ناکامران اور نامانوس ہوتی ہاکی

قومی ہاکی ٹیم پہلی بار ورلڈ کپ سے باہر ہوئی اور اب پہلی بار ہی اولمپکس گیمز کا حصہ بھی نہیں ہوگی۔

advo786@yahoo.com

ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہی پاکستان ہاکی ٹیم نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، ہاکی کے تمام بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیتی رہی اور تمام بین الاقوامی تمغات اپنے نام کراتی رہی ہے۔ لیکن گزشتہ چند سال سے اس کی کارکردگی انتہائی خراب رہی ہے، پہلے ورلڈ کپ سے باہر ہوئی، اس کے بعد رہی سہی کسر اولمپکس 2016ء کے کوالیفائنگ کے مقابلوں میں نکل گئی، جس میں پاکستان ٹیم آئرلینڈ جیسی کمزور ٹیم سے شکست کھا کر پہلی مرتبہ اولمپکس گیمز سے بھی باہر ہو گئی، جب کہ ساتویں پوزیشن کے لیے وہ فرانس کے سامنے بھی نہ ٹک سکی۔

ایک خبر یہ بھی آئی ہے کہ اولمپکس 2016ء سے باہر ہونے کے بعد پاکستان ہاکی فیڈریشن انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کو پلان بی کے تحت وائلڈ کارڈ انٹری حاصل کرنے کے لیے خط لکھے گی، جس میں پاکستان کے لیے اولمپکس 2016ء کے لیے راستہ ہموار کرنے کی درخواست کی جائے گی۔ قومی ہاکی ٹیم کی اس ناقص کارکردگی اور عبرت ناک شکست پر ہاکی کے شائقین اور سابقہ کھلاڑیوں کے علاوہ عام لوگ بھی افسردہ و دل برداشتہ ہیں۔ اس شرمناک شکست پر پاکستان ہاکی ٹیم کے کپتان نے قوم سے معافی مانگ لی ہے۔

ٹیم کے چیف سلیکٹر اصلاح الدین نے کہا ہے کہ نئی ٹیم کی تشکیل کے لیے 5 سال کا وقت مانگا تھا۔ ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا کہ یہ ٹیم عالمی چیمپئن بن جائے گی، انھوں نے کوچ شہناز شیخ کو سراہتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بہت محنت کی تھی لیکن کھلاڑی فیلڈ میں اچھا نہیں کھیلے تو کوچ خود تو جا کر گول نہیں کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیم کا انتخاب پوری دیانتداری سے کیا گیا تھا لیکن کھلاڑی سو فیصد کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے، تاہم وہ مزید اس عہدے پر کام نہیں کر سکتے۔ سلیکشن کمیٹی کے رکن خالد بشیر، ایاز محمد اور کامران اشرف نے بھی اپنے استعفوں کا اعلان کر دیا ہے۔

قومی ہاکی ٹیم جو کبھی دنیا بھر میں ہاکی کی سرتاج اور بادشاہ ٹیم سمجھی جاتی تھی اس شرمناک کارکردگی پر سابقہ کھلاڑی انتہائی رنجیدہ و افسردہ بلکہ چراغ پا ہیں۔ قومی ہاکی ٹیم کے سابقہ کپتان شہباز سینئر نے شکست کو ملکی ہاکی کا بدترین دن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی اثرات کی حامل پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ارباب اختیار نے قومی کھیل کو انتہائی پست مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔

یہ ہاکی کا سیاہ ترین دن ہے جس پر قوم کبھی بھی پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر اختر رسول اور سیکریٹری رانا مجاہد کو معاف نہیں کرے گی، وہی قومی ہاکی کی بربادی کے اصل ذمے دار ہیں۔ شہباز کا کہنا تھا کہ کوچنگ اسٹاف کی تبدیلی بھی شکست کی وجہ بنی ہے۔ فیڈریشن نے حکومت کی جانب سے ملنے والی گرانٹ کو پانی کی طرح بہایا۔ 18 اکیڈمیوں کے نام پر من پسند لوگوں کو نوازا گیا، ایسے لوگوں کو کوچ مقرر کیا گیا جن کا ہاکی سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں تھا۔ خوش آیند خبر یہ ہے کہ قومی ہاکی ٹیم کی مایوس کن اور خراب کارکردگی پر وزیر اعظم نے وزارت کھیل اور ہاکی فیڈریشن آف پاکستان سے وضاحت طلب کر لی ہے اور ٹیم کی بہتری کے لیے تجاویز بھی طلب کی ہیں۔

وزارت بین الصوبائی امور کے وفاقی وزیر نے شکست کی وجوہات کا جائزہ لینے کے لیے 5 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے، جو اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کرے گی۔ کمیٹی میں سیکریٹری آئی پی سی اور کنوینر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی اعجاز چوہدری، سابق اولمپین شہباز سینئر، کرنل مدثر اصغر، خواجہ جنید اور ڈاکٹر اختر نواز شامل ہیں۔ کمیٹی وجوہات تلاش کرے گی۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا امکان بھی ہے۔ ذرایع کے مطابق وزیر اعظم کی جانب سے ایڈہاک لگائے جانے کا خاص امکان ہے۔


بین الصوبائی رابطہ وزیر ریاض پیرزادہ نے کہا ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کا کرکٹ بورڈ کی طرح آزاد بورڈ بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ بورڈ بنے گا تو پیسہ آئے گا، کھلاڑیوں کی پرفارمنس بہتر ہو گی۔ اولمپکس کوالیفائنگ راؤنڈ میں پاکستان ٹیم کی ناکامی پر سابق اولمپینز نے احتجاج کرتے ہوئے کرکٹ کی طرح ہاکی بورڈ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ سمیع اللہ نے کہا ہے کہ کرکٹ کی طرح ہاکی بورڈ بنانے کی حمایت کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن میں آپریشن کلین اپ کیا جائے اور فیڈریشن کے تمام عہدیداروں کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہاکی فیڈریشن کے خلاف تحریک چلائیں گے اور ہاکی جیسے قومی کھیل کی بہتری کے لیے وزیر اعظم سے بھی ملیں گے۔

اچھی نوید یہ ہے کہ ہاکی ٹیم کی پے در پے شکست، ناقص کارکردگی پر ورلڈ کپ اور اولمپکس سے باہر ہو جانے کے بعد وزیر اعظم، وزارت کھیل اور سابقہ اولمپینز ہاکی کی بہتری کے لیے مضطرب و کوشاں نظرآتے ہیں۔ ہر طرف سے تنقید کے ساتھ ساتھ تجاویز و تدابیر بھی سامنے آ رہی ہیں۔

وزیر اعظم کو ایڈہاک بنیاد پر نیک نام پروفیشنل اور اہل افراد پر مشتمل کمیٹی بنا کر فیڈریشن کے معاملات، اس کے فنڈز کے حسابات اور ہاکی کے زوال کے اسباب جاننے کی تحقیقات کرانے کے مشورے دیے جا رہے ہیں، جو تمام معاملات کی مکمل تحقیقات کر کے ہر پہلو سے تفتیش کرے اور تمام معاملات پر تفصیلی رپورٹ پیش کرے جس میں تمام خرابیوں کی نشاندہی کی جائے ان کے ذمے داروں کا تعین اور آیندہ کے معاملات میں بہتری لانے کے لیے تجاویز دی جائیں، اس رپورٹ پر مکمل عملدرآمد کیا جائے اور ہاکی کے معاملات میں ذاتی و سیاسی مفادات کے بجائے قومی مفادات اور ہاکی کی کھوئی ہوئی عظمت و مقام کو بحال کرنے کے لیے تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں ہاکی سے پاکستانی عوام کی والہانہ جذباتی وابستگی ہے، اس میں کامیابی سے قوم میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور شکست پر ماحول افسردہ ہو جاتا ہے۔

ہاکی ٹیم جس کے پاس تمام بین الاقوامی تمغے اور اعزازات ہوا کرتے تھے ایک ایک کر کے گنوا چکی ہے، کبھی کبھار کسی ایونٹ میں جان پکڑتی ہے تو سارے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ خوش گمانیاں اور امیدیں جنم لینے لگتی ہیں لیکن پھر مایوسیاں گھیر لیتی ہیں۔ چند سال پیشتر، قومی ہاکی ٹیم نے چیمپینز ٹرافی میں تعمیری پوزیشن لی تو قوم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، کھلاڑیوں کا شاندار استقبال کیا گیا تھا مگر ورلڈ کپ اور اس کے بعد اولمپکس سے باہر ہو جانے کی تاریخ رقم کرنے کے بعد جسے شہباز سینئر نے بجا طور پر ملکی ہاکی کا بدترین دن قرار دیا ہے جو حقیقتاً ہاکی کی بین الاقوامی تاریخ کا بھی ایک بدشگون دن ہے۔

اس پر سابقہ کھلاڑیوں ہاکی کے شایقین کے علاوہ عام لوگ بھی بہت مایوس اور افسردہ ہیں جنھوں نے پاکستان ہاکی ٹیم کا تابناک ماضی اور مثالی کارکردگی دیکھی ہے۔ اگر ورلڈ کپ سے باہر ہو جانے کے بعد ٹھوس اقدامات اور جامع حکمت عملی اپنا لی جاتی تو آج ہاکی ٹیم اولمپکس سے باہر نہ ہوتی۔ ہاکی کا روایتی کھیل پاکستانیوں کے خون میں رچا بسا ہے۔

اگر اس کھیل کی ترقی و ترویج اور فروغ کے لیے اسکول، کالجز اور علاقائی سطح سے کھلاڑیوں کی تربیت و تلاش کا کام کیا جائے، فنڈز کا استعمال دیانتدارانہ طریقے سے کیا جائے اس کھیل سے اقربا پروری، سیاست بازی اور سفارش کے رجحان کو ختم کر کے مخلص، اہل اور دیانتدار پروفیشنل افراد کے ہاتھوں میں اس کا انتظام اور معاملات دیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہاکی کی عظمت رفتہ رفتہ دوبارہ بحال نہ کی جا سکے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ایک پشت گزرنے کے بعد ہاکی پاکستانیوں کے لیے رگبی یا بیس بال جیسا نامانوس اور اجنبی کھیل بن کر رہ جائے گی۔
Load Next Story