کہ جسم پر زیب تن کیے ہوئے کپڑے بھی واپس لے لیے۔ چنانچہ جب ہجرت کرکے حبشہ کی طرف واپس آئے تو چادر جگہ جگہ سے تار تار تھی اورقمیص میں پیوند لگے ہوئے تھے۔
اس وقت مسلمانوں کی بے سروسامانی کی کیفیت یہ تھی کہ غزوہ احد کے موقعے پر اپنے ساتھ کفن تک نہیں لاسکے تھے۔ اس موقعے پر حضورؐ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ دو عدد چادریں لے کر آئیں جن کے بارے میں اﷲ کے نبیؐ نے فرمایا کہ ایک چادر میرے چچا کو کفن کے طور پر دے دو اور دوسری مصعب بن عمیر کو دے دو ۔اسلام کی عظمت اور سر بلندی کے دور میں یہ تھی مسلمانوں کی حالت۔ایک مرتبہ حضورؐ مسجد سے باہر نکلے تو آپؐ کی نظر مبارک وہاں کھڑے ہوئے ابوبکرؓ اور عمرؓ پر پڑی جن کے چہروں پر بھوک کے آثار نمایاں تھے۔ آپؐ نے پوچھا کیا بات ہے تو آپ دونوں نے عرض کیا کہ بھوک کی شدت ہے تو ہم نے سوچا کہ آپؐ کی زیارت کرلی جائے اس پر آپؐ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ جس چیز نے آپ دونوں کو تنگ کیا ہوا ہے اس نے مجھے بھی تنگ کیا ہے آؤ باہر چلتے ہیں۔
چنانچہ وہاں سے روانہ ہوکر آپ تینوں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر تشریف لے گئے ۔ آپ کی خوشبو پاکر حضرت ابو ایوب انصاری گھر سے باہر آتے ہیں تو حضورؐ چہرہ مبارک سے صاف ظاہر ہورہا ھا کہ بھوک کی شدت نے تنگ کر رکھا ہے ۔ حضرت ایوب انصاریؓ اپنی بکری کو ذبح کرکے اپنی زوجہ کوکھانا تیارکرنے کی ہدایت کرتے ہیں ۔
جب کھانا تیار ہوجاتا ہے توحضورؐ فرماتے ہیں ایک روٹی اور چند بوٹیاں میری بیٹی حضرت فاطمہؓ کو دے آؤکیوں کہ اس نے کئی روز سے کچھ بھی نہیں کھایا ہے یہ تھی سرورکونینؐ کے اپنے گھر کی معاشی حالت۔ایک مرتبہ ایک صحابی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے پیٹ پر بھوک کی حالت میں پتھر بندھا ہوا تھا۔ مگر جب مولائے کائنات نے اپنا پیٹ کھول کر انھیں دکھایا تو وہاں ایک کے بجائے دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔عدی بن خاتم سے روایت ہے کہ میں حضورؐکی خدمت اقدس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص وہاں آیا اور اﷲ کے پیارے نبیؐ کی خدمت میں عرض کی کہ حضورؐ میں بہت خستہ حال اور انتہائی غریب آدمی ہوں عدی کو مخاطب فرماتے ہوئے حضورؐ نے پوچھا کہ عدی کیا تم نے ہیرہ دیکھا ہے؟
ہیرہ عراق کا ایک شہر ہے میں نے عرض کی ''حضورؐ نہیں!'' اس پر آپؐ نے فرمایا ''عدی اﷲ تمہیں زندگی دے تم ایک روز دیکھوگے کہ ایک عورت اکیلی مکہ مکرمہ پہنچے گی جو بڑی مال دار ہوگی اس کے پاس بہت مال واسباب ہوگا مگر اس کے باوجود اسے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوگا اور تم دیکھوگے کہ کسریٰ کی خزانے تمہاری جھولی میں ہوں گے اور تم دیکھوگے کہ اگر زندگی نے وفا کی تو تم یہ بھی دیکھوگے کہ ایک بندہ ہاتھ میں زکوٰۃ لے کر پھر رہا ہوگا مگرکوئی اس کا لینے والا نہیں ہوگا۔
پھر وہ وقت بھی آیا جب حضرت عدی نے دیکھا کہ ایک عورت آئی ہے مال سے لدی پھندی ہوئی اور مسجد نبویؐ کے دروازے پرکسریٰ کے خزانے پڑے ہوئے ہیں۔ فرمایا کہ زندگی نے وفا کی تو تیسری پیش گوئی بھی لازمی پوری ہوکر رہے گی، حضرت یحییٰ بن سعد فرماتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے دور خلافت میں ایک شخص کو زکوٰۃ کی وصولیابی کرنے کے لیے افریقہ کی جانب روانہ کیا۔ اس نے خط کے ذریعے جواب دیا کہ اتنے پیسے جمع ہوگئے ہیں اب فرمائیں کہ ان کا کیا کریں؟ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا کہ جو لوگ زکوٰۃ کے مستحق ہیں ان کو دے دو وہاں سے جواب موصول ہوا کہ یہاں کوئی بھی شخص ایسا موجود نہیں ہے کہ جو زکوٰۃ لینے والا ہو، فرمایئے کہ اب اس جمع شدہ رقم کا کیا کیا جائے ۔آپ نے فرمایا کہ غریب بچیوں کی شادی پر یہ رقم خرچ دی جائے۔
افریقہ سے خط موصول ہوا کہ اب بھی رقم باقی بچ گئی ہے اس کا کیا کریں؟ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے ہدایت جاری فرمائی کہ بچی ہوئی تھی سے مسلمانوں کے قرضے اتار دیے جائیں جواب موصول ہوا کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہے کہ جس پر قرض واجب ہو۔ یہ تھا امت مسلمہ کی عظمت کا سنہری دور جب مسلمانوں کے دل ایمان کی دولت سے غنی ہوا کرتے تھے۔
ایک آج کا دور ہے جب مسلمانوں کے دل جذبۂ ایمانی سے خالی ہیں اور ایک مسلمان دوسرے کی چمڑی ادھیڑنے میں مصروف ہے، رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مال کم تو لا بھی جارہا ہے اور انتہائی مہنگا فروخت بھی کیا جارہاہے۔ اﷲ کا گھر یعنی مسجد بھی محفوظ نہیں جہاں نمازیوں کے جوتے چرائے جارہے ہیں اس پر ہمیں ایک سچا واقعہ یاد آرہا ہے امریکا سے آیا ہوا ایک مسلمان لاہور میں سکھوں کا ایک گوردوارا دیکھنے کے لیے چلاگیا اس نے اپنے جوتے اتارے اور انھیں دیکھنے کے لیے کسی محفوظ جگہ کی تلاش کے لیے سوچ میں پڑ گیا۔
قریب ہی کھڑا ہوا ایک سکھ اس کی اس کیفیت کو بھانپ گیا اور بولا ''بھائی صاحب پریشان نہ ہوں آپ اپنے جوتے جہاں چاہیں رکھ دیں اور بے فکر ہوجائیں کیوں کہ یہ گردوارا ہے کوئی مسجد نہیں ہے'' اپنے حکمرانوں کی بے حسی کا عالم ملاحظہ فرمائیں کہ بجلی کی غیر اعلانیہ اور غیر معینہ لوڈ شیڈنگ کے نتیجے میں گرمی کی شدت کے دوران ہیٹ اسٹروک سے ڈیڑھ ہزار سے بھی زیادہ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہمارے منتخب وزیراعظم ذمے داری کے خلاف کوئی سخت ایکشن لینے کے بجائے الٹا عوام کو جبر کی تلقین فرمارہے ہیں۔ واﷲ! چہ خوب! ہم کہیںگے حال دل اورآپ فرمائیںگے کیا؟